مقبوضہ کشمیر میںنریندر مودی کی بے بسی
مقبوضہ کشمیر میں محبوبہ مفتی کی ’’پی ڈی پی‘‘ کے ساتھ ’’بی جے پی‘‘ کا اشتراک تھا
چند دن پہلے گردوارہ کرتار پور دربار صاحب پر پاک بھارت بین الاقوامی سرحد تک راہداری کا سنگِ بنیاد رکھتے ہُوئے وزیر اعظم جناب عمران خان نے خصوصی طور پر مسئلہ کشمیر کا ذکر کیا تھا۔ اُنہوں نے اس تاریخ ساز موقع پر مسئلہ کشمیر کا واضح الفاظ میں ذکر کرکے دراصل بھارت سمیت اقوامِ عالم کو بتایا ہے کہ پاکستان اگرچہ آگے بڑھ کر ہر فورم پر بھارت سے امن چاہتا ہے لیکن پاکستان کشمیریوں اور مقبوضہ کشمیر کو نہیں بھُول سکتا۔ بھارت کو عمران خان کی زبانی مسئلہ کشمیر کے ذکر پر تکلیف پہنچی ہے؛ چنانچہ ہم نے دیکھا کہ فوراً بھارتی وزارتِ خارجہ کی طرف سے ایک بیان اِن الفاظ میں سامنے آیا: ''دربار صاحب کرتارپور پر راہداری کی اساس رکھنا ایک نیک عمل تھا۔اس موقع پر وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے مسئلہ کشمیر کا ذکر چھیڑ کردراصل سیاست کی ہے۔'' جناب عمران خان مسئلہ کشمیر کا ذکر تسلسل کے ساتھ کررہے ہیں۔
اُنہوں نے نصف درجن سے زائد بھارتی صحافیوں سے تازہ بات چیت کے دوران بھی دلیل کے ساتھ یہ ذکر کیا ہے۔ بھارتی روئیے پر مگر ہمیں افسوس ہے۔ وہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کب تک تاریخ سے منہ موڑتا رہے گا؟ ایک روز اُسے کشمیریوں کی پُرامن جدوجہد کے سامنے سرنگوں ہونا پڑے گا۔ کشمیری نوجوان پاکستان کا نام لے کر جیتے ہیں، پاکستان کے نعرے پر شہادتوں سے ہمکنار ہوتے اور پاکستانی پرچم کا کفن پہن کر لحد میں اُتارے جاتے ہیں۔
سلام ہے اُن کی جرأتوں اور عقیدتوں کو۔ پاکستان کا کوئی حکمران بھلا اُن کی بے دریغ قربانیوں، سرشاریوں اور شہادتوں کو کیسے پسِ پشت ڈال سکتا ہے؟ پچھلے ساڑھے چار برسوں کے دوران جبر اور جور کا ہر ہتھکنڈہ سابقہ بھارتی حکمرانوں کی طرح نریندر مودی نے بھی مقبوضہ کشمیر میں آزما کر دیکھ لیا ہے لیکن کشمیریوں کا سر نہیں جھکایا جا سکا ہے۔ یہ درست ہے کہ بھارتی حکمرانوں کو ہمیشہ مقبوضہ کشمیر میں چند کٹھ پتلی لوگ ملتے رہے ہیں، اب بھی ایسے لوگ میسر ہیں لیکن سر فروشوں کے سامنے ضمیر فروشوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ کشمیر کا اکثریتی حصہ ان ضمیر فروشوں کو برسرِ مجلس مسترد کرتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں علیحدگی پسندی اور جہادی تحریک اسقدر مضبوط ہے کہ اِس کے خوف سے بھارتی حکومت کو گزشتہ گیارہ ماہ کے دوران بانہال بارہمولا(کشمیر) ریل سروس50 بار معطل کرنا پڑی ہے۔ اس تعطل سے بھارتی ریلوے کو17کروڑ روپے کا بھاری مالی نقصان اُٹھانا پڑا ہے۔ یہ سلسلہ مگر رکنے کا نام نہیں لے رہا۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا پانچ سال قبل یہ خیال تھا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں مجاہدینِ کشمیر پر تشدد اور ظلم کے ذریعے اُنہیں ڈَھب پر لے آئیں گے ۔ اُنہیں یقین تھا کہ آئے روز کشمیری نوجوانوں کا خون بہا کر اُن کی جدوجہد کی کمر توڑ سکیں گے ۔ اُجیت ڈوول ایسے مودی کے تشدد پسند مشیروں نے بھی اُنہیں یہی پٹّی پڑھائی تھی لیکن یہ ہتھکنڈے مسلسل آزمانے کے باوجود نریندر مودی اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ کو متوقع کامیابیاں نہیں مل سکی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں متعین سات لاکھ بھارتی افواج نے قتل وغارتگری، آتش زنی، اغوا کاری، پیلٹ بندوقوں کے استعمال، بے تحاشہ روپے کی تقسیم ایسے تمام ذرائع استعمال کر کے دیکھ لیے ہیں لیکن گوہرِ مراد ہاتھ نہیں آیا ہے۔
28 نومبر2018ء کو سرینگر میں مقبوضہ کشمیر کے ڈائریکٹر جنرل پولیس، دل باغ سنگھ، نے پریس کانفرنس کرتے ہُوئے آن دی ریکارڈ بتایا ہے کہ ''پچھلے 10ماہ کے دوران ہم نے کشمیر میں 230 علیحدگی پسند کشمیری نوجوان ہلاک ( شہید) کیے ہیں۔'' اگر مقبوضہ کشمیر میں شہادتوں کی سرکاری تعداد یہ ہے تو ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اصل شہادتوں کی تعداد کتنی ہو گی؟ دُنیا میں خال ہی کوئی ایسا خطہ ہوگا جہاں استبداد سے نجات حاصل کرنے کے لیے کسی قوم کے نوجوان اتنی بڑی تعداد میں مسلسل اپنی جانیں قربان کررہے ہوں۔یہ اعزاز اور عظمت کشمیریوں کو حاصل ہے۔ مودی جی اِسی لیے تو حیران اور پریشان ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں اتنا خون بہانے کے باوجود کشمیریوں کے سر نہیں جھکائے جا سکے ہیں۔
اِسی لیے آزاد جموں و کشمیر کے صدر، جناب سردار مسعود خان، نے 29نومبر2018ء کو کراچی میں ایک مجلس سے خطاب کرتے ہُوئے یہ کہا ہے :''لوگوں کو یہ بات واضح طور پر معلوم ہونی چاہیے کہ پچھلے اکہتر برسوں کے دوران مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قابض فوجیں پانچ لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید کر چکی ہیں۔ پچھلے ایک ہفتے کے دوران دو درجن سے زائد کشمیری پھر شہید کر دیے گئے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں سات لاکھ بھارتی فوج کشمیریوں کے جذبہ حریت کو دبانے اور کم کرنے میں ناکام رہی ہے۔'' بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے حواس اِسی کارن مختل ہیں؛ چنانچہ اُنہوں نے نسبتاً ایک آسان حل یہ ڈھونڈا کہ مقبوضہ کشمیر میں کٹھ پتلی حکومت میں اکھاڑ پچھاڑ کی جائے تاکہ کشمیریوں کے ذہن منتشر ہو سکیں۔ یوں پہلے قدم کے طور پر کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ ، محبوبہ مفتی، کی اتحادی حکومت ختم کی گئی۔
مقبوضہ کشمیر میں محبوبہ مفتی کی ''پی ڈی پی'' کے ساتھ ''بی جے پی'' کا اشتراک تھا۔ دونوں نے مل کر ریاست جموں و کشمیر میں حکومت بنائی تھی۔ اور جب مودی نے اشارہ کیا تو ''بی جے پی'' کے ارکان حکومت سے نکل گئے۔ محبوبہ مفتی کی کٹھ پتلی وزارتِ اعلیٰ بھی ختم ہو گئی۔ یہ حادثہ چھ ماہ پہلے وقوع پذیر ہُوا۔ محبوبہ مفتی کی حکومت ختم ہوتے ہی مقبوضہ کشمیر گورنر راج کے ذریعے براہِ راست نئی دہلی کے پاس چلا گیا۔ مودی نے مقبوضہ کشمیر گورنر این این ووہرا کے سپرد کر دیا۔ لیکن ساتھ ساتھ کشمیر اسمبلی کے ''منتخب'' رکن بھی اپنے اپنے حلقوں میں کام کرتے رہے۔ اُنہیں اُمید تھی کہ گورنر راج ختم ہو گا تو وہ دوبارہ اقتدار میں آ جائیں گے۔
مودی نے مگر اُن کا یہ خواب پورا نہیں ہونے دیا۔ گورنر این این ووہراکی مدت ختم ہُوئی تو اُن کی جگہ نئے گورنر، ستیہ پال ملک، کو لگا دیا گیا۔ ستیہ پال ملک کے مختصر سے دَور میں مقبوضہ کشمیر میں ظلم و تشدد کا ایک نیا دَور شروع ہُوا ہے۔ زیادتیاں مزید بڑھیں تو محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی، ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس اور سونیا گاندھی کی کانگرس نے مل کر فیصلہ کیا کہ وہ مل کر کشمیر میں نئی حکومت تشکیل دیتے ہیں۔ حکومت بنانے کے لیے 44 ارکان کی ضرورت ہے۔ تینوں کے پاس یہ مطلوبہ آئینی تعداد موجود تھی کہ پی ڈی پی کے 29، نیشنل کانفرنس کے 15اور کانگرس کے پاس 12ارکان تھے۔
محبوبہ مفتی نے ان سب کے دستخطوں کے ساتھ مقبوضہ کشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک کو چٹھی لکھی کہ اُن کے پاس44 ارکان سے بھی زیادہ تعداد ہے، اسلیے اُنہیں نئی حکومت بنانے کی اجازت دے جائے۔ یہ چِٹھی بذریعہ فیکس ستیہ پال ملک کو بھیجی گئی تھی لیکن اس پر عملدرآمد کی نوبت ہی نہیں آئی۔ گورنر نے یہ کہہ کر جھوٹ بول دیا کہ چونکہ اُن کی فیکس مشین خراب ہے، اسلیے چٹھی نہیں مل سکی ہے۔ دراصل بی جے پی کو جب اِس کی خبر ملی تھی تو اُنہوں نے نریندر مودی سے رابطہ کیا۔ یوں خفیہ طور پر فوری ستیہ پال ملک سے رابطہ کیا گیا اور اُنہوں نے 21نومبر2018ء کی رات ریاستی اسمبلی تحلیل کر دی۔ اِس اقدام کے خلاف کشمیر میں نئی دہلی کے خلاف سخت غصہ ہے۔
اب کہا جارہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں نئے سرے سے الیکشن اگلے سال ( اپریل یا مئی 2019ء میں) اُس وقت ہوں گے جب پورے بھارت میں لوک سبھا(قومی اسمبلی) کے انتخابات کا طبل بجے گا۔بھارتی اسٹیبلشمنٹ اور نریندر مودی کا منصوبہ یہ ہے کہ لوک سبھا کی انتخابی مہمات کے دوران کشمیر کے پس منظر میں پاکستان کے خلاف خوب پروپیگنڈہ کرکے ووٹ بٹورے جائیں۔ منصوبہ یہ بھی ہے کہ بھارت میں عام انتخابات کے نتیجے میں دوبارہ بی جے پی کی حکومت قائم کرنے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں بھی نام نہاد انتخابات کروا کر بی جے پی کو اکثریت دلوائی جائے اور یوں سرینگر میں بھی بی جے پی کی اکثریتی حکومت کا جھنڈا لہرایا جا سکے۔ نئی دہلی سے بیزار اور متنفر کشمیری حریت پسند قیادت اِس سازش کے خلاف بھی کمر بستہ ہو رہی ہے۔
اُنہوں نے نصف درجن سے زائد بھارتی صحافیوں سے تازہ بات چیت کے دوران بھی دلیل کے ساتھ یہ ذکر کیا ہے۔ بھارتی روئیے پر مگر ہمیں افسوس ہے۔ وہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کب تک تاریخ سے منہ موڑتا رہے گا؟ ایک روز اُسے کشمیریوں کی پُرامن جدوجہد کے سامنے سرنگوں ہونا پڑے گا۔ کشمیری نوجوان پاکستان کا نام لے کر جیتے ہیں، پاکستان کے نعرے پر شہادتوں سے ہمکنار ہوتے اور پاکستانی پرچم کا کفن پہن کر لحد میں اُتارے جاتے ہیں۔
سلام ہے اُن کی جرأتوں اور عقیدتوں کو۔ پاکستان کا کوئی حکمران بھلا اُن کی بے دریغ قربانیوں، سرشاریوں اور شہادتوں کو کیسے پسِ پشت ڈال سکتا ہے؟ پچھلے ساڑھے چار برسوں کے دوران جبر اور جور کا ہر ہتھکنڈہ سابقہ بھارتی حکمرانوں کی طرح نریندر مودی نے بھی مقبوضہ کشمیر میں آزما کر دیکھ لیا ہے لیکن کشمیریوں کا سر نہیں جھکایا جا سکا ہے۔ یہ درست ہے کہ بھارتی حکمرانوں کو ہمیشہ مقبوضہ کشمیر میں چند کٹھ پتلی لوگ ملتے رہے ہیں، اب بھی ایسے لوگ میسر ہیں لیکن سر فروشوں کے سامنے ضمیر فروشوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ کشمیر کا اکثریتی حصہ ان ضمیر فروشوں کو برسرِ مجلس مسترد کرتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں علیحدگی پسندی اور جہادی تحریک اسقدر مضبوط ہے کہ اِس کے خوف سے بھارتی حکومت کو گزشتہ گیارہ ماہ کے دوران بانہال بارہمولا(کشمیر) ریل سروس50 بار معطل کرنا پڑی ہے۔ اس تعطل سے بھارتی ریلوے کو17کروڑ روپے کا بھاری مالی نقصان اُٹھانا پڑا ہے۔ یہ سلسلہ مگر رکنے کا نام نہیں لے رہا۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا پانچ سال قبل یہ خیال تھا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں مجاہدینِ کشمیر پر تشدد اور ظلم کے ذریعے اُنہیں ڈَھب پر لے آئیں گے ۔ اُنہیں یقین تھا کہ آئے روز کشمیری نوجوانوں کا خون بہا کر اُن کی جدوجہد کی کمر توڑ سکیں گے ۔ اُجیت ڈوول ایسے مودی کے تشدد پسند مشیروں نے بھی اُنہیں یہی پٹّی پڑھائی تھی لیکن یہ ہتھکنڈے مسلسل آزمانے کے باوجود نریندر مودی اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ کو متوقع کامیابیاں نہیں مل سکی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں متعین سات لاکھ بھارتی افواج نے قتل وغارتگری، آتش زنی، اغوا کاری، پیلٹ بندوقوں کے استعمال، بے تحاشہ روپے کی تقسیم ایسے تمام ذرائع استعمال کر کے دیکھ لیے ہیں لیکن گوہرِ مراد ہاتھ نہیں آیا ہے۔
28 نومبر2018ء کو سرینگر میں مقبوضہ کشمیر کے ڈائریکٹر جنرل پولیس، دل باغ سنگھ، نے پریس کانفرنس کرتے ہُوئے آن دی ریکارڈ بتایا ہے کہ ''پچھلے 10ماہ کے دوران ہم نے کشمیر میں 230 علیحدگی پسند کشمیری نوجوان ہلاک ( شہید) کیے ہیں۔'' اگر مقبوضہ کشمیر میں شہادتوں کی سرکاری تعداد یہ ہے تو ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اصل شہادتوں کی تعداد کتنی ہو گی؟ دُنیا میں خال ہی کوئی ایسا خطہ ہوگا جہاں استبداد سے نجات حاصل کرنے کے لیے کسی قوم کے نوجوان اتنی بڑی تعداد میں مسلسل اپنی جانیں قربان کررہے ہوں۔یہ اعزاز اور عظمت کشمیریوں کو حاصل ہے۔ مودی جی اِسی لیے تو حیران اور پریشان ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں اتنا خون بہانے کے باوجود کشمیریوں کے سر نہیں جھکائے جا سکے ہیں۔
اِسی لیے آزاد جموں و کشمیر کے صدر، جناب سردار مسعود خان، نے 29نومبر2018ء کو کراچی میں ایک مجلس سے خطاب کرتے ہُوئے یہ کہا ہے :''لوگوں کو یہ بات واضح طور پر معلوم ہونی چاہیے کہ پچھلے اکہتر برسوں کے دوران مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قابض فوجیں پانچ لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید کر چکی ہیں۔ پچھلے ایک ہفتے کے دوران دو درجن سے زائد کشمیری پھر شہید کر دیے گئے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں سات لاکھ بھارتی فوج کشمیریوں کے جذبہ حریت کو دبانے اور کم کرنے میں ناکام رہی ہے۔'' بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے حواس اِسی کارن مختل ہیں؛ چنانچہ اُنہوں نے نسبتاً ایک آسان حل یہ ڈھونڈا کہ مقبوضہ کشمیر میں کٹھ پتلی حکومت میں اکھاڑ پچھاڑ کی جائے تاکہ کشمیریوں کے ذہن منتشر ہو سکیں۔ یوں پہلے قدم کے طور پر کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ ، محبوبہ مفتی، کی اتحادی حکومت ختم کی گئی۔
مقبوضہ کشمیر میں محبوبہ مفتی کی ''پی ڈی پی'' کے ساتھ ''بی جے پی'' کا اشتراک تھا۔ دونوں نے مل کر ریاست جموں و کشمیر میں حکومت بنائی تھی۔ اور جب مودی نے اشارہ کیا تو ''بی جے پی'' کے ارکان حکومت سے نکل گئے۔ محبوبہ مفتی کی کٹھ پتلی وزارتِ اعلیٰ بھی ختم ہو گئی۔ یہ حادثہ چھ ماہ پہلے وقوع پذیر ہُوا۔ محبوبہ مفتی کی حکومت ختم ہوتے ہی مقبوضہ کشمیر گورنر راج کے ذریعے براہِ راست نئی دہلی کے پاس چلا گیا۔ مودی نے مقبوضہ کشمیر گورنر این این ووہرا کے سپرد کر دیا۔ لیکن ساتھ ساتھ کشمیر اسمبلی کے ''منتخب'' رکن بھی اپنے اپنے حلقوں میں کام کرتے رہے۔ اُنہیں اُمید تھی کہ گورنر راج ختم ہو گا تو وہ دوبارہ اقتدار میں آ جائیں گے۔
مودی نے مگر اُن کا یہ خواب پورا نہیں ہونے دیا۔ گورنر این این ووہراکی مدت ختم ہُوئی تو اُن کی جگہ نئے گورنر، ستیہ پال ملک، کو لگا دیا گیا۔ ستیہ پال ملک کے مختصر سے دَور میں مقبوضہ کشمیر میں ظلم و تشدد کا ایک نیا دَور شروع ہُوا ہے۔ زیادتیاں مزید بڑھیں تو محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی، ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس اور سونیا گاندھی کی کانگرس نے مل کر فیصلہ کیا کہ وہ مل کر کشمیر میں نئی حکومت تشکیل دیتے ہیں۔ حکومت بنانے کے لیے 44 ارکان کی ضرورت ہے۔ تینوں کے پاس یہ مطلوبہ آئینی تعداد موجود تھی کہ پی ڈی پی کے 29، نیشنل کانفرنس کے 15اور کانگرس کے پاس 12ارکان تھے۔
محبوبہ مفتی نے ان سب کے دستخطوں کے ساتھ مقبوضہ کشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک کو چٹھی لکھی کہ اُن کے پاس44 ارکان سے بھی زیادہ تعداد ہے، اسلیے اُنہیں نئی حکومت بنانے کی اجازت دے جائے۔ یہ چِٹھی بذریعہ فیکس ستیہ پال ملک کو بھیجی گئی تھی لیکن اس پر عملدرآمد کی نوبت ہی نہیں آئی۔ گورنر نے یہ کہہ کر جھوٹ بول دیا کہ چونکہ اُن کی فیکس مشین خراب ہے، اسلیے چٹھی نہیں مل سکی ہے۔ دراصل بی جے پی کو جب اِس کی خبر ملی تھی تو اُنہوں نے نریندر مودی سے رابطہ کیا۔ یوں خفیہ طور پر فوری ستیہ پال ملک سے رابطہ کیا گیا اور اُنہوں نے 21نومبر2018ء کی رات ریاستی اسمبلی تحلیل کر دی۔ اِس اقدام کے خلاف کشمیر میں نئی دہلی کے خلاف سخت غصہ ہے۔
اب کہا جارہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں نئے سرے سے الیکشن اگلے سال ( اپریل یا مئی 2019ء میں) اُس وقت ہوں گے جب پورے بھارت میں لوک سبھا(قومی اسمبلی) کے انتخابات کا طبل بجے گا۔بھارتی اسٹیبلشمنٹ اور نریندر مودی کا منصوبہ یہ ہے کہ لوک سبھا کی انتخابی مہمات کے دوران کشمیر کے پس منظر میں پاکستان کے خلاف خوب پروپیگنڈہ کرکے ووٹ بٹورے جائیں۔ منصوبہ یہ بھی ہے کہ بھارت میں عام انتخابات کے نتیجے میں دوبارہ بی جے پی کی حکومت قائم کرنے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں بھی نام نہاد انتخابات کروا کر بی جے پی کو اکثریت دلوائی جائے اور یوں سرینگر میں بھی بی جے پی کی اکثریتی حکومت کا جھنڈا لہرایا جا سکے۔ نئی دہلی سے بیزار اور متنفر کشمیری حریت پسند قیادت اِس سازش کے خلاف بھی کمر بستہ ہو رہی ہے۔