’’ٹویٹرزندہ باد‘‘
50 ویب سائٹس براوز کر کے جو خبریں حاصل ہوتیں اب ٹویٹر پر چند ہی منٹ میں اس سے زیادہ باتیں پتا چل جاتی ہیں
''اچھا آپ کو فلاں کرکٹر کا انٹرویو کرنا ہے، ٹھیک ہے تو پہلے یہ بتائیں کہ آپ کے ٹویٹر پر فالوورز کتنے ہیں، پھر ہم فیصلہ کریں گے کہ اجازت دیں یا نہیں''
سینئر خاتون صحافی عالیہ رشید کو چند ماہ قبل پی سی بی کے ایک آفیشل نے ایسا ہی کہا تھا، جس پر وہ سوچ میں پڑ گئیں کہ30 سال صحافت میں رہ کر انھوں نے جو نام کمایا اس کی کوئی اہمیت نہیں مگر ٹویٹر پر فالورز کتنے ہیں یہ بات زیادہ اہم ہے،دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے ایک لاکھ سے زائد فالوورز ہیں اس لیے وہ سابقہ پی سی بی مینجمنٹ کے ''ٹویٹر پیمانے'' پر بھی پورا اترتی تھیں، انھوں نے جب مجھے یہ واقعہ سنایا تو میں ہنس پڑا کیونکہ اگر ٹویٹر سے یہ اندازہ لگایا جائے کہ صحافی کتنے پانی میں ہے تو میری تو انگلیاں بھی نہیں بھیگیں، مگر نجم سیٹھی کے دور میں واقعی ایسا ہوتا تھا، اس وقت آپ کا بطور صحافی کیا مرتبہ ہے،کتنی بڑی خبریں بریک کیں ۔
ان باتوں کی کوئی اہمیت نہیں تھی، ہاں اگر آپ ٹویٹر پر فعال اور چیئرمین سمیت حامیوں کی ہر ٹویٹ کو ری ٹویٹ کرتے ہیں تو بس آپ سے بڑا کوئی صحافی ہی نہیں تھا، ان کا باقاعدہ ''ٹویٹرز کلرز'' کا ایک نیٹ ورک تھا جہاں کسی نے کوئی خلاف خبر دی تو وہ ایکشن میں آ جاتا اور اس صحافی کی شان میں اتنی ٹویٹس آ جاتیں کہ وہ سر پکڑ کر بیٹھ جاتا، ہمارے صحافی بھائی بھی ان سے خوب استعمال ہوئے، بلاشبہ نجم سیٹھی کا دور روایتی اسپورٹس صحافیوں کیلیے سب سے مشکل تھا، میرے خلاف بھی ٹویٹر مہم چلی، حد تو تب ہوئی جب ایک گورے کے اکاؤنٹ سے میرے کالمز کے بارے میں ٹویٹ سامنے آئی،ویسے تو میری آنکھوں سے خوشی کے آنسو جاری ہو جانے چاہیے تھے کہ میرے کالمز کی شہرت پاکستان کے باہر تک پہنچ چکی لیکن میں نے حقیقت کو تسلیم کیا کہ بھائی یہ لاہور یا کراچی میں بیٹھا ہی کوئی ''دوست'' ہے جسے رکھا ہی اس کام کیلیے ہے۔
اس دور میں ٹویٹر پر فعال بعض صحافیوں کو پی سی بی میں پارٹ ٹائم اور فل ٹائم ملازمتیں بھی ملیں، وہی لوگ آج جب سچائی اور دیگر باتوں پر لیکچرز دیتے ہیں تو میں بس یہ سوچتا ہوں کہ ان سے کاش کوئی یہ کہہ دے کہ جناب آپ کو ملازمت کیسے ملی ذرا اپنے گریبان میں تو جھانکیں،نئے چیئرمین احسان مانی کو سوشل میڈیا کا شوق نہیں ، جب وہ بورڈ میں آئے تب ہی ان کے نام سے کئی جعلی اکاؤنٹس بن گئے،میں نے انھیں بتایا تو وضاحت دی کہ وہ سوشل میڈیا پر ہیں ہی نہیں، ان کے آنے سے اب بورڈ کا میڈیا ڈپارٹمنٹ فعال بھی ہوا ہے، پہلے نجم سیٹھی کی کوشش ہوتی تھی کہ میڈیا کو کچھ پتا نہ چلے اور کوئی معلومات حاصل کرنا ہوں تو شاذونادر ہی ملتی تھیں اب فوراً جواب آ جاتا ہے، مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ سوشل میڈیا اب بڑی تیزی سے روایتی میڈیا پر حاوی ہو رہا ہے،اگر ہم زمانے کے ساتھ نہ چلے تو پیچھے رہ جائیں گے، ماضی میں کرکٹرز صحافیوں سے کہا کرتے تھے کہ ہمارا فلاں بیان چلا دو ، یا ہمارے بارے میں یہ لکھ دو ، اب انھیں اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے، وہ بس ایک ٹویٹ کرتے ہیں اور دنیا بھر کا میڈیا اسے لے کر خبریں بنا لیتا ہے۔
اس لیے اب کھلاڑی بھی میڈیا کو زیادہ لفٹ نہیں کراتے، میں آج فیضان لاکھانی سے بھی یہ اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ ہر وقت ٹویٹر پر فعال رہنے پر ان کا مذاق اڑاتا تھا مگر اب مجھے بھی یہ لت لگ گئی ہے، گوکہ میں ٹویٹر سے عشق کی فیضان جیسی معراج پر تو نہیں پہنچا مگر اب کوشش ہوتی ہے کہ فعال رہوں، اس کا مجھے فائدہ ہی ہوا، 50 ویب سائٹس براوز کر کے جو خبریں حاصل ہوتیں اب ٹویٹر پر چند ہی منٹ میں اس سے زیادہ باتیں پتا چل جاتی ہیں، آسٹریلیا میں کوئی واقعہ ہو چند سکینڈز میں آپ کے علم میں آگیا، آپ نے اسے ری ٹویٹ کیا توبات آپ کے فالوورز تک بھی پہنچ گئی، ابھی چند روز قبل اسلام آباد میں پی ایس ایل ڈرافٹ کے موقع پر مجھے ایک سابق کپتان ملے اور شکوہ کیا کہ ''تم نے محسن خان سے انٹرویو میں فلاں سوال نہیں کیا، میں نے ٹویٹر پر کلپس دیکھی تھیں'' اسی طرح مجھے اپنے کالمز کے نئے ریڈرز بھی سوشل میڈیا پر ملے،جدید دور میں آپ ٹویٹر وغیرہ کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کر سکتے، میری سینئر صحافیوں سے بھی یہی درخواست ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر آئیں، اپنی خبریں، انٹرویوز، کالمز، ویڈیوز وغیرہ شیئر کریں، لوگ اسی طرح آپ کو اور اچھی طرح جانیں گے۔
ورنہ ان کے لیے وہی لوگ بڑے صحافی ہوں گے جو آپ کی خبریں اٹھا کر اپنے نام سے انھیں ٹویٹر پرشیئر کرکے ہزاروں فالورز بنا چکے ہیں، بہت سے دوست اس بات سے گھبراتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر کوئی بھی اٹھ کر آ کر انھیں کچھ بھی کہہ سکتا ہے، سچی بات یہ ہے کہ میں بھی ایک سال پہلے تک یہی سوچتا تھا مگر اب سوچ میں تبدیلی آ گئی ہے،آپ صرف انہی لوگوں کو اہمیت دیں جو حقیقی ہوں، یہاں مسئلہ یہی ہے کہ کون جعلی اکاؤنٹ چلا رہا ہے اور کون اصل اس کی پہچان کا کوئی ذریعہ موجود نہیں، بلوٹک ہر کسی کے اکاؤنٹ پر موجود نہیں ہوتا، واقعی اگر آپ ہر کمنٹ پڑھیں تو ذہنی دباؤ کا شکار ہو سکتے ہیں کیونکہ آپ کے مخالفین جعلی ناموں سے اکاؤنٹ بنا کربھی فعال ہیں، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ منفی عناصر کے ڈر سے سوشل میڈیا استعمال ہی نہ کریں،آپ ایسے لوگوں کو اہمیت ہی نہ دیں۔
ماضی میں کیا میں سوچ سکتا تھا کہ ملک سے باہر موجود کرکٹ سے ہٹ کر اپنی کسی پسندیدہ شخصیت سے بات کر سکوں گا مگر اب سوشل میڈیا کے ذریعے نہ صرف میرے بلکہ ہر عام انسان کیلیے یہ ممکن ہے،اب میری بھی کوشش ہوتی ہے کہ جو بھی خبر ملے فوراً اپنے فالوورز سے شیئر کر دوں تاکہ وہ باخبر رہیں، البتہ یہ عجیب لگتا ہے کہ بعض اوقات کسی فلم کی تعریف کرو یا کسی اور پسند ناپسند کا اظہار کروں تو بعض لوگ عجیب کمنٹس کرنا شروع کر دیتے ہیں، بھائی ہم اسپورٹس صحافی کے ساتھ عام انسان بھی ہیں، ہمیں بھی تو دیگر معاملات میں اظہار رائے کا حق حاصل ہے، میں نے کئی غیر ملکی کرکٹرز سے ٹویٹر کے ذریعے ہی رابطے کیے،پہلے میں اس کے خلاف تھا مگر اب حق میں ہو گیا ہوں، جاتے جاتے یہ نعرہ لگانا چاہوں گا ٹویٹر زندہ باد۔
سینئر خاتون صحافی عالیہ رشید کو چند ماہ قبل پی سی بی کے ایک آفیشل نے ایسا ہی کہا تھا، جس پر وہ سوچ میں پڑ گئیں کہ30 سال صحافت میں رہ کر انھوں نے جو نام کمایا اس کی کوئی اہمیت نہیں مگر ٹویٹر پر فالورز کتنے ہیں یہ بات زیادہ اہم ہے،دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے ایک لاکھ سے زائد فالوورز ہیں اس لیے وہ سابقہ پی سی بی مینجمنٹ کے ''ٹویٹر پیمانے'' پر بھی پورا اترتی تھیں، انھوں نے جب مجھے یہ واقعہ سنایا تو میں ہنس پڑا کیونکہ اگر ٹویٹر سے یہ اندازہ لگایا جائے کہ صحافی کتنے پانی میں ہے تو میری تو انگلیاں بھی نہیں بھیگیں، مگر نجم سیٹھی کے دور میں واقعی ایسا ہوتا تھا، اس وقت آپ کا بطور صحافی کیا مرتبہ ہے،کتنی بڑی خبریں بریک کیں ۔
ان باتوں کی کوئی اہمیت نہیں تھی، ہاں اگر آپ ٹویٹر پر فعال اور چیئرمین سمیت حامیوں کی ہر ٹویٹ کو ری ٹویٹ کرتے ہیں تو بس آپ سے بڑا کوئی صحافی ہی نہیں تھا، ان کا باقاعدہ ''ٹویٹرز کلرز'' کا ایک نیٹ ورک تھا جہاں کسی نے کوئی خلاف خبر دی تو وہ ایکشن میں آ جاتا اور اس صحافی کی شان میں اتنی ٹویٹس آ جاتیں کہ وہ سر پکڑ کر بیٹھ جاتا، ہمارے صحافی بھائی بھی ان سے خوب استعمال ہوئے، بلاشبہ نجم سیٹھی کا دور روایتی اسپورٹس صحافیوں کیلیے سب سے مشکل تھا، میرے خلاف بھی ٹویٹر مہم چلی، حد تو تب ہوئی جب ایک گورے کے اکاؤنٹ سے میرے کالمز کے بارے میں ٹویٹ سامنے آئی،ویسے تو میری آنکھوں سے خوشی کے آنسو جاری ہو جانے چاہیے تھے کہ میرے کالمز کی شہرت پاکستان کے باہر تک پہنچ چکی لیکن میں نے حقیقت کو تسلیم کیا کہ بھائی یہ لاہور یا کراچی میں بیٹھا ہی کوئی ''دوست'' ہے جسے رکھا ہی اس کام کیلیے ہے۔
اس دور میں ٹویٹر پر فعال بعض صحافیوں کو پی سی بی میں پارٹ ٹائم اور فل ٹائم ملازمتیں بھی ملیں، وہی لوگ آج جب سچائی اور دیگر باتوں پر لیکچرز دیتے ہیں تو میں بس یہ سوچتا ہوں کہ ان سے کاش کوئی یہ کہہ دے کہ جناب آپ کو ملازمت کیسے ملی ذرا اپنے گریبان میں تو جھانکیں،نئے چیئرمین احسان مانی کو سوشل میڈیا کا شوق نہیں ، جب وہ بورڈ میں آئے تب ہی ان کے نام سے کئی جعلی اکاؤنٹس بن گئے،میں نے انھیں بتایا تو وضاحت دی کہ وہ سوشل میڈیا پر ہیں ہی نہیں، ان کے آنے سے اب بورڈ کا میڈیا ڈپارٹمنٹ فعال بھی ہوا ہے، پہلے نجم سیٹھی کی کوشش ہوتی تھی کہ میڈیا کو کچھ پتا نہ چلے اور کوئی معلومات حاصل کرنا ہوں تو شاذونادر ہی ملتی تھیں اب فوراً جواب آ جاتا ہے، مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ سوشل میڈیا اب بڑی تیزی سے روایتی میڈیا پر حاوی ہو رہا ہے،اگر ہم زمانے کے ساتھ نہ چلے تو پیچھے رہ جائیں گے، ماضی میں کرکٹرز صحافیوں سے کہا کرتے تھے کہ ہمارا فلاں بیان چلا دو ، یا ہمارے بارے میں یہ لکھ دو ، اب انھیں اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے، وہ بس ایک ٹویٹ کرتے ہیں اور دنیا بھر کا میڈیا اسے لے کر خبریں بنا لیتا ہے۔
اس لیے اب کھلاڑی بھی میڈیا کو زیادہ لفٹ نہیں کراتے، میں آج فیضان لاکھانی سے بھی یہ اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ ہر وقت ٹویٹر پر فعال رہنے پر ان کا مذاق اڑاتا تھا مگر اب مجھے بھی یہ لت لگ گئی ہے، گوکہ میں ٹویٹر سے عشق کی فیضان جیسی معراج پر تو نہیں پہنچا مگر اب کوشش ہوتی ہے کہ فعال رہوں، اس کا مجھے فائدہ ہی ہوا، 50 ویب سائٹس براوز کر کے جو خبریں حاصل ہوتیں اب ٹویٹر پر چند ہی منٹ میں اس سے زیادہ باتیں پتا چل جاتی ہیں، آسٹریلیا میں کوئی واقعہ ہو چند سکینڈز میں آپ کے علم میں آگیا، آپ نے اسے ری ٹویٹ کیا توبات آپ کے فالوورز تک بھی پہنچ گئی، ابھی چند روز قبل اسلام آباد میں پی ایس ایل ڈرافٹ کے موقع پر مجھے ایک سابق کپتان ملے اور شکوہ کیا کہ ''تم نے محسن خان سے انٹرویو میں فلاں سوال نہیں کیا، میں نے ٹویٹر پر کلپس دیکھی تھیں'' اسی طرح مجھے اپنے کالمز کے نئے ریڈرز بھی سوشل میڈیا پر ملے،جدید دور میں آپ ٹویٹر وغیرہ کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کر سکتے، میری سینئر صحافیوں سے بھی یہی درخواست ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر آئیں، اپنی خبریں، انٹرویوز، کالمز، ویڈیوز وغیرہ شیئر کریں، لوگ اسی طرح آپ کو اور اچھی طرح جانیں گے۔
ورنہ ان کے لیے وہی لوگ بڑے صحافی ہوں گے جو آپ کی خبریں اٹھا کر اپنے نام سے انھیں ٹویٹر پرشیئر کرکے ہزاروں فالورز بنا چکے ہیں، بہت سے دوست اس بات سے گھبراتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر کوئی بھی اٹھ کر آ کر انھیں کچھ بھی کہہ سکتا ہے، سچی بات یہ ہے کہ میں بھی ایک سال پہلے تک یہی سوچتا تھا مگر اب سوچ میں تبدیلی آ گئی ہے،آپ صرف انہی لوگوں کو اہمیت دیں جو حقیقی ہوں، یہاں مسئلہ یہی ہے کہ کون جعلی اکاؤنٹ چلا رہا ہے اور کون اصل اس کی پہچان کا کوئی ذریعہ موجود نہیں، بلوٹک ہر کسی کے اکاؤنٹ پر موجود نہیں ہوتا، واقعی اگر آپ ہر کمنٹ پڑھیں تو ذہنی دباؤ کا شکار ہو سکتے ہیں کیونکہ آپ کے مخالفین جعلی ناموں سے اکاؤنٹ بنا کربھی فعال ہیں، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ منفی عناصر کے ڈر سے سوشل میڈیا استعمال ہی نہ کریں،آپ ایسے لوگوں کو اہمیت ہی نہ دیں۔
ماضی میں کیا میں سوچ سکتا تھا کہ ملک سے باہر موجود کرکٹ سے ہٹ کر اپنی کسی پسندیدہ شخصیت سے بات کر سکوں گا مگر اب سوشل میڈیا کے ذریعے نہ صرف میرے بلکہ ہر عام انسان کیلیے یہ ممکن ہے،اب میری بھی کوشش ہوتی ہے کہ جو بھی خبر ملے فوراً اپنے فالوورز سے شیئر کر دوں تاکہ وہ باخبر رہیں، البتہ یہ عجیب لگتا ہے کہ بعض اوقات کسی فلم کی تعریف کرو یا کسی اور پسند ناپسند کا اظہار کروں تو بعض لوگ عجیب کمنٹس کرنا شروع کر دیتے ہیں، بھائی ہم اسپورٹس صحافی کے ساتھ عام انسان بھی ہیں، ہمیں بھی تو دیگر معاملات میں اظہار رائے کا حق حاصل ہے، میں نے کئی غیر ملکی کرکٹرز سے ٹویٹر کے ذریعے ہی رابطے کیے،پہلے میں اس کے خلاف تھا مگر اب حق میں ہو گیا ہوں، جاتے جاتے یہ نعرہ لگانا چاہوں گا ٹویٹر زندہ باد۔