سو دن کا مقدمہ

ریاست کا نظام عام آدمی کے تناظر میں فوری طور پر کوئی بڑا ریلیف نہیں دے سکا


سلمان عابد December 03, 2018
[email protected]

NEW YORK: دنیا میں حکمرانی کے نظام میں ایک نئی جہت پہلے سو دنوں کی حکمرانی کے تناظر میں سامنے آئی ہے۔ اس کا بنیادی مقصد کسی بھی حکومت کی اپنی حکمرانی کے نظام کی سمت، منصوبہ بندی اور حکمت عملی کو سمجھنا ہوتا ہے۔دنیا میں جو بڑے بڑے حکمرانی سے جڑے ادارے ہوتے ہیں وہ بہت سے ممالک کی حکمرانی کا جائزہ اور نتائج پہلے سو دنوں کی حکمرانی کا تجزیہ کر کے اگلے پانچ برس کے سیاسی، سماجی اور معاشی فہم کا نتیجہ نکال کر ان کی درجہ بندی کرتے ہیں۔ مقصد پہلے سو دنوں میں کوئی انقلاب نہیں ہوتا بلکہ ٹھوس منصوبہ بندی حکمت عملی یا ترجیحات کی بنیاد پرمستقبل کی منصوبہ بندی کرنا ہوتی ہے۔ لیکن پاکستان میں سو دنوں کی حکمرانی اور اس کے نتائج کو عملی طور پر ایک سیاسی مذاق سمجھا گیا کہ سب بگڑا ہوا نظام کسی جادوئی عمل سے ٹھیک ہو جائے گا۔ اس میں کافی حد تک قصور خود تحریک انصاف کا بھی ہے جس نے جذباتیت کی بنیاد پر ایسا نقشہ پیش کیا کہ فوری تبدیلی نظر آئے گی۔ حالانکہ نظام کی اصلاح کا عمل مرحلہ وار ہی ممکن ہو سکتا تھا۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر عمران خان کی حکمرانی کے پہلے سو دنوں کے سیاسی مقدمہ کا جائزہ لیں تو اس میں فوری طور پر عوام کو کوئی بڑا ریلیف نہیں ملا۔ بلکہ بعض معاملات میں پہلے سے موجود مہنگائی اور مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہی سمجھ میں آتی ہے کہ یہاں اقتدار میں آنے سے قبل سیاسی جماعتوں کا اقتدار کے تناظر میں کوئی ٹھوس ہوم ورک اورمنصوبہ بندی کا نہ ہونا ہوتا ہے۔ ہماری حکمرانی کی سیاست عمومی طور پر ردعمل کے ساتھ جڑی ہوتی ہے، جو موثر حکمرانی کے نظام کو خراب کرتی ہے۔

یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ پہلے سو دنوں میں حکومت کے معاشی اور سیاسی ماہرین سمیت ریاست کا نظام عام آدمی کے تناظر میں فوری طور پر کوئی بڑا ریلیف نہیں دے سکا۔ وزیر خزانہ اسد عمر کا کوئی جادو بھی دیکھنے کو نہیں مل سکا۔ مسئلہ یہ ہی ہے کہ ہم اگر معاشی منصوبہ بندی کو پرانے روائتی طور طریقوں اور ایک بڑے عالمی فریم ورک میں چلانے کی کوشش کریں گے تو اس سے کوئی بڑی تبدیلی ممکن نہیں ہوگی۔ قرضوں اور سود میں ڈوبی معیشت اور عالمی دنیا پر انحصار ی کا عمل سمیت غیر مساوی معاشی اور سیاسی استحکام ہمیں کسی بڑی مثبت تبدیلی کی طرف آسانی سے نہیں لے جا سکے گا۔ مسئلہ معاشی ماہرین کا نہیں بلکہ معاشی ماہرین کا پہلے سے موجود مروجہ نظام کے فریم ورک سے باہر نکل کر سوچنے اور متبادل نظام کی طرف خود کو راغب کرنے سے جڑ ا ہونا چاہیے۔

ایک مسئلہ جو دیکھنے کو نظر آیا کہ وزیر اعظم جس جرات کے ساتھ معاملات کی درستگی میں اپنی سیاسی سپیڈ کو بڑھائے ہوئے ہیں اس کا ساتھ ان کی کابینہ، پارٹی اور بالخصوص بیوروکریسی میں فقدان نظر آتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ بہت سے معاملات میں وزیر اعظم کو خود ہی سیاسی لیڈ لینی پڑتی ہے اور اپنی ہی سیاسی اور معاشی ٹیم کو جگانا یا فعال کرنا ہوتا ہے۔کچھ اہم شعبو ں میں جن افراد کو عملی طور پر بڑ ی ذمے داریاں دی گئیں ان پر بھی جائز تنقید کی جا سکتی ہے۔

مسئلہ حکومت کی بدنیتی کا نہیں بلکہ بعض معاملات میں ان میں موجود عملی صلاحیتوں کے فقدان کا بھی ہے۔لیکن دیانت داری سے سو دنوں کا تجزیہ کیا جائے تو یہ کوئی بری حکمرانی کی کہانی نہیں۔ اس حکمرانی کے نظام میں بہت سے ایسے امور دیکھنے کو ملتے ہیں جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ وزیر اعظم سے لے کر وزیر اعلی، گورنرز، وفاقی وزارتوں کے صوابدیدی فنڈ کا خاتمہ کوئی معمولی عمل نہیں۔ اس صوابدیدی فنڈ کے عمل نے ماضی میں حکمرانوں کی کرپشن اور بدعنوانی کے کئی معاملات کو نمایاں کیا۔ حکومت کا یہ جرات مندانہ اقدام غیر معمولی عمل تھا۔ اسی طرح سے جو سادگی کی مہم چلائی گئی وہ بھی قابل دید ہے۔پہلے سو دنوں میں وزیر اعظم، وفاقی ورزاء اور وزارتوں سمیت پنجاب اور خیبرپختونخوا میں سرکاری اخراجات سمیت وزیر اعظم، گورنر، وزیر اعلی سیکریٹریٹ اور ہاوسز کے اخراجات میں ماضی کے مقابلے میں بہت حد تک کمی کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے۔ اگرچہ اخراجات کی کمی کے تناظر میں کئی سطح پر وزیر اعظم کا سیاسی مذاق اور تضحیک بھی کی گئی، مگر وزیر اعظم سیاسی طور پر ڈٹے رہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے جس سنجیدگی کے ساتھ وفاق اور دو صوبو ں میں براہ راست حکمرانی کے نظام کی نگرانی کی اور ہر وقت منصوبہ بندی کے عمل کو بھی پزیرائی ملنی چاہیے۔ سعودی عرب اور چین کے ساتھ جو متبادل معاشی نظام کا راستہ تلاش کیاگیا وہ آگے جاکر ہمیں معاشی طور پر استحکام دے سکتا ہے۔ فور ی طور پر آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر قرضہ لینے سے گریزکی پالیسی بھی متبادل معاشی حکمت عملی سے جڑی تھی جو یقینی طور پر سودمند ثابت ہوئی۔ اصل چیلنج حکومت کے پاس آنے والے عرصے میں متبادل معاشی پالیسی، مقامی اور عالمی سرمایہ کاری سمیت ٹیکس نیٹ میں اضافہ ہوگا۔کیونکہ جب تک ہم خود داخلی سطح پر معاشی استحکام اورمربوط پالیسی اختیار نہیں کریں گے موجودہ روائتی طریقے سے معاشی اصلاح ممکن نہیں۔ پورے ملک میں محض سو دنوں میں طاقتور طبقات سے ہزاروں ایکڑ سرکاری املاک، زمینیں اور قبضہ مافیا سے جگہ چھڑوانے کے عمل ایک طاقتور سیاسی حکومت ہی کر سکتی ہے۔

ماضی میں سیاسی سمجھوتوں کی بنیاد پر حکمرانی کے نظام نے طاقتور لینڈ مافیا کو مضبوط کیا تھا۔ گرین پاکستان مہم، صفائی مہم، ماحولیات، پبلک ٹوائلٹ، بے گھروںکے لیے بڑے شہرو ں میں سونے کی آرام گاہ غریب اور ضرورت مند لوگوں کے لیے چھوٹے گھروں کی تعمیر کا آغاز، غیر ملکی دوروں پر فوج در فوج کے بجائے وفود میں کم سے کم افراد کا جانا حکومت کی بہتر منصوبہ بندی، کابینہ کے باقاعدگی سے اجلاس، جوابدہی کا تصور، ہمسائے ممالک سے بہتر تعلقات، کرتار پور راہداری کا سنگ بنیاد اور سول ملٹری تعلقات، جنوبی پنجاب صوبہ کے اقدامات کی جھلک کے عمل کو نمایاں کرتا ہے اور خاص طور پر اشتہارات کی مدد سے سب اچھا پیش کرنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی بھی شامل ہے۔

وزیر اعظم کی کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف سیاسی کمٹمنٹ بھی اقتدار میں کافی مضبوط دکھائی دیتی ہے۔ ابتدائی عمل میں 26 ممالک سے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے معاہدے، 375 ارب کے جعلی اکاونٹس کو بے نقاب کرنا اور طاقتور طبقات کو گرفت میںلانا معمولی عمل نہیں۔ لیکن اس کے لیے ہمیں نئے قانون اور ادارے بنانے ہونگے۔ کیونکہ موجودہ قوانین میں سقم ایک بڑے احتساب کے عمل میں رکاو ٹ ہے اور اس کو دور کرنا ہو گا۔ مجموعی طور پر تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے سو دن ماضی کی کئی حکومتوں سے بہتر نظر آتے ہیں اور اس کا حقیقت کے ساتھ تجزیہ کیا جانا چاہیے۔جہاں تک حزب اختلاف کا تعلق ہے وہ اپنے سیاسی وجود کو مضبوط انداز میں پیش کرنے میں ناکام رہے ۔ بلاول بھٹو ضرور عمران خان سے سو دنوں کا حساب مانگیں، مگر وہ پہلے سندھ کی حکمرانی کا بھی حساب دیں وہاں کونسی خوشحالی لائی جا سکی ہے ۔بہرحال تحریک انصاف بدستور ایک بڑے امتحان میں ہے۔

بالخصوص بڑا چیلنج کمزور اور غریب طبقوں کو سیاسی اور معاشی ریلیف فراہم کرنا ہے۔ وزیر اعظم کے بقول ان کی حکمرانی کا اہم نکتہ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی حالت زار کو بدلنا ہے۔ یہ واقعی مشکل کام ہے اور اگر حکومت اس میں کچھ کر سکی تو یہ ایک منفرد کام ہو گا اور حکمرانی کی ساکھ کو بھی مضبوط بنائے گا۔ بالخصوص نوجوان طبقہ اور اس کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنا حکومت کی پہلی بڑی ترجیح ہونی چاہیے۔ وہ اگر صوبوں میں ایک مضبوط مقامی حکومتوں کا حقیقی نظام لاسکے تو یہ حکمرانی کے نظام کو موثر بنا سکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ لوگ جو کبھی ماضی کے حکمرانوں کی کڑی نگرانی نہیں کرتے تھے بلکہ حکمرانی کے نظام سے خود بھی فائد ہ اٹھاتے رہے ہیں وہ بھی سو دنوں کا کڑا احتساب مانگ رہے جو اچھی بات ہے۔ حکمرانی کے نظام پر کڑی نگرانی ہونی چاہیے اور حکمرانوں کے کمزور اور غلط فیصلوں پر تنقید ہو، کیونکہ یہ ہی عمل ایک اچھی حکمرانی کو یقینی بناتا ہے اور اس کا فائدہ کمزور طبقات کو بہتر حکمرانی کی صورت میں دیکھنے کو ملتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں