بکاؤ مال

سلمان بٹ نے2010ء کے اوول ٹیسٹ میں بطور کپتان نہ صرف خود کو بیچا بلکہ اپنے دو ساتھیوں آصف اور عامر کی قیمت بھی لگوا لی۔


Ayaz Khan July 01, 2013
[email protected]

KARACHI: سلمان بٹ کے اعترافِ جرم سے مجھے امریکا کے پہلے صدر جارج واشنگٹن کا ایک واقعہ یاد آگیا ہے۔ جارج واشنگٹن دوپہر کا کھانا اپنے آفس میں تنہا کھانے کا عادی تھا۔ وہ جب لنچ کرتا تو اس کے اسٹاف میں سے بھی کسی کو اس کے پاس بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی۔ 18 ویں صدی کے اس صدر کی سرکاری رہائش گاہ مین ہیٹن نیو یارک میں تھی۔

واشنگٹن کا وائٹ ہاؤس بعد میں تعمیر ہوا لیکن جارج واشنگٹن جس صدارتی محل میں رہتا تھا، وہ بھی سفید ہی تھا اور کہا جاتا ہے کہ موجودہ وائٹ ہاؤس بنانے کا آئیڈیا اسی عمارت سے لیا گیا تھا۔ اس سے پہلے کہ واقعہ وائٹ ہاؤس میں کہیں گم ہوجائے، بیان کر لیتے ہیں۔ ہوا یوں کہ اس دور کا ایک کنٹریکٹر صدر واشنگٹن کی یہ روٹین جانتا تھا۔ وہ ایک دن کسی طریقے سے عین اس وقت صدر کے دفتر میں داخل ہو گیا جب وہ لنچ کر رہا تھا۔

کھانے کے دوران ہی اس کنٹریکٹر نے صدر کو ایک ڈیل آفر کر دی۔ وہ گویا ہوا جنابِ صدر 10 لاکھ ڈالر کا ایک ٹھیکہ ہے وہ اگر اسے دے دیا جائے تو وہ اس میں سے 3 لاکھ ڈالر بطور رشوت دے دے گا۔ جارج واشنگٹن نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔ اس ٹھیکیدار کو صدر کی ''تَکنی''سے بھی فرق نہیں پڑا، اس نے نیا پتہ پھینکا۔ ''4 لاکھ ڈالر آپ کو دے سکتا ہوں۔'' اس بار صدر نے دیکھا تو غصہ بھی شریک حیرت تھا۔ ٹھیکیدار پر اس کا بھی اثر نہیں ہوا، اس نے ففٹی ففٹی کی آفر دے دی۔ صدر نے اسے کہا، دفع ہو جاؤ۔

وہ وہاں سے اٹھ کے گیا نہ خاموش ہوا۔ جارج واشنگٹن کو آخری آفر یہ دی کہ 7 لاکھ آپ کے 3لاکھ میرے۔ اب صدر کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا، وہ زور سے چلایا۔ پلک جھپکتے ہی دو گارڈ اندر داخل ہوئے۔ صدر نے ایک موٹی سی گالی دی اور کہا... باہر لے جاؤ اس ٹھیکیدار کو۔ اتنی دیر میں جارج واشنگٹن کا پرسنل سیکریٹری بھی اندر داخل ہو گیا۔ اس نے استفسار کیا، باس کیا ہوا۔ جارج واشنگٹن نے کہا، گھٹیا آدمی جسے ابھی میرے محافظ اٹھا کر باہر لے گئے ہیں، رشوت کی اس رقم کے قریب پہنچ گیا تھا جو میرے ذہن میں تھی۔ امریکا کے پہلے صدر کی بھی ایک قیمت تھی لیکن وہ بکنے سے بچ گیا۔

ایک بہت پیارے دوست سے سُنا ہوا یہ واقعہ مجھے سلمان بٹ کے اعترافِ جرم پر یاد آیا۔ جارج واشنگٹن تو بچ گیا لیکن دنیا میں ایسے صدور اور وزیر اعظم گزرے ہیں جو بار بار اپنی قیمت لگواتے رہے۔ آج بھی ایسے وی وی آئی پیز برسراقتدار ہیں جو روز کسی نہ کسی ٹھیکیدار کے ہاتھوں بک جاتے ہیں۔ سلمان بٹ اور اس کے دو ساتھی بک گئے تو وہ عام کرکٹر تھے۔ ہمارے کرکٹروں کی اکثریت غریب گھروں سے آتی ہے۔ ہماری قوم میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو راتوں رات امیر بننا چاہتے ہیں۔ انھیں لالچ دینا آسان ہوتا ہے۔ جب ان سے یہ کہا جاتا ہے کہ دو تین نو بال کر دو، ایک غلط شاٹ کھیل کر آؤٹ ہو جاؤ، اس کے بدلے میں لاکھوں روپے مل جائیں گے تو وہ بڑی آسانی سے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ تب انھیں یہ بھی خیال نہیں رہتا کہ ان میں اور بازار میں بیٹھی ہوئی طوائف میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ طوائف تو دھندے کے لیے صرف اپنی عزت داؤ پر لگاتی ہے یہ سرعام قوم کی عزت بیچ دیتے ہیں۔

سلمان بٹ نے 2010ء کے اوول ٹیسٹ میں بطور کپتان نہ صرف خود کو بیچا بلکہ اپنے دو ساتھیوں آصف اور عامر کی قیمت بھی لگوا لی۔ سلمان بٹ کپتان ہونے کی وجہ سے زیادہ پیسے لے گیا۔ عامر نے اعترافِ جرم کیا تو سچی بات ہے مجھے لگا تھا کسی نے اسے سزا جلد ختم کرانے کی یقین دہانی کرا کے شیشے میں اتار لیا ہے۔ تین سال بعد سلمان بٹ کا ضمیر جاگ گیا ہے تو اب محمد آصف کو بھی اسپاٹ فکسنگ میں ملوث ہونے کا اعتراف کر لینا چاہیے۔ ویسے اطلاعات ہیں کہ وہ بھی اپنے سابق کپتان کے نقش قدم پر چلنے کے لیے تیار ہے۔

سلمان بٹ نے قوم سے معافی مانگ لی ہے۔ تین سال تک قوم کو دھوکے میں رکھنے کے بعد معافی؟ ''ہائے اس زُودِ پشیماں کا پشیماں ہونا۔'' اوول ٹیسٹ کا واقعہ ہوا تھا تو مجھے لگا ہمارے کرکٹرز کو پھنسایا گیا ہے۔ دو تین ہفتے پہلے تک مجھے اپنا موقف درست لگتا تھا۔ آئی پی ایل میں سری سانتھ سمیت کچھ کرکٹرز کا جواء اسکینڈل پکڑا گیا تو میں ان کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے بعد ایکسپریس نیوز کے اسٹوڈیو سے باہر نکلا تو برادرم زاہد مقصود سے ملاقات ہو گئی۔ انھوں نے مجھ سے کہا ہمارے کرکٹرز پر بھی اسپاٹ فکسنگ کا الزام درست تھا۔

میں نے ان کی بات نہیں مانی اور باور کرایا کہ یہ سب ہمارے کرکٹ بورڈ کی نالائقی تھی۔ زاہد صاحب نے کہا، شروع میں وہ بھی ایسا ہی سمجھتے تھے لیکن کچھ عرصہ پہلے پی سی بی کے سابق چیئرمین اعجاز بٹ سے ملاقات کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ تینوں کرکٹرز قصور وار تھے۔ زاہد صاحب کے بقول جب اوول ٹیسٹ میں اسپاٹ فکسنگ کا الزام لگا تو اعجاز بٹ نے تینوں ملزموں سے پوچھا، سچ سچ بتاؤ تم اس میں ملوث ہو یا نہیں؟ تب ان تینوں نے پورے یقین سے اور حلفاً کہا کہ انھیں سازش کے تحت پھنسایا گیا ہے۔

زاہد صاحب سے یہ تفصیل سننے کے باوجود میرا موقف تبدیل نہیں ہوا تو انھوں نے کہا کسی وقت بیٹھ کر تفصیل سے بات کریں گے۔ اس سے پہلے کہ ہماری تفصیل سے بات ہوتی جمعے کو اچانک ٹی وی چینلوں پر بریکنگ نیوز چلنا شروع ہو گئی کہ سلمان بٹ نے اسپاٹ فکسنگ میں ملوث ہونے کا اعتراف کر لیا اور ہنگامی طور پر بلائی گئی پریس کانفرنس میں قوم سے معافی بھی مانگ لی۔ اسپاٹ فکسنگ شاید اتنا بڑا جرم نہیں تھا جتنا بڑا جرم ان کرکٹرز نے کرکٹ بورڈ اور قوم سے جھوٹ بول کر کیا۔ یہ تینوں ملزم اس وقت پی سی بی کے چیئرمین کو سچ بتا دیتے تو انھیں جیل جانا پڑتا نہ اتنی طویل پابندی لگتی۔

پاکستان کرکٹ بورڈ خود ایکشن لیتا تو ان کی سزا کافی کم ہوتی لیکن یہ اچھا ہو گیا' ملک وقوم کی عزت سے کھیلنے والوں کو سزا ملنی چاہیے۔ اب یہ اعتراف اور قوم سے معافی بھی شاید کسی ڈیل کا نتیجہ ہے۔ آئی سی سی کی سزا پوری ہونے کے بعد اور کچھ نہیں تو کمنٹری کا چانس تو بن ہی جائے گا۔ کہیں کوچنگ کا موقع بھی مل سکتا ہے۔ آج مجھے بھی اپنی غلطی کا اعتراف کرنا ہے۔ جھوٹے اور جواری کرکٹروں کے دعوے پر یقین کر کے میں نے غلطی کی۔ ان تین کرکٹروں کی اس حرکت نے سارے کرکٹرز کا کردار مشکوک کر دیا ہے۔ اب ہر آؤٹ، ہر نو بال اور ہر مس فیلڈ مشکوک لگے گی۔ کوئی کیچ چھوٹے گا تو میں یہ سوچنے لگوں گا ایک کیچ چھوڑنے پر کھلاڑی کو کیا ملا ہو گا۔ میرا کرکٹ سے عشق کمزور ہوتا جا رہا ہے، ڈرتا ہوں یہ محبت کہیں نفرت میں نہ بدل جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں