معدنی وسائل آخرکب کام آئیں گے

یہ بڑی ذلت و رسوائی کا مقام ہے کہ ساتویں ایٹمی قوت بن جانے کے باوجود یہ کشکول ہمارے ہاتھوں سے ابھی تک چھوٹا نہیں ہے۔


Dr Mansoor Norani December 05, 2018
[email protected]

یہ ملک وقوم کی بد نصیبی ہے کہ اُسے معرض وجود میں آئے ہوئے 71سال بیت چکے ہیں لیکن وہ اب تک اپنے خودکفالت اور خود مختاری کے حسین اور باوقار حساسات سے بہرہ مند نہیں ہو پائے ہیں۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی مگر ہم ابھی تک وہی کشکول تھامے در درکی ٹھوکریں کھا رہے ہیں جسے ہمارے حکمرانوں نے ہمیں ستر سال پہلے تھما دیا تھا۔

سوچا جائے تو یہ بڑی ذلت و رسوائی کا مقام ہے کہ ساتویں ایٹمی قوت بن جانے کے باوجود یہ کشکول ہمارے ہاتھوں سے ابھی تک چھوٹا نہیں ہے۔ مقام افسوس ہے کہ ہم اپنی زمینوں میں چھپے قدرت کے عطا کردہ خزانوں کو بروئے کار لاکر اپنی حالت کے بدل جانے کا کوئی طریقہ نہیں سوچتے اور ہر دو چار سال بعد خزانے کے خالی ہوجانے کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے دوست ملکوں کے ساتھ ساتھ عالمی مالیاتی اداروں کی منت سماجت پر نکل کھڑے ہوتے ہیں۔

ہماری تمام تر صلاحیتیں اور قابلیتیں صرف اِسی طرح مفت کی مئے پینے پر صرف ہوتی رہتی ہیں۔ ہماری حد نگاہ اِس سے آگے بڑھتی ہی نہیں ۔ہم خود سے کوئی تدبیر اور راہیں تلاش کرنے کی جستجو سے یکسر محروم ہیں ۔دوسرے ملکوں کے دورے پر جاتے ہیں تو وہاں کی ترقی و کامرانی سے متاثر تو ضرور ہوتے ہیں لیکن اُنہیں اپنانے میں ہمارا عزم و حوصلہ نجانے کیوں پست ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔

تمام غذائی اجناس کی فراوانی کے علاوہ ایسی کون سی نعمت ہے جو قدرت نے ہمیں دینے سے انکار کیا ہو۔ پھل فروٹ، گندم، چاول،کپاس اور لاتعداد معدنی ذخائر جن کے لیے دنیا کی کئی قومیں ترستی ہیں سبھی کچھ ہمارے یہاں موجود ہے، مگر ہم پھر بھی ہاتھ پاؤں باندھے لاچار اور مجبورقوم بنے کسی دوسرے کی مہربانیوں کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ ہم چاہیں تو قدرت کی اِن بیش بہا نعمتوں کی ایکسپورٹ بڑھا کر اپنے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرسکتے ہیں۔آخر کیا وجہ ہے کہ سارے مڈل ایسٹ اور مشرقی وسطیٰ کے ممالک میں لوگ بھارت سے برآمد کردہ چیزیں استعمال کرتے ہیں۔

ہمارا تاجر اور ہماری حکومت اِس جانب توجہ کیوں نہیں دیتے۔آپ دبئی چلے جائیں یا سعودی عرب ہر جگہ اور ہرشہر میں ریڈی میڈ گارمنٹس سے لے کر ضروریات زندگی کی ہر شہ پر میڈ اِن انڈیا کی مہر لگی ہوتی ہے اور ہم صرف کینو اور آم فروخت کرکے اطمینان اور سکون سے بیٹھ جاتے ہیں۔

بھارت ساری مسلم دنیا میں اپنی اشیاء فروخت کرکے نہ صرف کثیرمقدار میں زرمبادلہ کما رہا ہوتا ہے بلکہ وہاں کے باسیوں کو اپنی چیزوں کاعادی اور محتاج بھی بنا رہا ہوتا ہے جب کہ ہمارا تاجر خاموش تماشائی بن کراپنی بے حسی اوربے بسی کا بھر پورمظاہرہ کررہا ہوتا ہے۔ نہ وہ خود اِس سمت میں آگے بڑھنے کا سوچ رہا ہوتا ہے اور نہ ہمارے حکمراں اُسے اِس جانب ترغیب دلانے میں کوئی مدد اور سہولت فراہم کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ سب کے سب غیب سے کسی مدد کے آجانے کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں۔

قوم دس پندرہ سال سے سینڈک اور ریکوڈک کے خزانوں کے بارے میں بہت کچھ سنتی رہی ہے لیکن عملی طور پر زمین میں چھپے اِن خزانوں کو باہر نکال کر بروئے کار لانے کی کوئی کامیاب اور نتیجہ خیزکوشش ہنوز سامنے نہیں آئی۔

سابقہ ادوار میں ایک عجیب اور غیر منطقی کوشش کی گئی تھی جس کے تحت اِن خزانوں کو زمین سے نکالنے کا ایک انتہائی غیرمناسب اوریکطرفہ شرائط پر مبنی ٹھیکہ ایک بین الاقوامی فرم کو دیدیا گیا جس میں منافعے کے 75 فیصد حصص اُسی کمپنی کو دیدیے گئے اور بلوچستان کے حصے میں محض 25 فیصد حصص قرار پائے۔اِس معاہدے کو بعد ازاں اِسی وجہ سے منسوخ اور مسترد کردیا گیا ۔ٹھیکہ حاصل کرنیوالی کمپنی عالمی عدالت جا پہنچی اورفیصلہ حسب دستور ہمارے خلاف اورکمپنی کے حق میں آگیا۔

ایسا ہی ایک غیر منطقی فیصلہ سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے دور میں بھی کیا گیااور بجلی بنانے کے لیے رینٹل پاور منصوبے کے تحت ترکش کمپنی کو ایک ٹھیکہ ایسا دے دیا گیا جس میں تمام شرائط اُس کمپنی کے حق میں تحریر کردی گئیں۔ نتیجہ اُس کا بھی وہی ہوا جو ٹیٹھیان نامی کمپنی کا ہوا تھا۔ اب قوم زندگی بھر اپنے حکمرانوں کے ایسے ہی غیر منطقی کاموں کے جرمانے اور خسارے ہی بھرتی رہے گی۔

ہمیں اچھی طرح یاہے کہ 2015ء میں میاں نواز شریف اور اُنکے چھوٹے بھائی شہباز شریف نے قوم کو چنیوٹ کے حوالے سے ایک خوشخبری سنائی تھی کہ وہاں سونے چاندی، لوہے اور تانبے کے وسیع ذخائر دریافت ہو گئے ہیں جنھیں استعمال کرکے یہ قوم اب کسی کی محتاج نہیں رہے گی پھرکیا ہوا کسی کو پتہ نہیں۔ وہ خوشخبری بھی ہواؤں میں تحلیل ہوگئی۔

سینڈک اور ریکوڈک کے خزانوں کی طرح چنیوٹ کا یہ خزانہ بھی اگلی کئی صدیوں تک شاید یونہی زمینوں میں ہی دفن رہے گااور اگر نکالا بھی گیا تو اُس کا 75فیصد حصہ کسی اورکمپنی کو تفویض کردیاجائیگا اوراِس لاوارث قوم کے حصے میںصرف اور صرف عالمی عدالتوں کی طرف سے عائد کردہ جرمانے اور تاوان ہی رہ جائیں گے۔

اِسی طرح تھرکے علاقے میں کوئلے کے ذخائر کے بھی بہت شادیانے اور بگل بجائے گئے اوراگلی کئی صدیوں تک اُن سے بجلی بنانے کے ایسے دلکش اور سحر انگیز منصوبے بنائے گئے کہ قوم کو اپنی خوش قسمتی پر رشک آنے لگا لیکن پھر اِسکا انجام بھی وہی ہوا جو ہماری خوشحالی کے دیگر منصوبوں کا اب تک ہوچکا تھا ۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان صاحب نے الیکشن سے پہلے بلند بانگ دعوے کیے تھے کہ وہ اِس کشکول کو توڑ دینگے۔

اُن کا دلفریب ویژن دیکھ کر قوم دھوکے میں آگئی لیکن تبدیلی اور انقلاب کے نعروں کا بھرم صرف سودنوں میں ہی پاش پاش ہوگیا۔ ملک کو بے مثال ترقی یافتہ بنانے کے سبھی خواب لمحہ بھر میں چکنا چور ہوگئے۔ اپنے اقتدارکے سو دن پورے ہونے پر انھوں نے جو تقریرکی اُس سے کہیں یہ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ یہ وہی عمران ہے جو ڈی چوک پر لوگوں کو درس دیا کرتا تھا جو خوشحالی اور کامرانی کے ایسے ایسے منصوبے سنایا کرتا تھا جن کو سن کر ہماری قوم توکیا ماؤزے تنگ کی روح بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ پائے۔

وہ کسی سے بھیک نہیں مانگے گا لیکن پتہ یہ چلا کہ یہ تو پرانے حکمرانوں سے بھی کم ہمت اورکم حوصلہ ہے۔ سو دن پورے ہونے پر اُس نے ملک کے معدنی ذخائر کی کوئی بات نہ کی۔اُس نے قوم کو یہ نہیں بتایا کہ وہ اگلے پانچ برسوں میں کیا انقلاب برپا کریگا۔ اُس نے پی آئی اے اور اسٹیل مل کی حالت بدلنے کی بات بھی نہ کی۔اُس نے تو صرف انڈے ، مرغیوں اور بھینس کے کٹوں سے حالات سنوارنے کی باتیں کی ۔اُس کے اِس ویژن کو دیکھ کر تو لوگ اب قائم علی شاہ کو یاد کرنے لگے۔

انفرا اسٹرکچر سمیت ترقی وخوشحالی کے نئے اور بڑے منصوبے پیش کرنے ہمارے اِس وزیر اعظم نے پہلے سے جاری تمام منصوبوں پر بھی قدغنیں لگا دی ہیں ۔دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہم ابھی بھینس کے کٹوں اور دیسی مرغیوں کی افزائش سے ملک وقوم کی تقدیر بدلنے کا سوچ رہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں