خط غربت اور آبادی میں اضافہ
کراچی میں خواندگی کا تناسب 50 فیصد ہے۔ اسی طرح خط غربت کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد آبادی کے آدھے حصے پر مشتمل ہیں۔
کراچی میں تجاوزات کے خلاف مہم زور و شور سے جاری ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر شروع ہونے والی یہ مہم پہلے ایمپریس مارکیٹ سے تجاوزات کے خاتمے کا موجب بنی اور پھر صدر سے تجاوزات کا خاتمہ ہوا۔ اس کے بعد یہ آپریشن شہر بھر کے دیگر علاقوں تک وسیع ہوگیا ہے۔
عمومی طور پر سرکاری زمینوں اور فٹ پاتھ پر دکانیں تعمیر ہو جاتی ہیں، فٹ پاتھوں اور سڑکوں پر پتھارے لگے ہوتے ہیں جس سے فٹ پاتھ لاپتہ ہو گئے اور سڑکیں محدود ہو گئیں۔ یوں ایک طرف پیدل چلنے والے اپنے بنیادی حق سے محروم ہوئے تو دوسری طرف سڑکیں تنگ ہونے کی بناء پر ٹریفک جام ہونے کا معاملہ سنگین ہوا، پھر قدیم عمارتیں ہی کھوگئیں۔ تجاوزات قائم کرنے میں بلدیہ کراچی، کے ڈی اے، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے ساتھ سیاسی جماعتوں کا بھی کردار ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ایک سیاسی جماعت نے اپنے بلدیاتی اداروں پر اقتدارکے دور میں فٹ پاتھوں اور سڑکوں سے متصل زمینوں پر چھوٹی چھوٹی دکانیں تعمیر کرائیں اور لوگوں کو قانونی تقاضوں کے مطابق دکانیں الاٹ کی گئیں۔ ایمپریس مارکیٹ کے اطراف میں تعمیر ہونے والی دونوں مارکیٹیں بلدیہ کراچی کی ملکیت تھیں اور ان مارکیٹوں میں کاروبارکرنے والے دکاندار بلدیہ کراچی کے کرایہ دار تھے۔ یہی صورتحال فریئر مارکیٹ، اردو بازار، گلشن اقبال اور گلستان جوہر وغیرہ کے علاقوں میں تھی۔ یوں یہ کراچی کی غیر رسمی معیشت (Informal Market) کہلائی۔
شہرکی آباد کاری اورکچی آبادیوں پر تحقیق کرنے والے ماہر تعمیرات عارف حسن نے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھا ہے کہ کراچی کی یہ غیر رسمی معیشت کل معیشت کا 30 سے 40 فیصد ہے۔ سرکاری اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ کراچی میں اس معیشت سے 12 لاکھ سے زائد ملازمتیں وابستہ ہیں جنہیں عارف حسن کراچی میں دستیاب ملازمتوں کا 72 فیصد قرار دیتے ہیں۔
کراچی ہندوستان کے بٹوارے کے وقت ایک چھوٹا سا شہر تھا۔ بٹوارے کے نتیجے میں بھارت میں ہونے والے فسادات کی بناء پر پنجاب، یوپی، سی پی، بہار، حیدرآباد دکن، مہاراشٹر، راجھستان اور دیگر علاقوں سے لاکھوں لوگوں نے ہجرت کی۔ کراچی کو آزاد ہونے والے ملک کا دارالحکومت بنایا گیا، یہی وجہ تھی کہ سرکاری ملازمتوں اور ان سے متعلقہ شعبوں سے وابستہ افراد اپنے اہل خان کے ساتھ کراچی میں آباد ہوئے اور ملازمتوں میں کھپ گئے۔ شہر میں تیزی سے صنعتیں لگنے لگیں، یوں پہلے اردو بولنے والے مزدور ان صنعتوں میں ملازم ہوئے اور پھر پنجاب اور خیبر پختون خوا سے لاکھوں افراد ان صنعتوں میں کام کرنے کے لیے کراچی میں آباد ہوئے تھے۔
صنعتوں کے ساتھ سروس سیکٹر میں بھی پھیلاؤ ہوا۔ تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کا قیام عمل میں آیا، یوں غیر رسمی معیشت ترقی پانے لگی۔ کراچی کی منصوبہ بندی کے ذمے دار ادارے شہرکے پھیلاؤ کے ساتھ انفرا اسٹرکچر کی تعمیر پر توجہ نہ دے سکے، یوں تجاوزات پھیلنے لگیں۔ لاکھوں افراد نے پتھاروں کے ذریعے زندگی کے حالات بہتر بنانے کی جدوجہد تیز کر دی۔ اگرچہ مہذب ملکوں کی طرح شہری انتظام کے ذمے دار ان تجاوزات کو روکنے اور فٹ پاتھ کو بچانے اور سڑکوں اور ٹریفک کی راہ میں رکاوٹوں کو ختم کرنے کے بجائے ان اداروں نے اس غیر رسمی معیشت سے فائدہ اٹھانا شروع کر دیا۔
امریکا کی خبررساں ایجنسی اے پی ایف کے کراچی بیورو نے صرف صدر اور ایمپریس مارکیٹ کے علاقے کے بارے میں ایک رپورٹ مرتب کی تھی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اس علاقے سے سالانہ ایک سے ڈیڑھ ارب روپے بھتے کے نام پر وصول کیا جاتا ہے جو سرکاری اداروں اور سیاسی جماعتوں میں ان کی طاقت کے تناسب سے تقسیم ہوتا ہے۔ کراچی کی تاریخ پر نظر رکھنے والے اکابرین کا کہنا ہے کہ کراچی شہر میں تجاوزات اور پتھاروں کی حوصلہ افزائی کا سلسلہ سابق صدر ایوب خان کے دور میں شروع ہوا۔
ایوب خان کی سرکاری مسلم لیگ کے عہدیدار شہر کے مختلف علاقوں میں غیر قانونی تعمیرات اور پتھاروں کے لگنے کے ذمے دار تھے۔ پولیس اور دیگر ادارے مسلم لیگی رہنماؤں کو تحفظ فراہم کرتے تھے۔ بھٹو دور میں اسٹیک ہولڈرز کی ترتیب میں فرق آیا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں پولیس اور بلدیہ کراچی کے اہلکاروں کے وارے نیارے ہوگئے۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں جب بھی ان تجاوزات کے خاتمے کی مہم شروع ہوئی پولیس کی سرپرستی میں سڑکوں پر ہنگامہ آرائی ہوئی اور ٹائر جلائے جاتے اور یہ سلسلہ رک جاتا۔ پھر متحدہ قومی موومنٹ، پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، سنی تحریک اور پنجابی پختون اتحاد وغیرہ اس غیر رسمی معیشت کے تحفظ کے ذمے دار ہوئے، یوں شہر کا حلیہ تبدیل ہو کر رہ گیا۔ مگر غیر رسمی معیشت سے غریب براہِ راست جڑ گئے۔ پتھارے لگنے والوں میں تمام نسلی اکائیوں سے وابستہ افراد شامل ہوئے۔
اس غیر رسمی معیشت نے روزگارکی نئی سہولتیں پیدا کیں۔ بعض خاندان 50 ء کی دہائی سے اس معیشت سے وابستہ ہوئے۔ اس معیشت نے لوگوں کو سستی اشیاء مہیا کیں۔ کراچی شہر میں 80ء کی دہائی سے فسادات کا سلسلہ شروع ہوا۔ پہلے اردو بولنے والوں اور پٹھانوں کے درمیان جنگ و جدل کا میدان گرم ہوا، پھر پنجاب سے تعلق رکھنے والے ٹکراؤ میں آئے اور آخر میں سندھی اور اردو بولنے والے فساد کا شکار ہوئے۔
جب یہ لسانی فسادات رکنے لگے تو ٹارگٹ کلنگ کا خوفناک سلسلہ شروع ہوگیا۔ مسلح گروہوں نے اغواء برائے تاوان کوکاروبار کی شکل دی۔ کاریں اور اسکوٹر چھیننے کے لیے منظم گروہ وجود میں آئے۔ بینکوں میں ڈکیتیوں کی وارداتوں کا رکنا مشکل ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی پانی، بجلی اور گیس کا بحران خوب بڑھا۔ وفاقی وزارتوں اور صوبائی محکموں میں رشوت اور سفارش کے بغیر کسی قانونی کام کا ہونا بھی معجزہ قرار پایا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ پولیس افسروں نے ہدایات جاری کیں کہ کوئی پولیس والا اکیلا سڑک پر نہ جائے۔
پولیس موبائل کسی سڑک اور آبادی میں کارروائی سے گریزکرے۔ یہ معاملہ دو سے تین عشروں تک پھیلا۔ اس مجموعی صورتحال کی بناء پر کراچی میں نئی صنعتیں لگنا بند ہوگئیں۔ بہت سے صنعتی ادارے پنجاب منتقل ہوگئے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے صنعتکاروں نے بنگلہ دیش، بھارت، دبئی اور افریقہ کے مختلف ممالک میں صنعتیں لگانا شروع کیں۔کراچی سے بینکوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں حتیٰ کہ میڈیا ہاؤس کے ہیڈکوارٹر لاہور اور اسلام آباد کی طرف منتقل ہوگئے۔
اس صورتحال کے نتیجے میں روزگارکے مواقعے کم ہوتے چلے گئے مگر نہ صرف اندرون ملک بلکہ بنگلہ دیش، افغانستان اور برما سے لاکھوں پناہ گزین کراچی میں آکر آباد ہوئے، یوں لاکھوں افراد کے لیے غیر رسمی معیشت میں روزگار تلاش کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہ رہا۔ تجاوزات میں غیر قانونی دکانیں اور پتھارے شامل ہیں۔ دکانوں کے مالکان اتنی سکت رکھتے ہیں کہ انہوں نے شہرکی مختلف مارکیٹوں میں اپنا کاروبار منتقل کیا اور کچھ شہر کے مختلف علاقوں میں دکانیں تلاش کررہے ہیں مگر لاکھوں پتھارے والوں اور ان سے وابستہ گھروں میں قائم کارخانوں کے مالکان اور مزدوروں کے لیے روزگار کے حصول کے مواقعے کم ہوگئے۔وہاں فاقہ کشی ہے۔
کراچی میں خواندگی کا تناسب 50 فیصد ہے۔ اسی طرح خط غربت کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد آبادی کے آدھے حصے پر مشتمل ہیں۔ پھر ان میں سے 89 فیصد کچی آبادیوں میں رہتے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ہمیشہ کی طرح بغیر کسی منصوبے کے تجاوزات اور پتھاروں کے خاتمے کی مہم شروع کر دی ۔ یہ نہ سوچا گیا کہ لاکھوں لوگ جو اس غیر رسمی معیشت کے خاتمے کی وجہ سے اپنے روزگار سے محروم ہو رہے ہیں تو ان کی زندگیوں میں نیا طوفان کھڑا ہوگیا ہے۔
ان افراد کے روزگار کے بارے میں کوئی منصوبہ سامنے نہیں آیا ، یوں بے روزگاروں کی ایک نئی فوج سے خط غربت کے نیچے زندگی گزارنے والے افرادکی تعداد میں اضافہ ہوگا جس کے خطرناک نتائج برآمد ہونگے۔ کراچی کے میئر کے اس اقرار کے بعد کہ اس مہم کا نشانہ ایسی عمارتیں بھی بنیں جو قانونی طور پر تعمیر کی گئی تھیں، سپریم کورٹ کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔
بھارت کی کمیونسٹ پارٹی کی رہنما اور معروف ادیبہ نور سجاد ظہیر کا کہنا ہے کہ بھارت کی ریاست یوپی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے۔ یوپی کے شہروں میں غیر مسلمان اور ہندوؤں کے نچلے دلت طبقے سے تعلق رکھنے والے سڑکوں پر چھوٹے چھوٹے کاروبار سے منسلک تھے۔ یہ لوگ مرغیاں اور بکرے کے گوشت کی فروخت سے لے کر سبزیوں اور پھلوں کا کاروبار کرتے تھے۔
یوپی کی حکومت نے سڑکوں پر کاروبارکو ممنوع قرار دیا ہے۔ کاروبار کے لیے دکان، ریفریجیریٹر، بجلی کا کنکشن اور کھڑکیوں اور دروازوں پر جالیوں کو لازمی قرار دیا ہے۔ اس پابندی سے لاکھوں غریب مسلمان اور دلت طبقے کے افراد متاثر ہوئے ۔ وزیر اعظم عمران خان غریبوں کا ذکر خوب کرتے ہیں مگر وفاقی حکومت کی پالیسیاں غریبوں کی زندگیوں کو مزید مشکل بنارہی ہیں۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے غریبوں کی بے دخلی کو پہلے محسوس نہیں کیا لیکن اب سرکلر ریلوے کی پٹری پر آباد بستیوں کو بچانے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا عزم کیا ہے۔ پیپلز پارٹی جس کا بنیادی نعرہ روٹی، کپڑا اور مکان کی فراہمی ہے لہٰذا اس حکومت کا فرض ہے کہ اپنے منشورکی پاسداری کرتے ہوئے اس مہم سے متاثر ہونے والے غریبوں کو متبادل جگہ کی فراہمی کے لیے فوری اقدام کرے تاکہ غریبوں کو کچھ دلاسہ مل سکے اور خط غربت کے نیچے رہنے والی آبادی میں اضافہ نہ ہو۔
عمومی طور پر سرکاری زمینوں اور فٹ پاتھ پر دکانیں تعمیر ہو جاتی ہیں، فٹ پاتھوں اور سڑکوں پر پتھارے لگے ہوتے ہیں جس سے فٹ پاتھ لاپتہ ہو گئے اور سڑکیں محدود ہو گئیں۔ یوں ایک طرف پیدل چلنے والے اپنے بنیادی حق سے محروم ہوئے تو دوسری طرف سڑکیں تنگ ہونے کی بناء پر ٹریفک جام ہونے کا معاملہ سنگین ہوا، پھر قدیم عمارتیں ہی کھوگئیں۔ تجاوزات قائم کرنے میں بلدیہ کراچی، کے ڈی اے، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے ساتھ سیاسی جماعتوں کا بھی کردار ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ایک سیاسی جماعت نے اپنے بلدیاتی اداروں پر اقتدارکے دور میں فٹ پاتھوں اور سڑکوں سے متصل زمینوں پر چھوٹی چھوٹی دکانیں تعمیر کرائیں اور لوگوں کو قانونی تقاضوں کے مطابق دکانیں الاٹ کی گئیں۔ ایمپریس مارکیٹ کے اطراف میں تعمیر ہونے والی دونوں مارکیٹیں بلدیہ کراچی کی ملکیت تھیں اور ان مارکیٹوں میں کاروبارکرنے والے دکاندار بلدیہ کراچی کے کرایہ دار تھے۔ یہی صورتحال فریئر مارکیٹ، اردو بازار، گلشن اقبال اور گلستان جوہر وغیرہ کے علاقوں میں تھی۔ یوں یہ کراچی کی غیر رسمی معیشت (Informal Market) کہلائی۔
شہرکی آباد کاری اورکچی آبادیوں پر تحقیق کرنے والے ماہر تعمیرات عارف حسن نے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھا ہے کہ کراچی کی یہ غیر رسمی معیشت کل معیشت کا 30 سے 40 فیصد ہے۔ سرکاری اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ کراچی میں اس معیشت سے 12 لاکھ سے زائد ملازمتیں وابستہ ہیں جنہیں عارف حسن کراچی میں دستیاب ملازمتوں کا 72 فیصد قرار دیتے ہیں۔
کراچی ہندوستان کے بٹوارے کے وقت ایک چھوٹا سا شہر تھا۔ بٹوارے کے نتیجے میں بھارت میں ہونے والے فسادات کی بناء پر پنجاب، یوپی، سی پی، بہار، حیدرآباد دکن، مہاراشٹر، راجھستان اور دیگر علاقوں سے لاکھوں لوگوں نے ہجرت کی۔ کراچی کو آزاد ہونے والے ملک کا دارالحکومت بنایا گیا، یہی وجہ تھی کہ سرکاری ملازمتوں اور ان سے متعلقہ شعبوں سے وابستہ افراد اپنے اہل خان کے ساتھ کراچی میں آباد ہوئے اور ملازمتوں میں کھپ گئے۔ شہر میں تیزی سے صنعتیں لگنے لگیں، یوں پہلے اردو بولنے والے مزدور ان صنعتوں میں ملازم ہوئے اور پھر پنجاب اور خیبر پختون خوا سے لاکھوں افراد ان صنعتوں میں کام کرنے کے لیے کراچی میں آباد ہوئے تھے۔
صنعتوں کے ساتھ سروس سیکٹر میں بھی پھیلاؤ ہوا۔ تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کا قیام عمل میں آیا، یوں غیر رسمی معیشت ترقی پانے لگی۔ کراچی کی منصوبہ بندی کے ذمے دار ادارے شہرکے پھیلاؤ کے ساتھ انفرا اسٹرکچر کی تعمیر پر توجہ نہ دے سکے، یوں تجاوزات پھیلنے لگیں۔ لاکھوں افراد نے پتھاروں کے ذریعے زندگی کے حالات بہتر بنانے کی جدوجہد تیز کر دی۔ اگرچہ مہذب ملکوں کی طرح شہری انتظام کے ذمے دار ان تجاوزات کو روکنے اور فٹ پاتھ کو بچانے اور سڑکوں اور ٹریفک کی راہ میں رکاوٹوں کو ختم کرنے کے بجائے ان اداروں نے اس غیر رسمی معیشت سے فائدہ اٹھانا شروع کر دیا۔
امریکا کی خبررساں ایجنسی اے پی ایف کے کراچی بیورو نے صرف صدر اور ایمپریس مارکیٹ کے علاقے کے بارے میں ایک رپورٹ مرتب کی تھی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اس علاقے سے سالانہ ایک سے ڈیڑھ ارب روپے بھتے کے نام پر وصول کیا جاتا ہے جو سرکاری اداروں اور سیاسی جماعتوں میں ان کی طاقت کے تناسب سے تقسیم ہوتا ہے۔ کراچی کی تاریخ پر نظر رکھنے والے اکابرین کا کہنا ہے کہ کراچی شہر میں تجاوزات اور پتھاروں کی حوصلہ افزائی کا سلسلہ سابق صدر ایوب خان کے دور میں شروع ہوا۔
ایوب خان کی سرکاری مسلم لیگ کے عہدیدار شہر کے مختلف علاقوں میں غیر قانونی تعمیرات اور پتھاروں کے لگنے کے ذمے دار تھے۔ پولیس اور دیگر ادارے مسلم لیگی رہنماؤں کو تحفظ فراہم کرتے تھے۔ بھٹو دور میں اسٹیک ہولڈرز کی ترتیب میں فرق آیا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں پولیس اور بلدیہ کراچی کے اہلکاروں کے وارے نیارے ہوگئے۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں جب بھی ان تجاوزات کے خاتمے کی مہم شروع ہوئی پولیس کی سرپرستی میں سڑکوں پر ہنگامہ آرائی ہوئی اور ٹائر جلائے جاتے اور یہ سلسلہ رک جاتا۔ پھر متحدہ قومی موومنٹ، پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، سنی تحریک اور پنجابی پختون اتحاد وغیرہ اس غیر رسمی معیشت کے تحفظ کے ذمے دار ہوئے، یوں شہر کا حلیہ تبدیل ہو کر رہ گیا۔ مگر غیر رسمی معیشت سے غریب براہِ راست جڑ گئے۔ پتھارے لگنے والوں میں تمام نسلی اکائیوں سے وابستہ افراد شامل ہوئے۔
اس غیر رسمی معیشت نے روزگارکی نئی سہولتیں پیدا کیں۔ بعض خاندان 50 ء کی دہائی سے اس معیشت سے وابستہ ہوئے۔ اس معیشت نے لوگوں کو سستی اشیاء مہیا کیں۔ کراچی شہر میں 80ء کی دہائی سے فسادات کا سلسلہ شروع ہوا۔ پہلے اردو بولنے والوں اور پٹھانوں کے درمیان جنگ و جدل کا میدان گرم ہوا، پھر پنجاب سے تعلق رکھنے والے ٹکراؤ میں آئے اور آخر میں سندھی اور اردو بولنے والے فساد کا شکار ہوئے۔
جب یہ لسانی فسادات رکنے لگے تو ٹارگٹ کلنگ کا خوفناک سلسلہ شروع ہوگیا۔ مسلح گروہوں نے اغواء برائے تاوان کوکاروبار کی شکل دی۔ کاریں اور اسکوٹر چھیننے کے لیے منظم گروہ وجود میں آئے۔ بینکوں میں ڈکیتیوں کی وارداتوں کا رکنا مشکل ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی پانی، بجلی اور گیس کا بحران خوب بڑھا۔ وفاقی وزارتوں اور صوبائی محکموں میں رشوت اور سفارش کے بغیر کسی قانونی کام کا ہونا بھی معجزہ قرار پایا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ پولیس افسروں نے ہدایات جاری کیں کہ کوئی پولیس والا اکیلا سڑک پر نہ جائے۔
پولیس موبائل کسی سڑک اور آبادی میں کارروائی سے گریزکرے۔ یہ معاملہ دو سے تین عشروں تک پھیلا۔ اس مجموعی صورتحال کی بناء پر کراچی میں نئی صنعتیں لگنا بند ہوگئیں۔ بہت سے صنعتی ادارے پنجاب منتقل ہوگئے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے صنعتکاروں نے بنگلہ دیش، بھارت، دبئی اور افریقہ کے مختلف ممالک میں صنعتیں لگانا شروع کیں۔کراچی سے بینکوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں حتیٰ کہ میڈیا ہاؤس کے ہیڈکوارٹر لاہور اور اسلام آباد کی طرف منتقل ہوگئے۔
اس صورتحال کے نتیجے میں روزگارکے مواقعے کم ہوتے چلے گئے مگر نہ صرف اندرون ملک بلکہ بنگلہ دیش، افغانستان اور برما سے لاکھوں پناہ گزین کراچی میں آکر آباد ہوئے، یوں لاکھوں افراد کے لیے غیر رسمی معیشت میں روزگار تلاش کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہ رہا۔ تجاوزات میں غیر قانونی دکانیں اور پتھارے شامل ہیں۔ دکانوں کے مالکان اتنی سکت رکھتے ہیں کہ انہوں نے شہرکی مختلف مارکیٹوں میں اپنا کاروبار منتقل کیا اور کچھ شہر کے مختلف علاقوں میں دکانیں تلاش کررہے ہیں مگر لاکھوں پتھارے والوں اور ان سے وابستہ گھروں میں قائم کارخانوں کے مالکان اور مزدوروں کے لیے روزگار کے حصول کے مواقعے کم ہوگئے۔وہاں فاقہ کشی ہے۔
کراچی میں خواندگی کا تناسب 50 فیصد ہے۔ اسی طرح خط غربت کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد آبادی کے آدھے حصے پر مشتمل ہیں۔ پھر ان میں سے 89 فیصد کچی آبادیوں میں رہتے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ہمیشہ کی طرح بغیر کسی منصوبے کے تجاوزات اور پتھاروں کے خاتمے کی مہم شروع کر دی ۔ یہ نہ سوچا گیا کہ لاکھوں لوگ جو اس غیر رسمی معیشت کے خاتمے کی وجہ سے اپنے روزگار سے محروم ہو رہے ہیں تو ان کی زندگیوں میں نیا طوفان کھڑا ہوگیا ہے۔
ان افراد کے روزگار کے بارے میں کوئی منصوبہ سامنے نہیں آیا ، یوں بے روزگاروں کی ایک نئی فوج سے خط غربت کے نیچے زندگی گزارنے والے افرادکی تعداد میں اضافہ ہوگا جس کے خطرناک نتائج برآمد ہونگے۔ کراچی کے میئر کے اس اقرار کے بعد کہ اس مہم کا نشانہ ایسی عمارتیں بھی بنیں جو قانونی طور پر تعمیر کی گئی تھیں، سپریم کورٹ کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔
بھارت کی کمیونسٹ پارٹی کی رہنما اور معروف ادیبہ نور سجاد ظہیر کا کہنا ہے کہ بھارت کی ریاست یوپی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے۔ یوپی کے شہروں میں غیر مسلمان اور ہندوؤں کے نچلے دلت طبقے سے تعلق رکھنے والے سڑکوں پر چھوٹے چھوٹے کاروبار سے منسلک تھے۔ یہ لوگ مرغیاں اور بکرے کے گوشت کی فروخت سے لے کر سبزیوں اور پھلوں کا کاروبار کرتے تھے۔
یوپی کی حکومت نے سڑکوں پر کاروبارکو ممنوع قرار دیا ہے۔ کاروبار کے لیے دکان، ریفریجیریٹر، بجلی کا کنکشن اور کھڑکیوں اور دروازوں پر جالیوں کو لازمی قرار دیا ہے۔ اس پابندی سے لاکھوں غریب مسلمان اور دلت طبقے کے افراد متاثر ہوئے ۔ وزیر اعظم عمران خان غریبوں کا ذکر خوب کرتے ہیں مگر وفاقی حکومت کی پالیسیاں غریبوں کی زندگیوں کو مزید مشکل بنارہی ہیں۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے غریبوں کی بے دخلی کو پہلے محسوس نہیں کیا لیکن اب سرکلر ریلوے کی پٹری پر آباد بستیوں کو بچانے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا عزم کیا ہے۔ پیپلز پارٹی جس کا بنیادی نعرہ روٹی، کپڑا اور مکان کی فراہمی ہے لہٰذا اس حکومت کا فرض ہے کہ اپنے منشورکی پاسداری کرتے ہوئے اس مہم سے متاثر ہونے والے غریبوں کو متبادل جگہ کی فراہمی کے لیے فوری اقدام کرے تاکہ غریبوں کو کچھ دلاسہ مل سکے اور خط غربت کے نیچے رہنے والی آبادی میں اضافہ نہ ہو۔