جہاں کا نصاب مسائل نسواں

خواتین کے امور پر تدریس وتحقیق کرنے والے ’’ویمن اسٹڈی سینٹر‘‘ کا احوال

خواتین کے امور پر تدریس وتحقیق کرنے والے ’’ویمن اسٹڈی سینٹر‘‘ کا احوال۔ فوٹو: فائل

ہمارے معاشرے میں خواتین کی محرومی ہر سطح اور ہر جگہ پر کسی نہ کسی طرح موجود ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ کہیں اس کا کسی بھی طرح کا احساس اور شعور موجود نہیں، جب کہ کہیں خواتین اپنے اوپر اس زیادتی کو محسوس کر رہی ہوتی ہیں اور اس کے خلاف اپنی بساط کے مطابق آواز بھی بلند کر رہی ہوتی ہیں۔ معاشرتی رویوں کا یہی برتائو اور ان کی وجوہات کے ساتھ انہیں پروان چڑھانے والے عوامل کا عمیق گہرائی سے جائزہ اور سائنسی بنیادوں پر معاشرے سے لے کر تاریخ اور جغرافیے تک اس کی جڑیں ڈھونڈ کر ان کی بیخ کنی اور مناسب حل تجویز کرنا خالصتاً تحقیق کے میدان کا ہی کام ہے۔ مسئلے کی اصل تک پہنچنا اور پھر اس کا تدارک ہی دراصل مسئلے کا حقیقی حل ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ امر سست ہی رہے، لیکن اس کے موثر ہونے پر کسی کو شبہ نہیں ہونا چاہیے۔

خواتین کے مسئلے پر علمی سطح پر یوں باقاعدہ تدریس کا شعبہ بننا مسائل کے دیر پا حل میں مدد کے ساتھ عمومی رویوں میں بھی تبدیلی کا باعث بنتا ہے اور وہ لوگ جو براہ راست خواتین کے حقوق سلب کرنے میں ملوث نہیں وہ اس کے خدشے سے اور بھی دور چلے جاتے ہیں اور خواتین کے حوالے سے معاشرے کی یہی تبدیلی سوچ کی تبدیلی کہلاتی ہے، جو اپنے زیادہ مثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔ خواتین کے مسائل کے تعلق سے اس ہی خیال کو لے کر جامعہ کراچی میں ''ویمن اسٹڈی سینٹر'' کا قیام عمل میں آیا، جس میں خواتین کے مختلف مسائل کو باقاعدہ ایک نصاب کی شکل دے کر پڑھایا جاتا ہے۔

جامعہ کراچی میں اپنی نوعیت کے اس منفرد شعبے میں خواتین کی روزمرہ زندگی، رہن سہن، عائلی زندگی، گھریلو معاملات اور پیشہ ورانہ امور سے جڑے مختلف مسائل اور حقوق سے محرومی کے امور کو باقاعدہ تدریس اور تحقیق کا موضوع بنایا جاتا ہے۔ گریجویشن کی سطح سے ایم اے اور پی ایچ ڈی کے اعلا درجوں تک اس پر تحقیق کی جاتی ہے تاکہ معاشرے میں ان کے مسائل کو باقاعدہ سائنسی بنیادوں پر پرکھا جائے۔ ان کی وجوہات کا جائزہ لے کر ان کے محرکات اجاگر کیے جائیں اور ان کا بہتر اور قابل قبول حل تجویز کیا جائے۔

ویمن اسٹڈی سینٹر دراصل عمرانیات کی ہی ایک شاخ ہے، جو صنف نازک کے حوالے سے تخصیصی تدریس وتحقیق کرتا ہے۔ جیسے ڈائریکٹر ویمن اسٹڈی سینٹر ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ نے اپنے گھروں میں معاشی جدوجہد کرنے والی خواتین پر تحقیق کی۔ انہوں نے اپنی پی ایچ ڈی کی تحقیق کے دوران 2005ء سے 2009ء تک کراچی بھر کی ایسی 1800 خواتین کے اعداد وشمار جمع کر کے ان کی ایک باقاعدہ ڈائریکٹری بھی مرتب کی، جس میں اپنے گھر میں محنت کرنے والی خواتین کی تمام ضروری معلومات، مسائل اور ضروری کوائف موجود ہیں۔ اس ڈائریکٹری کا جائزہ لیا جائے تو معلوم چلتا ہے کہ خواتین ہر وہ کام کر رہی ہیں جو کہ کسی بھی کارخانے یا فیکٹری میں مرد انجام دے رہے ہیں۔ ایک طرف ہنر کے ذریعے مختلف کام جیسے سلائی کڑھائی، پیکنگ اورمختلف دست کاریاں، تو دوسری طرف مختلف اوزاروں اور مشینوں کا استعمال بھی موجود ہے۔ مختلف کارخانوں کے کام کرنے کے ساتھ وہ نہایت محدود پیمانے پر اپنا کام بھی کر رہی ہیں، جیسے بہت سی ایسی خواتین نے گھر میں اپنی کریانے کی دکان کھول رکھی ہے، اس کے علاوہ موم بتیاں، اگر بتیاں بنانا، لیس بنانا، مٹی کے برتن بنانا، اچار اور مختلف مسالا جات کی تیاری، پیاز بگھارنا اورکھانے تیار کرنا وغیرہ ۔

اس تحقیق سے پتا چلا کہ اپنے گھروں میں بیٹھی معاشی جدوجہد کرنے والی خواتین کا کام بڑے جان جوکھم کا ہے اور ان کے مسائل ایک عام ملازمت پیشہ خاتون سے بالکل جداگانہ ہیں۔ ایک طرف گھر داری اور شوہر و بچوں کی ذمہ داریاں اٹھانی ہیں تو دوسری طرف یہ مشقت بھی ایسی کہ بروقت کام پورا نہ ہونے تک خدشات کی سولی پر لٹکی رہتی ہیں۔ پھر انہیں اپنے کام کی اُجرت بھی خاصی کم ملتی ہے، لیکن چوں کہ بعض معاملات اور ذمہ داریوں کی بنا پر گھروں سے نکلنا ان کے لیے ممکن نہیں ہوتا اس لیے یہ گھر کی دہلیز پر کام ملنے کو غنیمت جانتی ہیں اور روزانہ دس، دس گھنٹے کام کر کے اپنی زندگی کی گاڑی کو آگے دھکیل رہی ہیں۔ بہت سے گمبھیر مسائل سے دوچار ان خواتین کو اپنے مسائل کے حوالے سے شعور کی خاصی کمی ہے۔




انہیں اس چیز کی آگہی دینے کی ضرورت ہے کہ کس طرح وہ اپنی محنت کا بہتر معاوضہ پاسکتی ہیں یا اپنی سہولت یا ترقی کے مواقع پیدا کرسکتی ہی، کیوں کہ موجودہ حالات میں تو ان کی بہتری کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ان کی ایک انجمن ہو جو مشترکہ طور پر ان کے مسائل کے حل کے لیے بات کرے۔ گھروں میں کام کرنے والی خواتین چوں کہ ایک دوسرے سے ہی واقف نہیں ہوتیں، کہ مختلف کارخانوںکی طرف سے انہیں گھر پر مال دیا جاتا ہے اور گھر سے ہی لے لیا جاتا ہے۔ اس لیے انہیں ایک دوسرے کے مسائل سے آگاہی پیدا نہیں ہوتی۔ خاص طور پر فراہم کنندہ یا مڈل مین جو مال لاتا اور لے جاتا ہے، بھی اپنا کمیشن لیتا ہے، جس کی وجہ سے خود بہ خود ان کی مزدوری کم ہو جاتی ہے۔

ویمن اسٹڈی سینٹر کی طرف سے گھریلو محنت کش خواتین میں اپنے حقوق کی شعور و آگاہی کے علاوہ بلا سود قرضوں کی فراہمی تجویز کی، تاکہ یہ خواتین اپنے آگے بڑھنے کے مواقع پیدا کریں۔ اپنے ہنر کی بنیاد پر اپنے کام کو وسعت دیں اور اپنی تیار کردہ مختلف مصنوعات کے لیے کسی نمایش کا اہتمام کریں، تاکہ ان کے اپنے کام شروع کرنے کے مواقع پیدا ہوں۔ ویمن اسٹڈی سینٹر کے تحت لڑکیوں میں شرح خواندگی، محنت کش لڑکیوں، قیدی خواتین، گداگر بچیوں کے حوالے سے بھی اہم تحقیقی کام کیے گئے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔

ویمن اسٹڈی سینٹر سے فارغ التحصیل طلبا کے لیے درس وتدریس کے علاوہ سرکاری سطح پر قائم بہبود نسواں کے محکمے اور دیگر غیر سرکاری تنظیموں سمیت بین الاقوامی اداروں میں کیرئیر کے بہترین مواقع موجود ہیں۔ جہاں وہ خواتین کے حقوق کے حوالے سے کسی بھی دوسرے فرد سے زیادہ بہتر طریقے سے اپنی ذمہ داریاں انجام دے سکتی ہیں۔ جامعہ کراچی کے علاوہ دیگر جامعات میں خواتین کے معاشرتی مسائل پر تدریس کرنے والے ادارے جینڈر اسٹڈیز کے نام سے ہیں۔ جامعہ کراچی میں بھی ویمن اسٹڈی سینٹر کا نام بدلنے کی کوشش کی گئی تاہم اساتذہ کی مزاحمت کے سبب ایسا نہ ہوسکا۔

ویمن اسٹڈی سینٹر محض ایک درس گاہ ہی نہیں، بلکہ حقوق نسواں کی جدوجہد کا ایک روشن باب ہے۔ خواتین کے مسائل اور ان کے حقوق کے حوالے سے جب بھی بات کی جائے گی، اس شعبے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، کیوں کہ یہاں درحقیقت معاشرے میں بنت ہوّا کو اس کا حقیقی مقام دینے کی جدوجہد کی جا رہی ہے اور عورتوں کے وہ مسائل جو کہ دوسروں کے لیے صرف ایک مسئلے کی حیثیت سے اپنی شناخت رکھتے ہیں، وہ یہاں اساتذہ کی زیر نگرانی اچھی طرح جانے اور پرکھے جاتے ہیں اور پھر سائنسی بنیادوں پر ان کے حل بھی تجویز کیے جاتے ہیں۔

خواتین کے لیے بلاسود قرضے

ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ گزشتہ ایک عشرے سے ویمن اسٹڈی سینٹر کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے موجود ہیں۔ دوران تدریس و تحقیق انہوں نے جب خواتین کے مسائل کو قریب سے دیکھا تو صرف ان کا حل ہی تجویز نہیں کیا، بلکہ عملاً ان کے مسائل کے حل کے لیے انہوںنے ''انجمن ترقی نسواں'' کے تحت اپنے گھروں میں کام کرنے والی ان خواتین کے معاشی مسائل کے حل کے لیے بلاسود قرضوںکا اجرا شروع کیا۔ اس حوالے سے انہوں نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ جب میں نے اتنی ساری خواتین اور ان کے کٹھن حالات کو دیکھا تو اپنی تحقیق سے بڑھ کر بساط بھر ان کی مدد کا فیصلہ کیا اور ان کے لیے بلاسود قرضوں کا سلسلہ شروع کیا اور الحمدللہ ان قرضوں کی واپسی کاتناسب 100 فی صد ہے۔ اگرچہ ان خواتین کی مالی مجبوریوں کے سبب رقم کی واپسی میں تاخیر ہو جاتی ہے، لیکن مل ضرور جاتی ہے۔ یہ اسی شعبے کا خاصہ ہے کہ یہ نہ صرف معاشرے میں خواتین کے مسائل کا حل تجویز کرتا ہے، بلکہ خواتین کے مسائل اتنے قریب سے جاننے کے بعد خود ہی ان کے حل کی طرف مائل بھی کرنے لگتا ہے۔

ربع صدی کا سفر

ویمن اسٹڈی سینٹر کا قیام 1989ء میں عمل میں آیا، یوں اس کے قیام کو ربع صدی بیتنے کو ہے۔ یہاں تدریس کی ابتدا بی اے اور ایم اے کی سطح سے ہوئی۔ 2002ء میں ایم فل اور پی ایچ ڈی پروگرام کی داغ بیل ڈالی گئی، جس میں اب تک5 طلبہ وطالبات ڈاکٹریٹ حاصل کر چکے ہیں۔ 2004ء میں جامعہ کراچی میں بی اے کی سطح پر ضمنی مضمون کے طور پر شامل کیا گیا، جب کہ 2007ء میں چار سالہ بی ایس پروگرام اور 2010ء میں ایم اے ایوننگ پروگرام شروع ہوا۔ ویمن اسٹڈی سینٹر میں بی ایس سے پی ایچ ڈی تک تدریس کے ساتھ ساتھ ایچ ای سی سے منظور شدہ مختلف تحقیقی جرائد بھی جاری کیے جاتے ہیں۔ کئی کتب بھی شایع کی جاچکی ہیں۔ ویمن اسٹڈیز کو اب سی ایس ایس اور کالجوں میں بی اے کے نصاب میں شامل کرانے کی جستجو جا ری ہے۔ اس کے علاوہ ریسرچ میتھالوجی اور این جی او مینجمنٹ کے ایک سیمسٹر پر مشتمل کورسز بھی متعارف کرانے کا ارادہ ہے۔ اس وقت ایم اے فائنل میں 70 طلبا زیر تعلیم ہیں، جو مختلف معاشرتی موضوعات پر مقالے بھی لکھ رہے ہیں، جب کہ 20 سے زاید طلبا ایم ایس اور پی ایچ ڈی کے مراحل طے کر رہے ہیں۔ صنف نازک سے منسوب اس شعبے میں کُل 400 طلبا زیر تعلیم ہیں، جس میں سے دس سے پندرہ فی صد لڑکے بھی ہیں۔
Load Next Story