ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس متحدہ کی زندگی موت کا مسئلہ
الطاف حسین نے پہلی مرتبہ خطرہ محسوس کیا ہے کہ ملکی اور بین الاقوامی سازش کے ذریعے انہیں قتل کیس میں ملوث کیاجا رہا ہے
ISLAMABAD:
ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس ایم کیو ایم کیلیے بنائو یا بگاڑوکی صورت اختیارکرگیا ہے اور 1978 میں جنم لینے والی سندھ کے شہری علاقوں کی سب سے مقبول جماعت کو آج واقعی ایک بڑے چیلنج کا سامناہے، جیساکہ اس کے قائد الطاف حسین نے پہلی مرتبہ خطرہ محسوس کیا ہے کہ ملکی اور بین الاقوامی سازش کے ذریعے انہیں قتل کیس میں ملوث کیاجا رہا ہے۔
الطاف حسین کے تازہ ترین خطاب کودیکھا جائے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ سب اچھا نہیں ہے، لیکن ایم کیو ایم کی قیادت کو یقین ہے کہ وہ موجودہ بحران سے نکل آئیں گے، الطاف حسین نے پارٹی کواس حوالے سے بھی الرٹ کردیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اسے مروا سکتی ہے، الطاف حسین1991 میں لندن منتقل ہوگئے تھے کیونکہ اس وقت کے وزیراعلیٰ جام صادق نے انھیں بتایا تھا کہ آرمی چیف جنرل آصف نواز ان کے خلاف ہیں اور آپریشن کا منصوبہ بنایا ہے،1992ء کے فوجی آپریشن کے بعد1995,1993 میں پولیس نے آپریشن کیا جس میں ایم کیو ایم کے متعدد سرگرم کارکن مارے گئے، الطاف حسین نے لندن میںقیام کا فیصلہ کرلیا اور وہاں کی شہریت بھی حاصل کر لی، پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنے دوسرے دور حکومت (1994 ) میں الطاف حسین کو واپس لانے کی حتی المقدور کوشش کی لیکن اسے کامیابی نہ ملی کیونکہ برطانوی حکومت کا کہنا تھا کہ جب تک ان کی سرزمین پر کوئی جرم نہ کرے وہ کوئی ایکشن نہیں لے سکتے، لیکن اب صورتحال مختلف ہے۔
کیونکہ الطاف حسین خود کہہ رہے ہیں کہ انھیں اپنے ساتھی کے قتل کیس میں ملوث کرنے کی سازش کی جا رہی ہے، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صورتحال بڑی سنجیدہ ہے،تاہم اتوار کو الطاف حسین کے خطاب کے دوران کارکنوں نے جو نعرے بلند کیے ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر الطاف حسین پر مقدمہ بنایا گیا تو سندھ میں بڑے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں، جیسا کہ الطاف حسین کی تقریرکے دوران '' جئے مہاجر'' کے نعرے بھی لگائے گئے، الطاف حسین کی تقریر کا سب سے اہم پہلو برطانوی حکومت کو تنبیہ کرنا تھا کہ برطانیہ کیلیے یہی بہتر ہو گا کہ وہ اس کیس میں اسے ملوث نہ کرے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ الطاف حسین نے یہ وارننگ دے کر اپنا کیس کمزور کر لیا ہے یا پھر برطانوی حکومت کیخلاف ان کے پاس کچھ ہے؟ الطاف حسین نے کوئی وکیل کرنے کے بجائے اپنا کیس خود لڑنے کا بھی اعلان کیا ہے جس سے انھیں مشکلات پیش آ سکتی ہیں کیونکہ برطانوی قوانین بہت سخت ہیں، ایم کیو ایم کے قائد کو مذکورہ کیس میں نامزد کیا گیا ہے نہ ہی ان پر شبہ ظاہر کیا گیا ہے۔
تاہم الطاف حسین نے خود ہی کہا کہ لندن میں ان کے گھر کی تلاشی لی گئی ہے اور پولیس کئی دستاویزات اپنے ساتھ لے گئی ہے، اس کیس کے حوالے سے ایم کیو ایم کے اندر بحث چل رہی ہے، الطاف حسین نے پارٹی عہدیداروں اور کارکنوں کو اعتماد میں لے کر بڑا اچھا کیا ہے، ایسا انھوں نے پہلی مرتبہ نہیں کیا وہ ماضی میں بھی اس طرح کے نازک مواقع پر اپنے کارکنوں کو اعتماد میں لیتے رہے ہیں، ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی وجہ تو ابھی تک عوام کے سامنے نہیں آئی، آیا وجہ قتل مالی معاملہ ہے یا سیاسی ، البتہ یہ بات طے ہے کہ اس کیس کے سندھ اور پاکستان کی سیاست پر بڑے پیچیدہ اثرات مرتب ہوں گے، جولوگ ایم کیو ایم کی سیاست سے واقف ہیں انھیں پتہ ہے کہ الطاف حسین کو الگ کرکے کوئی بھی گروپ ابھرا ہے نہ آئندہ ابھر سکتا ہے کیونکہ الطاف حسین کی پارٹی کے اندر گرفت مضبوط ہے اور ان کے کارکنوں کیساتھ براہ راست رابطے ہیں ، اس لیے یہ موقف کہ عمران فاروق جماعت میں کوئی الگ گروپ بنا رہے تھے بے بنیاد ہے۔
حتیٰ کہ عمران فاروق خود بھی اس صورتحال سے اچھی طرح آگاہ تھے،1991 میں ایم کیو ایم حقیقی کے نام سے آفاق احمد اور عامر خان کی قیادت میں ایک گروپ بنا تھا لیکن وہ مقبولیت حاصل کرنے میں ناکام رہا، تاہم دونوں گروپوں کی باہمی لڑائی میں گزشتہ20 سال کے دوران سیکڑوں کارکن ہلاک ہو چکے ہیں، 1992ء سے 1996ء کے دوران انٹیلیجنس ایجنسیوں نے ایم کیو ایم میں دراڑیں پیدا کرنے کی بہت کوششیں کیں، انٹیلی جنس افسران نے وفاداریاں بدلنے کیلیے ایم کیوایم کے رہنائوں پر کھلے عام دبائو ڈالا ، ایم کیو ایم کے سابق کنوینر عمران فاروق اس کے بانیوں میں سے تھے، انھیں حکمت عملی مرتب کرنے کا ماہر سمجھا جاتا تھا انھیں زیرزمین رہ کر پارٹی امور چلانے کا تجربہ بھی تھا، وہ7 سال تک زیر زمین رہ کر پارٹی چلاتے رہے لیکن آج بھی کسی کو پتہ نہیں کہ وہ کیسے کام کرتے تھے؟ ایک دن وہ ڈاڑھی کیساتھ اچانک لندن میں نمودار ہوئے ، بعض لوگوںکا خیال ہے کہ ان کے پاس ویزا بھی نہیں تھا۔
انھوں نے سیاسی پناہ کیلیے درخواست دیدی، انھوں نے اپنی زیرزمین سیاست کے بارے میں کبھی کچھ نہیں بتایا تاہم انھوں نے راقم سے اس حوالے سے کتاب لکھنے کی خواہش ظاہر کی تھی، ایم کیو ایم کے بعض سینئر لیڈروں کا خیال ہے کہ الگ تھلگ رہنے کی وجہ سے عمران فاروق کی صلاحیتیں متاثر ہوئیں اور آخر کار انھیں پارٹی سے معطل کر دیا گیا، بعد ازاں انھوں نے خود ہی لندن سیکریٹریٹ سے دوریاں اختیار کر لیں، لیکن انھوں نے کبھی یہ ظاہر نہیںکیا کہ وہ پارٹی سے الگ گروپ بنا رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے تھے ایسا ممکن نہیں ہے، اب اس کیس کا اہم حصہ قتل کی وجہ کا پتہ چلنا ہوگا، آیا قتل کے پیچھے مالی معاملات ہیں یا سیاسی وجوہ، لیکن ایک بات طے ہے کہ اگر اس کیس میں الطاف حسین پر شبہ ظاہر کردیا جاتا ہے جو ابھی تک نہیں کیا گیا تو قتل کی وجہ چاہے کچھ بھی ہو اس کیس کے حتمی نتیجے سے ایم کیو ایم ، بن جائے گی یا پھر بگڑ جائے گی۔
ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس ایم کیو ایم کیلیے بنائو یا بگاڑوکی صورت اختیارکرگیا ہے اور 1978 میں جنم لینے والی سندھ کے شہری علاقوں کی سب سے مقبول جماعت کو آج واقعی ایک بڑے چیلنج کا سامناہے، جیساکہ اس کے قائد الطاف حسین نے پہلی مرتبہ خطرہ محسوس کیا ہے کہ ملکی اور بین الاقوامی سازش کے ذریعے انہیں قتل کیس میں ملوث کیاجا رہا ہے۔
الطاف حسین کے تازہ ترین خطاب کودیکھا جائے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ سب اچھا نہیں ہے، لیکن ایم کیو ایم کی قیادت کو یقین ہے کہ وہ موجودہ بحران سے نکل آئیں گے، الطاف حسین نے پارٹی کواس حوالے سے بھی الرٹ کردیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اسے مروا سکتی ہے، الطاف حسین1991 میں لندن منتقل ہوگئے تھے کیونکہ اس وقت کے وزیراعلیٰ جام صادق نے انھیں بتایا تھا کہ آرمی چیف جنرل آصف نواز ان کے خلاف ہیں اور آپریشن کا منصوبہ بنایا ہے،1992ء کے فوجی آپریشن کے بعد1995,1993 میں پولیس نے آپریشن کیا جس میں ایم کیو ایم کے متعدد سرگرم کارکن مارے گئے، الطاف حسین نے لندن میںقیام کا فیصلہ کرلیا اور وہاں کی شہریت بھی حاصل کر لی، پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنے دوسرے دور حکومت (1994 ) میں الطاف حسین کو واپس لانے کی حتی المقدور کوشش کی لیکن اسے کامیابی نہ ملی کیونکہ برطانوی حکومت کا کہنا تھا کہ جب تک ان کی سرزمین پر کوئی جرم نہ کرے وہ کوئی ایکشن نہیں لے سکتے، لیکن اب صورتحال مختلف ہے۔
کیونکہ الطاف حسین خود کہہ رہے ہیں کہ انھیں اپنے ساتھی کے قتل کیس میں ملوث کرنے کی سازش کی جا رہی ہے، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صورتحال بڑی سنجیدہ ہے،تاہم اتوار کو الطاف حسین کے خطاب کے دوران کارکنوں نے جو نعرے بلند کیے ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر الطاف حسین پر مقدمہ بنایا گیا تو سندھ میں بڑے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں، جیسا کہ الطاف حسین کی تقریرکے دوران '' جئے مہاجر'' کے نعرے بھی لگائے گئے، الطاف حسین کی تقریر کا سب سے اہم پہلو برطانوی حکومت کو تنبیہ کرنا تھا کہ برطانیہ کیلیے یہی بہتر ہو گا کہ وہ اس کیس میں اسے ملوث نہ کرے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ الطاف حسین نے یہ وارننگ دے کر اپنا کیس کمزور کر لیا ہے یا پھر برطانوی حکومت کیخلاف ان کے پاس کچھ ہے؟ الطاف حسین نے کوئی وکیل کرنے کے بجائے اپنا کیس خود لڑنے کا بھی اعلان کیا ہے جس سے انھیں مشکلات پیش آ سکتی ہیں کیونکہ برطانوی قوانین بہت سخت ہیں، ایم کیو ایم کے قائد کو مذکورہ کیس میں نامزد کیا گیا ہے نہ ہی ان پر شبہ ظاہر کیا گیا ہے۔
تاہم الطاف حسین نے خود ہی کہا کہ لندن میں ان کے گھر کی تلاشی لی گئی ہے اور پولیس کئی دستاویزات اپنے ساتھ لے گئی ہے، اس کیس کے حوالے سے ایم کیو ایم کے اندر بحث چل رہی ہے، الطاف حسین نے پارٹی عہدیداروں اور کارکنوں کو اعتماد میں لے کر بڑا اچھا کیا ہے، ایسا انھوں نے پہلی مرتبہ نہیں کیا وہ ماضی میں بھی اس طرح کے نازک مواقع پر اپنے کارکنوں کو اعتماد میں لیتے رہے ہیں، ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی وجہ تو ابھی تک عوام کے سامنے نہیں آئی، آیا وجہ قتل مالی معاملہ ہے یا سیاسی ، البتہ یہ بات طے ہے کہ اس کیس کے سندھ اور پاکستان کی سیاست پر بڑے پیچیدہ اثرات مرتب ہوں گے، جولوگ ایم کیو ایم کی سیاست سے واقف ہیں انھیں پتہ ہے کہ الطاف حسین کو الگ کرکے کوئی بھی گروپ ابھرا ہے نہ آئندہ ابھر سکتا ہے کیونکہ الطاف حسین کی پارٹی کے اندر گرفت مضبوط ہے اور ان کے کارکنوں کیساتھ براہ راست رابطے ہیں ، اس لیے یہ موقف کہ عمران فاروق جماعت میں کوئی الگ گروپ بنا رہے تھے بے بنیاد ہے۔
حتیٰ کہ عمران فاروق خود بھی اس صورتحال سے اچھی طرح آگاہ تھے،1991 میں ایم کیو ایم حقیقی کے نام سے آفاق احمد اور عامر خان کی قیادت میں ایک گروپ بنا تھا لیکن وہ مقبولیت حاصل کرنے میں ناکام رہا، تاہم دونوں گروپوں کی باہمی لڑائی میں گزشتہ20 سال کے دوران سیکڑوں کارکن ہلاک ہو چکے ہیں، 1992ء سے 1996ء کے دوران انٹیلیجنس ایجنسیوں نے ایم کیو ایم میں دراڑیں پیدا کرنے کی بہت کوششیں کیں، انٹیلی جنس افسران نے وفاداریاں بدلنے کیلیے ایم کیوایم کے رہنائوں پر کھلے عام دبائو ڈالا ، ایم کیو ایم کے سابق کنوینر عمران فاروق اس کے بانیوں میں سے تھے، انھیں حکمت عملی مرتب کرنے کا ماہر سمجھا جاتا تھا انھیں زیرزمین رہ کر پارٹی امور چلانے کا تجربہ بھی تھا، وہ7 سال تک زیر زمین رہ کر پارٹی چلاتے رہے لیکن آج بھی کسی کو پتہ نہیں کہ وہ کیسے کام کرتے تھے؟ ایک دن وہ ڈاڑھی کیساتھ اچانک لندن میں نمودار ہوئے ، بعض لوگوںکا خیال ہے کہ ان کے پاس ویزا بھی نہیں تھا۔
انھوں نے سیاسی پناہ کیلیے درخواست دیدی، انھوں نے اپنی زیرزمین سیاست کے بارے میں کبھی کچھ نہیں بتایا تاہم انھوں نے راقم سے اس حوالے سے کتاب لکھنے کی خواہش ظاہر کی تھی، ایم کیو ایم کے بعض سینئر لیڈروں کا خیال ہے کہ الگ تھلگ رہنے کی وجہ سے عمران فاروق کی صلاحیتیں متاثر ہوئیں اور آخر کار انھیں پارٹی سے معطل کر دیا گیا، بعد ازاں انھوں نے خود ہی لندن سیکریٹریٹ سے دوریاں اختیار کر لیں، لیکن انھوں نے کبھی یہ ظاہر نہیںکیا کہ وہ پارٹی سے الگ گروپ بنا رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے تھے ایسا ممکن نہیں ہے، اب اس کیس کا اہم حصہ قتل کی وجہ کا پتہ چلنا ہوگا، آیا قتل کے پیچھے مالی معاملات ہیں یا سیاسی وجوہ، لیکن ایک بات طے ہے کہ اگر اس کیس میں الطاف حسین پر شبہ ظاہر کردیا جاتا ہے جو ابھی تک نہیں کیا گیا تو قتل کی وجہ چاہے کچھ بھی ہو اس کیس کے حتمی نتیجے سے ایم کیو ایم ، بن جائے گی یا پھر بگڑ جائے گی۔