خاشقجی قتل کے دوران سعودی ولی عہد قاتلوں سے مسلسل رابطے میں تھے سی آئی اے

صحافی کی لاش کو ٹکڑے کیے جانے اور ٹھکانے لگانے کے دوران سعودی ولی عہد نے اپنے معاون خصوصی کو 11 ٹیکسٹ پیغامات بھیجے


ویب ڈیسک December 02, 2018
صحافی کی لاش کو ٹکڑے کیے جانے اور ٹھکانے لگانے کے دوران سعودی ولی عہد نے اپنے معاون خصوصی کو 11 ٹیکسٹ پیغامات بھیجے (فوٹو: فائل)

امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کا دعویٰ ہے کہ صحافی جمال خاشقجی کے قتل اور لاش ٹھکانے لگانے کے دوران سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اپنے معاون خصوصی کو مسلسل پیغامات بھیجتے رہے۔

وال اسٹریٹ جرنل میں شائع تحقیقی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جس دوران سعودی قونصل خانے میں بہیمانہ قتل کے بعد صحافی جمال خاشقجی کی لاش کے ٹکڑے کرکے انہیں ٹھکانے لگایا جا رہا تھا، سعودی ولی عہد مسلسل اپنے معاون خصوصی سے رابطے میں تھے اور اپنے موبائل سے معاون خصوصی کو 11 پیغامات بھیجے۔

سی آئی اے کے ایک تفتیش کار کا دعویٰ ہے کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے یہ پیغامات دراصل صحافی کے قتل اور بعد ازاں لاش ٹھکانے لگانے سے متعلق ہدایات بھی ہوسکتی ہیں تاہم انٹیلی جنس آفیسرز ان پیغامات تک رسائی حاصل نہ کرسکے جس کے باعث پیغامات کی نوعیت اور گفتگو سے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

سعودی ولی عہد نے یہ پیغامات شاہی خاندان کے سابق عدالتی مشیر اور معاون خصوصی سعود القحطانی کو کیے۔ سعود القحطانی اُن 17 افراد میں شامل ہیں جنہیں سعودی حکومت نے صحافی قتل پر تفتیش کی غرض سے سرکاری عہدوں سے ہٹا کر نظر بند کر دیا تھا۔ علاوہ ازیں امریکا نے بھی سعود القحطانی پر سفری پابندی عائد کر رکھی ہے۔

سعودی ولی عہد کے موبائل کا تجزیہ کرنے والے سی آئی اے کے تفتیش کاروں نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے اگست 2017ء میں بھی شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنے دست راست کو جمال خاشقجی کو لالچ دلا کر سعودیہ عرب واپس لانے کے لیے انتظامات کرنے کا حکم دیا تھا۔

واضح رہے کہ شاہی خاندان کے ناقد صحافی جمال خاشقجی کو استنبول کے سعودی قونصل خانے میں قتل کرکے لاش غائب کردی گئی تھی اور سعودی حکومت صحافی کے قتل سے سعودی فرماں روا اور ولی عہد کے لاعلم ہونے کے موقف پر قائم ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں