کر تار پور راہداری پاکستان کی گگلی ہے

کرتار پور راہداری کھلنے کو امریکا نے پاک بھارت تعلقات کے ضمن میں خوش آئند قرار دیا ہے

www.facebook.com/shah Naqvi

واشنگٹن میں قائم مشہور تھنک ٹینک بروکنگ انسٹیٹیوٹ میں منعقدہ ایک نشست میں عمران خان حکومت کے سو دن کے بارے میں شرکاء کا کہنا تھا کہ افغانستان سے امریکا کی باعزت واپسی کی کنجی موجودہ وزیراعظم کے پاس ہے۔ مشرق وسطیٰ میں امریکی کردار پر بات کرتے ہوئے شرکاء نے کہا کہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس تیز ترین ترقی کرتا ہوا پاکستان وائٹ ہاؤس اور دنیا بھر کے لیے اہم اتحادی ہے۔ شرکاء نے اس بات کو دہرایا کہ امریکا عمران خان کی حکومت کو غنیمت جانتے ہوئے افغانستان سے باعزت واپسی یقینی بنائے۔ سابق سی آئی اے اعلیٰ عہدیدار اور جان ہاپکن اسکول آف ایڈوانسڈ انٹرنیشنل سٹڈیز کے پروفیسر بروس ریڈل نے کہا کہ امریکا پاکستان کی مدد کے بغیر افغانستان سے نہیں نکل سکتا۔

عمران خان کی حکومت اس سلسلے میں امریکا کے لیے واپسی کا ٹکٹ ہے۔ پاکستان کی جمہوریت پر تنقید کرنا آسان ہے تاہم یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ پاکستان ان چند مسلم ممالک میں سے ایک ہے جہاں مشرق وسطیٰ کے برعکس انتخابات ہوتے ہیں اور جمہوری روایات موجود ہیں۔ پاکستان میں میڈیا اگرچہ نہایت ذمے دار نہ سہی لیکن آزاد ہے۔ صدر ٹرمپ نے پاکستان کے لیے امریکی امداد معطل کر دی ہے، جو ایک کھوکھلا اقدام ہے۔ صدر ٹرمپ امریکا کے افغانستان سے نکلنے کے راستے تلاش کرنے کے بارے میں غور کر رہے ہیں۔

ٹرمپ چاہتے ہیں کہ امریکی افواج کی واپسی کے بعد افغانستان نہ تو خانہ جنگی کا شکار ہو نہ ہی اس پر طالبان کا قبضہ ہو۔ بروس ریڈل کے مطابق جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے انھیں امریکا مخالف پاکستانی سیاستدان سمجھا جاتا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان کا دورہ کیا اور پاکستانی ہم منصب کے ساتھ اس معاملے پر بات چیت کی۔ عمران خان کو سعودی عرب سے 6 ارب ڈالر بنیادی طور پر ''ٹیکٹیکل ڈپلومیسی'' کے تحت ملے ہیں۔ سعودی صحافی جمال خاشقجی کا قتل ہوا جس کے بعد سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو دوستوں کی کمی محسوس ہوئی۔ چینیوں کو عمران خان کی ضرورت ہے اور امریکا بھی جلد ہی اس کا دروازہ کٹھکٹھارہا ہو گا۔ ٹرمپ کے غیر ذمے دارانہ ٹوئٹس پاکستان کی افغان اور طالبان کے بارے میں اس کی پالیسی تبدیل نہیں کر سکتے۔

کرتار پور راہداری کھلنے کو امریکا نے پاک بھارت تعلقات کے ضمن میں خوش آئند قرار دیا ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کرتار پور راہداری کو عمران کی گوگلی قرار دیا ہے جس کے نتیجے میں بھارت کو اپنے دو وزیر پاکستان بھیجنے پڑے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں کسی کو سان و گمان بھی نہیں تھا کہ پاکستان کی نئی حکومت آتے ہی کرتار پور بارڈر کھولنے کی پیش کش کر دے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ سفارتی محاذ پر یہ وزیراعظم عمران خان کا چھکا تھا جس نے بھارت کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ جب پاکستانی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجوہ نے انڈین کرکٹر نوجوت سدھو کے کان میں گزشتہ اگست کو یہ کہا کہ ہم امن چاہتے ہیں اور اس کے لیے کرتار پور بارڈر اگلے سال کھول رہے ہیں تو پوری دنیا میں پاکستان کی واہ واہ ہو گئی۔ حقیقت میں یہ پاکستان کا PEACE OFFENCE تھا۔ اس امن حملے نے بھارت کو بدحواس کر دیااور بھارت سمیت پوری دنیا میں پھیلے ہوئے 12 کروڑ سکھ وزیراعظم عمران خان اور پاکستانی آرمی چیف کے ایسے زیر بار احسان ہوئے۔ اتنی بڑی سکھ قوم کے دلوں کو فتح کرنا کوئی معمولی بات نہیں۔


کرتار پور راہداری مسئلہ کشمیر کے حل کا آغاز ہے۔ اسلام آباد میں بھارتی صحافیوں سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان بدل گیا۔ بھارت نہیں بدلا۔ مطلب عمران خان کا یہ تھا کہ مدتوں بعد آج یہ وقت آیا ہے کہ پاکستان میں بھارت سے امن اور کشمیر کے حوالے سے حکومت فوج اور تمام سیاسی قوتیں اور ادارے ایک پیج پر ہیں۔ پاکستان کا مائند سیٹ بدل چکا لیکن ہندوستان کا مائند سیٹ نہیں بدل رہا۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہم جب ایک مرتبہ معاہدہ کریں گے تو میں معاہدے سے پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ کبھی نہیں کہوں گا کہ آپ کے ساتھ تھا لیکن فوج نے بات نہیں مانی۔ اس وقت فوج اور سیاسی حکومت سب ایک پیج پر ہیں۔

کشمیر ہو یا افغانستان یا مسئلہ فلسطین، برصغیر اور خطے کے عوام طویل عرصے سے مسلسل تباہی بربادی قتل و غارت سے گزر رہے ہیں۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جس طرح کسی فرد کا مقدر اچھے اور برے وقت سے مشروط ہوتا ہے۔ اسی طرح قوموں ملکوں کا بھی مقدر ہوتا ہے۔ نہ اچھا وقت ہمیشہ رہ سکتا ہے اور نہ برا وقت۔ یہ دونوں گردش کرتے ہوئے ایک دوسرے کا تعاقب کرتے رہتے ہیں۔ افغانستان چالیس سال بلکہ اس سے زیادہ عرصے سے آگ اور خون کے سمندر سے گزر رہا ہے۔ یہی حال مسئلہ کشمیر اور فلسطین کا ہے۔ عرب حکمران اور بادشاہتیں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے بڑی تیزی سے پیش رفت کررہے ہیں۔ قانون قدرت کے تحت یہ ناممکن ہے کہ کوئی وقت مستقل رہے۔ مسئلہ کشمیر ہو یا افغانستان یا فلسطین ان کا حل 2019ء اور 2020ء میں آنا شروع ہوجائے گا۔ ایک دور بدحالی غربت کا ہوتا ہے دوسرا دور خوش قسمتی اور خوش حالی کا ہوتا ہے۔ پوری دنیا میں صدیوں کے پس منظر میں یہ Cycle چلتا رہتا ہے۔ سب پر ایک ہی قانون لاگو ہوتا ہے۔ امریکا ہو یا یورپ کسی کو اس سے مفر نہیں۔

برصغیر کی ہزاروں برس کی تاریخ میں مغربی پنجاب کا بالادست کردار قیام پاکستان سے شروع ہوا جس کے اثرات بالواسطہ پوری دنیا اور بالخصوص بلاواسطہ برصغیر سے مشرق وسطیٰ تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اب یہ کردار تبدیل ہونے جا رہا ہے۔

عمران خان کی جدوجہد آزمائش جاری ہے بلکہ لگتا ہے کہ اقتدار ملنے کے بعد کچھ زیادہ ہی سخت ہو گئی ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ انھیں ''وقت'' سے پہلے ہی اقتدار مل گیا۔ یہ آزمائشی وقت اگلے سال فروری مارچ خاص طور پر جون جولائی تک چلے گا۔
Load Next Story