پاک بھارت تاجروں کا باہمی تجارت معمول پر لانے کیلیے تعاون کا عزم

دونوں ممالک کے15,15 نمایاں تاجروں پر مشتمل فورم کو حکومتی سرپرستی حاصل ہوگی، سفارشات پیش کرینگے


Business Reporter July 02, 2013
سنیل کنت منجال کی قیادت میں وفدکی پاکستانی ہم منصبوں سے ملاقات، فورم سے بہت توقعات ہیں، بشیرعلی محمد فوٹو: فائل

پاکستان اور انڈیا کے تاجروں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت کی تجارت کو معمول پر لانے کیلیے آپس میں تعاون کریں گے اور اپنی حکومتوں کے ذریعے بھی تجارتی سر گرمیوں کو معمول پر لانے کیلیے سفارشات دیں گے۔

یہ اعلامیہ پاکستان انڈیا مشترکہ بزنس فورم کی اولین میٹنگ کے اختتام پر جاری کیا گیا ہے۔ ہر ملک کے 15 نمایاں کاروباری افراد پر مشتمل اس فورم کو پاکستان اور انڈیا کی حکومتوں کی سرپرستی حاصل ہے۔ اس فورم کو سرحد پار تجارت میں درپیش مسائل کی نشاندہی کرنے اور ان کے حل کیلیے تجاویز پیش کرنے کا ہدف دیا گیا ہے۔ سنیل کنت منجال، چیئرمین ہیرو کارپوریٹ سروسز کی قیادت میں ایک وفد بشمول راجیش بھارتی میتال، ڈاکٹر نریش تریحان، دیپک امیتابھ اور وکرم ساہنے نے اسلام آباد میں ہفتے کے اختتام اپنے پاکستانی ہم منصبوں سے ملاقات کی۔

پاکستان کی طرف سے نائب صدر بشیر علی محمد نے بھارتی وفد کو خوش آمدید کہتے ہوئے اس سوچ کا اظہار کیا کہ اس فورم سے بہت سے فریقین کی توقعات بہت زیادہ ہیں۔ انہوں کہا کہ پاکستان کے چند طبقات میں یہ خدشہ موجود ہے کہ انڈیا کے ساتھ تجارتی تعلقات معمول پر آنے سے ملک میں سستی اور سبسیڈائزڈ بھارتی مصنوعات کی آمد بڑھ جائے گی اور اس کے مقامی صنعت اور زراعت پر منفی اثرات ہوں گے۔ تجارت کا معمول پر آنا دونوں ممالک کیلیے ضروری ہے۔ بشیر علی محمد کے افتتاحی کلمات کا جواب دیتے ہوئے سنیل کنت منجل، فورم کے شریک چیئرمین نے اس بات سے اتفاق کیا کہ تجارت کا معمول پر آنا تمام لوگوں کی جیت ہے اور اب یہ اس فورم کی ذمے داری ہے کہ وہ جیت کی یہ صورتحال پیدا کرے۔



انہوں نے اس مشترکہ فورم کے قیام پر سرحد کے دونوں اطراف موجود حکومتوں کا شکریہ ادا کیا اور اس امید کا اظہار کیا کہ یہ فورم سرحد کے دونوں اطراف موجود فریقین کی توقعات پر پورا اترے گا۔ آخر میں انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ صارف کی بہبود کے عنصر کو تجارتی تعلقات کے معمول پر لانے میں اتنی ہی ترجیح دی جائیگی جس کا یہ مستحق ہے۔ 10 مخصوص شعبوں کیلیے ٹاسک فورس بنانے کا اعلان کیا ہے۔ ان ٹاسک فورسز میں صرف فورم کے ممبران ہی نہیں بلکہ مخصوص شعبوں سے منسلک کاروباری افراد اور ماہرین بھی شرکت کرینگے۔ ان ٹاسک فورسز کی یہ ذمے داری ہوگی کے وہ اپنے قیام کے 60 دن کے اندر جامع سفارشات پیش کریں تاکہ متعلقہ شعبے کے باہمی تجارت میں درپیش مسائل کو حل کیا جا سکے۔

فورم نے تفصیلی بات چیت کے بعد پانچ شعبوں کو ترجیح دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان شعبوں میں زراعت اور زراعت سے منسلک مصنوعات، آٹو موبائل اور انجنئرنگ، ٹیکسٹائل اور ٹیکسٹائل سے منسلک اشیا، دوا سازی، تعلیم اور ووکیشنل ٹریننگ شامل ہیں۔ پاکستان کے وفد میں بشیر علی محمد کے علاوہ عبدالرزاق داؤد، سکند مصطفی خان ،نعمان ڈار، شبیر دیوان، ڈاکٹر طارق بچہ، افتخار اے ملک، ایس ایم منیر، سید ندیم قمر اور نور محمد قصوری شامل تھے۔ وزارت کامرس کے سنیئر ممبران نے سیکریٹری کامرس منیر قریشی کی قیادت میں میٹنگ میں شرکت کی۔ میٹنگ کے دوران ان کو جوائنٹ سیکریٹری روبینہ اختر کی معاونت حاصل تھی۔ میٹنگ میں وزارت خارجہ اور بورڈ آف انویسٹمنٹ کے سینئر نمائندوں نے بھی شرکت کی۔

گوپال باگلے، ڈپٹی ہائی کمشنر اور جیانت خوب راگدے، اسلام آباد میں موجود بھارتی ہائی کمشنر کے کونسلر نے بھارت وفد کی معاونت کی۔ کامران مرزا، سی ای او، پاکستان بزنس کاؤنسل (پی بی سی) ، اور سمیر امیر، ڈائریکٹر ریسرچ پی بی سی بھی اس میٹنگ میں شریک تھے۔ ان کے ہمراہ سپریا بینرجی، ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل، کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹری (سی آئی آئی) اور منیش موہان ڈائریکٹر جنوبی ایشیا سی آئی آئی نے بھی میٹنگ میں شرکت کی۔

پی بی سی اور سی آئی آئی دونوں بزنس فورم کے نامزد سیکریٹریز ہیں، کے ممبران کی وزیر اعظم سے بھی ملاقات ہوئی جنہوں نے دونوں ممالک کے تجارتی تعلقات کو معمول پر لانے کیلیے حکومت پاکستان کے مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی۔ انہوں نے فورم کے ممبران سے درخواست کی کہ ان شعبوں کی نشاندہی کریں جن میں فوری پیش رفت ہو سکتی ہو تاکہ تجارت کو معمول پر لانے کیلیے بھروسے کا ماحول اور معاونت کی تعمیر ضروری ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |