چھوٹے کاروباروں کی دنیا

ہمارے ملک میں طبقے اورذات پات کو ہمیشہ مدِ نظر رکھا جاتا ہے۔

ali.dhillon@ymail.com

کیا وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ خوشحالی سے محروم ہے؟ خوشحالی تب تک ہمارامقدر نہیں بن سکتی جب تک ہم اپنی ذہنیت کو آلودگی سے پاک نہیں کر لیتے۔ اس کی تازہ مثال وزیرا عظم عمران خان کے مرغی اور انڈوں کے حوالے سے بیان کی لے لیں جس میں انھوں نے چکن کے کاروبار کوملک کی 58 فیصد آبادی تک منتقل کرنے کی بات کی مگر یہ بیان یوں وائرل کیا گیا کہ جیسے یہ کام ریاست کے خلاف کیا جانے والا ہو! حالانکہ دنیا کے بڑے بڑے ممالک جو ترقی پذیر سے ترقی یافتہ ریاست بنے وہ اسمال انڈسٹری سے یا چھوٹے کاروبار کے ذریعے ہی بنے۔ آج جرمنی مسلسل تیسرے برس دنیا کے سب سے بڑے ٹریڈ سرپلس رکھنے والے ملک کا اعزاز حاصل کرنے کی راہ پر ہے۔ دنیا کو 34 فیصد گاڑیاں فراہم کر رہا ہے۔

جاپان اور چین نے بھی گھریلو استعمال کی اشیاء کی چھوٹی فیکٹریاں لگائیں اور اس انڈسٹری کے بے تاج بادشاہ بن گئے۔ امریکا نے مائیکروسافٹ کمپنی کی مدد سے بے تحاشا اربوں ڈالر کما کر نہ صرف ملکی معیشت میں حصہ ڈالا بلکہ ملک کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ پھر آپ آسٹریلیا کی مثال لے لیں جس نے محض لائیو اسٹاک کے ذریعے اپنی معیشت کو سہارا دیا۔ آج آسٹریلیا سعودی عرب کو قربانی کے موقعے پر بھیڑیں دینے والاسب سے بڑا ملک ہے جس کا تخمینہ اربوں ڈالر ہے۔ فِن لینڈ کا چھوٹا سا شہر ''نوکیا'' جس نے موبائل کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا، ہالینڈ نے زراعت کی دنیا میں ایسی ٹیکنالوجی متعارف کرائی ہے کہ وہاں کی تیار کردہ مشینری آج ہر جگہ استعمال کی جا رہی ہے۔

پھر امریکا، چین، یورپ ان کی معیشت کے ستون چھوٹے کاروباروں سے پیوستہ ہیں چین نے آزادانہ معاشی ترقی کا سفر 1978ء سے شروع کیا اور اس ملک میں 1992ء تک چھوٹے کاروبار کا جال بچھ گیا تھا۔ہنری جان ہینز نے ابتداً چھوٹے پیمانے پر اچار، کیچپ بنائے اور گھوڑا گاڑی پر سپلائی کیے آج Heinz پراڈکٹ ایک عالمی چین اسٹور ہے، لیکن ان سب مثالوں کے برعکس وہ لوگ بھی حکومت پر تنقید کرنا شروع کر دیتے ہیں جنھیں معیشت، زرمبادلہ یا امپورٹ ایکسپورٹ کی الف ب کا بھی علم نہیں ہوتا۔ سوچ بدلنے کو کوئی تیار نہیں۔

ہمارے ملک میں طبقے اورذات پات کو ہمیشہ مدِ نظر رکھا جاتا ہے۔ یہ نہیں پرکھا جاتا کہ ایک انسان میں کیا کیا ہنر اور قابلیت موجود ہے۔ غریب لوگوں کو ہمیشہ چھوٹے پیشوں سے وابستہ رکھا جاتا ہے اور بڑے بڑے اعلیٰ اقسام کے کاروبار اور تجارت میں امیر لوگوں کی ہی خدمات لی جاتی ہیں۔ کسی کی قابلیت کسی ایک کاروبار کو کسی شخص کی پہچان تصور کر لیا جاتا ہے اور اس کی نسلوں کو بھی اسی کاروبار میں رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسے ہم تنگ نظری کہیں یا سوچ کا قصور؟ ہم کیوں مثبت سوچ اور خیالات کی طرف نہیں جاتے؟ جب صورتِ حال یہ ہے تو ملک کیسے ترقی کی منازل طے کر سکتا ہے؟ خوشحال ملک کیسے کہلا سکتا ہے؟

ہماری سوچ دودھ کی نہروں، شہد کے چشموں اور زیر زمین سونے کے ذخائر تک محدود کر دی گئی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ ہم کچھ بھی نہ کریں اور پیسہ بھی بے تحاشہ آجائے، اسی لیے ہم ایسی کسی تجویز کو ذہن پر ''سوار'' نہیں کرتے جس میں محنت درکار ہو۔ بقول علامہ اقبال ؒ


نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

اقبال ؒ کا یہ شعر اس معاشرے پر اس لیے نہیں تھا کہ ہم رٹے لگائیں اور جگہ جگہ اس شعر کو پڑھ کر سنائیں بلکہ انھوں نے بھی اس قوم کو محنت کرنے کا کہا تھا۔ انھوں نے اس قوم کے نوجوانوں کو بار بار مخاطب کیا تھا کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ ہمیشہ نوجوان ہی ملک کی تقدیر بدلا کرتے ہیں، ہمارے نوجوانوں کو چاہیے کہ کاروبار شروع کرنے کے لیے مقامی حالات، ڈیمانڈ، سپلائی، پوزیشنز کا جائزہ لیں، صنعتی علاقوں میں جائیں اپنے دوست اقارب جو کسی کاروبار سے منسلک ہوں ان کے پاس کچھ وقت گزاریں اور اپنی ذہنی استعداد، قابلیت، معلومات اور دلچسپی کے مطابق کسی کاروبار کا انتخاب کریں۔ وہ کوئی چھوٹا کارخانہ لگا سکتے ہیں جس میں اوزار بن سکیں یا خوراک کی فراہمی کے لیے پیکیجنگ یا ٹریڈنگ جیسے مال ایک جگہ سے دوسری جگہ سپلائی کرنا بھی متوقع شعبے ہوسکتے ہیں۔

خدمات میں کاروبار کے لیے بھی وسیع مواقعے موجود ہیں بوتیک قائم کرنا، خواتین کے لیے بیوٹی پارلر، بچوں کا ڈے کیئر سینٹر، الغرض کئی امکانات موجود ہیں اگر کسی نوجوان کے علاقے میں کھیلوں کے میدان ہیں مگر بچے بیٹ بال، ہاکی یا دیگر اشیا کے خریدنے کے لیے دور جاتے ہوں تو وہاں وہ سپلائی بیس بن سکتا ہے۔ یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ ہر پراڈکٹ جو مارکیٹ میں موجود ہے اس کے پیچھے ایک پورا مارکیٹ میکنزم موجود ہے۔ خام مال کی تیاری سے مکمل پراڈکٹ تیار ہونے تک اس کی سپلائی چین میں کئی اسٹیک ہولڈرز ہیں جن سے ایک آپ بن سکتے ہیں۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ جو پراڈکٹ آپ نے منتخب کی ہے اس میں ٹیکنالوجی کی کیا اہمیت ہے کیونکہ جو پراڈکٹ جتنی زیادہ عمدہ ٹیکنالوجی سے تیار ہوگی مارکیٹ میں اس کی قیمت اتنی ہی زیادہ ہوگی۔

ہو سکتا ہے وزیر اعظم عمران خان کا مقصد یہی ہو کہ ہم غربت ختم کرنے کے لیے مل کر کام کریں، چھوٹے کاروبار کی طرف توجہ دیں ۔لیکن ہم نے ہاہاکار مچانی ہے اور ایسی مچانی ہے کہ اس ملک میں اگر نیلسن منڈیلا بھی آجائے تو ہماری اجتماعی فکر دیکھ کر حوصلہ ہار بیٹھے۔ اگرچہ بیشتر نوجوان کمپیوٹر چلانے سے واقف ہوتے ہیں اگر نہیں تو اپنے فکسڈ انوسٹمنٹ میں ایک کمپیوٹر سسٹم خریدنے کی گنجائش پیدا کریں کمپیوٹر چلانا سیکھیں انٹرنیٹ کی سہولت حاصل کریں اور اپنے مجوزہ کاروبار کے بارے میں مکمل آگہی حاصل کریں۔ ہم اس سوچ سے آگے بڑھیں گے تو یقینا ہم چھوٹے کاروباروں کی دنیا میں کھو جائیں گے، یہی چھوٹے کاروبار بڑے بن جائیں گے، جس سے یہ ملک بھی ترقی کرے گا اور ہم بہترین اقوام میں شمار کیے جائیں گے۔
Load Next Story