انصاف کریں جنگ نہیں ہاریں گے
اہل پاکستان اپنی ٹیکس زدہ زندگی سے پریشان ہونے کے باوجود حیران ہیں کہ ملک میں ایک موثر اور کوئی مانے تو۔۔۔
اہل پاکستان اپنی ٹیکس زدہ زندگی سے پریشان ہونے کے باوجود حیران ہیں کہ ملک میں ایک موثر اور کوئی مانے تو سب سے محترم ادارہ یعنی عدلیہ ان کے حقوق کے تحفظ اور ان کے خلاف نا انصافیوں پر احتجاج کرنے کے لیے موجود ہے اور وہ اس قدر نیک نیت ہے کہ اس قومی خدمت اور فرض کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔
پشاور کے چیف جسٹس نے کل ہی کہا ہے کہ غضب خدا کا چپڑاسی سے لے کر اوپر تک ہر جگہ رشوت ہی رشوت ہے اس سے قبل ہم دوسرے صوبوں کی عدالتوں اور وفاقی عدالت سے ایسی باتیں سن چکے ہیں اور مسلسل سن رہے ہیں کہ ملک میں ناانصافی بہت پھیل گئی ہے اور حکومت کو اس طرف پہلی توجہ دینی چاہیے بلکہ عدلیہ تو از خود ہی ایسی کئی ناانصافیوں کا نوٹس لے چکی ہے اور کارروائی کر رہی ہے۔ پاکستان کی عدلیہ کی اس انصاف پروری سے ہمیں اپنی تاریخ تو یاد آتی ہی ہے کہ ہمارا مذہب سراسر انصاف ہے یہ ظلم مٹانے اور عدل قائم کرنے کے لیے آیا لیکن اس کے بعد ہمیں جدید دور میں بھی ایسی کئی مثالیں مل جاتی ہیں جو ہمیں اپنی تاریخ یاد دلاتی ہیں۔
عالمی جنگ عروج پر تھی اور برطانیہ اس جنگ کا ایک فریق تھا پریشان لوگوں نے اپنے وزیر اعظم سرونسٹن چرچل سے جب جنگ کے بارے میں پوچھا تو اس نے لوگوں سے عجیب و غریب سوال کیا اور پوچھاکہ کیا ہماری عدالتیں انصاف کر رہی ہیں۔ جواب ملا جی ہاں اس پر اس مدبر سیاستدان نے کہا کہ پھر ہمیں کوئی شکست نہیں دے سکتا۔
ہم پاکستانی بھی آج ایک خطرناک حالت جنگ میں ہیں۔ ہمارے بڑے بڑے سیاسی لیڈر ہیں غرق کرنے اور ہونے کی باتیں سنا رہے ہیں اور ہمارے بعض حکمران شاید امریکی اشاروں پر بھارت کے ساتھ زندگی کے تمام شعبوں میں تعاون اور یک جہتی کی باتیں کر رہے ہیں اور رفتہ رفتہ قوم کو اس مقام پر لے جارہے ہیں کہ بھارت سے علیحدگی اور پاکستان کی ایک نئی ریاست کا قیام ایک غیر مفید عمل تھا بہر کیف پاکستان پر ایمان رکھنے والوں کے لیے یہ ایک سخت آزمائش کا مرحلہ ہے جو ہمیں زندہ محمد علی جناح کی رہنمائی کے بغیر طے کرنا ہے لیکن پاکستان کے اندر ایک ایسا طبقہ مستحکم ہو چکا ہے جو طالع آزما دانش وروں کو کامیاب نہیں ہونے دے گا اور وہ صرف واہگہ سرحد پر دیے جلاتے رہ جائیں گے۔
ہماری عدلیہ اصرار کر رہی ہے کہ ہم ان لوگوں پر ہاتھ ڈالیں جو اس ملک کی دولت لوٹ کر اسی ملک میں موجود ہیں۔ جو خبریں چھپی ہیں اور جو اطلاعات ملی ہیں ان کے مطابق ہمارے ایسے لوگ موجود ہیں جو اس انتہائی مقروض ملک کو بھی آئی ایم ایف وغیرہ سے بچا سکتے ہیں۔ ایک پرانے زمانے میں بھی ملک پر قرض کا ایک ایسا ہی وقت آیا تھا کراچی کے دو سیٹھ کسی ایرانی چائے خانے میں گپ لڑا رہے تھے اور ان کاروباری لوگوں کا موضوع بھی معاشی بدحالی تھی ایک سیٹھ نے دوسرے سے کہا کہ یار اگر تم اپنی دولت کچھ دے دو تو ملک قرض سے بچ سکتا ہے دوسرے نے جواب دیا کہ تم خود ایسا کیوں نہیں کرتے اور چائے کے ساتھ بات بھی ختم ہو گئی آج بھی ہمارے دو سابق وزیر اعظم جب ایک دوسرے کے ساتھ کسی کلب میں گپ لڑاتے ہیں اور ملک کے قرضوں کا ذکر کرتے ہیں تو ان میں سے ایک دوسرے سے یہی کہتا ہے جو ایک سیٹھ نے دوسرے سے کہا تھا اور دوسرا اس کو یہی اس سیٹھ والا جواب دیتا ہے کہ تم خود ایسا کیوں نہیں کرتے۔ اس کے بعد دونوں ایک قہقہہ لگاتے ہیں اور اپنے اپنے محل کو لوٹ جاتے ہیں۔
میرے پاس سچے جھوٹے اعداد وشمار نہیں ہیں اور میں پاکستانی بھائیوں کو نہیں بتا سکتا کہ ان کی کتنی لوٹی ہوئی دولت کن پاکستانیوں کے پاس ہے لیکن ایک علم میرے پاس ضرور ہے کہ کوئی خود دیانت دار اور جرات مند پاکستانی اختیارات حاصل کر لے اور چاہے تو وہ یہ دولت باآسانی نکلوا سکتا ہے۔ موٹی موٹی آسامیوں کی بات کریں جنھیں پوری قوم جانتی ہے۔ ملک کو چند ایس ایچ او چاہئیں جو اپنے افسروں کی تائید کے ساتھ ان لوگوں کو پکڑ لیں۔ چور بزدل ہوتا ہے وہ تھانیدار کی کسی بھی بڑھک کو برداشت نہیں کر سکتا۔
یہ محض کالمانہ لفاظی نہیں ہے ایک ایسی حقیقت ہے جو ہر چور کو معلوم ہے اور وہ اس کے تصور سے ہی کانپتا ہے۔ ہم ہر روز اخبارات میں کسی نہ کسی محکمے میں کروڑوں نہیں اربوں کے گھپلوں کی خبریں پڑھتے ہیں۔ شاذو نادر ہی کوئی خبر بے بنیاد ہوتی ہے بلکہ ہمیں دوران تربیت یہ بھی بتایا گیا کہ کوئی افواہ بھی بے بنیاد نہیں ہوتی اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی بات ضرور ہوتی ہے اس لیے جو خبریںچھپتی ہیں ان کی تفتیش کیوں نہیں کی جاتی جب کہ بہت سوں کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ خبر بے بنیاد نہیں ہے۔
اس ملک میں ایسے افراد بہت ہی کم ہیں جن کو بڑی دولت یا جائداد ورثے میں ملی ہے اکثر نے ملک لوٹ کر بنائی ہے ہماری حکومت کسی ادارے سے قرض کے لیے تو سب کچھ کر گزرتی ہے لیکن کسی بڑے کی جائیداد کا اس سے نہیں پوچھتی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم مشکوک لوگ ہیں جرات نہیں ہے ایمان نہیں ہے صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ ملک ڈوب رہا ہے لیکن اس کے فرضی ڈوبنے میں ان کا کیا حصہ ہے یہ اس کی خبر نہیں دیتے۔
پشاور کے چیف جسٹس نے کل ہی کہا ہے کہ غضب خدا کا چپڑاسی سے لے کر اوپر تک ہر جگہ رشوت ہی رشوت ہے اس سے قبل ہم دوسرے صوبوں کی عدالتوں اور وفاقی عدالت سے ایسی باتیں سن چکے ہیں اور مسلسل سن رہے ہیں کہ ملک میں ناانصافی بہت پھیل گئی ہے اور حکومت کو اس طرف پہلی توجہ دینی چاہیے بلکہ عدلیہ تو از خود ہی ایسی کئی ناانصافیوں کا نوٹس لے چکی ہے اور کارروائی کر رہی ہے۔ پاکستان کی عدلیہ کی اس انصاف پروری سے ہمیں اپنی تاریخ تو یاد آتی ہی ہے کہ ہمارا مذہب سراسر انصاف ہے یہ ظلم مٹانے اور عدل قائم کرنے کے لیے آیا لیکن اس کے بعد ہمیں جدید دور میں بھی ایسی کئی مثالیں مل جاتی ہیں جو ہمیں اپنی تاریخ یاد دلاتی ہیں۔
عالمی جنگ عروج پر تھی اور برطانیہ اس جنگ کا ایک فریق تھا پریشان لوگوں نے اپنے وزیر اعظم سرونسٹن چرچل سے جب جنگ کے بارے میں پوچھا تو اس نے لوگوں سے عجیب و غریب سوال کیا اور پوچھاکہ کیا ہماری عدالتیں انصاف کر رہی ہیں۔ جواب ملا جی ہاں اس پر اس مدبر سیاستدان نے کہا کہ پھر ہمیں کوئی شکست نہیں دے سکتا۔
ہم پاکستانی بھی آج ایک خطرناک حالت جنگ میں ہیں۔ ہمارے بڑے بڑے سیاسی لیڈر ہیں غرق کرنے اور ہونے کی باتیں سنا رہے ہیں اور ہمارے بعض حکمران شاید امریکی اشاروں پر بھارت کے ساتھ زندگی کے تمام شعبوں میں تعاون اور یک جہتی کی باتیں کر رہے ہیں اور رفتہ رفتہ قوم کو اس مقام پر لے جارہے ہیں کہ بھارت سے علیحدگی اور پاکستان کی ایک نئی ریاست کا قیام ایک غیر مفید عمل تھا بہر کیف پاکستان پر ایمان رکھنے والوں کے لیے یہ ایک سخت آزمائش کا مرحلہ ہے جو ہمیں زندہ محمد علی جناح کی رہنمائی کے بغیر طے کرنا ہے لیکن پاکستان کے اندر ایک ایسا طبقہ مستحکم ہو چکا ہے جو طالع آزما دانش وروں کو کامیاب نہیں ہونے دے گا اور وہ صرف واہگہ سرحد پر دیے جلاتے رہ جائیں گے۔
ہماری عدلیہ اصرار کر رہی ہے کہ ہم ان لوگوں پر ہاتھ ڈالیں جو اس ملک کی دولت لوٹ کر اسی ملک میں موجود ہیں۔ جو خبریں چھپی ہیں اور جو اطلاعات ملی ہیں ان کے مطابق ہمارے ایسے لوگ موجود ہیں جو اس انتہائی مقروض ملک کو بھی آئی ایم ایف وغیرہ سے بچا سکتے ہیں۔ ایک پرانے زمانے میں بھی ملک پر قرض کا ایک ایسا ہی وقت آیا تھا کراچی کے دو سیٹھ کسی ایرانی چائے خانے میں گپ لڑا رہے تھے اور ان کاروباری لوگوں کا موضوع بھی معاشی بدحالی تھی ایک سیٹھ نے دوسرے سے کہا کہ یار اگر تم اپنی دولت کچھ دے دو تو ملک قرض سے بچ سکتا ہے دوسرے نے جواب دیا کہ تم خود ایسا کیوں نہیں کرتے اور چائے کے ساتھ بات بھی ختم ہو گئی آج بھی ہمارے دو سابق وزیر اعظم جب ایک دوسرے کے ساتھ کسی کلب میں گپ لڑاتے ہیں اور ملک کے قرضوں کا ذکر کرتے ہیں تو ان میں سے ایک دوسرے سے یہی کہتا ہے جو ایک سیٹھ نے دوسرے سے کہا تھا اور دوسرا اس کو یہی اس سیٹھ والا جواب دیتا ہے کہ تم خود ایسا کیوں نہیں کرتے۔ اس کے بعد دونوں ایک قہقہہ لگاتے ہیں اور اپنے اپنے محل کو لوٹ جاتے ہیں۔
میرے پاس سچے جھوٹے اعداد وشمار نہیں ہیں اور میں پاکستانی بھائیوں کو نہیں بتا سکتا کہ ان کی کتنی لوٹی ہوئی دولت کن پاکستانیوں کے پاس ہے لیکن ایک علم میرے پاس ضرور ہے کہ کوئی خود دیانت دار اور جرات مند پاکستانی اختیارات حاصل کر لے اور چاہے تو وہ یہ دولت باآسانی نکلوا سکتا ہے۔ موٹی موٹی آسامیوں کی بات کریں جنھیں پوری قوم جانتی ہے۔ ملک کو چند ایس ایچ او چاہئیں جو اپنے افسروں کی تائید کے ساتھ ان لوگوں کو پکڑ لیں۔ چور بزدل ہوتا ہے وہ تھانیدار کی کسی بھی بڑھک کو برداشت نہیں کر سکتا۔
یہ محض کالمانہ لفاظی نہیں ہے ایک ایسی حقیقت ہے جو ہر چور کو معلوم ہے اور وہ اس کے تصور سے ہی کانپتا ہے۔ ہم ہر روز اخبارات میں کسی نہ کسی محکمے میں کروڑوں نہیں اربوں کے گھپلوں کی خبریں پڑھتے ہیں۔ شاذو نادر ہی کوئی خبر بے بنیاد ہوتی ہے بلکہ ہمیں دوران تربیت یہ بھی بتایا گیا کہ کوئی افواہ بھی بے بنیاد نہیں ہوتی اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی بات ضرور ہوتی ہے اس لیے جو خبریںچھپتی ہیں ان کی تفتیش کیوں نہیں کی جاتی جب کہ بہت سوں کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ خبر بے بنیاد نہیں ہے۔
اس ملک میں ایسے افراد بہت ہی کم ہیں جن کو بڑی دولت یا جائداد ورثے میں ملی ہے اکثر نے ملک لوٹ کر بنائی ہے ہماری حکومت کسی ادارے سے قرض کے لیے تو سب کچھ کر گزرتی ہے لیکن کسی بڑے کی جائیداد کا اس سے نہیں پوچھتی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم مشکوک لوگ ہیں جرات نہیں ہے ایمان نہیں ہے صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ ملک ڈوب رہا ہے لیکن اس کے فرضی ڈوبنے میں ان کا کیا حصہ ہے یہ اس کی خبر نہیں دیتے۔