ایک پریشان حال ضرورت مند کی اپیل
اس وقت ہمارا معاشرہ جس بے حسی، معاشی بدحالی اور خودغرضی کا شکار ہے اسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔
اس وقت ہمارا معاشرہ جس بے حسی، معاشی بدحالی اور خودغرضی کا شکار ہے اسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ آج کے دور کا انسان جو کبھی Social Animal ہوا کرتا تھا اب محض Animal ہوکر رہ گیا ہے۔ کیفیت یہ ہے کہ بقول اقبال:
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
ہماری روز مرہ کی زندگی کا محور بس اپنی ذات ہے۔ چناں چہ ہماری زندگی کا سارا کاروبار صرف اسی کے گرد گھومتا ہے۔ بے شمار چیزیں ایسی ہیں جن کی طلب ہمیں چین سے نہیں بیٹھنے دیتی۔ ہماری عام فطرت یہ ہے کہ ہم ان ہی چیزوں کے پیچھے بھاگتے ہیں جن کے بارے میں ہمیں یہ یقین ہوتا ہے کہ یہ ہمارے لیے نفع بخش اور فائدہ مند ہیں۔ مادی آسودگی ہی ہماری زندگی کا پیمانہ ہے۔
ہم وہی کام کرتے ہیں جس میں ہمیں چار پیسے کا فائدہ نظر آتا ہے اور ہر اس عمل سے دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں ہمیں دنیاوی اعتبار سے خسارہ نظر آتا ہے۔ درحقیقت زندگی کے بارے میں ہمارا Perception ہی غلط ہے۔ ہم حقیقت کو افسانہ اور افسانے کو حقیقت سمجھ بیٹھے ہیں۔ ساحر لدھیانوی نے اس نکتے کو کس خوبصورتی کے ساتھ عام فہم انداز میں یوں بیان کیا ہے:
دھن دولت کے پیچھے کیوں ہے دنیا دیوانی
یہاں کی دولت یہاں رہے گی ساتھ نہیں جانی
اصل بات یہ ہے کہ ہمیں دنیا کی بے ثباتی کا بالکل بھی احساس نہیں ہے اور ہم اقبال کی اس معنی آفریں نصیحت کو قطعاً فراموش کیے ہوئے ہیں کہ:
من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں
تن کی دولت چھاؤں ہے آتا ہے دھن جاتا ہے دھن
بلاشبہ سکون قلب دولت کا انبار لگانے سے نہیں بلکہ اچھے اعمال کے ذریعے حاصل ہوا کرتا ہے اور ہمارے تمام اعمال کا دارومدار ہماری نیتوں پر ہی منحصر ہوتا ہے۔ باری تعالیٰ کا یہ فرمان آفاقی اور اٹل ہے۔ نیک اعمال کوئی ایسی چیز نہیں جو ہمیں معلوم نہ ہو۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ، ایمان داری، دیانت داری اور حسن اخلاق وغیرہ تمام کے تمام نیک اعمال ہیں جن کے اجروثواب کا وعدہ ہم سے باری تعالیٰ نے بالکل واضح اور واشگاف انداز میں فرمایا ہے۔ مگر ناداروں اور ضرورت مندوں کے کام آنا بحیثیت انسان اور بطور مسلمان ہم سب کا بہت بڑا فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اشرف المخلوقات بناکر اس دنیا میں بھیجا ہے، اس لیے ہے کہ ہم دکھی انسانوں کے کام آئیں اور دامے، درمے، سخنے ان کی حسب توفیق مدد کریں۔
انسان کہلانے کا حق دار دراصل وہی آدمی ہے جو ستائش کی تمنا اور توقع کے بغیر ضرورت مندوں کی مدد کا صادق جذبہ اپنے دل میں موجزن رکھتا ہو اور جو اس بات پر عمل پیرا ہو کہ:
خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں' بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
اس سلسلے میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ ہم سب کے لیے رہتی دنیا تک مشعل راہ ہے۔ رمضان کے مبارک مہینے کی آمد آمد ہے جو روزے اور نماز کی پابندی کے ساتھ ساتھ سائلوں اور حاجت مندوں کی مقدور بھر امداد کا متقاضی ہے۔ اس مقدس مہینے میں جو شخص اپنے مسلمان بھائیوں کو جتنا بھی فائدہ پہنچائے گا وہ اس کے لیے بے حساب اجروثواب کا باعث ہوگا۔اس ماہ مبارک میں مال میں مست مسلمان کو بھی روزہ رکھ کر معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کا کوئی فاقہ کش مسلمان بھائی بھوک اور افلاس کی حالت میں کس آزمائش سے دوچار ہوتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ تمام صاحبان ثروت کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے ضرورت مند مسلمان بھائیوں کی ممکنہ حد تک مدد کریں اور اپنی آخرت سنوارنے کی کوشش کریں۔ اس حوالے سے ہم آپ کی خدمت میں ایک ایسے ہی حاجت مند مسلمان بھائی کا خط من و عن پیش کر رہے ہیں جو ہمیں حال ہی میں موصول ہوا ہے۔ان صاحب کا نام محمد حسین ہے اور یہ ہمارے موقر روزنامہ ایکسپریس کے ایک پرانے قاری ہیں اور کراچی کے علاقے کورنگی میں رہتے ہیں۔ ان کے خط کے مندرجات درج ذیل ہیں:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ!
جناب عالی! آپ کی خدمت میں عرض ہے کہ میں بہت غریب ہوں اور پریشان حال ہوں۔ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہوں۔ انتہائی قلیل آمدنی ہونے کی وجہ سے گزارہ بھی نہیں ہوتا۔ انتہائی مستحقین میں شامل ہوں۔ 10 افراد کھانے والے ہیں اور گھر میں اکثر فاقوں کی نوبت رہتی ہے۔ کرائے کے مکان میں رہتا ہوں اور کئی مہینے کا کرایہ چڑھا ہوا ہے۔ میں اکثر آپ کے کالموں کو پڑھتا ہوں اور ایکسپریس کا پرانا قاری ہوں۔ میں نمازی پرہیز گار بھی ہوں اور سفید پوش ہوں۔ ہم اپنا مدعا کسی سے بیان نہیں کرسکتے۔ اس وقت میں مجبوری کے عالم میں ایک رقعہ آپ کے پاس ارسال کر رہا ہوں۔ امید ہے آپ اسے اپنے کالم کا حصہ ضرور بنائیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کی ذرا سی کاوش سے مجھ غریب کا کام بھی ہوجائے۔ میں آپ کے لیے ہر نماز میں درازی عمر کے لیے دعائے خیر کروں گا۔ جنوری کے مہینے میں اپنی بیٹی کی منگنی کرچکا ہوں، اللہ پاک کے بھروسے پر۔ میرے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ اپنی بیٹی کی رخصتی کا انتظام کرسکوں۔ آپ سے استدعا ہے کہ آپ مخیر حضرات سے میرے لیے درخواست یا اپیل کردیں تاکہ اللہ کا کوئی نیک بندہ مجھ غریب کے کام کو پایہ تکمیل تک پہنچادے۔ آنے والا مہینہ رمضان المبارک کا ہے۔ اس مہینے میں مخیر حضرات لاکھوں روپے کی زکوٰۃ بھی نکالیں گے جس سے ہماری مدد کی جاسکتی ہے۔ انشاء اللہ عید کے بعد فوری رخصتی کا پروگرام ہے۔
فاروقی صاحب! آپ تو جانتے ہی ہیں کہ کس قدر مہنگائی ہے اور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ ایک بیٹی کی شادی پر کتنے اخراجات آتے ہیں۔ ہم جیسے غریب آدمی کس طرح افورڈ کرسکتے ہیں۔ میں سوچوں میں گم ہوں کہ کس طرح اس کام کو انجام دوں۔ میں غربت اور حالات کا مقابلہ کرتے کرتے تھک چکا ہوں۔ اب میرے پاس سوائے خودکشی کے اور کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ روزنامہ ایکسپریس دنیا کے کونے کونے میں پڑھا جاتا ہے۔ ہوسکتا ہے کوئی دردمند انسان میرا یہ کام کردے۔ یہ صدقہ جاریہ ہے۔ ہوسکتا ہے کوئی دردمند انسان میرا یہ کام کردے۔ انشاء اللہ یہ کل روز محشر اس کے لیے نجات کا ذریعہ بنے گا۔ میں اس شخص کے لیے ہر نماز میں دعائے خیر کروں گا۔ والسلام، شکریہ۔
محمد حسین رابطہ نمبر:0321-2257975۔ کورنگی، سیکٹر 50/C، کورنگی ساڑھے پانچ، کراچی۔