زندہ تسبیح
سارے مسلمان مل کر تسبیح بناتے ہیں اور اُمتِ محمدی ﷺ وہ دھاگہ ہے جس میں یہ سارے آپس میں پروئے ہوئے ہیں
فرض کیجیے کہ اگر پودوں کی طرح تسبیح بھی زندہ ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا۔ ہر شخص کے ہاتھ میں لپٹی ہوئی ہری بھری تسبیح۔ جس طرح پودوں کو زندہ رہنے کےلیے روشنی اور پانی درکار ہوتا ہے، بالکل اسی طرح تسبیح کو زندہ رہنے کےلیے ذکر درکار ہے۔ آپ کچھ دن کےلیے غفلت میں رہے اور آپ کی تسبیح بوسیدہ و مردار ہوتی چلی گئی۔ کچھ روز اور گزر گئے اور اس کے دانے جھڑنا شروع ہو گئے۔ حتٰی کہ آس پاس سے گزرنے والے لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ بھائی کچھ تو خیال کرو، اللہ کی نعمت ہے۔ کیا حال کر رکھا ہے؟ اسے بھی وقت دے دیا کرو۔
آپ ذکر کرتے چلے جائیے اور تسبیح پھر سے ہری بھری ہو جائے۔ اور ذکر کیجیے اور اس میں پھول بوٹے نظر آنے لگیں۔ کتنی آسانی ہو جاتی ناں، کہ اللہ کو بھولے ہوئے ہیں اور اس بات کو بھی بھول گئے ہیں کہ اسے بھولے ہوئے ہیں۔ روز کا ایک جیتا جاگتا نشان مل جاتا۔ نشاندہی ہو جاتی اور شاید... شاید ہم اُسے یاد کرلیتے جو ہمیں کبھی نہیں بھولتا۔
آپ سے ایک بات عرض کروں؟ یہ دل بھی تسبیح کا ایک دانہ ہی ہے۔ سارے مسلمان مل کر تسبیح بناتے ہیں اور اُمتِ محمدی ﷺ وہ دھاگہ ہے جس میں یہ سارے آپس میں پروئے ہوئے ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالی کا ذکر دل کی غذا ہے۔ بالکل اِسی طرح جیسے روشنی اور پانی پودے کی۔ آپ اسے چھوڑ دیں تو یہ بوسیدہ و مردار ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ لمبے عرصے تک پڑا رہے تو یہ کومے میں چلا جاتا ہے اور اس پر فالج ہوجاتا ہے۔ یہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر پاتا۔ آپ کو مسلسل ذکر کرکے اسے پھر سے چارج کرنا پڑتا ہے۔ آپ روزانہ ذکر کرتے رہیے، اللہ کا شکر ادا کیجیے، اس کی نعمتوں کو پہچانیے اور دل کو تروتازہ رکھیے۔
اللہ نے کرم کیا، احسان کیا کہ زمین دی جس میں ہم قیام کرسکیں ورنہ اجرامِ فلکی کی طرح کائنات میں مارے مارے پھر رہے ہوتے۔ ذکر کی حیثیت دل کےلیے کششِ ثقل کی سی ہے۔ یہ دل کو نِروگا بنا دیتی ہے اور بغیر اس کے دل دنیا جہاں میں مارا مارا پھرتا ہے، مگر پھر بھی قرار نہیں ملتا۔
جب آپ غفلت سے باہر آتے ہیں اور حضوری میں سر جھکاتے ہیں تو آپ کی ہر سانس، ہر دھڑکن اور خون کی گردش تک ذکر بن جاتی ہے۔ تب آپ میں سے چھاؤں نکلتی ہے جو آپ کو اور آپ کے آس پاس لوگوں کو ڈھک لیتی ہے۔ یہ سایہ اتنا ہی گھنا اور طویل ہوتا ہے جتنا کہ آپ نے ذکر میں محنت کی ہوتی ہے۔ یہ چھاؤں آپ کو ٹھنڈک دیتی ہے اور آپ کو سکون مل جاتا ہے۔
گناہوں سے، جھوٹ سے اور ظلم سے دھوپ بنتی ہے جو معاشرے میں پھیل جاتی ہے۔ اس میں دلوں کی حالت اس چڑیا کی سی ہوتی ہے جو شدید پیاس میں کڑی دھوپ میں بیٹھی ہو۔ اس دھوپ سے پرندے اپنے گھونسلوں میں مرجاتے ہیں۔ فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ ان لوگوں میں شامل ہونا ہے جو دوسروں کو چھاؤں مہیا کریں اور سکون پہنچائیں یا ان لوگوں میں جو جلتی دھوپ میں مزید گرمی و حبس کا باعث بنیں۔
اپنے آپ کو غور سے دیکھیے، صاف نظر آئے گا کہ دل کا دانہ کتنا بوسیدہ و بیمار ہو گیا ہے۔ اس کا علاج کیجیے۔ اگر آنکھ اور کان کھلے ہوں تو روز کوئی نہ کوئی مل ہی جاتا ہے جو کہتا ہے کہ بھائی اللہ کی نعمت ہے، کیا حال بنا رکھا ہے؟ اس کو بھی کچھ وقت دیا کرو۔
کسی روز صحرا میں چلے جائیے۔ اس کی سرشست میں ہے کہ وہ اپنا آپ کھول کر رکھ دیتا ہے۔ اُس سے پوچھیے کہ آپ کی چھاؤں گھنی ہے یا اس کی دھوپ؟ آپ کی یاد کو قرار ہے یا اس کی وحشت کو؟ ظلم کے اس ماحول میں کوئی بیوقوف ہی ذکر کی چھتری کے بغیر دھوپ میں کھڑا ہو کہ کھال ہی جل جائے اور کچھ آشفتہ سر ایسے بھی کہ لوگوں کی دھوپ لے کر اپنی چھاؤں انہیں دے دیں۔
اے چھاؤں اور دھوپ کے مالک اللہ، مجھے نصیب کر وہ چھاؤں کہ جس میں کوئی دھوپ چھید نہ کرسکے۔
مجھے ڈھک لے اپنی ستّاری کی چادر میں۔ مجھے اپنا بنا لے۔ میرے دل کی تسبیح کو زندہ کر دے۔
اس میں پھل بوٹے لگا دے۔ اور جسے میں دھوپ میں چھوڑ آیا ہوں، اس پر بھی سایہ کردے، آمین۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
آپ ذکر کرتے چلے جائیے اور تسبیح پھر سے ہری بھری ہو جائے۔ اور ذکر کیجیے اور اس میں پھول بوٹے نظر آنے لگیں۔ کتنی آسانی ہو جاتی ناں، کہ اللہ کو بھولے ہوئے ہیں اور اس بات کو بھی بھول گئے ہیں کہ اسے بھولے ہوئے ہیں۔ روز کا ایک جیتا جاگتا نشان مل جاتا۔ نشاندہی ہو جاتی اور شاید... شاید ہم اُسے یاد کرلیتے جو ہمیں کبھی نہیں بھولتا۔
آپ سے ایک بات عرض کروں؟ یہ دل بھی تسبیح کا ایک دانہ ہی ہے۔ سارے مسلمان مل کر تسبیح بناتے ہیں اور اُمتِ محمدی ﷺ وہ دھاگہ ہے جس میں یہ سارے آپس میں پروئے ہوئے ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالی کا ذکر دل کی غذا ہے۔ بالکل اِسی طرح جیسے روشنی اور پانی پودے کی۔ آپ اسے چھوڑ دیں تو یہ بوسیدہ و مردار ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ لمبے عرصے تک پڑا رہے تو یہ کومے میں چلا جاتا ہے اور اس پر فالج ہوجاتا ہے۔ یہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر پاتا۔ آپ کو مسلسل ذکر کرکے اسے پھر سے چارج کرنا پڑتا ہے۔ آپ روزانہ ذکر کرتے رہیے، اللہ کا شکر ادا کیجیے، اس کی نعمتوں کو پہچانیے اور دل کو تروتازہ رکھیے۔
اللہ نے کرم کیا، احسان کیا کہ زمین دی جس میں ہم قیام کرسکیں ورنہ اجرامِ فلکی کی طرح کائنات میں مارے مارے پھر رہے ہوتے۔ ذکر کی حیثیت دل کےلیے کششِ ثقل کی سی ہے۔ یہ دل کو نِروگا بنا دیتی ہے اور بغیر اس کے دل دنیا جہاں میں مارا مارا پھرتا ہے، مگر پھر بھی قرار نہیں ملتا۔
جب آپ غفلت سے باہر آتے ہیں اور حضوری میں سر جھکاتے ہیں تو آپ کی ہر سانس، ہر دھڑکن اور خون کی گردش تک ذکر بن جاتی ہے۔ تب آپ میں سے چھاؤں نکلتی ہے جو آپ کو اور آپ کے آس پاس لوگوں کو ڈھک لیتی ہے۔ یہ سایہ اتنا ہی گھنا اور طویل ہوتا ہے جتنا کہ آپ نے ذکر میں محنت کی ہوتی ہے۔ یہ چھاؤں آپ کو ٹھنڈک دیتی ہے اور آپ کو سکون مل جاتا ہے۔
گناہوں سے، جھوٹ سے اور ظلم سے دھوپ بنتی ہے جو معاشرے میں پھیل جاتی ہے۔ اس میں دلوں کی حالت اس چڑیا کی سی ہوتی ہے جو شدید پیاس میں کڑی دھوپ میں بیٹھی ہو۔ اس دھوپ سے پرندے اپنے گھونسلوں میں مرجاتے ہیں۔ فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ ان لوگوں میں شامل ہونا ہے جو دوسروں کو چھاؤں مہیا کریں اور سکون پہنچائیں یا ان لوگوں میں جو جلتی دھوپ میں مزید گرمی و حبس کا باعث بنیں۔
اپنے آپ کو غور سے دیکھیے، صاف نظر آئے گا کہ دل کا دانہ کتنا بوسیدہ و بیمار ہو گیا ہے۔ اس کا علاج کیجیے۔ اگر آنکھ اور کان کھلے ہوں تو روز کوئی نہ کوئی مل ہی جاتا ہے جو کہتا ہے کہ بھائی اللہ کی نعمت ہے، کیا حال بنا رکھا ہے؟ اس کو بھی کچھ وقت دیا کرو۔
کسی روز صحرا میں چلے جائیے۔ اس کی سرشست میں ہے کہ وہ اپنا آپ کھول کر رکھ دیتا ہے۔ اُس سے پوچھیے کہ آپ کی چھاؤں گھنی ہے یا اس کی دھوپ؟ آپ کی یاد کو قرار ہے یا اس کی وحشت کو؟ ظلم کے اس ماحول میں کوئی بیوقوف ہی ذکر کی چھتری کے بغیر دھوپ میں کھڑا ہو کہ کھال ہی جل جائے اور کچھ آشفتہ سر ایسے بھی کہ لوگوں کی دھوپ لے کر اپنی چھاؤں انہیں دے دیں۔
اے چھاؤں اور دھوپ کے مالک اللہ، مجھے نصیب کر وہ چھاؤں کہ جس میں کوئی دھوپ چھید نہ کرسکے۔
مجھے ڈھک لے اپنی ستّاری کی چادر میں۔ مجھے اپنا بنا لے۔ میرے دل کی تسبیح کو زندہ کر دے۔
اس میں پھل بوٹے لگا دے۔ اور جسے میں دھوپ میں چھوڑ آیا ہوں، اس پر بھی سایہ کردے، آمین۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔