اقوام متحدہ کے زیر انتظام سوئیڈن میں یمن جنگ کے خاتمے کیلیے مذاکرات کا آغاز
مذاکرات میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، یمن کے حکومتی حکام اور حوثی باغیوں کے نمائندے شریک ہیں
سوئیڈن میں اقوام متحدہ کے زیر انتظام یمن میں جنگ کے خاتمے کے لیے فریقین کے درمیان امن مذاکرات کا آغاز ہوگیا ہے۔
قطر کے نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق اقوام متحدہ کے زیر انتظام سوئیڈن میں جنگ زدہ یمن میں مکمل سیز فائر کے لیے فریقین کے درمیان امن مذاکرات ہو رہے ہیں جس میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، یمن کے حکومتی حکام اور حوثی باغیوں کے نمائندے بھی شریک ہیں۔
حوثی رہنما عبد المالک نے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سوئیڈن میں یمن سے متعلق اہم امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا، جس میں خصوصی طور پر یمن میں نئے آئین کی تشکیل بھی شامل ہیں، تمام امور پر اتفاق رائے ہونے کے بعد جنگ بندی کا امکان ہے۔
اقوام متحدہ نے یمن کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فریقین کو مذاکرات کے لیے آمادہ کیا تھا، اس حوالے سے اقوام متحدہ کی خصوصی ٹیم نے یمن کا دورہ کیا اور حکومت کے ساتھ ساتھ حوثی باغیوں کے کمانڈرز سے بھی ملاقات کی تھی۔
واضح رہے کہ یمن میں سعودی عرب اتحادی فوج اور حوثی باغیوں کے درمیان 2015 سے گھمسان کی جنگ جاری ہے جس کے دوران 56 ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے اور 85 ہزار کے قریب بچوں کے خوراک کی کمی کے باعث ہلاک ہوجانے کا خدشہ ہے۔
قطر کے نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق اقوام متحدہ کے زیر انتظام سوئیڈن میں جنگ زدہ یمن میں مکمل سیز فائر کے لیے فریقین کے درمیان امن مذاکرات ہو رہے ہیں جس میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، یمن کے حکومتی حکام اور حوثی باغیوں کے نمائندے بھی شریک ہیں۔
حوثی رہنما عبد المالک نے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سوئیڈن میں یمن سے متعلق اہم امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا، جس میں خصوصی طور پر یمن میں نئے آئین کی تشکیل بھی شامل ہیں، تمام امور پر اتفاق رائے ہونے کے بعد جنگ بندی کا امکان ہے۔
اقوام متحدہ نے یمن کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فریقین کو مذاکرات کے لیے آمادہ کیا تھا، اس حوالے سے اقوام متحدہ کی خصوصی ٹیم نے یمن کا دورہ کیا اور حکومت کے ساتھ ساتھ حوثی باغیوں کے کمانڈرز سے بھی ملاقات کی تھی۔
واضح رہے کہ یمن میں سعودی عرب اتحادی فوج اور حوثی باغیوں کے درمیان 2015 سے گھمسان کی جنگ جاری ہے جس کے دوران 56 ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے اور 85 ہزار کے قریب بچوں کے خوراک کی کمی کے باعث ہلاک ہوجانے کا خدشہ ہے۔