کراچی سیف سٹی منصوبہ تاحال نامکمل بیشتر کیمرے خراب ہوگئے
کیمروں کے ذریعے جرائم کی روک تھام، پولیس اورریسکیواداروں کوبرق رفتاری سے متحرک کرنے کانظام سیف سٹی منصوبے کاحصہ تھا
دنیا بھر میں بڑے شہروں کے باسیوں کی زندگی کو محفوظ اور آسان بنانے کے لیے جدید ٹیکنالو جی پر سے استفادہ کیا جارہا ہے۔،کراچی جیسے بڑے شہروں کے نظم و نسق کو بہتر انداز میں چلانے، شہریوں کو پانی بجلی گیس جیسی بنیادی سہولتوں کی بلاتعطل فراہمی، ٹرانسپورٹ کے جدید نظام، سڑکوں پر ٹریفک کے بہاؤ، پولیسنگ ، اسپتالوں کے نظام، ٹیکس وصولیوں کے لیے ایک ہی مربوط نظام اختیار کیا جارہا ہے۔
اس تصور کو اسمارٹ سٹی کا نام دیا گیا ہے ، نگرانی کے کیمروں کے ذریعے جرائم کی روک تھام اور پولیس سمیت ریسکیو اداروں کو برق رفتاری سے متحرک کرنے کا نظام سیف سٹی بھی اسمارٹ سٹی کا ایک حصہ ہے دبئی سمیت دنیا کے 30 ممالک کے 100سے زائد شہروں میں یہ نظام رائج ہے اور مجموعی طو ر پر ان شہروں میں مقیم 40کروڑ افراد کی زندگیوں کو محفوظ اور آسان بنارہا ہے، سندھ حکومت نے 2015 میں پہلی بار کراچی میں سیکیورٹی خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے جدید کیمروں پر مشتمل سیف سٹی نظام رائج کرنے کی نوید سنائی اس وقت کے وزیر بلدیات شرجیل انعام میمن نے چینی اور امریکی کمپنیوں سے معاہدے بھی کیے۔
جن کے تحت شمسی توانائی سے چلنے والی اسٹریٹ لائٹس نصب کرنے کے ساتھ نگرانی کے کیمرے بھی نصب کیے جانے تھے اور شہریوں کو مفت وائے فائی کی سہولت دینے کا بھی اعلان کیا گیا منصوبہ کی لاگت کا تخمینہ 20کروڑ ڈالر لگایا گیا اور دو تلوار کلفٹن سے شاہراہ فیصل کو ماڈل کے طور پر پہلے فیز کے لیے منتخب کیا گیا جس پر 2 کروڑ ڈالر کے اخراجات کا اندازہ لگایا گیا یہ منصوبہ فائلوں تک ہی محدو د رہا اہم چوراہوں پر کیمرے تو نصب کیے گئے تاہم سولر اسٹریٹ لائٹس یا وائے فائی کی سہولت نہ مل سکی موثر منصوبہ بندی کے فقدان اور تکنیکی رکاوٹوں کی وجہ سے یہ منصوبہ پہلے فیز میں ہی ناکام ثابت ہوا، سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ بھی وقتاً فوقتاً سیف سٹی کراچی کی گردان کرتے رہے اکتوبر 2017میں ناروے کے سفارتی اور تجارتی وفد سے ملاقات میں وزیراعلیٰ نے کہا کہ شہر کے 3000 مقامات پر 10ہزار ہائی کوالٹی کیمرے نصب کیے جائیں گے۔
جنھیں آئی جی سندھ کے آفس میں واقع مرکزی کمانڈ اینڈ کنٹرول نظام سے منسلک کیا جائے گا تاکہ کسی خطرے کی صورت میں پولیس کے رسپانس کو بہتر بنایا جاسکے مئی 2016 میں آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کے بیان سے ثابت ہوا کہ کراچی میں سیف سٹی منصوبہ تاحال نامکمل ہے انھوں نے کراچی کو کیمروں کے ذریعے محفوظ بنانے کے لیے 35 ارب روپے کے فنڈز کی ضرورت ظاہر کی انھوں نے کورنگی کے صنعتکاروں سے خطاب میں کہا کہ لاہور میں 10ہزار کیمروں کی تنصیب پر 15ارب روپے خرچ ہوئے کراچی کی آبادی اور رقبہ دگنا ہونے کی وجہ سے 30 سے 35ارب روپے کی ضرورت ہوگی اے ڈی خواجہ نے کراچی میں نصب کیمروں کی کارکردگی کا بھی پول کھول دیا اور بتایا کہ شہر میں 2200 کیمرے نصب ہیں جن میں سے زیادہ تر بند پڑے ہیں کراچی کے لیے سیف سٹی منصوبہ میں بھی بدعنوانی کی اطلاعات سامنے آنے لگیں اور نیب نے فروری 2018 میں سندھ پبلک پروکیورمنٹ رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مخصوص فرم کے انتخاب کی تحقیقات کاآغاز کردیا۔
سیف سٹی سلوشن میں چہروں کی شناختاورنگرانی کانظام ہوگا،این آرٹی سی انجینئرز
این آر ٹی سی کے انجینئر عبدالحنان، جاوید الرحمن اور خرم شہزاد نے بتایا ہے کہ سیف سٹی سلوشن میں چہروں کی شناخت کرنے والے کیمروں پر مشتمل نگرانی کا نظام شامل ہے جو نادرا کے ڈیٹا بیس سے منسلک ہونے کی صورت میں کسی بھی فرد کے چہرے کی تصویر لے کر اس کے کوائف کی تصدیق کرسکتا ہے اس طرح جرائم پیشہ عناصر یا دہشت گردوں کو باآسانی تلاش کیا جاسکتا ہے غیرملکیوں کی نشاندہی ہوسکتی ہے، یہ نظام ملک بھر میں ہونے والے جرائم کے ریکارڈز سے بھی منسلک ہوتے ہیں اور کسی مشکوک فرد یا ماضی میں جرائم میں ملوث افراد کی بھی ان کی چہروں کے ذریعے نگرانی کی جاسکتی ہے یہ نظام اندھیرے میں بھی کارگر ہے۔
انسانی نگرانی کے ساتھ یہ کیمرے گاڑیوں کی بھی نگرانی کرتے ہیں گاڑیوں کی نمبر پلیٹ کی تصاویر لے کر ایکسائز کے ریکارڈ سے تصدیق کی جاتی ہے اور چوری یا چھینی گئی گاڑیوں کی نشاندہی ممکن ہے جو اکثر جرائم میں استعمال کی جاتی ہیں۔ شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر نصب ان کیمروں سے لی گئی تصاویر ہائی ویز اتھارٹی اور دیگر صوبوں کی پولیس تک بروقت پہنچائی جاسکتی ہیں، یہ نظام مزارات، مساجد دیگر عبادت گاہوں سمیت سیاسی جلسے جلوسوں کی نگرانی کے لیے بھی انتہائی موثر ہے۔
سیف سٹی منصوبہ 4بنیادی مراحل سے گزرکرمکمل ہوتا ہے
سیف سٹی منصوبہ چار بنیادی ستونوں پر کھڑا کیا جاتا ہے جن میں جرائم اور دہشت گردی کی پیشگی روک تھام، خدشات کی نشاندہی، ریسکیو اور سیکیورٹی اداروں کا فوری رسپانس اور کسی واقع کے بعد ریکوری اور تفتیش جیسے مراحل شامل ہیں، ان چاروں مراحل کے لیے جدید ٹیکنالوجی پر مشتمل نظام سے مدد لی جاتی ہے جو ایک مرکزی کمانڈ سینٹر سے منسلک ہو تا ہے، شہروں کو محفوظ بنانے کے لیے پہلے مرحلے میں مشکوک افراد یا گاڑیوں کی نقل و حرکت، موبائل فون کالنگ ریکارڈ،بینک ٹرانزیکشن، ہوٹلوں کے ریکارڈ وغیرہ سے حاصل شدہ بگ ڈیٹا کے تجزیہ کی بنیاد پر کسی دہشت گردی کے خطرے یا جرم کی واردات کو وقوع پذیر ہونے سے پہلے روکا جاتا ہے اس مرحلے میں روایتی انٹیلی جنس کے ساتھ مصنوعی ذہانت (آرٹیفشل انٹلی جنس) سے بھی مدد لی جاتی ہے جو ڈیٹا کا تجزیہ کرکے نتائج یا امکانات مرتب کرتا ہے۔
بڑے شہروں کو محفوظ بنانے کے لیے جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گردوں کی نشاندہی دوسرا ستون ہے جس میں عوامی سطح پر ہونے والی کمیونی کیشن جس میں موبائل فون کالنگ کا تجزیہ، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے کی جانے والی کمیونی کیشن کی نگرانی کی جاتی ہے۔
اس کے ساتھ شہر میں حساس مقامات پر نگرانی کے جدید کیمروں کے ساتھ کیمکل، بائیولوجیکل، ریڈیالوجیکل اور نیوکلیئر سینسر بھی نصب کیے جاتے ہیں جنہیں خطرات کی نشاندہی کے نظام میں اصطلاحاًCBRNEکہا جاتا ہے، خطرے کی نشاندہی کے بعد متعلقہ ایجنسیوں کو الرٹ جاری کیا جاتا ہے تاکہ بروقت کارروائی کرکے جرائم پیشہ عناصر یا دہشت گردوں کے عزائم ناکام بنائے جاسکیں اس مقصد کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ایجنسیوں کو ایک مرکزی انفارمیشن کمیونی کیشن ٹیکنالوجی پلیٹ فارم مہیا کیا جاتا ہے جس میں اسپتال، فائر بریگیڈ، ایمبولینس سروس سمیت ہنگامی امداد کے دیگر تمام ادارے بھی شامل ہوتے ہیں، سیف سٹی کی افادیت یہاں ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ کسی ناخوشگوار واقعے کے بعد متاثرین کی شناخت، دہشت گردوں اور ملزمان کے گرد گھیرا تنگ کرنے، جائے وقوع سے ملنے والے شواہد کو محفوظ بنانے اور ان کی سائنسی جانچ سمیت سیف سٹی سے منسلک دیگر سینسرز سے ان شواہد کی تصدیق بھی اس نظام کا حصہ ہے۔
منصوبے کی تکمیل میں تکنیکی اور دیگر مسائل درپیش ہیں
سیف سٹی کے تصور کو عملی جامہ پہنانے میں سرمائے کی فراہمی کے علاوہ بھی متعدد تکنیکی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کراچی میں اس وقت متعدد کمیونی کیشن ٹیکنالوجیز استعمال کی جارہی ہیںقانون نافذ کرنے والے ادارے ایجنسیاں اور ریسکیو ادارے کمیونی کیشن کے لیے الگ الگ پلیٹ فارمز استعمال کرتے ہیں جنھیں باہم منسلک کرنا ایک اہم چیلنج ہے تاہم لانگ ٹرم ایولوشن LTE اور کمانڈ اینڈ کنٹرول سلوشن نے یہ مشکل آسان کردی ہے شہروں کو محفوظ بنانے کے لیے دنیا بھر میں ایل ٹی ای ٹیکنالوجی تیزی سے فروغ پارہی ہے خوش قسمتی سے پاکستان اور کراچی میں بھی ایل ٹی ای اور فورجی کمیونی کیشن ٹیکنالوجی کا انفرااسٹرکچر بے حد مضبوط ہے، شہروں کو محفوظ بنانے کے لیے شہر میں پہلے سے نصب نجی کیمروں کو بھی باہم مربوط کیا جاسکتا ہے، انٹیلی جنس ویڈیو سرویلینس کے لیے سوشل میڈیا نیٹ ورک پر گردش کرنے والی ویڈیوز سے بھی استفادہ ممکن ہے ۔
اس طرح شہر میں زیر استعمال لاکھوں اسمارٹ فونز بھی شہر کو محفوظ بنانے کے لیے نگرانی کے نظام کے لیے معاون ثابت ہوسکتے ہیں اس تکنیک کو زیادہ آسانی سے اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ کسی بھی بڑے شہر کے شہری، حکومت، شہری سہولتوں کے ادارے، قانون نافذ کرنے والے ادارے باہم مل کر دہشت گردی کے نیٹ ورک کے خلاف اپنا ایک موثر نیٹ ورک تشکیل دیتے ہیں جس کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانا، شہروں کو محفوظ بنانے کے لیے انفارمیشن کمیونی کیشن ٹیکنالوجی فرمز کی ترقی ناگزیر ہے مقامی سطح پر ڈیزائن اور تیار کردہ سلوشنز سیف سٹی کی لاگت کو کم اور افادیت کو بڑھاتے ہیں تاہم اس کے لیے آئی سی ٹی فرمز کو سرمائے کی فراہمی ایک بڑ ا مسئلہ ہے سیف سٹی یا اسمارٹ سٹی کے نظام کو کامیاب بنانے کے لیے شہری سہولتوں کے اداروں سمیت عام شہریوں ، گاڑیوں ، اسپتالوں، لینڈ ریونیو سمیت یوٹلیٹی اداروں کے ڈیٹا کی موثر منجمنٹ ناگزیر ہے سیف سٹی سسٹم اسی ڈیٹا کا تجزیہ کرکے خدشات کا تدارک اور سہولتوں سے استفادہ آسان بناتا ہے۔
اسمارٹ سٹی میں بجلی کی ترسیل کانظام بھی جدیدہوتاہے
ماہرین کے مطابق شہریوں کی زندگی کو محفوظ بنانے کے ساتھ روزمرہ امور کی انجام دہی کو آسان بنانا بھی اسمارٹ سٹی تصور کی اساس ہے بڑے شہروں میں کاروباری، نجی اور سماجی زندگیاں بجلی کی متواتر اور بلاتعطل فراہمی کے بغیر جاری نہیں رہ سکتیں اس لیے اسمارٹ سٹی سلوشنز میں بجلی کی ترسیل کے نظام کو بھی اسمارٹ بنایا جاتا ہے نگرانی کے کیمروں کو متبادل توانائی کے ذرائع سے بجلی مہیا کی جاتی ہے اسی طرح اسٹریٹ لائٹس اور عوامی مقامات کو بھی سولر یا ونڈ انرجی سے منسلک کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ گرڈ کی گنجائش بجلی کی طلب و رسد پر بھی اسی نظام کے ذریعے نظر رکھی جاتی ہے بڑے شہروں میں ٹرانسپورٹ کا جدید نظام بھی اسمارٹ سٹی سلوشنز سے منسلک ہوتا ہے تاکہ انٹیلی جنٹ ٹرانسپورٹ سسٹم کی بدولت ایک مقام سے دوسرے مقام تک کم سے کم وقت میں پہنچنے میں مدد مل سکے شہریوں کو اژدھام والے علاقوں اور متبادل راستوں کی نشاندہی بھی اسی نظام سے کی جاتی ہے جبکہ شہر بھر میں عوامی مقامات پر پارکنگ کا نظام شہر کے داخلی خارجی راستوں پر ٹول ٹیکس مینجمنٹ اور پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بھی اسمارٹ سٹی سے منسلک ہوتا ہے، بڑے شہروں کا فراہمی ونکاسی آب کا نظام بھی اسمارٹ سٹی کے مرکز ی نظام سے جڑا ہوتا ہے تاکہ آبادی کی بنیادی ضرورتوں کو احسن انداز میں پورا کیا جاسکے، وسائل کو ضایع ہونے سے بچایا جاسکے، فراہمی و نکاسی آب کے اداروں کو پانی کے استعمال اور سیوریج کی مقدار کے لحاظ سے فیس ریکوری میں مدد مل سکے۔
اسمارٹ سٹی نظام شہری سہولت کے تمام اداروں کے دفتری نظام کو بھی آٹو میشن کے ذریعے بہتر بناتا ہے تاکہ شہریوں کے مسائل کم سے کم وقت میں حل ہوسکیں اور شہری سہولت فراہم کرنیوالے اداروں کے اعلیٰ انتظامی افسران تک شہریوں کے مسائل براہ راست پہنچائے جاسکیں جدید اور بڑے شہروں میں بلند عمارتوں کی نگرانی کے لیے بھی انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل کمیونی کیشن سلوشنز پر مشتمل مربوط نظام بھی سیف سٹی سے منسلک کیا جاتا ہے تاکہ شاپنگ سینٹرز، دفاتر اور کثیرالمنزلہ رہائشی عمارتوں کی سیکیوریٹی موثر بنائی جاسکے۔
اس تصور کو اسمارٹ سٹی کا نام دیا گیا ہے ، نگرانی کے کیمروں کے ذریعے جرائم کی روک تھام اور پولیس سمیت ریسکیو اداروں کو برق رفتاری سے متحرک کرنے کا نظام سیف سٹی بھی اسمارٹ سٹی کا ایک حصہ ہے دبئی سمیت دنیا کے 30 ممالک کے 100سے زائد شہروں میں یہ نظام رائج ہے اور مجموعی طو ر پر ان شہروں میں مقیم 40کروڑ افراد کی زندگیوں کو محفوظ اور آسان بنارہا ہے، سندھ حکومت نے 2015 میں پہلی بار کراچی میں سیکیورٹی خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے جدید کیمروں پر مشتمل سیف سٹی نظام رائج کرنے کی نوید سنائی اس وقت کے وزیر بلدیات شرجیل انعام میمن نے چینی اور امریکی کمپنیوں سے معاہدے بھی کیے۔
جن کے تحت شمسی توانائی سے چلنے والی اسٹریٹ لائٹس نصب کرنے کے ساتھ نگرانی کے کیمرے بھی نصب کیے جانے تھے اور شہریوں کو مفت وائے فائی کی سہولت دینے کا بھی اعلان کیا گیا منصوبہ کی لاگت کا تخمینہ 20کروڑ ڈالر لگایا گیا اور دو تلوار کلفٹن سے شاہراہ فیصل کو ماڈل کے طور پر پہلے فیز کے لیے منتخب کیا گیا جس پر 2 کروڑ ڈالر کے اخراجات کا اندازہ لگایا گیا یہ منصوبہ فائلوں تک ہی محدو د رہا اہم چوراہوں پر کیمرے تو نصب کیے گئے تاہم سولر اسٹریٹ لائٹس یا وائے فائی کی سہولت نہ مل سکی موثر منصوبہ بندی کے فقدان اور تکنیکی رکاوٹوں کی وجہ سے یہ منصوبہ پہلے فیز میں ہی ناکام ثابت ہوا، سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ بھی وقتاً فوقتاً سیف سٹی کراچی کی گردان کرتے رہے اکتوبر 2017میں ناروے کے سفارتی اور تجارتی وفد سے ملاقات میں وزیراعلیٰ نے کہا کہ شہر کے 3000 مقامات پر 10ہزار ہائی کوالٹی کیمرے نصب کیے جائیں گے۔
جنھیں آئی جی سندھ کے آفس میں واقع مرکزی کمانڈ اینڈ کنٹرول نظام سے منسلک کیا جائے گا تاکہ کسی خطرے کی صورت میں پولیس کے رسپانس کو بہتر بنایا جاسکے مئی 2016 میں آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کے بیان سے ثابت ہوا کہ کراچی میں سیف سٹی منصوبہ تاحال نامکمل ہے انھوں نے کراچی کو کیمروں کے ذریعے محفوظ بنانے کے لیے 35 ارب روپے کے فنڈز کی ضرورت ظاہر کی انھوں نے کورنگی کے صنعتکاروں سے خطاب میں کہا کہ لاہور میں 10ہزار کیمروں کی تنصیب پر 15ارب روپے خرچ ہوئے کراچی کی آبادی اور رقبہ دگنا ہونے کی وجہ سے 30 سے 35ارب روپے کی ضرورت ہوگی اے ڈی خواجہ نے کراچی میں نصب کیمروں کی کارکردگی کا بھی پول کھول دیا اور بتایا کہ شہر میں 2200 کیمرے نصب ہیں جن میں سے زیادہ تر بند پڑے ہیں کراچی کے لیے سیف سٹی منصوبہ میں بھی بدعنوانی کی اطلاعات سامنے آنے لگیں اور نیب نے فروری 2018 میں سندھ پبلک پروکیورمنٹ رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مخصوص فرم کے انتخاب کی تحقیقات کاآغاز کردیا۔
سیف سٹی سلوشن میں چہروں کی شناختاورنگرانی کانظام ہوگا،این آرٹی سی انجینئرز
این آر ٹی سی کے انجینئر عبدالحنان، جاوید الرحمن اور خرم شہزاد نے بتایا ہے کہ سیف سٹی سلوشن میں چہروں کی شناخت کرنے والے کیمروں پر مشتمل نگرانی کا نظام شامل ہے جو نادرا کے ڈیٹا بیس سے منسلک ہونے کی صورت میں کسی بھی فرد کے چہرے کی تصویر لے کر اس کے کوائف کی تصدیق کرسکتا ہے اس طرح جرائم پیشہ عناصر یا دہشت گردوں کو باآسانی تلاش کیا جاسکتا ہے غیرملکیوں کی نشاندہی ہوسکتی ہے، یہ نظام ملک بھر میں ہونے والے جرائم کے ریکارڈز سے بھی منسلک ہوتے ہیں اور کسی مشکوک فرد یا ماضی میں جرائم میں ملوث افراد کی بھی ان کی چہروں کے ذریعے نگرانی کی جاسکتی ہے یہ نظام اندھیرے میں بھی کارگر ہے۔
انسانی نگرانی کے ساتھ یہ کیمرے گاڑیوں کی بھی نگرانی کرتے ہیں گاڑیوں کی نمبر پلیٹ کی تصاویر لے کر ایکسائز کے ریکارڈ سے تصدیق کی جاتی ہے اور چوری یا چھینی گئی گاڑیوں کی نشاندہی ممکن ہے جو اکثر جرائم میں استعمال کی جاتی ہیں۔ شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر نصب ان کیمروں سے لی گئی تصاویر ہائی ویز اتھارٹی اور دیگر صوبوں کی پولیس تک بروقت پہنچائی جاسکتی ہیں، یہ نظام مزارات، مساجد دیگر عبادت گاہوں سمیت سیاسی جلسے جلوسوں کی نگرانی کے لیے بھی انتہائی موثر ہے۔
سیف سٹی منصوبہ 4بنیادی مراحل سے گزرکرمکمل ہوتا ہے
سیف سٹی منصوبہ چار بنیادی ستونوں پر کھڑا کیا جاتا ہے جن میں جرائم اور دہشت گردی کی پیشگی روک تھام، خدشات کی نشاندہی، ریسکیو اور سیکیورٹی اداروں کا فوری رسپانس اور کسی واقع کے بعد ریکوری اور تفتیش جیسے مراحل شامل ہیں، ان چاروں مراحل کے لیے جدید ٹیکنالوجی پر مشتمل نظام سے مدد لی جاتی ہے جو ایک مرکزی کمانڈ سینٹر سے منسلک ہو تا ہے، شہروں کو محفوظ بنانے کے لیے پہلے مرحلے میں مشکوک افراد یا گاڑیوں کی نقل و حرکت، موبائل فون کالنگ ریکارڈ،بینک ٹرانزیکشن، ہوٹلوں کے ریکارڈ وغیرہ سے حاصل شدہ بگ ڈیٹا کے تجزیہ کی بنیاد پر کسی دہشت گردی کے خطرے یا جرم کی واردات کو وقوع پذیر ہونے سے پہلے روکا جاتا ہے اس مرحلے میں روایتی انٹیلی جنس کے ساتھ مصنوعی ذہانت (آرٹیفشل انٹلی جنس) سے بھی مدد لی جاتی ہے جو ڈیٹا کا تجزیہ کرکے نتائج یا امکانات مرتب کرتا ہے۔
بڑے شہروں کو محفوظ بنانے کے لیے جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گردوں کی نشاندہی دوسرا ستون ہے جس میں عوامی سطح پر ہونے والی کمیونی کیشن جس میں موبائل فون کالنگ کا تجزیہ، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے کی جانے والی کمیونی کیشن کی نگرانی کی جاتی ہے۔
اس کے ساتھ شہر میں حساس مقامات پر نگرانی کے جدید کیمروں کے ساتھ کیمکل، بائیولوجیکل، ریڈیالوجیکل اور نیوکلیئر سینسر بھی نصب کیے جاتے ہیں جنہیں خطرات کی نشاندہی کے نظام میں اصطلاحاًCBRNEکہا جاتا ہے، خطرے کی نشاندہی کے بعد متعلقہ ایجنسیوں کو الرٹ جاری کیا جاتا ہے تاکہ بروقت کارروائی کرکے جرائم پیشہ عناصر یا دہشت گردوں کے عزائم ناکام بنائے جاسکیں اس مقصد کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ایجنسیوں کو ایک مرکزی انفارمیشن کمیونی کیشن ٹیکنالوجی پلیٹ فارم مہیا کیا جاتا ہے جس میں اسپتال، فائر بریگیڈ، ایمبولینس سروس سمیت ہنگامی امداد کے دیگر تمام ادارے بھی شامل ہوتے ہیں، سیف سٹی کی افادیت یہاں ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ کسی ناخوشگوار واقعے کے بعد متاثرین کی شناخت، دہشت گردوں اور ملزمان کے گرد گھیرا تنگ کرنے، جائے وقوع سے ملنے والے شواہد کو محفوظ بنانے اور ان کی سائنسی جانچ سمیت سیف سٹی سے منسلک دیگر سینسرز سے ان شواہد کی تصدیق بھی اس نظام کا حصہ ہے۔
منصوبے کی تکمیل میں تکنیکی اور دیگر مسائل درپیش ہیں
سیف سٹی کے تصور کو عملی جامہ پہنانے میں سرمائے کی فراہمی کے علاوہ بھی متعدد تکنیکی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کراچی میں اس وقت متعدد کمیونی کیشن ٹیکنالوجیز استعمال کی جارہی ہیںقانون نافذ کرنے والے ادارے ایجنسیاں اور ریسکیو ادارے کمیونی کیشن کے لیے الگ الگ پلیٹ فارمز استعمال کرتے ہیں جنھیں باہم منسلک کرنا ایک اہم چیلنج ہے تاہم لانگ ٹرم ایولوشن LTE اور کمانڈ اینڈ کنٹرول سلوشن نے یہ مشکل آسان کردی ہے شہروں کو محفوظ بنانے کے لیے دنیا بھر میں ایل ٹی ای ٹیکنالوجی تیزی سے فروغ پارہی ہے خوش قسمتی سے پاکستان اور کراچی میں بھی ایل ٹی ای اور فورجی کمیونی کیشن ٹیکنالوجی کا انفرااسٹرکچر بے حد مضبوط ہے، شہروں کو محفوظ بنانے کے لیے شہر میں پہلے سے نصب نجی کیمروں کو بھی باہم مربوط کیا جاسکتا ہے، انٹیلی جنس ویڈیو سرویلینس کے لیے سوشل میڈیا نیٹ ورک پر گردش کرنے والی ویڈیوز سے بھی استفادہ ممکن ہے ۔
اس طرح شہر میں زیر استعمال لاکھوں اسمارٹ فونز بھی شہر کو محفوظ بنانے کے لیے نگرانی کے نظام کے لیے معاون ثابت ہوسکتے ہیں اس تکنیک کو زیادہ آسانی سے اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ کسی بھی بڑے شہر کے شہری، حکومت، شہری سہولتوں کے ادارے، قانون نافذ کرنے والے ادارے باہم مل کر دہشت گردی کے نیٹ ورک کے خلاف اپنا ایک موثر نیٹ ورک تشکیل دیتے ہیں جس کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانا، شہروں کو محفوظ بنانے کے لیے انفارمیشن کمیونی کیشن ٹیکنالوجی فرمز کی ترقی ناگزیر ہے مقامی سطح پر ڈیزائن اور تیار کردہ سلوشنز سیف سٹی کی لاگت کو کم اور افادیت کو بڑھاتے ہیں تاہم اس کے لیے آئی سی ٹی فرمز کو سرمائے کی فراہمی ایک بڑ ا مسئلہ ہے سیف سٹی یا اسمارٹ سٹی کے نظام کو کامیاب بنانے کے لیے شہری سہولتوں کے اداروں سمیت عام شہریوں ، گاڑیوں ، اسپتالوں، لینڈ ریونیو سمیت یوٹلیٹی اداروں کے ڈیٹا کی موثر منجمنٹ ناگزیر ہے سیف سٹی سسٹم اسی ڈیٹا کا تجزیہ کرکے خدشات کا تدارک اور سہولتوں سے استفادہ آسان بناتا ہے۔
اسمارٹ سٹی میں بجلی کی ترسیل کانظام بھی جدیدہوتاہے
ماہرین کے مطابق شہریوں کی زندگی کو محفوظ بنانے کے ساتھ روزمرہ امور کی انجام دہی کو آسان بنانا بھی اسمارٹ سٹی تصور کی اساس ہے بڑے شہروں میں کاروباری، نجی اور سماجی زندگیاں بجلی کی متواتر اور بلاتعطل فراہمی کے بغیر جاری نہیں رہ سکتیں اس لیے اسمارٹ سٹی سلوشنز میں بجلی کی ترسیل کے نظام کو بھی اسمارٹ بنایا جاتا ہے نگرانی کے کیمروں کو متبادل توانائی کے ذرائع سے بجلی مہیا کی جاتی ہے اسی طرح اسٹریٹ لائٹس اور عوامی مقامات کو بھی سولر یا ونڈ انرجی سے منسلک کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ گرڈ کی گنجائش بجلی کی طلب و رسد پر بھی اسی نظام کے ذریعے نظر رکھی جاتی ہے بڑے شہروں میں ٹرانسپورٹ کا جدید نظام بھی اسمارٹ سٹی سلوشنز سے منسلک ہوتا ہے تاکہ انٹیلی جنٹ ٹرانسپورٹ سسٹم کی بدولت ایک مقام سے دوسرے مقام تک کم سے کم وقت میں پہنچنے میں مدد مل سکے شہریوں کو اژدھام والے علاقوں اور متبادل راستوں کی نشاندہی بھی اسی نظام سے کی جاتی ہے جبکہ شہر بھر میں عوامی مقامات پر پارکنگ کا نظام شہر کے داخلی خارجی راستوں پر ٹول ٹیکس مینجمنٹ اور پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بھی اسمارٹ سٹی سے منسلک ہوتا ہے، بڑے شہروں کا فراہمی ونکاسی آب کا نظام بھی اسمارٹ سٹی کے مرکز ی نظام سے جڑا ہوتا ہے تاکہ آبادی کی بنیادی ضرورتوں کو احسن انداز میں پورا کیا جاسکے، وسائل کو ضایع ہونے سے بچایا جاسکے، فراہمی و نکاسی آب کے اداروں کو پانی کے استعمال اور سیوریج کی مقدار کے لحاظ سے فیس ریکوری میں مدد مل سکے۔
اسمارٹ سٹی نظام شہری سہولت کے تمام اداروں کے دفتری نظام کو بھی آٹو میشن کے ذریعے بہتر بناتا ہے تاکہ شہریوں کے مسائل کم سے کم وقت میں حل ہوسکیں اور شہری سہولت فراہم کرنیوالے اداروں کے اعلیٰ انتظامی افسران تک شہریوں کے مسائل براہ راست پہنچائے جاسکیں جدید اور بڑے شہروں میں بلند عمارتوں کی نگرانی کے لیے بھی انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل کمیونی کیشن سلوشنز پر مشتمل مربوط نظام بھی سیف سٹی سے منسلک کیا جاتا ہے تاکہ شاپنگ سینٹرز، دفاتر اور کثیرالمنزلہ رہائشی عمارتوں کی سیکیوریٹی موثر بنائی جاسکے۔