سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کی بازیابی کا معاملہ کمیشن پر چھوڑنے کی حکومتی استدعا مسترد کر دی
حکومت جمہوری ہےتولاپتہ افرادکیس میں جواب دینا پڑیگا،ہم کام کمیشن پرنہیں چھوڑسکتے،عدالت.
سپریم کورٹ کے جسٹس جواد خواجہ نے لاپتہ افرادکیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ لاپتہ افرادکے لواحقین تو اب ہمارے خوابوں میں بھی آنے لگے ہیں۔
ہمیں ان کے دکھ دردکا اندازہ ہے۔ اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ ایجنسیوں کی تحویل میں حراستی مراکزکے اندر قید تمام لاپتہ افرادکیخلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی ۔ پالیسی بیان دیتے ہوئے انھوں نے بنچ کو بتایا کہ لاپتہ افرادکے مقدمات کو 4کیٹگریز میں تقسیم کر دیا جائے گا ۔ فاضل بینچ نے شکریال سے لاپتہ دانش کے معاملے میں آبزرویشن دی کہ اس کیس میں اس بات کا فیصلہ کیا جا ئے گا کہ پو لیس کو میجر حیدر سے تفتیش اور انھیں گرفتارکرنے کا اختیار حاصل ہے یا نہیں۔ حراستی مراکز کا قیام فاٹا ریگولیشنز کے تحت ہے ۔
مگر ان مراکز میں دوسرے صوبوں سے لوگوں کو اٹھا کرکیسے رکھا جاسکتا ہے۔جسٹس جواد نے کہا کہ بنیادی انسانی حقوق کے ہر معاملے میں سپریم کورٹ کو مداخلت کا اختیار ہے اور مشرف حملہ کیس میں عدالت نے آرمی ایکٹ کے تحت قائم مقدمات میں دائرہ اختیارکو تسلیم کر لیا۔ آن لائن کے مطابق جسٹس جوادنے ریمارکس دیے کہ کوئی حساس ادارہ مقدس گائے نہیں، مسلح افواج کے سزا یافتہ شخص کے حوالے سے اختیار سماعت حاصل ہے، ہم کام صرف کمیشن پر نہیں چھوڑ سکتے، کمیشن فرائض ادا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اگر حکومت اسلامی اور جمہوری ہے تو پھر ان مقدمات میں جواب دینا پڑے گا، ہم کب تک خاموش رہ سکتے ہیں۔
ہمیں ان کے دکھ دردکا اندازہ ہے۔ اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ ایجنسیوں کی تحویل میں حراستی مراکزکے اندر قید تمام لاپتہ افرادکیخلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی ۔ پالیسی بیان دیتے ہوئے انھوں نے بنچ کو بتایا کہ لاپتہ افرادکے مقدمات کو 4کیٹگریز میں تقسیم کر دیا جائے گا ۔ فاضل بینچ نے شکریال سے لاپتہ دانش کے معاملے میں آبزرویشن دی کہ اس کیس میں اس بات کا فیصلہ کیا جا ئے گا کہ پو لیس کو میجر حیدر سے تفتیش اور انھیں گرفتارکرنے کا اختیار حاصل ہے یا نہیں۔ حراستی مراکز کا قیام فاٹا ریگولیشنز کے تحت ہے ۔
مگر ان مراکز میں دوسرے صوبوں سے لوگوں کو اٹھا کرکیسے رکھا جاسکتا ہے۔جسٹس جواد نے کہا کہ بنیادی انسانی حقوق کے ہر معاملے میں سپریم کورٹ کو مداخلت کا اختیار ہے اور مشرف حملہ کیس میں عدالت نے آرمی ایکٹ کے تحت قائم مقدمات میں دائرہ اختیارکو تسلیم کر لیا۔ آن لائن کے مطابق جسٹس جوادنے ریمارکس دیے کہ کوئی حساس ادارہ مقدس گائے نہیں، مسلح افواج کے سزا یافتہ شخص کے حوالے سے اختیار سماعت حاصل ہے، ہم کام صرف کمیشن پر نہیں چھوڑ سکتے، کمیشن فرائض ادا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اگر حکومت اسلامی اور جمہوری ہے تو پھر ان مقدمات میں جواب دینا پڑے گا، ہم کب تک خاموش رہ سکتے ہیں۔