تعطیلات گرما میں بچوں کی دماغی صلاحیتیں دریافت کریں

تعلیم کے حصول کا مرکزی محور سوچ کے معیار کو بہتر بنانا ہے


تعلیم کے حصول کا مرکزی محور سوچ کے معیار کو بہتر بنانا ہے۔ فوٹو: فائل

تھنکنگ سکلز یا دماغی صلاحیتیں وہ دماغی افعال ہیں جن کی مدد سے ہم تجربے کی صلاحیت حاصل کرتے ہیں، ان کی مدد سے ہم ہر نئے تجربے کو چیزیں اور رویے سمجھنے کے لئے استعمال کرتے ہیں کہ ہمارے اردگرد ہونے والی تبدیلیاں کیا ہیں؟۔

یہ بات بھی ظاہر ہے کہ بہتر سوچ کے سبب ہم اپنے تجربے سے اپنی ذہانت کا بہتر استعمال سیکھ سکتے ہیں۔ حصول تعلیم کا بھی یہ مرکزی محور رہا ہے کہ سوچ کے معیار کو کیسے بہتر بنایا جائے۔کیوں کہ اس سے نہ صرف ہم بہتر کامیابیاں حاصل کر تے ہیں بلکہ زندگی کے چیلنجوں کا مقابلہ بھی اچھے انداز میں کرنے کے علاوہ اپنی صلاحیتوں کو پہچان کرمعاشرے کی فلاح و بہبود میں حصہ لے سکتے ہیں۔کچھ عرصہ پہلے سکول میں ذہین و چالاک اسے سمجھا جاتا تھا جو اپنے حافظے اور معلومات کے ذخیرے کا مختلف مواقع پر مظاہرہ کرتا تھا۔ چاہے وہ ہماری عملی زندگی سے متعلق ہو یا نہ ہو۔ جیسے افغانستان اور جرمنی میں عسکری حوالے سے روابط کب شروع ہوئے تھے؟۔ اب اس قسم کی معلومات اور حقائق کو یاد کرنے کا زمانہ بیت گیا ہے اور نئی تحقیقات نے پہلے سے طے شدہ حقائق کو تبدیل کر دیا ہے۔ اب تو یہ بات زیادہ اہم ہے کہ اس قسم کی دریافتوں اورسامنے آنے والے نظریات کی رفتار حیرت انگیز طور پرتیز ہے۔

اس پس منظر میں اگر ہم صرف ماضی کے علم پر ہی انحصار کریں گے تو نتیجہ یہ نکلے گاکہ ہم خود کو بدلتی ہوئی دنیا اور مستقبل کے تقاضوں کے ساتھ نہیں ڈھال سکیں گے۔ اس مسلسل نمو پذیر دنیا میں مخصوص صلاحیتوں یا علم کے بجائے سوچنے کی تیز رفتار دماغی صلاحیت کی ضرورت ہے۔ ہمیں مشکلات کا حل نکالنے والوں، فیصلہ سازوں اور اختراع سازوں کی ضرورت ہے۔ اور ایسی نسل سازی کے لئے انہیں پڑھانے اور سکھانے کے نئے راستوں اور طریقوں کی تلاش کرنا ہوگی۔ ہمیں اپنے نونہالوں کواپنے ماضی کے لیے نہیں بلکہ ان کے مستقبل کے لیے تیار کرنے کی ضرورت ہے۔مثلاً آج 2013ء کے الیکشن کے نتائج کی معلومات ویب سائٹ پر جانے کے بعد چند لمحوں میں مل جاتی ہیں جب کہ آج سے تیس چالیس سال پہلے(والدین اور اساتذہ کے بچپن کے دنوں میں) یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔

جیسے جیسے بچہ بڑا ہوتا ہے تو اس میں سکلز (مہارتوں) کے حصول کا مادہ بڑھتا جاتا ہے۔ سکول میں داخلے سے پہلے اور سکول جانے کے دوران بچے کے والدین اور اساتذہ اگر چاہیں تو اس کی شخصیت میںحیرت انگیز سکلز پروان چڑھا سکتے ہیں۔ بچے کو نئی نئی مزے کی چیزیں متعارف کرائیں مختلف رنگوں کے کپڑے، سٹین لیس سٹیل اور لکڑی کے چمچوں یا ماسکنگ ٹیپ کی گیند بنا کر ان کے ذریعے چھونے اور موازنے کی صلاحیت کو بڑھائیں۔ اس کی بات کہنے کی کوششوں کی حوصلہ افزائی کریں، ایسے الفاظ استعمال کریں جو اس کے تجربے میں آرہے ہوں، نئی نئی جگہوں پر لے کر جائیں اور نئے نئے افراد سے ملوائیں۔

تعطیلات گرما بچے کی تجزیاتی، معاشرتی صلاحیتوں کے علاوہ اعتماد سازی، انتظامی صلاحیتوں اور لیڈر شپ کی خصوصیات پروان چڑھانے کا نادر موقع ہیں۔ جب کہ والدین اور خصوصاً مائوں کے پاس ذرا فرصت کے لمحات ہوتے ہیں۔اسی طرح گھر سے باہرسفر پر نکلنے کے مواقعے سے بھی زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ ان سب چیزوں کے پس منظر میں اگر علم اور وژن کو لے کر آگے بڑھا جائے تو تعطیلات کے اس وقفے میں آپ کا بچہ حیرت انگیز صلاحیتوں کو اور بڑھا سکتا ہے۔گھر کے اندر اور باہر کی سرگرمیوں کے متعلق اس سے باہمی تبادلہ خیال کریں اس کی نئی باتوں کی دریافت پر خوشی اور حوصلہ افزائی کا اظہار کریں۔

بچے کے مسائل اور مشکلات میں میں مدد کر کے اسے دوسروں کی مدد کرنا سکھائیں ،واٹر ڈسپنسر کا ٹب کیسے خالی کرتے ہیں ؟گوگل پر سرچ کیسے کرتے ہیں۔ ڈائننگ ٹیبل پر پلیٹیں کیسے رکھتے ہیں ؟اس کی پسندیدہ غذا کھانے پر اظہارمسرت کے الفاظ بولیں تاکہ اسے علم ہو کہ خوشی کا اظہار کیسے کیا جاتا ہے۔ بچہ قریبی عزیزوں کوپہچانتا ہے، معمولات کے متعلق پہلے سے بتا سکتا ہے کہ اب ہم فلاں فلاں کام کرنے والے ہیں۔ مسکراہٹ اور ڈانٹ کے دوران اپنا نام سن کر ردعمل ظاہر کرتا ہے۔ کچن میں من پسند کھانا بنتے دیکھ کر ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ جاتا ہے، من پسند چیز ملنے پر خوشی کے تاثرات ظاہر کرتا ہے۔



پہلے سال کے دوران بچہ علت و معلول (cause and effect)کے تصور کے متعلق سیکھتا ہے کہ وہ بھی کچھ چیزوں کو ممکن بنا سکتا ہے۔ جب وہ جھنجھنا بجاتا ہے تواس سے آواز پیدا ہوتی ہے، جب وہ امی کے لئے روتا ہے تو اس کی امی آجاتی ہے۔ چیزوں کو ممکن بنانے کے عمل کو سیکھنا مسائل اور مشکلات کے حل کی بنیاد تعمیر کرتا ہے۔ میں اپنے ابو کی توجہ کیسے حاصل کر سکتا ہوں ؟میں پاپا تک پہنچ کر ان کی ٹانگوں سے لپٹ جائوں گا تاکہ پاپا کو پتہ چل جائے کہ میں ان کے ساتھ کھیلنا چاہتا ہوں۔ چھوٹے بچے یہ بھی دکھاتے ہیں کہ وہ اب اپنی مرضی کی چیزیں کیسے کروا سکتے ہیں۔

جب بھی انہیں کسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے رونا چیخنا شروع کر دیتے ہیں۔چیزیں نیچے گرا کردیکھیں گے کہ کہاں گئیں؟پھر آپ کی طرف دیکھیں گے کہ آپ انہیں اٹھا کر دیں۔وہ کسی کام کو بار بار کرنے کے مزے لیتے ہیں۔چھپن چھپائی پر وہ ہنس کر خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔بچے کو سب سے زیادہ مزا اسوقت آتا ہے جب کوئی اس سے چھپ کر پھر اس کے سامنے آجائے،اسی طرح چیزوں کو چھپا کر ڈھونڈنے کی گیم سے اس کی یاداشت تیز ہونے کے ساتھ ساتھ پرابلم کا حل بھی سیکھتا ہے۔اپنے بچے کوکھلونوں اور چیزوں کو ذرامختلف انداز میں استعمال کرنے کی حوصلہ افزائی کریں۔ چیزوں کو چھونے،بجانے،ہلانے اور لڑھکانے سے اسے چیزوں کے کام کرنے کا علم ہوتا ہے۔بچے سے گپ شپ کریں کہ وہ کیا کر رہا ہے؟ واہ بھئی واہ آپ کا ٹرک تو ڈوری کھینچنے سے چلتا ہے۔

ٹین ایجر بچوں کواپنی نگرانی اور کونسلنگ سے کمپیوٹر سے آشنائی اتنی رکھیں کہ اسے اپنی نصابی کتابوں سے پرندوں ،عمارتوں ،سائنسی عوامل اوراصطلاحات کی ریسرچ ہو نہ کہ انٹر نیٹ کو صرف کھلونے کے طور پروار گیمز یا ریس گیمز کھیلنے کے لیے استعمال کیا جائے۔ٹی وی پردو اشتہارات کے وقفے میں چلنے والے با مقصد پروگرام والدین اپنے ساتھ بٹھا کر دیکھیں،دیکھنے والے پر کشش رنگا رنگ اشتہاروں،جنک فوڈ کریز کے متعلق آگاہی والدین کی ذمہ داری ہے ۔ نیوز سے زیادہ" ویوز "والے پروگرام پر کھل کر باتیں سنیں اور سنائیں، بچے کے دوستوں اور ان کی سرگرمیوں پر نگاہ رکھیں موبائل، فیس بک،ٹوئٹر اور سکائپ کا ضروری اور جائز استعمال سمجھانے کی کوشش کریں ۔کیوں کہ بچوں کی نگاہ کمزور ہونے کے علاوہ موٹاپا ،اضطراب اور ڈیپریشن جیسی نفسیاتی بیماریوںکے کیس سامنے آرہے ہیں۔ایسی کتابوں یا ویب سائٹس کی تلاش کریں جن میں اس قسم کے مقاصد حاصل کرنے کی سرگرمیاں بتائی گئی ہوں ۔ایسی سرگرمیوں کا روزانہ کی بنیاد پر کسی فیملی فرینڈ کے مشورے سے ٹائم ٹیبل بنائیں۔

بچوں کو اپنے طور پر کسی مشکل سے نکلنے کی صلاحیت پیدا کریں۔کیوں کہ والدین کی حیثیت سے یہ اہم سکلز میں شمار ہوتی ہے۔ والدین سکول کی زندگی سے پہلے ہی ٹین ایج (تیرا سے انیس سال کی عمر)تک اپنی مشکل کشائی(پرابلم سالونگ)اور فیصلہ سازی کی سکلز میں مہارت دلانے کی کوشش کریں ۔یہ تو کافی بڑوں کو بھی علم نہیں ہوتا کہ اپنے مسائل کی مشکل کشائی کیسے کریں؟لیکن آج کی تیز رفتار دنیا میں بچے ہر روز نت نئی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ یہ مسائل تعلیم سے لے کرہم جولیوں کی دوستی،کھیل کے میدان،کسی مقصد کا حصول اور فیصلہ سازی تک ہو سکتے ہیں۔ جب بچے کو اپنی مشکل حل کرنے کی تکنیک کا علم ہوگا تو وہ زیادہ اعتماد کے ساتھ فیصلے کر کے مسئلے کوحل کرے گا۔ مثلاً اگر بچے کواس کے شرارتی ہم جولی تنگ کر رہے ہیں اور اسے علم نہیں ہے کہ کیا کرے تو مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ شاید وہ سکول سے نفرت شروع کر دے گا،اس کا امتحانی گریڈنیچے چلا جائے گا۔اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسے پیٹ اور سر درد کی جسمانی تکالیف کی شکایت ہونے لگے۔ مشکل کے حل نکالنے سے نابلد بچوں کو تواپنے پرابلم کے حل کے لیے چوائس کابھی علم نہیں ہوگا اور بچہ غیر ارادی طور پرکچھ بھی کرسکتا ہے۔

بچوں کی تھنکنگ سکلز کو بڑھانے کا ایک آسان طریقہ سوال پوچھنا ہے؟حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ارشاد ہے کہ اچھے طریقے سے سوال پوچھنا آدھا علم ہے۔ جب والدین اور اساتذہ ایسے سوالات پوچھنا سیکھ لیں گے جوان کی سوچ کے عمل کو مہمیز دے تو ہر عمر کے بچوں کے لیے سیکھنے کا عمل تفریح بن جائے گا۔ اس کے لیے ہمارے والدین اور اساتذہ کواپنی ذمہ داریاں سمجھتے ہوئے آگے چلنا ہوگاکیوںکہ جب بچوں کواپنے اساتذہ اور امی ابو کے ساتھ کسی بات پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے مزا آئے گا تووہ سیکھنے کے عمل سے محبت کریں گے۔ ہمارے اساتذہ کرام احساس کمتری کے (معذرت کے ساتھ) دائرے سے نکل کرسوچیں کہ کیا انہوں نے کمرہ جماعت کو اتنا پر کشش بنا دیا ہے کہ طلباء بے قرار ہو کر گھر سے آنے پر مجبور ہوں؟کیا طلباء کو آزادی سے اپنی بات کہنے کی اجازت اور اعتماد دیا گیا ہے۔کیا اساتذہ تعطیلات کے اس وقفے کوغنیمت جانتے ہوئے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیت کوبڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوسری طرف کیا والدین اپنے بچوں کے تعطیلات گرما کے کام کو پوری ذمہ داری سے مزید دل چسپ بنا سکتے ہیں۔ صرف ہمیں کام اور مسلسل محنت سے توجہ دینی پڑے گی کہ اگر ہم اپنے اندر کی صلاحیتیں نہ پہچان سکے تو کم از کم اپنے نو نہالوں کی صلاحیتیں پہچان کر انہیں آگے بڑھانے کی کوشش کریں۔n

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں