ڈگری ڈگری ہوتی ہے
پاکستان کے ایک بڑے سیاستدان نے پریس کے سامنے کھڑے ہوکر کہا تھا ’’ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے‘ اصلی ہو یا جعلی‘‘۔
ISLAMABAD:
پاکستان کے ایک بڑے سیاستدان نے پریس کے سامنے کھڑے ہوکر کہا تھا ''ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے' اصلی ہو یا جعلی''۔ بات تو صحیح ہے جس کاغذ پر بھی ڈگری لکھا ہو اسے ''ڈگری'' کہا جاسکتا ہے وہ الگ بات ہے کہ اس شخص کو ڈگری یافتہ نہیں جس کا نام اس ڈگری پر لکھا ہو لیکن پھر بھی ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے جیسے ہم روزمرہ زندگی میں بلین ڈالر انڈسٹری ہیومن ٹریفکنگ، ڈرگس کی اسمگلنگ، جعلی سفری دستاویزات کے بارے میں نہیں سوچتے، ویسے ہی جعلی ڈگری بنانے کی بزنس کے بارے میں بھی نہیں سوچتے، جو آج دنیا میں بلین ڈالرز سالانہ کا کاروبار ہے۔
چلیے گریبان میں جھانکنے سے پہلے آس پڑوس کو سنتے ہیں پاکستان میں ہر چیز غلط ہے، یہ دوسروں سے زیادہ ہمارا خود کا ماننا ہے۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ جعلی ڈگری کا سلسلہ صرف پاکستان میں ہی نہیں بڑے بڑے تیزی سے ترقی کرتے ملکوں میں بھی ہے۔
چائنا ہم سے بہت آگے ہے ہر چیز میں، یہاں تک کہ جعلی ڈگریوں میں بھی، حیران کن طور پر چائنا میں صرف کاغذ پر ہی جعلی ڈگری نہیں دی جاتی بلکہ باقاعدہ امریکن یونیورسٹی کا نام چراکر طالب علموں سے چار چار سال تک پیسے اینٹھے جاتے ہیں اور آخیر میں انھیں وہ جعلی ڈگری پکڑا دی جاتی ہے جو صرف دیوار پر ٹنگنے کے علاوہ کسی اور کام کی نہیں۔
چائنا میں کم ازکم سو ایسے انسٹی ٹیوٹ ہیں جو آپ کو درجنوں طرح کی جعلی ڈگریاں بناکر دے سکتے ہیں، اگر آپ کو اپنا دل رکھنے کے لیے پڑھ کر ڈگری لینی ہے تو اس کا بھی انتظام ہے۔ چائنا میں ایسی جعلی امریکن برٹش یونیورسٹیاں بنائی گئی ہیں جو انٹرنیٹ پر سرچ کرنے پر بالکل صحیح لگتی ہیں لیکن اصل میں وہ کہیں ہیں ہی نہیں، یونیورسٹی سے ڈگری لینے کے لیے آپ کو دو سے چار کلاسیں لینی ہوتی ہیں اور بغیر کسی امتحان کے آپ کو ماسٹرز یا ڈاکٹریٹ کی ڈگری مل جاتی ہے۔ جتنی شکر اتنا میٹھا والا فارمولا یہاں بھی لگتا ہے جہاں ڈگری تیس سے پچاس ہزار یو ایس ڈالر کی بھی بن سکتی ہے۔
تصدیق کے لیے امریکا میں چھوٹے چھوٹے آفس بناکر ڈگریوں کو Attest بھی کیا جاتا ہے اور اگر آپ ان یونی ورسٹیوں کے آفس میں فون کریں تو آپ کو ایک گوری فون پر ساری معلومات فراہم کردے گی جب کہ حقیقت میں وہاں نہ یونیورسٹی ہے اور نہ طالب علم۔
جہاں چائنا میں چیزوں کی کاپی بنادیتے ہیں وہیں آج وہ اپنی اچھی یونیورسٹیوں کی بھی جعلی کاپیاں بنا رہے ہیں، اس لیے اب بڑی بڑی یونیورسٹیاں اپنے نام کے ساتھ ''جینوئن'' لگاتی ہیں۔
جب دو چور کھڑے ہوں اور ایک نے دو لاکھ اور دوسرے نے ایک لاکھ روپے چرائے ہوں تو کم پیسے چرانے والا چور دوسرے کے مقابلے میں معصوم نظر آتا ہے، بس ویسے ہی کچھ معصوم ہم بھی ہیں۔ ہم چائنا کی طرح طالب علموں کے جذبات اور وقت سے نہیں کھیلتے، ہمارے یہاں جھوٹی ڈگریوں کا کام بڑی سچائی سے ہوتا ہے، پیسے دو اور ڈگری لو، کسی کلاس ولاس میں آنے کی ضرورت نہیں۔
ایک مقامی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک جعلی ڈگری بنانے والے نے بتایا کہ وہ کراچی یونیورسٹی کے سچ مچ ڈگری یافتہ ہیں لیکن انھیں کبھی نوکری کرنے کی ضرورت نہیں پڑی، جعلی ڈگریوں کا کاروبار کرنے کی وجہ سے۔ وہ کاغذ جس پر کراچی یونیورسٹی اپنی ڈگری چھاپتی ہے وہ باآسانی بازار میں تین ہزار روپے کا دستیاب ہے اور جعلی ڈگری بناکر دینے والوں کے ان پریس والوں سے بھی تعلقات ہیں جہاں اصلی ڈگریاں چھپتی ہیں یعنی کہ اگر کسی کے پاس جعلی ڈگری ہے تو اس میں اور اصلی ڈگری میں کوئی فرق نہیں۔
پاکستانیوں کا مسئلہ ہے جو دوسروں کے پاس ہے وہ میرے پاس بھی ہونا چاہیے کا بخار۔ چائنا کی طرح چھپ چھپا کر جعلی ڈگریاں بنانے کی ہمیں تمیز ہی نہیں اس لیے ہم پکڑے گئے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ڈگری یافتہ ہونے کا اصول جاری کیا تو تین ہزار روپوں والی جعلی ڈگری بنانے والی بات نظروں میں آگئی، جعلی ڈگری کی تصدیق کیسے ہوتی؟ ایک دو ڈگریوں میں اتفاق ہوسکتا ہے لیکن جب بیشتر اوریجنل نظر آنے والی ڈگریوں کا ریکارڈ یونیورسٹی میں نہ ملے تو تفتیش تو ہونی تھی ۔
پچھلے انتخابات میں اپنے کاغذات جمع کروانے والے ہونہار سیاستدانوں کی ڈگریاں دیکھ کر کراچی یونیورسٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ اب وہ اپنی ڈگریاں پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن سے چھپوائیں گے۔ وہ کاغذ جو عام مارکیٹ میں دستیاب نہیں۔ ساتھ ہی ہر ڈگری پر جگہ جگہ سیاہ دھبے بھی پڑے ہونگے۔ نہیں یہ نظر نہ لگ جانے والے ٹیکے نہیں بلکہ ان نشانات کی وجہ سے جعلی ڈگری بنانیوالے انھیں کاپی نہیں کرپائینگے۔
کراچی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد قیصر نے کہا ہے کہ کراچی یونیورسٹی ''پی ایس پی سی ایل''سے جلدی رابطہ کرکے کانٹریکٹ کرنے والی ہے اور یہ قدم صرف جعلی ڈگریوں کو روکنے کے لیے کیا گیا ہے۔
جعلی ڈگری بنانے والے ایک صاحب نے بتایا ہے کہ ان کے بیشتر کلائنٹس سیاستدان ہیں اور حیرت انگیز طور پر یہ ایک دوسرے کے دشمن ہیں پھر بھی جعلی ڈگری کے سلسلے میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔
ہم لوگ یہاں بھی چائنا سے پیچھے رہ گئے، ان سے کچھ سیکھنا چاہیے۔ ڈگری پہلے بنواؤ پھر سیاست میں آؤ لیکن نہیں ہمارے یہاں تو ہر کام الٹا کرتے ہیں، چائنا کو دیکھ جعلی ڈگریوں کے دفاتر تمام دنیا میں پھیلائے ہوئے ہیں اور ہم لالو کھیت سے آگے ہی نہیں بڑھ پائے۔ اگر پاکستان میں جعلی ڈگری بنانے والے اپنا کام ذہانت سے کرتے تو دنیا بھر کی جعلی ڈگریاں بناکر اپنے محب وطن سیاستدانوں کو دیتے۔ یہ کیا سب کو کراچی یونیورسٹی کی ڈگری پکڑا دی، اب اس بے چارے معصوم نوجوان کا کیا ہوگا جو ڈگری صرف اور صرف ایک نوکری کے لیے چاہتا تھا۔
پاکستان میں تیزی سے بڑھتا تعلیمی گراف اب ہلکا ہوجائے گا کیونکہ اب ڈگری حاصل کرنے کے لیے یونیورسٹی میں داخلہ بھی لینا پڑے گا اور پڑھنا بھی پڑے گا اور جہاں تک جعلی ڈگری کا سوال ہے تو اب وہ بھی پاکستان کو باہر سے امپورٹ کرنی پڑے گی، دوگنی قیمت میں اور سیاستدانوں کی ان جعلی ڈگریوں کے خرچے کا بوجھ بھی بے چاری عوام کو اٹھانا پڑے گا کیونکہ ڈگری۔۔۔۔ ڈگری ہوتی ہے چاہے اصلی ہو یا امپورٹڈ۔