عثمان بزدار کے پہلے سو دن
عثمان بزدار نے ان سو دنوں میں وہ کام کئے ہیں جن کی ان سے توقع ہی نہیں تھی۔
آج کل سو دن کی کارکردگی کا بہت شور ہے۔ ایک جمہوری نظام حکومت میںبے شک سو دن کارکردگی جانچنے کا کوئی پیمانہ نہیں ہیں۔ اس کی کوئی قانونی اور آئینی حیثیت نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی یہ بنچ مارک تحریک انصاف نے خو د ہی اپنے لئے مقرر کیا تھا۔ اس لئے اب اہم ہو گیا ہے۔ ہر کوئی سو دن کی کارکردگی کی بات کر رہا ہے۔
وزیر اعظم کو بھی عوام کے سامنے آکر سو دن کی کارکردگی بیان کرنی پڑ گئی ہے اور اب صوبائی حکومتیں بھی سو دن کی کارکردگی بیان کرنے جا رہی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مرکزی حکومت سو دن میں کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھا سکی ہے۔ اس لئے عوام میں اس کارکردگی کو کوئی خاص پذیر ائی نہیں مل رہی ہے۔ لیکن ابھی بہت وقت ہے کوئی نقصان نہیں ہوا ہے۔ اس لئے میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ گزرے سو دن نہیں اگلے سو دن بہت اہم ہیں۔ اس لئے حکومت کو گزرے سو دن کی لکیر پیٹنے کی بجائے اگلے سو دن پر نظر رکھنی چاہئے۔
تا ہم ان سو دنوں میں اگر کسی کی کارکردگی متاثر کن ہے تو وہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار ہیں۔ اگر تمام حکومتی نمائندوں کی کارکردگی کا انفرادی طور پر جائزہ لیا جائے یا موازنہ کیا جائے تو عثمان بزدار کی کارکردگی سب سے بہتر سامنے آرہی ہے۔
عثمان بزدار نے ان سو دنوں میں وہ کام کئے ہیں جن کی ان سے توقع ہی نہیں تھی۔ عمومی خیال تو یہ تھا کہ عثمان بزدار ایک عبوری وزیر اعلیٰ ہیں وہ ایک غلط چوائس ہیں۔ اس لئے شائد وہ سو دن بھی نہ نکال سکیں۔ لیکن جس طرح عثمان بزدارنے وزارت اعلیٰ پر ان سو دنوں میں اپنی گرفت مضبوط کی ہے اس کی کسی کو بھی توقع نہیں تھی۔ حکومتیں اور حکمران طاقتور سے کمزور ہوتے ہیں لیکن عثمان بزدار کمزور سے طاقتور ہوئے ہیں۔ انہوں نے سیاست میں ایک نئی مثال قائم کی ہے۔
عثمان بزدار کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ ان سو دنوں میں وہ ایک طاقتور اور مضبوط وزیر اعلیٰ بن جائیں گے۔ ان کے وزیر اعلیٰ بننے کے موقع پر ایک رائے تھی کہ وہ ایک ڈمی وزیر اعلیٰ ہوںگے۔ سب ایک چار رکنی کمیٹی کی بات کر رہے تھے کہ اصل میں اختیارات اس کمیٹی کے پاس ہوںگے۔ عثمان بزدار تو بس دستخط کریں گے۔ انگوٹھا لگائیں گے۔ فیصلے تو کمیٹی کرے گی۔ اس رہبر کمیٹی کی بہت بازگشت تھی۔
ایسا لگ رہا تھا کہ ہر فائل ہر فیصلہ پہلے اس کمیٹی کے پاس جائے گا۔ وہاں جو فیصلہ ہو گا اس پر عمل ہوگا۔ اس لئے عثمان بزدار تو صرف نام کے وزیر اعلیٰ ہوںگے۔ یہ تاثر کسی اپوزیشن جماعت نے قائم نہیں کیا تھا بلکہ خود تحریک انصاف نے ہی قائم کیا تھا۔ اس کے پیچھے وہ لوگ تھے جو خود وزیر اعلیٰ بننے میں ناکام ہو گئے تھے۔ اس لئے وہ اپنی سیاسی خفت مٹانے کے لئے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے تھے کہ نہیں نہیں ابھی بھی ہم ہی ہیں۔ ایک تاثر تھا کہ روز اس کمیٹی کی میٹنگ ہو گی۔
اس کمیٹی کے فیصلوں کو میڈیا میں جاری کیا جا ئے گا۔ لوگ اپنے کاموں کے لئے اس کمیٹی کو سفارشیں کروائیں گے۔ اب سو دن کے بعد دیکھیں۔کہاں گئی یہ کمیٹی۔ آج کمیٹی کا وجود ہی ختم ہو گیا۔ کہاں گئے وہ بڑے۔ وہ رہبر۔ ان سو دنوں میں عثمان بزدار نے سب کا بستر گول کر دیا۔ آپ کہتے ہیں کہ وہ ایک ڈمی وزیر اعلیٰ ہے۔ اس کے منہ میں زبان نہیں ہے۔ عثمان بزدار نے ان سو دنوں میں وہ کیا ہے جس کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی تھی۔
آج ہر کسی کو پتہ ہے کہ وہ پنجاب کے مکمل با اختیا ر وزیر اعلیٰ ہیں۔ خود اس کمیٹی کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ نہیں بھائی ہم کچھ نہیں ہیں جو بھی ہے عثمان بزدار ہی ہے۔ کمیٹی کا نام و نشان ہی ختم ہو گیا ہے۔ یہ عثمان بزدار کی سیاسی حکمت عملی ہی تھی کہ یہ کمیٹی بنتے ہی دم توڑ گئی اور اس کا ایک بھی اجلاس نہیں ہو سکا ہے۔ یہ درست ہے کہ عثمان بزدار ایک کم گو اور دھیمے لہجے کے انسان ہیں۔ ایک روایتی سیاستدان کی طرح وہ تند و تیز بیانات نہیں دیتے۔ میڈیا سے بات کرنے کے شوقین نہیں ہیں۔
انہیں اپنی میڈیا کوریج کا بھی کوئی شوق نہیں ہے۔ وہ سخت بات بھی دھیمے لہجے میں کرنے کے عادی ہیں۔ خاموشی سے سب کو سنتے ہیں۔ پنجاب کا ایک کلچر یہ بھی ہے کہ ہم اونچی آواز میں بات کرنے کو ہی رعب دار بات سمجھتے ہیں۔ عثمان بزدار سے پہلے وزیر اعلیٰ کے بارے میں بھی یہی تھا کہ وہ میٹنگ میں بہت بولتے تھے بلکہ کسی کو بولنے نہیں دیتے تھے۔ سب ان کی سننے میں ہی عافیت سمجھتے تھے۔ اس لئے عثمان بزدار کی کم گوئی اور دھیمے لہجے کو ان کی کمزوری سمجھ جانے لگا۔ لیکن آہستہ آہستہ اب بیوروکریسی سمیت سب کو سمجھ آگئی ہے کہ بندہ اندر سے شہباز شریف سے بھی سخت ہے۔
انہوں نے ان سو دنوں میں ہر کسی کو یہ باور کرا دیا ہے کہ وہ صوبے کے چیف ایگزیکٹو ہیں اور ان کی بات ماننا ہر ایک پر لازم ہے۔ حکم عدولی کی وہی سزا ہے جو دی جاتی ہے۔ کسی سے کوئی نرمی اور رعایت نہیں کی جائے گی۔ میری خاموشی کو میری کمزوری نہ سمجھا جائے۔ جو لوگ اقتدار کے ایوان کے اندر کے حالات جانتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اب جاننے والے عثمان بزدار کے اشارے بھی جان گئے ہیں۔ اور اب کام اشارے پر بھی ہو جاتا ہے۔ وہ جو کہتے تھے کہ وہ تو میٹنگز میں بولتے نہیں ہیں اب سمجھ گئے ہیں کہ وہ سب جانتا ہے۔
ان سو دنوں میں عثمان بزدار نے وزیر اعلیٰ بننے کی خواہش اور ان کو ہٹانے کی خواہش رکھنے والے تمام دوستوں کو بھی شکست فاش دے دی ہے۔ ان سو دنوں میں انہیں ہٹانے کی ان گنت سازشیں کی گئی ہیں۔ ان کے ہر فیصلہ کے خلاف بنی گالہ اور وزیر اعظم ہائوس میں شکایت لگائی گئی ہے۔ لوگ تبدیلی کیلئے اداروں کے پاس بھی گئے ہیں۔ ہر کسی نے پوری کوشش کی ہے۔ لیکن سب ہی ناکام ہو گئے ہیں۔ میں نے تو پہلے بھی لکھا تھا کہ عثمان بزدار تحریک انصاف کی حکومت کی لائف انشورنس ہیں۔ وہ اور عمران خان اب ایک کشتی کے سوار ہیں۔ ایک کو کشتی سے اتارنا ممکن نہیں ہے۔ اس لئے ان سود نوں میں ان دوستوں کو بھی یہ بات سمجھ آگئی ہے اور ان گنت سازشوں کی ناکامی کے بعد وہ بھی اب عثمان بزدار پر ایمان لے آئے ہیں۔
عثمان بزدار کی ایک کامیابی یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنے مخالفین سے محاذ آرائی سے گریز کیا ہے۔ ان سو دنوں میں اگر کسی نے ان کے خلاف بھی بات کی ہے تو انہوں نے اسے اپنی خاموشی سے ہی جواب دیا ہے۔ انہوں نے سیاست کے اس بہترین اصول کا ا ستعمال کیا ہے کہ سیاست میں ہر بات کا جواب دینا کوئی سمجھداری نہیں ہے۔ ان کی خاموشی نے ا ن کے مخالفین کو بھی خاموش کروا دیا ہے۔ اگر وہ جواب دینا شروع کرتے تو ایک جواب الجواب کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ جس کا بہر حال عثمان بزدار کو ہی نقصان ہونا تھا۔
عثمان بزدار نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ وہ کوئی کمزور آدمی نہیں ہیں۔ ایک عمومی تاثر یہ تھا کہ پاکپتن کے واقعہ کے بعد وہ محتاط ہو جائیں گے ڈر جائیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کے واقعات نے ثابت کیا ہے کہ وہ اپنی رٹ منوانا جانتے ہیں اور اس ضمن میں پاکپتن کے واقعہ کا کوئی اثر نہیں۔
عثمان بزدار نے جب وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالا تو صوبہ چلانے کیلئے انہیں ان کی مرضی کی ٹیم نہیں دی گئی۔ مرکز میں بیٹھے شہزاد اکبر افسران کی تعیناتیاں کر رہے تھے۔ لیکن ان سو دنوں میں بیچارے شہزاد اکبر کا کردار بھی اس کمیٹی کی طرح ختم ہو گیا ہے۔ ان سو دنوں میں پنجاب میں چیف سکرٹری آئی جی سمیت ہر جگہ عثمان بزدار اپنی ٹیم لے آئے ہیں۔ ہر قسم کی شراکت اقتدار ختم ہو گئی ہے۔ انہوں نے پنجاب میں سارے افسران تبدیل کر دیے ہیں۔ سو دن پہلے یہ کام نا ممکن نظر آرہا تھا۔
لوگ کہتے ہیں عثمان بزدار میڈیا سے زیادہ بات نہیں کرتے۔ کوئی دھواں دار پریس کانفرنس نہیں کرتے۔ میں کہتا ہوں جو کرتے ہیں انہوں نے کیا تیر مار لیا ہے۔ کیا صرف میڈیا سے بات کرنا ہی سیاسی کامیابی ہے۔ مخالفین کو للکارنااور لفظوں کی جنگ جاری رکھنا ہی سیاست ہے۔ ویسے بھی تحریک انصاف میں یہ کام کرنے والوں کی تو ایک فوج ظفر موج موجود ہے۔ خاموشی سے کام کرنے والوں کی کمی تھی جو عثمان بزدار پوری کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم کو بھی عوام کے سامنے آکر سو دن کی کارکردگی بیان کرنی پڑ گئی ہے اور اب صوبائی حکومتیں بھی سو دن کی کارکردگی بیان کرنے جا رہی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مرکزی حکومت سو دن میں کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھا سکی ہے۔ اس لئے عوام میں اس کارکردگی کو کوئی خاص پذیر ائی نہیں مل رہی ہے۔ لیکن ابھی بہت وقت ہے کوئی نقصان نہیں ہوا ہے۔ اس لئے میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ گزرے سو دن نہیں اگلے سو دن بہت اہم ہیں۔ اس لئے حکومت کو گزرے سو دن کی لکیر پیٹنے کی بجائے اگلے سو دن پر نظر رکھنی چاہئے۔
تا ہم ان سو دنوں میں اگر کسی کی کارکردگی متاثر کن ہے تو وہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار ہیں۔ اگر تمام حکومتی نمائندوں کی کارکردگی کا انفرادی طور پر جائزہ لیا جائے یا موازنہ کیا جائے تو عثمان بزدار کی کارکردگی سب سے بہتر سامنے آرہی ہے۔
عثمان بزدار نے ان سو دنوں میں وہ کام کئے ہیں جن کی ان سے توقع ہی نہیں تھی۔ عمومی خیال تو یہ تھا کہ عثمان بزدار ایک عبوری وزیر اعلیٰ ہیں وہ ایک غلط چوائس ہیں۔ اس لئے شائد وہ سو دن بھی نہ نکال سکیں۔ لیکن جس طرح عثمان بزدارنے وزارت اعلیٰ پر ان سو دنوں میں اپنی گرفت مضبوط کی ہے اس کی کسی کو بھی توقع نہیں تھی۔ حکومتیں اور حکمران طاقتور سے کمزور ہوتے ہیں لیکن عثمان بزدار کمزور سے طاقتور ہوئے ہیں۔ انہوں نے سیاست میں ایک نئی مثال قائم کی ہے۔
عثمان بزدار کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ ان سو دنوں میں وہ ایک طاقتور اور مضبوط وزیر اعلیٰ بن جائیں گے۔ ان کے وزیر اعلیٰ بننے کے موقع پر ایک رائے تھی کہ وہ ایک ڈمی وزیر اعلیٰ ہوںگے۔ سب ایک چار رکنی کمیٹی کی بات کر رہے تھے کہ اصل میں اختیارات اس کمیٹی کے پاس ہوںگے۔ عثمان بزدار تو بس دستخط کریں گے۔ انگوٹھا لگائیں گے۔ فیصلے تو کمیٹی کرے گی۔ اس رہبر کمیٹی کی بہت بازگشت تھی۔
ایسا لگ رہا تھا کہ ہر فائل ہر فیصلہ پہلے اس کمیٹی کے پاس جائے گا۔ وہاں جو فیصلہ ہو گا اس پر عمل ہوگا۔ اس لئے عثمان بزدار تو صرف نام کے وزیر اعلیٰ ہوںگے۔ یہ تاثر کسی اپوزیشن جماعت نے قائم نہیں کیا تھا بلکہ خود تحریک انصاف نے ہی قائم کیا تھا۔ اس کے پیچھے وہ لوگ تھے جو خود وزیر اعلیٰ بننے میں ناکام ہو گئے تھے۔ اس لئے وہ اپنی سیاسی خفت مٹانے کے لئے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے تھے کہ نہیں نہیں ابھی بھی ہم ہی ہیں۔ ایک تاثر تھا کہ روز اس کمیٹی کی میٹنگ ہو گی۔
اس کمیٹی کے فیصلوں کو میڈیا میں جاری کیا جا ئے گا۔ لوگ اپنے کاموں کے لئے اس کمیٹی کو سفارشیں کروائیں گے۔ اب سو دن کے بعد دیکھیں۔کہاں گئی یہ کمیٹی۔ آج کمیٹی کا وجود ہی ختم ہو گیا۔ کہاں گئے وہ بڑے۔ وہ رہبر۔ ان سو دنوں میں عثمان بزدار نے سب کا بستر گول کر دیا۔ آپ کہتے ہیں کہ وہ ایک ڈمی وزیر اعلیٰ ہے۔ اس کے منہ میں زبان نہیں ہے۔ عثمان بزدار نے ان سو دنوں میں وہ کیا ہے جس کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی تھی۔
آج ہر کسی کو پتہ ہے کہ وہ پنجاب کے مکمل با اختیا ر وزیر اعلیٰ ہیں۔ خود اس کمیٹی کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ نہیں بھائی ہم کچھ نہیں ہیں جو بھی ہے عثمان بزدار ہی ہے۔ کمیٹی کا نام و نشان ہی ختم ہو گیا ہے۔ یہ عثمان بزدار کی سیاسی حکمت عملی ہی تھی کہ یہ کمیٹی بنتے ہی دم توڑ گئی اور اس کا ایک بھی اجلاس نہیں ہو سکا ہے۔ یہ درست ہے کہ عثمان بزدار ایک کم گو اور دھیمے لہجے کے انسان ہیں۔ ایک روایتی سیاستدان کی طرح وہ تند و تیز بیانات نہیں دیتے۔ میڈیا سے بات کرنے کے شوقین نہیں ہیں۔
انہیں اپنی میڈیا کوریج کا بھی کوئی شوق نہیں ہے۔ وہ سخت بات بھی دھیمے لہجے میں کرنے کے عادی ہیں۔ خاموشی سے سب کو سنتے ہیں۔ پنجاب کا ایک کلچر یہ بھی ہے کہ ہم اونچی آواز میں بات کرنے کو ہی رعب دار بات سمجھتے ہیں۔ عثمان بزدار سے پہلے وزیر اعلیٰ کے بارے میں بھی یہی تھا کہ وہ میٹنگ میں بہت بولتے تھے بلکہ کسی کو بولنے نہیں دیتے تھے۔ سب ان کی سننے میں ہی عافیت سمجھتے تھے۔ اس لئے عثمان بزدار کی کم گوئی اور دھیمے لہجے کو ان کی کمزوری سمجھ جانے لگا۔ لیکن آہستہ آہستہ اب بیوروکریسی سمیت سب کو سمجھ آگئی ہے کہ بندہ اندر سے شہباز شریف سے بھی سخت ہے۔
انہوں نے ان سو دنوں میں ہر کسی کو یہ باور کرا دیا ہے کہ وہ صوبے کے چیف ایگزیکٹو ہیں اور ان کی بات ماننا ہر ایک پر لازم ہے۔ حکم عدولی کی وہی سزا ہے جو دی جاتی ہے۔ کسی سے کوئی نرمی اور رعایت نہیں کی جائے گی۔ میری خاموشی کو میری کمزوری نہ سمجھا جائے۔ جو لوگ اقتدار کے ایوان کے اندر کے حالات جانتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اب جاننے والے عثمان بزدار کے اشارے بھی جان گئے ہیں۔ اور اب کام اشارے پر بھی ہو جاتا ہے۔ وہ جو کہتے تھے کہ وہ تو میٹنگز میں بولتے نہیں ہیں اب سمجھ گئے ہیں کہ وہ سب جانتا ہے۔
ان سو دنوں میں عثمان بزدار نے وزیر اعلیٰ بننے کی خواہش اور ان کو ہٹانے کی خواہش رکھنے والے تمام دوستوں کو بھی شکست فاش دے دی ہے۔ ان سو دنوں میں انہیں ہٹانے کی ان گنت سازشیں کی گئی ہیں۔ ان کے ہر فیصلہ کے خلاف بنی گالہ اور وزیر اعظم ہائوس میں شکایت لگائی گئی ہے۔ لوگ تبدیلی کیلئے اداروں کے پاس بھی گئے ہیں۔ ہر کسی نے پوری کوشش کی ہے۔ لیکن سب ہی ناکام ہو گئے ہیں۔ میں نے تو پہلے بھی لکھا تھا کہ عثمان بزدار تحریک انصاف کی حکومت کی لائف انشورنس ہیں۔ وہ اور عمران خان اب ایک کشتی کے سوار ہیں۔ ایک کو کشتی سے اتارنا ممکن نہیں ہے۔ اس لئے ان سود نوں میں ان دوستوں کو بھی یہ بات سمجھ آگئی ہے اور ان گنت سازشوں کی ناکامی کے بعد وہ بھی اب عثمان بزدار پر ایمان لے آئے ہیں۔
عثمان بزدار کی ایک کامیابی یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنے مخالفین سے محاذ آرائی سے گریز کیا ہے۔ ان سو دنوں میں اگر کسی نے ان کے خلاف بھی بات کی ہے تو انہوں نے اسے اپنی خاموشی سے ہی جواب دیا ہے۔ انہوں نے سیاست کے اس بہترین اصول کا ا ستعمال کیا ہے کہ سیاست میں ہر بات کا جواب دینا کوئی سمجھداری نہیں ہے۔ ان کی خاموشی نے ا ن کے مخالفین کو بھی خاموش کروا دیا ہے۔ اگر وہ جواب دینا شروع کرتے تو ایک جواب الجواب کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ جس کا بہر حال عثمان بزدار کو ہی نقصان ہونا تھا۔
عثمان بزدار نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ وہ کوئی کمزور آدمی نہیں ہیں۔ ایک عمومی تاثر یہ تھا کہ پاکپتن کے واقعہ کے بعد وہ محتاط ہو جائیں گے ڈر جائیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کے واقعات نے ثابت کیا ہے کہ وہ اپنی رٹ منوانا جانتے ہیں اور اس ضمن میں پاکپتن کے واقعہ کا کوئی اثر نہیں۔
عثمان بزدار نے جب وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالا تو صوبہ چلانے کیلئے انہیں ان کی مرضی کی ٹیم نہیں دی گئی۔ مرکز میں بیٹھے شہزاد اکبر افسران کی تعیناتیاں کر رہے تھے۔ لیکن ان سو دنوں میں بیچارے شہزاد اکبر کا کردار بھی اس کمیٹی کی طرح ختم ہو گیا ہے۔ ان سو دنوں میں پنجاب میں چیف سکرٹری آئی جی سمیت ہر جگہ عثمان بزدار اپنی ٹیم لے آئے ہیں۔ ہر قسم کی شراکت اقتدار ختم ہو گئی ہے۔ انہوں نے پنجاب میں سارے افسران تبدیل کر دیے ہیں۔ سو دن پہلے یہ کام نا ممکن نظر آرہا تھا۔
لوگ کہتے ہیں عثمان بزدار میڈیا سے زیادہ بات نہیں کرتے۔ کوئی دھواں دار پریس کانفرنس نہیں کرتے۔ میں کہتا ہوں جو کرتے ہیں انہوں نے کیا تیر مار لیا ہے۔ کیا صرف میڈیا سے بات کرنا ہی سیاسی کامیابی ہے۔ مخالفین کو للکارنااور لفظوں کی جنگ جاری رکھنا ہی سیاست ہے۔ ویسے بھی تحریک انصاف میں یہ کام کرنے والوں کی تو ایک فوج ظفر موج موجود ہے۔ خاموشی سے کام کرنے والوں کی کمی تھی جو عثمان بزدار پوری کر رہے ہیں۔