ایشیا کی سب سے بڑی لائبریری بیجنگ میں ہے
چین میں لاکھوں بک سٹورز اور کیفے ٹیریاز میں لائبریریوں کی موجودگی چینیوں کی کتابوں سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے
(چھٹی قسط)
نیشنل لائبریری آف چائنا میں پونے تین لاکھ کتابیں ہیں جہاں بیک وقت 5ہزار افراد مطالعہ کرسکتے ہیں' ایک پاکستانی کے چین میں گزرے روز و شب کا احوال
چائنا ریڈیو انٹرنیشنل میں کام کے پہلے روز سے ہی ہمارے اعزاز میں دعوتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ عبد المجید بلوچ اور رئیس سلیم 'جو سی آر آئی میں ہمارے پیش رو تھے' ہمیشہ اس حوالے سے آپس میں مسابقت کے موڈ رہتے تھے۔ ناشتہ اکثر بلوچ صاحب کی میز بانی میں ہوتا تو رات کے کھانے پر رئیس سلیم صاحب اپنے یہاں مدعو کر لیتے۔ اور ان الفتوں کی ابتدا رئیس سیلم صاحب نے ہمیں سی آر آئی کے کیفے ٹیریا میں چائے کی دعوت سے کی۔ کیفے ٹیریا میںبیٹھے بیٹھے رئیس سلیم اچانک اٹھے اور تھوڑی دیر بعد واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی۔ ہمیں حیرانی ہوئی کہ کیفے ٹیریا میں کتاب کہاں سے آئی۔ ہم نے خود ہی اندازہ لگایا کہ شاید یہ ان کی کتاب ہو اور انہوں نے کسی سے واپس لی ہو۔ جب رئیس سلیم نے کتاب یہ کہہ کر میری طرف بڑھائی کہ اس کے مطالعے سے آپ کو چینی معاشرے کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ تو ہم نے ان کاشکریہ ادا کیا اور پوچھا کہ یہ کتاب تو آپ ہی کی ہوگی ؟ تو انہوں نے اپنا سر نفی میں ہلا دیا اورکہا کہ یہ کتاب میں نے کیفے ٹیریا میں موجود لائبریری سے لی ہے۔ ہم حیرت میں ڈوب گئے اور ذہن میں سوال آیا کہ کیفے ٹیریا اورلائبریری دو متضاد چیزیں؟
کیونکہ ایسی کوئی روایت کم ازکم ہمارے ہاں تونہیں ہے۔ رئیس سلیم بولے کہ کریم صاحب حیران ہونے کے بہت سے مقام آگے بھی ہیں۔ ابھی تو عشق کی ابتداء ہے۔ آپ کو یہاں بہت حیران کن اختراعات ملیں گی۔ انہوں نے بتایا کہ چین میں جا بجا لائبریریز اوربک سٹورز چینی قوم کی کتاب سے محبت اورمطالعے کے رجحان کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اور چین کی اکیڈمی آف پریس اینڈ پبلی کیشنز کے مطابق 58.4 فیصد چینی باقاعدگی سے کتب کا مطالعہ کرتے ہیں۔ یہ جان کر قلب کو اطمینان ہوا کہ ہمارا کتاب بینی کے حوالے سے دال دلیا یہاں بھی چلتا رہے گا۔
پاکستان کے ایک موقر روزنامہ کے بچوں کے میگزین سے شروع ہونے والا کتاب بینی کا ہمارا سفر ہمیشہ رواںدواں رہا۔ کبھی یہ محلے میں موجود لائبریری کی راہ دکھاتا تو کبھی یہ تعلیمی اداروں کی لائبریریزکا رخ کرواتا۔ وقت دبے پائوں آگے بڑھتار ہا اور ساتھ ساتھ کتاب سے دوستی بھی مضبوط ہوتی چلی گئی۔ یہی تعلق اسلام آباد میں موجود برٹش کونسل کی لائبریری کی ممبر شپ کا باعث بنا۔ راولپنڈی کے علاقے ٹینچ بھاٹہ کی ایک مقامی لائبریری سے بھی استفادہ کیا اس کے علاوہ راولپنڈی کے ہی ایک علاقے بکرامنڈی چوک(موجودہ نام کلمہ چوک) سے دائیں جانب جاتی سڑک کی طرف ایک لائبریر ی بھی علم کی تشنگی مٹانے کاذریعہ بنی۔ آبپارہ میں واقع لائبریری سے بھی وقتاً فوقتاً فیض یابی کا موقع ملا۔ کتاب اورلائبریری سے جڑا یہ تعلق چین میں بھی برقرار رہا۔ ابتدائی دو ماہ تو ایڈجسٹ ہونے اور چیزوں کو سمجھنے میں لگے بعد میںذراماحول اوردیگر امور سے آشنائی ہوئی تو کتاب سے تعلق نے انگڑائی لی اور انگلش بکس اور بک سٹورز کی دریافت کا مرحلہ شروع ہوا۔ ہم تو چینی زبان سے لاعلم تھے اس لیے اس کے حل کےلیے سی آر آئی ہندی سروس کے فارن ایکسپرٹ اکھل پریشار (Akhil Parashar) سے مددطلب کی۔
اکھل جی سے تعلق چین آتے ہی استوار ہوگیا تھا۔ ایک توہم دونوں کے ملک پڑوس میں واقع ہیں اوردوسرا سی آر آئی میں بھی ہمارے دفاتر ایک ہی فلور اورپڑوس میں تھے۔ یوںہمسائیگی کا یہ سلسلہ چین میں بھی موجود رہا۔ اکھل جی نے بیجنگ لینگوئج اینڈ کلچر یونیورسٹی سے چینی زبان میں گریجویشن کی ہوئی تھی اور چینی لکھنا، پڑھنا اور بولنا ان کےلیے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ سچ پوچھیںتو جب ہمیں یہ معلوم ہوا کہ انہوں نے چینی زبان میں گریجویشن کی ہوئی ہے تو ہمیں سر سید احمد خان یا د آگئے جو برصغیر کے مسلمانوںکو انگلش سیکھنے پر قائل کرر ہے تھے جبکہ انہیں اس معاملے میں اس دور کے مذہبی طبقات کی مخالفت کا سامنا رہا۔ اکھل جی سے ہم نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ ہمیں یہاں سے انگلش بکس کہاں سے دستیاب ہوں گی۔ تو انہوں نے کہا کہ انہیں خود بھی کچھ چینی کتابیں خریدنی ہیں تو ہم اکٹھے کسی دن بک سٹور چلیں گے۔ سو ایک روز ہم ان کی معیت میں بیجنگ کے علاقے شی تان(Xidan) میں واقع ایک بڑے بک سٹور پہنچ گئے۔ ہمارے ہاںتو عمومی طور پر بک سٹور ایک منزلہ ہی ہوتے ہیں۔ جہاں ریکس میں کتابیں رکھی ہوتی ہیں لیکن یہ بک سٹور توکسی مال کی مانند تھا۔
مختلف فلور تھے اور لوگ مختلف فلورز تک جانے کےلیے برقی زینے استعمال کر رہے تھے۔ اس بک سٹور میں داخل ہوں تو کُشادگی کا احساس آپ کو گھیر لیتا ہے۔ ریکس میںکتابیں ترتیب اورسلیقے سے مناسب فاصلے پر سجی ہوئی تھیں۔ انگلش بُکس کےلیے دوسرے فلور کا رخ کیا۔ وہاں انگلش میں لکھے ناولز، آب بیتیاں اور دیگر سماجی موضوعات پر لکھی کتابوں کی ایک وسیع رینج نظرآئی۔ بک سٹورکا اندرونی منظر بڑا متاثرکن تھا۔ بچے، بڑے، بوڑھے غرض ہرعمر کے مرد و زن بڑ ی تعداد میں وہاں اپنی پسند کی کتابیںدیکھ رہے تھے۔ مگر اتنی بڑی تعداد ہونے کے باوجود وہاں شور نام کی کسی چیز کا وجود نہیں تھا۔ وہاں ایک اور دلچسپ چیز کابھی تجربہ ہوا کہ اپنی مائوں کے ساتھ آنے والے بچے وہیں بک سٹورز میں ہی ریکس کے درمیان موجود جگہ پر فرش پر بیٹھ کر کتابیں پڑھ رہے تھے۔ کسی فرد یا بک سٹور کے عملے نے انہیں یہ باورنہیں کرایا کہ وہ یہاں بیٹھ کر مفت میں کتاب کیوں پڑھ رہے ہیں۔
اسی انداز میں کئی مردو زن کو بھی کتب کا مطالعہ کرتے دیکھا۔ خیر ہم نے اپنی مطلوبہ کتابیں لیں اوراکھل جی کے ہمراہ ادائیگی کےلیے چل دیے کیونکہ ادائیگی کا طریقہ کار جو چینی زبان میں تھا۔ جب ہم بل دینے کےلیے لائن میں لگے اور ہمار ی باری آئی تو سیلز وویمن نے کتابوں کو الٹ پلٹ کردیکھا، ٹوٹل کیا، دوبارہ ٹوٹل کیا اور کتابوں کو الٹ پلٹ کردیکھا اورپھر چینی زبان میں سلسلہ تکلم شروع کردیا جو ہماری سمجھ سے بالاتر تھا۔ ہم یہ سمجھے کہ شایدکسی تکنیکی وجہ سے کتابوں پر لگے ٹیگز یا بارکوڈ میں کوئی مسئلہ ہو گیا ہے۔ اس لمحے اکھل جی آگے بڑھے اور ان کی اس لمحے چینی دانی ہمارے بہت کام آئی۔ اکھل جی نے بتایا کہ خاتون کہہ ر ہی ہیں کہ جوکتابیں ہم نے خریدی ہیں خوش قسمتی سے ان میں سے کچھ کتابوں پر آج ڈسکاونٹ ہے اور ہم انہی پیسوں میں ایک اور کتاب بھی خرید سکتے ہیں۔ ہم بہت خوش ہوئے کہ ایک کتاب مفت میں مل رہی ہے۔ انہوں نے ہمیں ایک چینی زبان میں چٹ دی۔ وہ لے کے ہم دوبارہ انگلش بکس کے فلور پر گئے اور چٹ دکھا کر مزید ایک کتاب لے لی۔ ہمیں چین جا کر کتابوں پر اس طرح کی رعایت دیے جانے کا پہلی مرتبہ اندازہ ہوا۔
اور ساتھ ہی اکثر چینیوں کی کاروباری دیانت کا بھی تجربہ ہوا کہ ایک غیرملکی جو چینی زبان سے لاعلم تھااسے بھی بتار ہے تھے کہ ان کتابوں پر رعایت ہے اورآپ ان سے استفادہ کریں۔ سو ہم نے تو ایک اضافی کتاب لے لی۔ جب اکھل جی کی ادائیگی کی باری آئی تو انہیں خریداری پرکوئی رعایت نہ ملی۔ جب ہم کتابیں خرید کر باہر نکلے تو اکھل جی مجھ سے ازراہ مذاق کہنے لگے کہ دیکھیں پاک چین دوستی کے اثرات یہاں تک آگئے ہیں اور آپ کو مفت میں کتاب مل رہی ہے۔ ان کی یہ بات سن کر میں نے ایک قہقہہ لگایا اور کہا کہ شاید آپ درست کہہ رہے ہیں۔ یہ ہمار ا چین میں کتابوں کی خریداری کا پہلا تجربہ تھا جو بہت کامیاب رہا۔ اس کے بعد تو ہماراکتاب سے تعلق مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا۔ اورہم نے بک سٹورز اور لائبریریز کی تلاش شروع کر دی۔
دفتر میں اپنی کولیگ چو شی Zhu Xi سے 'جن کا اردو نام سلیمہ ہے' گزارش کی کہ کچھ لائبریرز کے متعلق بتائیں۔ Zhu Xi اسلام آباد میں دو برس گزار چکی ہیں۔ ایک سال تو انہوں نے اسلام آباد کی ایک سرکاری یونیورسٹی میں اردو پڑھتے ہوئے گزارا جبکہ ایک برس وہ بحثیت چیف بیورو (Chief Bureau) سی آر آئی اسلام آباد بیورو تعینات رہی ہیں۔ وہ اردو روانی سے بولتی ہیںاور پاکستان کے کلچر سے بھی بخوبی آگاہ ہیں۔ وہ پاکستان کے کئی نامور سیاستدانوں اور شخصیات کا انٹرویو بھی کرچکی تھیں۔ چوشی Zhu Xi صاحبہ پیدائشی طور پربیجنگر (Beijinger) ہیںاوربیجنگ کے چپے چپے سے واقف ہیں اور چین میںبیجنگ میں رہتے ہوئے بیجنگر (Beijinger) کی شناخت آپ کےلیے سماجی برتری کے نمایاں احساس کا باعث ضرور ہے۔ انہوں نے اپنی روایتی ملنساری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کام کی حامی بھر لی۔ اگلے روز انہوں نے ہمیں بتایا کہ غیر ملکی نیشل لائبریری آف چائنا سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے وہاں تک جانے کا راستہ بھی بتایا۔ سو یوں ایک روز ہمیںوہاں جانے کا موقع مل ہی گیا۔ یہ لائبریری ہمارے دفتر سے قدرے فاصلے پر واقع تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ ہم پیدل گھومتے گھامتے وہاں پہنچ جائیں۔
وہاں جانے کا ذریعہ سب وے، پبلک ٹرانسپورٹ یا پھر ٹیکسی تھی۔ سو ہم نے سب وے کوچنا اوربیجنگ کی سب وے لائن ون سے شروع ہونے والا سفردو یا تین سب ویز کی تبدیلی کے بعد نیشنل لائبریری کے سامنے ختم ہوا۔ اپنے سامنے لائبریری کی عمارت کو پا کر ایک تو خوشی کا احسا س ہوا اور دوسرا دل ہی دل میں چینی حکومت کے شہری منصوبہ بندی کے اعلی و نچلے درجے کے اہلکاروں کو سراہاکہ جنہوںنے سب وے سسٹم کو تمام عوامی مقامات سے منسلک کیا ہوا ہے۔ سب وے سٹیشن کے بالکل سامنے اگرچہ لائبریری کی عمارت تو ہے مگر عمارت کے داخلی دروازے تک رسائی کےلیے آپ کو کچھ قدم چلنا پڑتا ہے۔ وہ قدم اتنے ہیں کہ آپ کو باقاعدہ ایک مختصر واک کا احساس ہوتا ہے۔ جب آپ اپنی سہولت کےلیے اسے میدان کہہ لیں یا صحن سے گزر کرسیڑھیاں چڑھتے ہیں تو عمارت کے داخلی دروازے پر تعینات عملہ انتہائی خوش مزاجی سے آپ کا استقبال کرتا ہے اوردستاویزی شناخت کے مرحلے سے گزر کر آپ سے آپ کی مطلوبہ منزل پوچھ کر آپ کی رہنمائی کرتے ہیں۔ رہنمائی کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے کیونکہ وہاں مختلف ہالز ہیںجو کہ مختلف مقاصد کےلیے مختص ہیں۔
ہماری منزل چونکہ انگلش بکس کارنر تھا سو انہوں نے عمارت کے داخلی دروازے کے ساتھ موجود بائیں ہاتھ راہداری کی طرف اشارہ کیا۔ جو آگے جا کر دائیں ہاتھ کی راہداری سے ہوتے ہوئے ایک فلور پر ختم ہوتی ہے۔ جب یہاں پہنچا تو دیکھا کہ یہاں پر کچھ نشستیں مستقل طور پر نصب ہیںاور کچھ نوجوان چینی لڑکے اور لڑکیاں وہاں بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے۔ آس پاس نظر دوڑائی تو سامنے سیڑھیاں نیچے جاتی نظر آئیں۔ اور سامنے ہی ایک ہال دکھائی دیا۔ باہر مختلف سیکشنز کی طرف رہنمائی کرتے بورڈز آویزاں تھے۔ وہیں پر انگلش سیکشن بھی لکھا ہوا تھا۔ سو کچھ تردد کے بعد ہال میںداخل ہوئے اور ہال کے اندر موجود استقبالی عملے سے رجوع کیا اور اُن سے لائبریری ممبرشپ کے حصول کا اظہار کیا۔ ہم نے اپنا مدعا انگلش زبان میں بیان کیا جس کو سن کر وہ مسکرائے اور انگلش زبان جاننے سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ ہمیں پریشانی ہوئی مگر استقبالی عملے کا دوستانہ رویہ اور مسکراہٹ کچھ اور ہی بتا رہی تھی۔ انہوں نے ہم سے چینی زبان میں بات چیت شروع کر دی۔ ہمیں جو چند لفظ چینی زبان کے آتے تھے اس میں ہم نے انہیں اپنے پاکستانی ہونے اور سی آر آئی میں کام کرنے کا بتایا۔
پاکستانی کا سن کر وہ بہت خوش ہوئے اور اسی اثناء میں ایک درمیانی عمر کی خاتون اندر داخل ہوئیں جو کہ استقبالی عملے کی سپر وائزر تھیں۔ انہیں انگلش آتی تھی۔ ہمیں بعد میں معلوم ہوا کہ ہمیں باتوں میں مصروف رکھنے کا مقصد سپر وائزر کی آمد کا انتظار تھا۔ انہیںجتنی انگلش آتی تھی اس میں ہمیں ممبر شپ کے حصول کا طریقہ کار بتایا۔ اور ساتھ ہی علم دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے ہمیں لائبریری ہال کے اندر داخلے، وہاں موجود بکس کا جائزہ لینے اور وہاں بیٹھ کر پڑھنے کی اجازت دے دی۔ یہ اجازت پا کر ہم بہت خوش ہوئے۔ ہم نے وہاں موجود کتابوں کا جائزہ لیا۔ وہاں پر ادب کی مختلف اصناف، سیاست، معاشرت، معیشت، تاریخ، ابلاغ عامہ، عالمی تراجم سمیت ہر موضوع پر کتب دستاب تھیں۔ کتب کے جائزے کے دوران احساس ہوا کہ وہاں ہمارے مشرقی پڑوسی ملک کی کتابیں موجود ہیں جبکہ ہماری کتب خال خال ہیں۔ وہاں سے ہم نے ایک کتاب اٹھائی اور وہاں موجود ایک میز اور کرسی پر بیٹھ کر مطا لعہ شروع کردیا۔ ساتھ ساتھ وہاں موجود لوگوں پر بھی گاہے گاہے ایک طائرانہ نگاہ ڈالتے رہے۔ تمام لوگ نہایت خاموشی اور انہماک سے اپنی اپنی کتب کے مطالعے میں مصروف تھے۔
لائبریری میں انٹر نیٹ کی سہولت دستیاب تھی۔ قارئین اپنے اپنے لیپ ٹاپس کھولے مطالعے کی دنیا میں گم تھے۔ تھوڑی دیر بعد ہم وہاں سے اٹھے اور باہر جانے لگے تو استقبالیہ پر عملے کی سپروائزر موجود تھیں۔ اسے اتفا ق کہیں کہ عین اسی لمحے ایک نوجوان چینی طالبہ ہال میں داخلے کےلیے درکار دستاویزی شناخت کے مرحلے سے گزر رہی تھیں۔ سپروائزر نے فوری طور پر ان سے چینی زبان میں کچھ کہا۔ بات ختم ہونے کے بعد اس نوجوان طالبہ نے انتہائی پراعتماد انداز میں انگلش میں اپنا تعارف کرایا اور ہمیں ممبرشپ کے حصول کےلیے ایک اور جگہ لے گئیں۔ اس نوجوان طالبہ کا نام غالباً شیاو (Xiao)تھا۔ وہ بیجنگ کی ایک جامعہ میں زیر تعلیم تھیں۔ اور باقاعدگی سے یہاں آتی رہتی تھیں۔ وہ ہمیں لے کر مختلف راہداریوں، لائبریری میں موجود مختلف النوع مقاصد کےلیے موجود سیکشنز سے گزارتے ہوئے تہہ خانے میں موجود ایک آفس میں لے آئیں۔ یہی غیر ملکیوں کی لائبریری ممبر شپ کے حصول کا مرکز تھا۔ وہاں موجود عملے نے پاکستانی ہونے کا سن کر خوشی کا اظہار کیا۔ اور ممبرشپ دینے کے مختلف مراحل کا آغاز کیا۔ بات جب شناختی دستاویز کے طور پر پاسپورٹ دکھانے تک پہنچی تو معاملہ قدرے رک گیا۔
وجہ یہ تھی کہ ہمارے پاس اس وقت پاسپورٹ موجود نہیں تھا۔ صرف اور صرف سی آر آئی کا دفتری کارڈ تھا۔ انہوں نے اس کو دیکھا اور پھر کچھ آپس میں بات کی تو شیاو نے مجھے سے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس موبائل میں پاسپورٹ کی تصویر ہے۔ جس پر میں نے اطمینان کا سانس لیا۔ پاسپورٹ کی تصویر دیکھ کر انہوں نے تمام ضروری اندراجات مکمل کیے اور مجھے مشروط ممبر شپ کی خوشخبری سنائی۔ وہ اس لیے کہ میں اپنا اوریجنل پاسپورٹ انہیں دکھاوں گا تو تب وہ سسٹم میں اس کو مکمل کریں گے۔ ہم نے کہا ہمیں منظور ہے۔ یوں ہماری ممبرشپ شیاو کے توسط سے آسان ہو گئی۔ ( بعد میں ہم نے اپنی پہلی فرصت میں اپنا اوریجنل پاسپورٹ دکھا کر ممبرشپ مکمل کی)۔ یہ ممبرشپ فری تھی۔ اس کے کوئی پیسے چارج نہیں کیے گئے۔ ہم نے شیاو کا شکریہ ادا کیا اورا ن سے بات چیت شروع کر دی۔ ۔ ہم نے صحافیانہ تجسس کے تحت اس لائبریری کے متعلق بہت سوالات کیے جن کے جوابات شیاو نے خندہ پیشانی سے دیے۔ انہوں نے بتایا کہ بیجنگ کے ضلع ہایدیان میں واقع تین حصوں پر مشتمل اس لائبریری کا قیام نو ستمبر انیس سو نو کو Qing سلطنت کے دور میں ہوا۔ یہاں سے ہی چین کی علم دوستی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ابتداء میں اس کا نام Imperial Library of Peking تھا۔ بعد کے ادوار میں اس کے نام تبدیل ہوتے رہے اور بارہ دسمبر انیس سو اٹھاسی کو اس کو موجودہ نام دیا گیا۔ اس کا رقبہ 2,80,000 سکوائر میٹر ہے۔ یہ ایشیا کی سب سے بڑی لائبریری ہے اور دنیا کی بڑی لائبریریوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ اس میں 35 ملین سے زائد کتب ہیں۔ ایک سو پندرہ سے زائد غیر ملکی زبانوں میں یہاںمواد موجود ہے۔ غیر ملکی زبانوں میں موجود مواد کا تناسب لائبریری کے ذخائر کا چالیس فیصد بنتاہے۔
اقوام متحدہ کی سرکاری پبلیکیشنز، قدیم دور کے تمام اندازتحریر، چینی سلطنتوں Song, Ming, Qingکے پرانے ریکارڈز، پرانے نقشہ جات، ڈائیگرامز، بدھ مذہب کی قدیم ہدایات بھی موجود ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق لائبریری میں 2,70,000 سے زائد نایاب اور قدیم کتب موجود ہیں۔
NLC North, NLC South , Ancient Books Library پر مشتمل یہ لائبریری سارا سال کھلی رہتی ہے۔ یہاں اوسطاً بارہ ہزار افراد روزانہ آتے ہیں۔ یہاں پچیس ریڈنگ رومز اور پانچ ہزار ریڈنگ سیٹس ہیں۔ NLC South میں غیر ملکی زبانوں، چینی کلاسیکس اور نیشنل میوزیم آف کلاسک بکس پر مشتمل ہے۔ NLC Southمیں ہی واقع نیشنل میوزیم آف کلاسکس بکس گیارہ ہزار پانچ سو انچاس مربع میٹر پر مشتمل ہے۔ اس کے دس ایگزیبیشن ہالز ہیں۔ یہ چین میں پہلا اور اپنی نوعیت کا واحد میوزیم ہے جہاں بڑی تعداد میںقدیم کتب موجود ہیں۔ NLC North میں عوام کو کتب کی فراہمی اور مطالعے کےلیے جگہ کی فراہمی، نئی چینی کتب پڑھنے، الیکٹرانک سورسز اور آڈیو وزیول سورسز کی سہولت دستیاب ہے۔ Ancient Books Library میں تحقیق، قدیم کتب، پرانے ریکارڈز تک رسائی کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ اس لائبریر ی میں جدید دور کے تقاضوں کے مطابق Digital Collection بھی ہے جس کا حجم ایک ہزار ٹیرا بائٹ سے زائد ہے۔ یہ چین کی سب سے بڑی لائبریری ہے۔ اس لائبریری کے دنیا میں موجود دیگر بڑی لائبریرز سے بھی معاہدے ہیں۔
امریکہ اور چین کے درمیان ثقافتی تبادلوں کے آغاز کے بعد اس کا Library of Congress سے بھی معاہدہ ہوا جس سے دونوں لائبریریز کے درمیان علمی پراجیکٹس کے تبادلوں کا آغاز ہوا۔ یہاں International Federation of Library Associations and Institutions کے تحت سرگرمیاں بھی منعقد ہوتی رہتی ہیں۔ یہ لائبریر ی چین کے مختلف اداروں کےلیے اپنی خدمات فراہم کرتی ہے۔ یہ چین کے دواہم ریاستی اداروں نیشنل پیپلز کانگریس اور چائینز پیلپز پولیٹییل کنسلٹیٹو کانفرنس (CPPCC)کے قانون سازوں کو مختلف پالیسیوں کی تشکیل کےلیے درکار مواد اور حوالہ جات بھی فراہم کرتی ہے۔ یہ چین کے کلیدی پالیسی ساز اداروں، سائنسی تحقیق اور تعمیر ی منصوبہ جات کےلیے ضروری کتب اور متعلقہ مواد بھی فراہم کرتی ہے۔ چین میں لائبریری سائنسز کے متعلق پیشہ ورانہ مہارت، دیگر لائبریریزز سے تعاون کا یہ ایک موثر پلیٹ فارم ہے۔ چین میں بچوں کےلیے یہ بھی لائبریری سروسز فراہم کرتی ہے۔ NLC Chilren Library کے ذریعے بچوں کو وسیع پیمانے پر پڑھنے کےلیے مواد فراہم کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بچوں میں مطالعے کے رجحان کو فروغ دینے کےلیے مختلف نوعیت کی سرگرمیوں کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔
"China Digital Library for Visual Impairment" and "China Digital Library for People with Disabilities"; کے ذریعے سپیشل افراد کےلیے بھی لائبریری سروسز کی دستیابی کو یقینی بنایا گیا ہے۔
نیشنل لائبریری آف چائنا مختلف نوعیت کی علمی و ادبی سرگرمیوں کا مرکز بھی ہے۔ این ایل سی، ورلڈ ریڈنگ ڈے کے مختلف تھیمز، وینجن بکس ایوارڈز Wenjin Books Awards اور دیگر ثقافتی نوعیت کی تقاریب کا اہتمام بھی کرتی ہے۔ یہاں پر مختلف نمایاں شخصیات کے سالانہ دو سو سے زائد لیکچرز کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں لائبریری سائنسز سے متعلقہ انٹر نیٹ کے ذریعے نیشنل لائبریری اوپن کورس کا انعقاد بھی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ لائبریری کے زیر اہتمام مختلف اہم ایگزیبیشنز کا اہتمام بھی ہے۔
ان میں The Series Exhibitions of Special and Rare Collections of the National Library of China", "The Exhibitions of National Valuable Ancient Books"
"The Series Exhibitions of Chinese Memory Intangible Cultural Heritage Projects", شامل ہیں۔
ان تمام ایگزیبیشنز میںچینی شہری بھرپور انداز میں حصہ لیتے ہیں۔ لائبریری کا NLC Art Center آرٹ کے فروغ کےلیے مقبول سرگرمیوں کا اہتمام بھی کرتا ہے۔ اس لائبریری کی تمام سہولیات اپنی جگہ مگراس میں ایک قباحت ہے کہ غیر ملکیوں کو اس لائبریری سے کتابیں جاری نہیںکی جاتیں۔ غیر ملکی صرف لائبریری میں بیٹھ کرکتب کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ یہ تو چین کی سنڑل لائبریری کا ذکر ہو گیا۔ اس کے علاوہ بیجنگ کے مختلف علاقوں میں گھومتے ہوئے کئی مقامات پر موبائل لائبریریز بھی نظر آئیں۔ بیجنگ میں موجود جامعات کی لائبریریاں بھی اپنے ذخیرہ کتب اور دیگر سہولیات کےلیے مشہور ہیں۔ بیجینگ میں موجود رِن ِمن یونیورسٹی کی لائبریری کا بہت شہرہ سنا۔ اس جامعہ میں کئی مرتبہ جانے کا اتفاق بھی ہوا۔ مگر باوجود کوشش اورخواہش کے لائبریری کو دیکھ نہ پایا۔ پاکستان میں تو محلے کی سطح پر قائم لائبریرز میں کرائے پر کتب کی دستیابی کی روایت ہے مگر چین میں ایسی کوئی روایت نہیں ہے۔ وہاں پر تمام لائبریریز سرکاری ملکیت میں ہیں۔
راقم کوبیجنگ میں واقع ایسے بکس سٹورز کے دورے کے موقع بھی ملاجو اپنی اختراعات اور جدید انداز سے نہ صرف اپنی آمدنی میں اضافہ کر رہے ہیں بلکہ علم کے فروغ کا بھی ذریعہ بن رہے ہیں۔ ایسا ہی ایک سٹور سان وئی بک سٹور ہے۔ یہ بیجنگ میں نجی ملکیت کا پہلا سٹور ہے۔ یہ سٹور پاکستان میں سٹورزکے تصورسے مختلف ہے۔ سٹور میں داخل ہوں تو آپ کے سامنے ایک دیوار آتی ہے۔ اس دیوار پر سٹور میں آنے والے گاہک حضرات اپنے پیغامات یا خواہشات رقم کرتے ہیں۔ ہم نے چینی زبان میں لکھے بہت سے پیغامات دیکھے جو کہ ہماری سمجھ سے بالاتر تھے۔ اس کے ساتھ ہی ایک فہرست بھی ہے۔ اس فہرست میں ان ادبی اور ثقافتی تقاریب کا ذکر ہے جو اس سٹور میں منعقد ہوئیں۔ سٹور میں ایک اور دلچسپ چیز یہاں ہر وقت ہلکا ہلکا میوزک بجتا رہنا ہے۔ میوزک کی سلیکیشن اور آواز اتنی مدہم ہوتی ہے کہ کانوں پر گراں نہیں گرزتی۔ اگر کسی گاہک کا سٹور میں خریداری کرتے ہوئے یا کُتب کا مطالعہ کرتے ہوئے چائے یا کافی پینے کو من کرے تو وہاں موجود کچن سے ضرورت پوری کی جا سکتی ہے۔ چائے کافی کے علاوہ مشروبات کا اہتمام بھی ہے۔ کتب کے مطالعے کے دوران بیٹھنے کےلیے آرام دہ صوفے بھی موجود ہیں۔
اسی طرح کا ایک روایتی سٹور او سپیس بھی ہے جس نے گاہکوں کو اپنی جانب راغب کرنے کےلیے کئی طرح کی اختراعات کی ہیں۔ اس کی امتیازی خصوصیت یہاں ایک کیفے کی موجودگی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ایک گوشہ تنہائی کی موجودگی ہے جہاں لوگ آرا م یا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ مختلف طرح کی علمی، ادبی، سماجی اور ثقافتی موضوعات پر تقاریب کا بھی یہاں اہتمام کیا جاتا ہے۔ جدید رجحانات کے مدنظر اس بک سٹور نے دو Apps بھی متعارف کروائی ہیں۔ جن سے لوگ مضامین، ویڈیوز اور دیگر معلومات لے سکتے ہیں۔ چین میں روایت کے ساتھ ساتھ جدت کو بھی اپنایاجاتا ہے۔ اسی روایت کے تسلسل میں چین کی منسڑی آف فنانس اور سٹیٹ ایڈمنسٹریشن آف پریس پبلشنگ، ریڈیو، فلم اور ٹیلی ویژن نے چین کے مختلف شہروں میں موجود روایتی بک سٹورز کی مدد کےلیے ایک پائلٹ پراجیکٹ شروع کیا۔ یہ پروجیکٹ دو ہزار تیرہ سے شروع ہوا ہے۔ دو ہزار چودہ میںبیجنگ، شنگھائی، نینجنگ، ہانگوزو سمیت بارہ شہروں میںچھپن سٹورز نے اس پراجیکٹ کے تحت نوے ملین یوان معاشی مدد حاصل کی۔ دو ہزار پندرہ میں اس پروگرام کو سولہ شہروں اور صوبوں تک پھیلا دیا گیا تھا۔
بیجنگ کے قدیم علاقے میں زینگیانگ نامی ایک دوسرا سٹور ایک تاریخی اور قدیم عمارت میں واقع ہے۔ باہر سے دیکھنے پر بالکل بھی احساس نہیں ہوتا کہ یہاں ایک بک سٹور بھی ہو سکتا ہے۔ بیرونی طرف کوئی ایسا اشارہ یا علامت نہیں جو کسی بک سٹور کی موجودگی کی چغلی کھائے۔ آپ کوئی قدیم عمارت سمجھ کر اس کے اندر داخل ہوتے ہیںتو اندر کا منظر دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ یہاں ایک گنبد نما عمارت ہے جس کے اطراف میں مختلف کمرے ہیں اورصحن میں تھوڑا سا سبزہ ہے۔ اندر داخل ہوں تو دائیں طرف ایک چینی خطاط بیٹھے ہوئے ہیںجو روایتی خطاطی سے عوام کو روشناس کرواتے ہیں۔ اسی سمت میں آگے بڑھیں تو ایک کمرے میں بک سٹور موجود ہے۔ جہاں سے لوگ کتب خریدتے ہیں اور باہر صحن میں موجود کرسیوں پر بیٹھ کر مطالعہ کرتے ہیں۔ ساتھ ہی موجود مختلف پرندے فطرت سے قربت کا منظر پیش کرتے ہیں۔ یہیں ہماری ملاقات ایک درمیانی عمر کے امریکی شہری سے ہوئی جو کسی نوجوان چینی لڑکی سے چینی زبان سیکھنے کی مشق کر رہے تھے۔ ہم نے مناسب موقع دیکھ کر دخل در معقولات کیا اور ان سے امریکی صدارتی انتخاب کے متعلق سوال پوچھ لیا۔
پہلے تو انہوں نے روایتی امریکی شان بے نیازی کا اظہار کندھے اچکا کر کیا اور کہنے لگے کہ میں تو چین میں ہوں اور ووٹ کاسٹ نہیں کروں گا۔ میری طرف سے جو مرضی صدر بنے۔ ہم یہ جواب سن کر کچھ مطمئن نہ ہوئے اور فوراً اگلا سوال پوچھ لیا کہ وہ ذاتی طور پرٹرمپ یا ہیلری کلنٹن میں سے کس کو ووٹ دینا اور امریکہ کا صدر دیکھنا پسند کریں گے۔ تو انہوں نے فوراً ہیلری کے حق میں بول دیا۔ ہمیں ان کا یہ جواب سن کر عمومی رائے کے مطابق ہیلری کے صدر بننے کا یقین سا ہو چلا۔ بعد میں امریکی عوام نے اپنا فیصلہ صدر ٹرمپ کے حق میں دے دیا۔ خیر ان سے رخصت طلب کی اور بُک سٹور کا جائزہ لینے لگے۔ یہ ایک چھوٹا سے بک سٹور تھا جس کی انفرادیت بیجنگ کی تاریخ سے متعلق فروخت اور اس کا ایک قدیم عمارت میں واقع ہونا تھا۔ اس قدیم علاقے میں گھومتے ہوئے پاکستان کے مختلف تاریخی شہروں کے اندورن شہر کے محلوں کے مناظر ذہن میں گھوم گئے۔ ساتھ ہی یہ سوال بھی ذہن میں آیا کہ اگر دونوں ملکوںکے قدیم طرزِتعمیر میںمشابہت موجود ہے توپھر سماجی روایات میں بھی مماثلت ہو گی؟ یوں اس کی کھوج کی ذھن ذہن پر سوار ہوگئی۔