پاکستان کا مستقبل روشن ہے
گناہوں کا بوجھ اور خاص طور پر قتل کا بوجھ اٹھاکر کیسے اللہ کو منہ دکھائیں گے۔
وزیر اعظم عمران خان نے بے گھر، بے سروسامان افراد کے لیے پناہ گاہیں بنانے کا اعلان کرکے ایک اچھا اور بہترین فیصلہ کیا ہے اس پر کوئی دو رائے نہیں، مگر اس سے بھی زیادہ یہ اہم ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر بچوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا جائے، خاص طور پر غریب بچوں کا، جو گدا گر مافیا کا خاص ہدف ہیں، بچے ہمارا مستقبل ہیں ، ضروری ہے کہ ان کا حال بھی بہتر بنایاجائے، گورنمنٹ اسکولوں پر توجہ دی جائے اور پورے ملک میں ایک جیسا نظام تعلیم رائج کیا جائے، گوکہ ملک میں تعلیم و تربیت کی شدید کمی ہے۔ گھوسٹ اساتذہ اور تعلیمی بجٹ میں خرد برد نے قومی خزانے کوکروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا اور اس سے بڑھ کر ہماری نسلوں کو تعلیم سے دور کیا۔
معاشرے میں حلال اور حرام کی تفریق ختم ہوچلی ہے۔ تاجر اور منافع خور لالچ میں اندھے ہوکر انسانی صحت سے کھیلنے لگے ، سب کی آنکھوں کے سامنے ایسے ایسے گندگی میں ڈوبے ہوئے کھانے کی اشیا کی فروخت جاری ہے ، کوئی پوچھنے والے نہیں، ظلم کی انتہا یہ بھی ہے کہ بڑے بڑے نام والے ریسٹورنٹ کئی سالوں پرانے Expired گوشت کی ڈشیں ہزاروں میں فروخت کررہے ہیں اور راز تب فاش ہوتا ہے جب انسانی جانوں کا نقصان ہوجائے۔ ہنستے بستے گھر خاموش ہوجائیں، کاش یہ دولت کمانے والے اتنے بے حس نہ ہو۔ اتنے ظالم نہ ہوکہ سب کچھ اسی دنیا میں چھوڑکر جانا ہے۔
گناہوں کا بوجھ اور خاص طور پر قتل کا بوجھ اٹھاکر کیسے اللہ کو منہ دکھائیں گے۔ بنیادی ضروریات ہر خاص و عام کو فراہم کرنا کسی بھی حکومت کا اولین فرض ہے۔ حاکم بننے کے لیے حاکم کو چاہیے کہ وہ تمام احکامات سے بھی واقف ہو جو اللہ پاک اور اس کے رسولؐ نے بیان فرمائے۔تمام خلفائے راشدین بھی بہترین نمونہ زندگی ہیں، مگر لگتا یوں ہے کہ دولت کے پیچھے ایسے بھاگ رہے ہیں کہ خدا کی پناہ، حقیقت تو یہ ہے کہ صرف چند سیکنڈز چاہیے اللہ کو ان کی اوقات یاد دلانے کے لیے۔ تمام خزانے، زمینوں میں ایسے دفن ہوجاتے ہیں کہ نہ نشان رہتا ہے اور نہ خزانے۔
ان حقیقتوں سے واقف انسان پھر بھی اپنے آپ کو اسمارٹ سمجھے جارہا ہے، دو قدم آگے چلنا چاہتا ہے۔ بے چارہ کم عقل بد نصیب!
بہر حال 2018 کے انتخابات کے بعد ایک نئی حکومت بن گئی ہے اور 100 دن مکمل کرچکی ہے، بہت کچھ تو ابھی نظر نہیں آرہا ہاں مگر ایک سمت کا تعین یہ حکومت کرتی نظر آتی ہے۔ ان ہی 100 دنوں میں ایک فیصلہ یہ بھی تھا کہ سڑکوں پر بے گھر افراد کے لیے پناہ گاہیں اور ان کے کھانے کا انتظام کیا جائے،ضروری ہے کہ اس پر دیانت داری کے ساتھ قائم رہا جائے۔ یہ اچھائی کے عمل کو نیک نیتی سے کیا جائے اور اس کا Follow Up رکھا جائے۔ گدا گری کی بڑھتی ہوئی لعنت کو ہم سب کو مل کر ختم کرنا چاہیے۔ ہمارا ہر ادارہ سنگین بے قاعدگیوں کی نشاندہی کر رہا ہے، ان اداروں کو دوبارہ سے Order پر لانا اور تمام کو اوپر سے نیچے کی طرف اپنی ذمے داریوں کو پورا کرنے کی طرف مائل کرنا 100 دن کا نہیں بلکہ لگاتار چیک اینڈ بیلنس رکھنے جیسا ہے۔ کام مشکل ضرور ہے مگر نا ممکن نہیں کہ ہر فرد اس ملک کے لیے اپنے لوگوں کے لیے بے انتہا شاندار جذبات رکھتا ہے بس ایک راہ دکھانے والا اور اس پر چلانے والا ہو۔ قانون کی پاسداری اور بروقت انصاف کا مہیا ہونا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
انسانی جانوں سے کھیلنا اس ملک میں مذاق بن کر رہ گیا ہے،کبھی کھانوں سے کبھی جعلی ادویات سے،کبھی ملاوٹ سے، کبھی علاج صحیح نہ ہونے سے، کبھی غذا کی قلت سے، کبھی ہوا میں آلودگی سے، جنگلات کا کم ہونا، بارشوں کا فقدان یہ سب مسائل ایک دوسرے سے جڑے ہیں اور جب ہم سب کو بنیادی تعلیم ملے گی تو شاید ہم ان سب کو زیادہ اچھے سے سمجھ پائیںگے، صفائی کا شعور نہ ہونا بھی بہت سے مسائل کو پیدا کرتا ہے۔ شعور، آگہی یہ سب ہماری بنیادی ضروریات ہیں جسے سالہا سال سے نظر انداز کردیا گیا ہے۔
اب اگر ہم نے اسے مزید نظر انداز کیا تو گویا اندھے کنویں میں دھکا دینے جیسے ہوگا۔ جہاں سے کسی کا بھی بچ نکلنا ممکن نہیں، کوئی یہ نہ سمجھے کہ کوئی گرتا ہے تو گرے وہ تو بچا ہوا ہے، ایسا سوچنا اپنے آپ کو دھوکا دینا ہے۔ ہم سب کا آج ہی ہمارے کل کا تعین کرتا ہے۔ چاروں طرف سے ڈیمز بنانے کی آوازیں جو آرہی ہے وہ اس لیے کہ ہم نے بہت دیر کردی، دشمنوں نے ہمیں کسی اور طرف الجھائے رکھا اور پانی کی شدید قلت خوفناک صورت بن کر نظر آنے لگی اب اس مشکل گھڑی میں جب کہ ڈیمز ہماری مشکل کا حل ہے ہر سیاسی جماعت کو اپنے آپ سے بالاتر ہوکر صرف پاکستان اور اس کے عوام کے لیے سوچنا چاہیے۔
عمران خان بحیثیت وزیراعظم کفایت شعاری کو اپنا چکے ہیں اب اس کو عوام میں بھی نافذ کرنا چاہیے۔ شادی بیاہ کی تقریبات کو سادہ بنانا قانون کا حصہ ہو اور اس قانون پر فوری عمل کروایا جائے ۔ دکھاؤے اور بناؤٹی طرز زندگی کی حوصلہ شکنی کی جائے ، بنیادی اشیائے ضروریہ کے اجزا کو کیمیکل سے پاک کرنا اور ملاوٹ کرنے والوں کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے ۔
خواتین کے لیے بینک سے قرض کو آسان ترین بنایا جائے تاکہ خواتین اپنے پیروں پرکھڑی ہوسکیں ، شریعتی ورثے کی تقسیم فوری کردی جائے۔ قانون تو بہت ہم بنالیتے ہیں مگر ان کا نفاذ نہیں ہوتا۔ اگر قانون بناکر اس کا فوری نفاذ ہو تو وہ موجودہ حکومت کی بڑی کامیابی ہوگی۔ آج آگے بڑھتی ہوئی دنیا کو جب ہم دیکھتے ہیں تو ایک عجیب احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔ بہترین امتی ہونے کے باوجود دھوکا و فریب کیسے ہمارے خون میں شامل ہوگیا ہے کہ اب باہر کی دنیا بھی ہمیں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتی، تمام تر معدنی نعمتیں ہمارے ملک میں موجود، زرعی طور سے ہم مضبوط، سارے موسم ہمارے پاس بہترین، خوبصورت جگہیں ہمارے پاس، سمندر، دریا سب کچھ موجود مگر قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ 2018 میں اپنے ملک میں ڈیمز بنانے کے لیے ہم سب کو چندہ جمع کرنا پڑ رہا ہے جب کہ اسی ملک کے حکمرانوں پر اربوں، کھربوں لوٹنے کے کیسز بھی چکل رہے ہیں۔
ان لوگوں نے اپنے ہی ملک کے سیاست دان ہونے کے باوجود نہ صرف اپنی تجوریوں کو بھرا بلکہ کروڑوں نوجوانوں کے مستقبل سے بھی کھیلے اور اپنی اولادوں اور ان کی بھی اولادوں کے مستقبل کو محفوظ بنادیا مگر اللہ پاک کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں، وقت کو بدلنے میں دیر نہیں لگتی کل جو لوگ عمران خان کے وزیراعظم بننے کے سخت مخالف تھے اور اس کو سیاست سیکھنے کے مشورے دیتے تھے آج وہی لوگ کسی دوسری طرح سوچتے ہیں۔ بہر حال ہے کوئی بھی وزیراعظم ہو، کسی کی بھی حکومت ہو ان کی مخلصی اگر عوام اور پاکستان کے ساتھ نہیں تو ان کا کوئی حق نہیں کہ وہ حکومت میں رہے۔
موجودہ حکومت جو بھی عوام کے لیے اچھے کام کریں اور رزلٹ دے تو ہماری ذمے داری ہے کہ ہم سوچ سمجھ کر ان کے ہاتھ مضبوط کریں پاکستان مضبوط ہوگا تو ہم سب مضبوط ہوںگے ہمارے لوگ جب تعلیم و تربیت حاصل کریںگے تو بہترین روزگارکے مواقعے ملیںگے۔ کارخانہ لگیں گے ، انڈسٹریز بنیںگی، اعلیٰ ذہن حرکت میں آئیںگے اور سبزہ سونا بن جائے گا ۔ یہ ملک ایک عالیشان ملک بن جائے گا۔
معاشرے میں حلال اور حرام کی تفریق ختم ہوچلی ہے۔ تاجر اور منافع خور لالچ میں اندھے ہوکر انسانی صحت سے کھیلنے لگے ، سب کی آنکھوں کے سامنے ایسے ایسے گندگی میں ڈوبے ہوئے کھانے کی اشیا کی فروخت جاری ہے ، کوئی پوچھنے والے نہیں، ظلم کی انتہا یہ بھی ہے کہ بڑے بڑے نام والے ریسٹورنٹ کئی سالوں پرانے Expired گوشت کی ڈشیں ہزاروں میں فروخت کررہے ہیں اور راز تب فاش ہوتا ہے جب انسانی جانوں کا نقصان ہوجائے۔ ہنستے بستے گھر خاموش ہوجائیں، کاش یہ دولت کمانے والے اتنے بے حس نہ ہو۔ اتنے ظالم نہ ہوکہ سب کچھ اسی دنیا میں چھوڑکر جانا ہے۔
گناہوں کا بوجھ اور خاص طور پر قتل کا بوجھ اٹھاکر کیسے اللہ کو منہ دکھائیں گے۔ بنیادی ضروریات ہر خاص و عام کو فراہم کرنا کسی بھی حکومت کا اولین فرض ہے۔ حاکم بننے کے لیے حاکم کو چاہیے کہ وہ تمام احکامات سے بھی واقف ہو جو اللہ پاک اور اس کے رسولؐ نے بیان فرمائے۔تمام خلفائے راشدین بھی بہترین نمونہ زندگی ہیں، مگر لگتا یوں ہے کہ دولت کے پیچھے ایسے بھاگ رہے ہیں کہ خدا کی پناہ، حقیقت تو یہ ہے کہ صرف چند سیکنڈز چاہیے اللہ کو ان کی اوقات یاد دلانے کے لیے۔ تمام خزانے، زمینوں میں ایسے دفن ہوجاتے ہیں کہ نہ نشان رہتا ہے اور نہ خزانے۔
ان حقیقتوں سے واقف انسان پھر بھی اپنے آپ کو اسمارٹ سمجھے جارہا ہے، دو قدم آگے چلنا چاہتا ہے۔ بے چارہ کم عقل بد نصیب!
بہر حال 2018 کے انتخابات کے بعد ایک نئی حکومت بن گئی ہے اور 100 دن مکمل کرچکی ہے، بہت کچھ تو ابھی نظر نہیں آرہا ہاں مگر ایک سمت کا تعین یہ حکومت کرتی نظر آتی ہے۔ ان ہی 100 دنوں میں ایک فیصلہ یہ بھی تھا کہ سڑکوں پر بے گھر افراد کے لیے پناہ گاہیں اور ان کے کھانے کا انتظام کیا جائے،ضروری ہے کہ اس پر دیانت داری کے ساتھ قائم رہا جائے۔ یہ اچھائی کے عمل کو نیک نیتی سے کیا جائے اور اس کا Follow Up رکھا جائے۔ گدا گری کی بڑھتی ہوئی لعنت کو ہم سب کو مل کر ختم کرنا چاہیے۔ ہمارا ہر ادارہ سنگین بے قاعدگیوں کی نشاندہی کر رہا ہے، ان اداروں کو دوبارہ سے Order پر لانا اور تمام کو اوپر سے نیچے کی طرف اپنی ذمے داریوں کو پورا کرنے کی طرف مائل کرنا 100 دن کا نہیں بلکہ لگاتار چیک اینڈ بیلنس رکھنے جیسا ہے۔ کام مشکل ضرور ہے مگر نا ممکن نہیں کہ ہر فرد اس ملک کے لیے اپنے لوگوں کے لیے بے انتہا شاندار جذبات رکھتا ہے بس ایک راہ دکھانے والا اور اس پر چلانے والا ہو۔ قانون کی پاسداری اور بروقت انصاف کا مہیا ہونا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
انسانی جانوں سے کھیلنا اس ملک میں مذاق بن کر رہ گیا ہے،کبھی کھانوں سے کبھی جعلی ادویات سے،کبھی ملاوٹ سے، کبھی علاج صحیح نہ ہونے سے، کبھی غذا کی قلت سے، کبھی ہوا میں آلودگی سے، جنگلات کا کم ہونا، بارشوں کا فقدان یہ سب مسائل ایک دوسرے سے جڑے ہیں اور جب ہم سب کو بنیادی تعلیم ملے گی تو شاید ہم ان سب کو زیادہ اچھے سے سمجھ پائیںگے، صفائی کا شعور نہ ہونا بھی بہت سے مسائل کو پیدا کرتا ہے۔ شعور، آگہی یہ سب ہماری بنیادی ضروریات ہیں جسے سالہا سال سے نظر انداز کردیا گیا ہے۔
اب اگر ہم نے اسے مزید نظر انداز کیا تو گویا اندھے کنویں میں دھکا دینے جیسے ہوگا۔ جہاں سے کسی کا بھی بچ نکلنا ممکن نہیں، کوئی یہ نہ سمجھے کہ کوئی گرتا ہے تو گرے وہ تو بچا ہوا ہے، ایسا سوچنا اپنے آپ کو دھوکا دینا ہے۔ ہم سب کا آج ہی ہمارے کل کا تعین کرتا ہے۔ چاروں طرف سے ڈیمز بنانے کی آوازیں جو آرہی ہے وہ اس لیے کہ ہم نے بہت دیر کردی، دشمنوں نے ہمیں کسی اور طرف الجھائے رکھا اور پانی کی شدید قلت خوفناک صورت بن کر نظر آنے لگی اب اس مشکل گھڑی میں جب کہ ڈیمز ہماری مشکل کا حل ہے ہر سیاسی جماعت کو اپنے آپ سے بالاتر ہوکر صرف پاکستان اور اس کے عوام کے لیے سوچنا چاہیے۔
عمران خان بحیثیت وزیراعظم کفایت شعاری کو اپنا چکے ہیں اب اس کو عوام میں بھی نافذ کرنا چاہیے۔ شادی بیاہ کی تقریبات کو سادہ بنانا قانون کا حصہ ہو اور اس قانون پر فوری عمل کروایا جائے ۔ دکھاؤے اور بناؤٹی طرز زندگی کی حوصلہ شکنی کی جائے ، بنیادی اشیائے ضروریہ کے اجزا کو کیمیکل سے پاک کرنا اور ملاوٹ کرنے والوں کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے ۔
خواتین کے لیے بینک سے قرض کو آسان ترین بنایا جائے تاکہ خواتین اپنے پیروں پرکھڑی ہوسکیں ، شریعتی ورثے کی تقسیم فوری کردی جائے۔ قانون تو بہت ہم بنالیتے ہیں مگر ان کا نفاذ نہیں ہوتا۔ اگر قانون بناکر اس کا فوری نفاذ ہو تو وہ موجودہ حکومت کی بڑی کامیابی ہوگی۔ آج آگے بڑھتی ہوئی دنیا کو جب ہم دیکھتے ہیں تو ایک عجیب احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔ بہترین امتی ہونے کے باوجود دھوکا و فریب کیسے ہمارے خون میں شامل ہوگیا ہے کہ اب باہر کی دنیا بھی ہمیں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتی، تمام تر معدنی نعمتیں ہمارے ملک میں موجود، زرعی طور سے ہم مضبوط، سارے موسم ہمارے پاس بہترین، خوبصورت جگہیں ہمارے پاس، سمندر، دریا سب کچھ موجود مگر قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ 2018 میں اپنے ملک میں ڈیمز بنانے کے لیے ہم سب کو چندہ جمع کرنا پڑ رہا ہے جب کہ اسی ملک کے حکمرانوں پر اربوں، کھربوں لوٹنے کے کیسز بھی چکل رہے ہیں۔
ان لوگوں نے اپنے ہی ملک کے سیاست دان ہونے کے باوجود نہ صرف اپنی تجوریوں کو بھرا بلکہ کروڑوں نوجوانوں کے مستقبل سے بھی کھیلے اور اپنی اولادوں اور ان کی بھی اولادوں کے مستقبل کو محفوظ بنادیا مگر اللہ پاک کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں، وقت کو بدلنے میں دیر نہیں لگتی کل جو لوگ عمران خان کے وزیراعظم بننے کے سخت مخالف تھے اور اس کو سیاست سیکھنے کے مشورے دیتے تھے آج وہی لوگ کسی دوسری طرح سوچتے ہیں۔ بہر حال ہے کوئی بھی وزیراعظم ہو، کسی کی بھی حکومت ہو ان کی مخلصی اگر عوام اور پاکستان کے ساتھ نہیں تو ان کا کوئی حق نہیں کہ وہ حکومت میں رہے۔
موجودہ حکومت جو بھی عوام کے لیے اچھے کام کریں اور رزلٹ دے تو ہماری ذمے داری ہے کہ ہم سوچ سمجھ کر ان کے ہاتھ مضبوط کریں پاکستان مضبوط ہوگا تو ہم سب مضبوط ہوںگے ہمارے لوگ جب تعلیم و تربیت حاصل کریںگے تو بہترین روزگارکے مواقعے ملیںگے۔ کارخانہ لگیں گے ، انڈسٹریز بنیںگی، اعلیٰ ذہن حرکت میں آئیںگے اور سبزہ سونا بن جائے گا ۔ یہ ملک ایک عالیشان ملک بن جائے گا۔