سپریم کورٹ کا ای او بی آئی میں40ارب کی کرپشن کی تحقیقات کا حکم
نامورعہدیداربھی دوڑمیں شامل ہوچکے،کہاں گئی ڈی ایچ اے میں شفافیت؟ چیف جسٹس
سپریم کورٹ نے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کو فوری طور پر ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن (ای او بی آئی ) میں 40ارب روپے کے اسکینڈل کی انکوائری کا حکم دیا ہے اور سیکریٹری داخلہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ تفتیش کیلیے افرادی قوت کی فراہمی میں ڈی جی ایف آئی اے کے ساتھ تعاون کریں۔
چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے ڈی جی کو ہدایت کی کہ وہ کسی کے عہدے، سیاسی و سماجی حیثیت سے متاثر ہوئے بغیر معاملے کی آزادانہ انکوائری کریں اور بلا استثنا سب کے خلاف کاروائی کریں۔ عدالت نے ہدایت کی کہ اگر ای او بی آئی میںلین دین کے 18معاہدوں کے علاوہ بھی بدعنوانی اور بے قاعدگی کا کوئی معاملہ سامنے آتا ہے تو اس کی بھی تفتیش کی جائے اور 10 دن کے اندر سپریم کورٹ کو رپورٹ دی جائے۔ عدالت نے قرار دیا کہ بادی النظر میں ٹیکس دہندگان کا پیسہ غیر قانونی طور پرچند افراد نے اپنے فائدے کیلیے استعمال کیا اور آرٹیکل9 کی خلاف ورزی کی گئی کیونکہ ادارے کے فنڈ پر ان سب کا حق ہے جن کے پیسوں سے یہ فنڈ بنا ہے۔
چیف جسٹس نے کہاکہ جہاں ہاتھ ڈالتے ہیں وہاں اربوں روپے کی کرپشن کی باتیں ہوتی ہیں، دیدہ دلیری اس قدر ہے کہ بدعنوانی کرتے ہوئے انھیں خوف بھی نہیں ہوتا، نامور عہدوں والے سب اس دوڑ میں شامل ہو چکے ہیں۔ ڈی جی ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ بدعنوانی کے ناقابل تردید ثبوت سامنے آگئے ہیں، سرمایہ کاری کیلیے استعمال کی جانے والی رقم سے کمیشن سابق چیئرمین ظفر اقبال گوندل اور ڈی جی ای او بی آئی کے بینک کھاتوں میںمنتقل ہواہے۔ دونوں کے نام ای سی ایل میں شامل کر دیے گئے ہیںجبکہ 3 افراد واحد خورشیدکنور، ماہم مجید اورکرنل (ر) علی اسد مرزا کوگرفتارکر لیا گیا ہے۔ 2 ملزمان محمد قاسم پرویز اور اقبال دائود نے ہائی کورٹ سے ضمانت قبل ازگرفتاری حاصل کر رکھی ہے۔
کئی ارب روپے کے اس بدعنوانی اسکینڈل کے بارے میں ازخود نوٹس کے مقدمے کی سماعت کے دوران سیکریٹری سمندر پار پاکستانیز عبدالخالق پیش ہوئے اورکہاکہ اس وقت ای او بی آئی کا چیئرمین مقرر نہیں ہوا جبکہ ادارے کے سیکریٹری کا چارج ان کے پاس ہے۔انھوں نے کئی ارب روپے کی کرپشن کے الزمات کی تصدیق کی اورکہاکہ مزید ادائیگیاں اورکچھ منصوبوں پرکام روک دیا گیاہے، انویسٹمنٹ بورڈکو ربڑ اسٹیمپ کے طور پر استعمال کیا گیا اور مارکیٹ ریٹ سے کئی گنا زیادہ قیمت پر ڈی ایچ اے اور دیگر اداروں اور افراد سے زمین خریدی گئی۔ ڈی ایچ اے سے 15ارب روپے کے عوض321 کنال اراضی خریدی گئی جس کی مارکیٹ قیمت کئی گنا کم ہے۔ ڈی ایچ اے سے 6 ارب روپے کے اور پلاٹ بھی خریدے گئے تمام سرمایہ کاری قواعد نظر انداز کرتے ہوئے کی گئی۔
چیف جسٹس نے کہاکہ مزدوروں کے 15 ارب روپے ڈی ایچ اے کو دیے جارہے تھے اورکوئی پوچھنے والا نہیں تھا، کہاں گئی ڈی ایچ اے میں شفافیت؟ چیف جسٹس نے کہا کہ کون ہے جو ڈی ایچ اے میں مفت زمینیں بانٹتا ہے، اس پرکرنل (ر) طارق کمال نے کہا کہ معاہدہ بریگیڈیئر جاوید اقبال نے کیا تھا جس پر میں نے اعتراض کیا اور اس ڈیل کے خلاف تحریری اور زبانی طور پر ایڈجوٹنٹ جنرل لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال کو آگاہ کیا لیکن کچھ دن بعدانھیں نکال دیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لگتا ہے جاوید اقبال بہت طاقتور آدمی ہے جوکئی ارب روپے کے معاہدے کرتا ہے اورکوئی اس بارے میں انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ چیف جسٹس نے استفسارکیاکہ یہ انفرادی فعل ہے یا اجتماعی؟ اس پر ڈی ایچ اے کے سابق ملازم نے کہا کہ یہ اجتماعی فعل ہے۔
کیونکہ سب اس سے آگاہ تھے۔ سیکریٹری ای او بی آئی نے کہاکہ فیصل آباد میں پلازہ کی تعمیر روک دی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ای او بی آئی نے ملزمان کو بھاگنے کا موقع فراہم کیا، این ایل سی میں بھی یہی ہوا ابھی تک 3 لوگ گرفتار نہیں ہو سکے۔ جسٹس اعجاز احمد نے کہاکہ ہر معاہدے میں چند لوگوں نے آدھا پیسہ خود لیا اور آدھا زمین کے مالک کو دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی تک صرٖف اس لیے خاموشی ہے کہ جو نام سامنے آرہا ہے وہ بہت بڑا ہے۔ سیکریٹری نے بتایا41 ارب روپے بازار حصص میں لگائے گئے۔ طارق کمال نے الزام عائدکیا کہ انھیں دھمکیاں مل رہی ہیں جبکہ بدعنوانی کی رپورٹ دینے والے رپورٹر حذیفہ نے کہاکہ اسے بھی دھمکیاں مل رہی ہیں جس پر عدالت نے سیکریٹری داخلہ، آئی جی اسلام آباد اور پنجاب پولیس کو انھیں سیکیورٹی فراہم کرنے کا حکم دیا، مزید سماعت12 جولائی تک ملتوی کردی۔
چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے ڈی جی کو ہدایت کی کہ وہ کسی کے عہدے، سیاسی و سماجی حیثیت سے متاثر ہوئے بغیر معاملے کی آزادانہ انکوائری کریں اور بلا استثنا سب کے خلاف کاروائی کریں۔ عدالت نے ہدایت کی کہ اگر ای او بی آئی میںلین دین کے 18معاہدوں کے علاوہ بھی بدعنوانی اور بے قاعدگی کا کوئی معاملہ سامنے آتا ہے تو اس کی بھی تفتیش کی جائے اور 10 دن کے اندر سپریم کورٹ کو رپورٹ دی جائے۔ عدالت نے قرار دیا کہ بادی النظر میں ٹیکس دہندگان کا پیسہ غیر قانونی طور پرچند افراد نے اپنے فائدے کیلیے استعمال کیا اور آرٹیکل9 کی خلاف ورزی کی گئی کیونکہ ادارے کے فنڈ پر ان سب کا حق ہے جن کے پیسوں سے یہ فنڈ بنا ہے۔
چیف جسٹس نے کہاکہ جہاں ہاتھ ڈالتے ہیں وہاں اربوں روپے کی کرپشن کی باتیں ہوتی ہیں، دیدہ دلیری اس قدر ہے کہ بدعنوانی کرتے ہوئے انھیں خوف بھی نہیں ہوتا، نامور عہدوں والے سب اس دوڑ میں شامل ہو چکے ہیں۔ ڈی جی ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ بدعنوانی کے ناقابل تردید ثبوت سامنے آگئے ہیں، سرمایہ کاری کیلیے استعمال کی جانے والی رقم سے کمیشن سابق چیئرمین ظفر اقبال گوندل اور ڈی جی ای او بی آئی کے بینک کھاتوں میںمنتقل ہواہے۔ دونوں کے نام ای سی ایل میں شامل کر دیے گئے ہیںجبکہ 3 افراد واحد خورشیدکنور، ماہم مجید اورکرنل (ر) علی اسد مرزا کوگرفتارکر لیا گیا ہے۔ 2 ملزمان محمد قاسم پرویز اور اقبال دائود نے ہائی کورٹ سے ضمانت قبل ازگرفتاری حاصل کر رکھی ہے۔
کئی ارب روپے کے اس بدعنوانی اسکینڈل کے بارے میں ازخود نوٹس کے مقدمے کی سماعت کے دوران سیکریٹری سمندر پار پاکستانیز عبدالخالق پیش ہوئے اورکہاکہ اس وقت ای او بی آئی کا چیئرمین مقرر نہیں ہوا جبکہ ادارے کے سیکریٹری کا چارج ان کے پاس ہے۔انھوں نے کئی ارب روپے کی کرپشن کے الزمات کی تصدیق کی اورکہاکہ مزید ادائیگیاں اورکچھ منصوبوں پرکام روک دیا گیاہے، انویسٹمنٹ بورڈکو ربڑ اسٹیمپ کے طور پر استعمال کیا گیا اور مارکیٹ ریٹ سے کئی گنا زیادہ قیمت پر ڈی ایچ اے اور دیگر اداروں اور افراد سے زمین خریدی گئی۔ ڈی ایچ اے سے 15ارب روپے کے عوض321 کنال اراضی خریدی گئی جس کی مارکیٹ قیمت کئی گنا کم ہے۔ ڈی ایچ اے سے 6 ارب روپے کے اور پلاٹ بھی خریدے گئے تمام سرمایہ کاری قواعد نظر انداز کرتے ہوئے کی گئی۔
چیف جسٹس نے کہاکہ مزدوروں کے 15 ارب روپے ڈی ایچ اے کو دیے جارہے تھے اورکوئی پوچھنے والا نہیں تھا، کہاں گئی ڈی ایچ اے میں شفافیت؟ چیف جسٹس نے کہا کہ کون ہے جو ڈی ایچ اے میں مفت زمینیں بانٹتا ہے، اس پرکرنل (ر) طارق کمال نے کہا کہ معاہدہ بریگیڈیئر جاوید اقبال نے کیا تھا جس پر میں نے اعتراض کیا اور اس ڈیل کے خلاف تحریری اور زبانی طور پر ایڈجوٹنٹ جنرل لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال کو آگاہ کیا لیکن کچھ دن بعدانھیں نکال دیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لگتا ہے جاوید اقبال بہت طاقتور آدمی ہے جوکئی ارب روپے کے معاہدے کرتا ہے اورکوئی اس بارے میں انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ چیف جسٹس نے استفسارکیاکہ یہ انفرادی فعل ہے یا اجتماعی؟ اس پر ڈی ایچ اے کے سابق ملازم نے کہا کہ یہ اجتماعی فعل ہے۔
کیونکہ سب اس سے آگاہ تھے۔ سیکریٹری ای او بی آئی نے کہاکہ فیصل آباد میں پلازہ کی تعمیر روک دی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ای او بی آئی نے ملزمان کو بھاگنے کا موقع فراہم کیا، این ایل سی میں بھی یہی ہوا ابھی تک 3 لوگ گرفتار نہیں ہو سکے۔ جسٹس اعجاز احمد نے کہاکہ ہر معاہدے میں چند لوگوں نے آدھا پیسہ خود لیا اور آدھا زمین کے مالک کو دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی تک صرٖف اس لیے خاموشی ہے کہ جو نام سامنے آرہا ہے وہ بہت بڑا ہے۔ سیکریٹری نے بتایا41 ارب روپے بازار حصص میں لگائے گئے۔ طارق کمال نے الزام عائدکیا کہ انھیں دھمکیاں مل رہی ہیں جبکہ بدعنوانی کی رپورٹ دینے والے رپورٹر حذیفہ نے کہاکہ اسے بھی دھمکیاں مل رہی ہیں جس پر عدالت نے سیکریٹری داخلہ، آئی جی اسلام آباد اور پنجاب پولیس کو انھیں سیکیورٹی فراہم کرنے کا حکم دیا، مزید سماعت12 جولائی تک ملتوی کردی۔