آ گہی
اعضاء کے فیل ہوجانے کے درد وکرب کو تو وہ مریض اور اس کے قریبی عزیزواقارب ہی جانتے ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میںشعور وآگہی کی کمی سے انسانیت کا نقصان ہو رہا ہے جس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ ایک مریض جس کے اعضاء کام کرنا چھوڑ دیں، وہ زندگی حاصل کرنے کے لیے ناواقفیت کی وجہ سے اپنی قیمتی جان سے ہاتھ دھونا بیٹھتا ہے۔ اعضاء کے فیل ہوجانے کے درد وکرب کو تو وہ مریض اور اس کے قریبی عزیزواقارب ہی جانتے ہیں جو مجبوری اور لاچاری کی تصویر بنے رہتے ہیں۔
اس کی واضح مثال یہ ہے کہ اس خرید وفروخت جیسے جرم کو لگام دینے یا ختم کرنے کا قانون بنانے میں 16برس لگے، اس کی بنیادی وجہ بھی آگہی کا نہ ہونا تھا، عوام کو بتایا ہی نہیں گیا تھا کہ اعضاء کی خریدوفروخت جرم ہے نہ ہی عوامی نمائندے اس باریکی کو سمجھ پا ئے تھے کہ یہ نہ صرف غریبوں کا استحصال ہے بلکہ بین الاقوامی دنیا میں پاکستان اعضاء کے سستے ترین بازارکے نام پر بد نام ہو رہا ہے لیکن جب پاکستان میں گردے کی پہلی پیوندکاری ملک کے مایہ ناز ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے 1985ء میں کشمیر سے آنے والے 22 سالہ رشیدکی اور ان کو ان ہی کے سگے بھائی کا گردہ لگایا گیا۔
اس کامیاب سرجری کے بعد رشید 25 سال حیات رہے، اس بونس میں ملی زندگی سے دوسری ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ بچوں کی تعلیم مکمل کروائی لیکن اس کامیاب سرجر ی کی روشنی کے ساتھ ہی ڈاکٹر ادیب رضوی نے وہ اندھیرا بھی دیکھ لیا تھا جس میں ایک بڑی تعداد ان ضرورت مند اور غریب لوگوں کی بھی سامنے آئی جو اپنی کم مائیگیوں کے سبب اعضاء فیل ہوجانے والوں کو اپنے عضو فروخت کرنا چاہتے تھے اور اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے اعضاء کی پیوندکاری جیسی تیکنیکی کامیابی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسے ادارے بھی وجود میں آنے لگے جو اعضا ء فیل ہوجانے والے مخیرحضرات سے لاکھوں روپے وصول کر کے غریبوں سے انتہائی سستے داموں خرید کر اپنا کاروبار چمکانے کی طرف چل پڑے ۔
ان معاملات کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر ادیب رضوی اور ان کی ٹیم نے فیصلہ کر لیا کہ کسی کے بھی اعضاء فیل ہو جانے کی صورت میں صرف خونی رشتہ رکھنے والے ہی اپنا عضو عطیہ کرسکتے ہیں جس میں بھائی، بہن، ماں باپ ، شوہر، بیوی اور بیٹا بیٹی کیونکہ یہ ہی وہ رشتے ہیں، جن پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے کہ جہا ں کچھ دینے کے بعدکچھ لینے کی سوچ کا عنصر شامل نہ ہوسکے اور اس طرح خرید و فروخت کے اس مکروہ عمل کو روکنے کی طرف یہ پہلا قدم تھا۔
دوسرا قدم انھوں نے یہ اٹھایا کہ پاکستان میں اعضاء کی خرید و فروخت کا بازار بننے سے بچانے کے لیے ملک میں قانون نافذ کرنے کی کوششیں شروع کردیں اور بالاخر 16 برس کی انتھک محنت اور جدوجہد کے بعد انسانی اعضاء کی پیوندکاری کا قانون 2010ء میں پاس ہوگیا جس میں ایسے کاروبار میں ملوث لوگو ں کے لیے سخت ترین سزائیں تجویزکی گئی ہیں لیکن یہ قانون پاس تو ہوگیا اور اس میں اتنا طویل عرصے اس ہی لیے لگا کہ عوام میں آگہی کا فقدان تھا،کسی بھی بات کو منوانے کے لیے عوامی دباؤ محرک ہوتا ہے اور عوام کو متحرک رکھنے کے لیے ان میں آگہی لازمی جزو ہے لیکن قانون پاس ہونے کے بعد بھی صرف اتنی ہی تبدیلی آئی کہ پہلے یہ گھناؤنی تجارت کھلے عام ہورہی تھی وہ پھر بند دروازو ں کے پیچھے ہونے لگی اور آج تک جاری ہے۔ یاد رہے (2012ء سے 2018ء کے اوائل تک لاتعداد غیر قانونی طور پر اعضاء کی پیوندکاری ہوئی جس میں سے صرف25 مقدمات درج کیے گئے ہیں جن میں ڈاکٹرز بشمول پیرا میڈیکل اسٹاف کی گرفتاریاں عمل میں آچکی ہیں لیکن ابھی تک ان مقدموں میںعدالت کی طرف سے حتمی سزاؤں کا تعین نہیں ہوسکا)
میں سمجھتی ہوں کہ اس گھناؤنے کاروبارکو ختم اس ہی طرح کیا جاسکتا ہے کہ اعضاء کی طلب اور رسدکا توازن قائم رکھنے کے راستے اختیارکیے جائیں اور یہ سب اس ہی وقت ممکن ہے جب عوام میں آگہی ہوگی اور یہ ریاست کی بھی ذمے داری ہے اور معاشر ے میں عوام سے منسلک ان انسٹیٹیوشن کی بھی جو ہماری زندگی کے اہم جز ہیں جن میں پرنٹ میڈیا ان سے بڑھ کر الیکٹرونک میڈیا اور سب سے بڑھ کر سوشل میڈیا جو ان معاملات میں خاموش ہیں۔
بڑے وثوق سے میں اس بات کوکہہ رہی ہوں کہ جو بل16 سال تک اسمبلی اور قائمہ کمیٹیوں کی راہداریو ں میں گردش کرتا رہا ہو صرف اسی سبب سے کہ نہ عوام کو آگہی تھی نہ ہی عوامی نمائندوں کو ۔ تاہم اس کا اتنی طویل مدت کے بعد پاس ہوجانا بہت بڑی خبر تھی لیکن یہ خبر بھی ایک یا دو بار ہی نشر ہوئی ورنہ نتیجہ ''وہی ڈھاک کے تین پا ت''کہ آگہی اور خیرکی خبروں سے مبرا وہ بریکنگ نیوز جو مسائل کے حل تو نہیں تشویش کے پیغا م دے جاتی ہیں۔
کسی بھی شے کی طلب اس وقت کم ہوتی ہے، جب وہ وافر مقدار میں موجود ہو ایسی ہی صورتحال اعضاء کے حوالے سے بھی ہے کہ اگر اعضاء آپ کے Organ Bank میں موجود ہوں تواس کی خرید وفروخت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، لہذا اس مسئلے کے سدباب کے لیے اور اعضاء کی دستیابی کو ممکن بنانے کے لیے میں نے بحیثیت ایک سماجی کارکن و ممبر قومی اسمبلی 2014ء میں انسانی اعضاء اور عضلات کی پیوندکاری کا ترمیمی بل ایوان میں متعارف کروایا جس کے چند نکات یہ تھے جن کی رو سے ڈرائیونگ لائسنس اور شناختی کارڈ میں ایک خانے کا اضافہ کیا جائے، جہاں ہر ذی شعور انسان اپنی خواہش سے وصیت کے طور پر ہاں یا نہیں پر نشان لگا سکتا ہوکہ بعد از مرگ وہ اپنے اعضاء کسی کی زندگی بچانے کے لیے عطیہ کرنا چاہتا ہے۔
اس ترمیم کی تشریح یہ ہے کہ قدرت کے نظام کے تحت اور میڈیکل سائنس کے مطابق انسان کی موت کے بعد48 سے72 گھنٹے بعد تک اعضاء کسی دوسرے زندہ انسان کے جسم میں منتقل کیے جا سکتے ہیں کیونکہ ایک انسان کے مردہ جسم سے حاصل کردہ اعضاء سے 17 انسانوں کی جان بچائی جا سکتی ہے۔الحمدللہ یہ بل قائمہ کمیٹیوں کے پر پیج راستو ں سے گزرتا ہوا اسمبلی میں متفقہ طور پر پاس ہوا اور اب سینیٹ کے فیصلے کا عرصہ دراز سے منتظر ہے۔ یاد رہے ہزاروں ایسے مریض جن کے اعضاء فیل ہوچکے ہیں۔
سینیٹ کے فیصلے سے ان کو نئی زندگیاں مل سکتی ہیں ( واضح رہے ملک میں حادثاتی اموات کے باعث ہزاروں انسانی اعضاء ضایع ہو جاتے ہیں) گزشتہ دنوں میں سپریم کورٹ نے بھی اس مسئلے پر آواز اٹھائی اور چیف جسٹس نے اس کاروبارکو ختم کرنے کے لیے نہ صرف احکامات جاری کیے اور ساتھ ہی بعد ازمرگ اپنے اعضا ء بھی عطیہ کرنے کی وصیت کی لیکن جیساکہ میں نے تحریرکیا کہ اعضاء کی ضرورت اپنی جگہ موجود ہے اب اس کی موجودگی کے امکانات کو قوی بنانے کی ضرورت ہے جس کے لیے بعد از مرگ اعضا ء کے بارے میں وصیت لکھنے کے عمل کو اور''خیر'' کے طریقے کارکے بارے میں اتنی آگہی پھیلائی جائے کہ ہر خاص وعام اپنی ذمے داری کو محسوس کرے،کیونکہ پاکستان چیریٹی کرنے والوں کی فہرست میں صف اول کے ممالک میں اپنا ایک مقام رکھتا ہے اور مجھے یقین ہے کہ صیح سمت میں ملنے والی آگہی اعضاء عطیہ کرنے والے ملکو ں کی فہرست میں پاکستان کو لاکھڑا کرے گی۔
میں دست بستہ گزارش کرتی ہوں کہ اس مکروہ عمل کے خاتمے کے لیے سب کو مل کر اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ تمام سرکاری اور غیر سرکاری اشتہارا ت میں، درسی کتابوں، ہوٹلوں و ریستورانوں اور یوٹیلیٹی کے بلوں کے ساتھ ساتھ ریلوں، بسوں اور ہوائی ٹکٹوں کے ایک کونے پر اعضاء عطیہ کرنے کی آگہی کے پیغام کی تشہیرکی جائے کیونکہ مہیا کیے گئے اعضاء کی فراوانی ہی اس جر م کی بیخ کنی کر سکتی ہے اور عوام میں آگہی کے لیے یہ سب بہت ضروری ہے۔
شفاء و زندگی دینے والا اللہ، صحت کا را ستہ دکھانے والی اسی رب کی اشرف المخلوقات جن میں ڈاکٹرز، قانون ساز ادارے اور مثبت سوچ رکھنے والی وہ عوام جو متحرک ہوجائیں تو ہر منزل آسان۔
اس کی واضح مثال یہ ہے کہ اس خرید وفروخت جیسے جرم کو لگام دینے یا ختم کرنے کا قانون بنانے میں 16برس لگے، اس کی بنیادی وجہ بھی آگہی کا نہ ہونا تھا، عوام کو بتایا ہی نہیں گیا تھا کہ اعضاء کی خریدوفروخت جرم ہے نہ ہی عوامی نمائندے اس باریکی کو سمجھ پا ئے تھے کہ یہ نہ صرف غریبوں کا استحصال ہے بلکہ بین الاقوامی دنیا میں پاکستان اعضاء کے سستے ترین بازارکے نام پر بد نام ہو رہا ہے لیکن جب پاکستان میں گردے کی پہلی پیوندکاری ملک کے مایہ ناز ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے 1985ء میں کشمیر سے آنے والے 22 سالہ رشیدکی اور ان کو ان ہی کے سگے بھائی کا گردہ لگایا گیا۔
اس کامیاب سرجری کے بعد رشید 25 سال حیات رہے، اس بونس میں ملی زندگی سے دوسری ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ بچوں کی تعلیم مکمل کروائی لیکن اس کامیاب سرجر ی کی روشنی کے ساتھ ہی ڈاکٹر ادیب رضوی نے وہ اندھیرا بھی دیکھ لیا تھا جس میں ایک بڑی تعداد ان ضرورت مند اور غریب لوگوں کی بھی سامنے آئی جو اپنی کم مائیگیوں کے سبب اعضاء فیل ہوجانے والوں کو اپنے عضو فروخت کرنا چاہتے تھے اور اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے اعضاء کی پیوندکاری جیسی تیکنیکی کامیابی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسے ادارے بھی وجود میں آنے لگے جو اعضا ء فیل ہوجانے والے مخیرحضرات سے لاکھوں روپے وصول کر کے غریبوں سے انتہائی سستے داموں خرید کر اپنا کاروبار چمکانے کی طرف چل پڑے ۔
ان معاملات کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر ادیب رضوی اور ان کی ٹیم نے فیصلہ کر لیا کہ کسی کے بھی اعضاء فیل ہو جانے کی صورت میں صرف خونی رشتہ رکھنے والے ہی اپنا عضو عطیہ کرسکتے ہیں جس میں بھائی، بہن، ماں باپ ، شوہر، بیوی اور بیٹا بیٹی کیونکہ یہ ہی وہ رشتے ہیں، جن پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے کہ جہا ں کچھ دینے کے بعدکچھ لینے کی سوچ کا عنصر شامل نہ ہوسکے اور اس طرح خرید و فروخت کے اس مکروہ عمل کو روکنے کی طرف یہ پہلا قدم تھا۔
دوسرا قدم انھوں نے یہ اٹھایا کہ پاکستان میں اعضاء کی خرید و فروخت کا بازار بننے سے بچانے کے لیے ملک میں قانون نافذ کرنے کی کوششیں شروع کردیں اور بالاخر 16 برس کی انتھک محنت اور جدوجہد کے بعد انسانی اعضاء کی پیوندکاری کا قانون 2010ء میں پاس ہوگیا جس میں ایسے کاروبار میں ملوث لوگو ں کے لیے سخت ترین سزائیں تجویزکی گئی ہیں لیکن یہ قانون پاس تو ہوگیا اور اس میں اتنا طویل عرصے اس ہی لیے لگا کہ عوام میں آگہی کا فقدان تھا،کسی بھی بات کو منوانے کے لیے عوامی دباؤ محرک ہوتا ہے اور عوام کو متحرک رکھنے کے لیے ان میں آگہی لازمی جزو ہے لیکن قانون پاس ہونے کے بعد بھی صرف اتنی ہی تبدیلی آئی کہ پہلے یہ گھناؤنی تجارت کھلے عام ہورہی تھی وہ پھر بند دروازو ں کے پیچھے ہونے لگی اور آج تک جاری ہے۔ یاد رہے (2012ء سے 2018ء کے اوائل تک لاتعداد غیر قانونی طور پر اعضاء کی پیوندکاری ہوئی جس میں سے صرف25 مقدمات درج کیے گئے ہیں جن میں ڈاکٹرز بشمول پیرا میڈیکل اسٹاف کی گرفتاریاں عمل میں آچکی ہیں لیکن ابھی تک ان مقدموں میںعدالت کی طرف سے حتمی سزاؤں کا تعین نہیں ہوسکا)
میں سمجھتی ہوں کہ اس گھناؤنے کاروبارکو ختم اس ہی طرح کیا جاسکتا ہے کہ اعضاء کی طلب اور رسدکا توازن قائم رکھنے کے راستے اختیارکیے جائیں اور یہ سب اس ہی وقت ممکن ہے جب عوام میں آگہی ہوگی اور یہ ریاست کی بھی ذمے داری ہے اور معاشر ے میں عوام سے منسلک ان انسٹیٹیوشن کی بھی جو ہماری زندگی کے اہم جز ہیں جن میں پرنٹ میڈیا ان سے بڑھ کر الیکٹرونک میڈیا اور سب سے بڑھ کر سوشل میڈیا جو ان معاملات میں خاموش ہیں۔
بڑے وثوق سے میں اس بات کوکہہ رہی ہوں کہ جو بل16 سال تک اسمبلی اور قائمہ کمیٹیوں کی راہداریو ں میں گردش کرتا رہا ہو صرف اسی سبب سے کہ نہ عوام کو آگہی تھی نہ ہی عوامی نمائندوں کو ۔ تاہم اس کا اتنی طویل مدت کے بعد پاس ہوجانا بہت بڑی خبر تھی لیکن یہ خبر بھی ایک یا دو بار ہی نشر ہوئی ورنہ نتیجہ ''وہی ڈھاک کے تین پا ت''کہ آگہی اور خیرکی خبروں سے مبرا وہ بریکنگ نیوز جو مسائل کے حل تو نہیں تشویش کے پیغا م دے جاتی ہیں۔
کسی بھی شے کی طلب اس وقت کم ہوتی ہے، جب وہ وافر مقدار میں موجود ہو ایسی ہی صورتحال اعضاء کے حوالے سے بھی ہے کہ اگر اعضاء آپ کے Organ Bank میں موجود ہوں تواس کی خرید وفروخت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، لہذا اس مسئلے کے سدباب کے لیے اور اعضاء کی دستیابی کو ممکن بنانے کے لیے میں نے بحیثیت ایک سماجی کارکن و ممبر قومی اسمبلی 2014ء میں انسانی اعضاء اور عضلات کی پیوندکاری کا ترمیمی بل ایوان میں متعارف کروایا جس کے چند نکات یہ تھے جن کی رو سے ڈرائیونگ لائسنس اور شناختی کارڈ میں ایک خانے کا اضافہ کیا جائے، جہاں ہر ذی شعور انسان اپنی خواہش سے وصیت کے طور پر ہاں یا نہیں پر نشان لگا سکتا ہوکہ بعد از مرگ وہ اپنے اعضاء کسی کی زندگی بچانے کے لیے عطیہ کرنا چاہتا ہے۔
اس ترمیم کی تشریح یہ ہے کہ قدرت کے نظام کے تحت اور میڈیکل سائنس کے مطابق انسان کی موت کے بعد48 سے72 گھنٹے بعد تک اعضاء کسی دوسرے زندہ انسان کے جسم میں منتقل کیے جا سکتے ہیں کیونکہ ایک انسان کے مردہ جسم سے حاصل کردہ اعضاء سے 17 انسانوں کی جان بچائی جا سکتی ہے۔الحمدللہ یہ بل قائمہ کمیٹیوں کے پر پیج راستو ں سے گزرتا ہوا اسمبلی میں متفقہ طور پر پاس ہوا اور اب سینیٹ کے فیصلے کا عرصہ دراز سے منتظر ہے۔ یاد رہے ہزاروں ایسے مریض جن کے اعضاء فیل ہوچکے ہیں۔
سینیٹ کے فیصلے سے ان کو نئی زندگیاں مل سکتی ہیں ( واضح رہے ملک میں حادثاتی اموات کے باعث ہزاروں انسانی اعضاء ضایع ہو جاتے ہیں) گزشتہ دنوں میں سپریم کورٹ نے بھی اس مسئلے پر آواز اٹھائی اور چیف جسٹس نے اس کاروبارکو ختم کرنے کے لیے نہ صرف احکامات جاری کیے اور ساتھ ہی بعد ازمرگ اپنے اعضا ء بھی عطیہ کرنے کی وصیت کی لیکن جیساکہ میں نے تحریرکیا کہ اعضاء کی ضرورت اپنی جگہ موجود ہے اب اس کی موجودگی کے امکانات کو قوی بنانے کی ضرورت ہے جس کے لیے بعد از مرگ اعضا ء کے بارے میں وصیت لکھنے کے عمل کو اور''خیر'' کے طریقے کارکے بارے میں اتنی آگہی پھیلائی جائے کہ ہر خاص وعام اپنی ذمے داری کو محسوس کرے،کیونکہ پاکستان چیریٹی کرنے والوں کی فہرست میں صف اول کے ممالک میں اپنا ایک مقام رکھتا ہے اور مجھے یقین ہے کہ صیح سمت میں ملنے والی آگہی اعضاء عطیہ کرنے والے ملکو ں کی فہرست میں پاکستان کو لاکھڑا کرے گی۔
میں دست بستہ گزارش کرتی ہوں کہ اس مکروہ عمل کے خاتمے کے لیے سب کو مل کر اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ تمام سرکاری اور غیر سرکاری اشتہارا ت میں، درسی کتابوں، ہوٹلوں و ریستورانوں اور یوٹیلیٹی کے بلوں کے ساتھ ساتھ ریلوں، بسوں اور ہوائی ٹکٹوں کے ایک کونے پر اعضاء عطیہ کرنے کی آگہی کے پیغام کی تشہیرکی جائے کیونکہ مہیا کیے گئے اعضاء کی فراوانی ہی اس جر م کی بیخ کنی کر سکتی ہے اور عوام میں آگہی کے لیے یہ سب بہت ضروری ہے۔
شفاء و زندگی دینے والا اللہ، صحت کا را ستہ دکھانے والی اسی رب کی اشرف المخلوقات جن میں ڈاکٹرز، قانون ساز ادارے اور مثبت سوچ رکھنے والی وہ عوام جو متحرک ہوجائیں تو ہر منزل آسان۔