الطاف حسین کی پارٹی قیادت سے دستبرداری اور پھر واپسی

ایم کیو ایم کے قائد نے اپنی تقریر میں یہ الزام لگایا ہے کہ برطانوی حکومت انہیں ڈاکٹر عمران فاروق کیس میں ملوث کرنے۔۔۔

فوٹو: فائل

پاکستان پیپلزپارٹی کے ارکان سندھ اسمبلی اویس مظفراور سردارمحمدبخش مہرنے اعلان کیا ہے کہ وہ رکن سندھ اسمبلی کی حیثیت سے تنخواہ، الاؤنسزاور مراعات نہیں لیں گے۔

ان کی طرف سے یہ اعلان گزشتہ ہفتے سندھ اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں وزیرقانون سندھ ڈاکٹرسکندرعلی میندھرو نے کیا،جس کا تمام ارکان نے ڈیسک بجاکرخیرمقدم کیا۔ اعلان کے مطابق دونوں ارکان اسمبلی تنخواہوں کے ساتھ ساتھ ٹریولنگ الاؤنس اورمیڈیکل سمیت دیگرالاؤنسزبھی سندھ اسمبلی سے نہیں لیں گے۔اس اعلان سے ایک روز پہلے وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے بجٹ پر بحث کو سمیٹتے ہوئے اپوزیشن کی جانب سے اخراجات میں کٹوتی کے متعلق حوالہ دیاتھا اور کہا تھاکہ اگر ہمیں بچت کرنی ہے، تواس کا آغاز ہمیں گھرسے کرنا ہوگا ۔ سندھ اسمبلی ہمارا گھر ہے۔

ہمیں اپنے اخراجات کی کٹوتی کرنا ہوگی ۔ اگرکسی کو یہ بات بری لگی ہے تو میں اپنی بات واپس لیتا ہوں۔ لیکن دوسرے دن پیپلز پارٹی کے دو ارکان اویس مظفر اور سردار محمد بخش خان مہر نے وزیر اعلیٰ کی بات کا مثبت جواب دیا اور مذکورہ اعلان کردیا ۔ دونوں ارکان پہلی دفعہ سندھ اسمبلی پہنچے ہیں۔ اویس مظفر پی ایس۔ 88 ٹھٹھہ اور سردار محمد بخش خان مہر پی ایس۔ 8 گھوٹکی منتخب ہوئے ہیں ۔

ان کا یہ اعلان دوسروں کے لیے قابل تقلید ہونا چاہیے۔ اس سے ایک اچھی روایت قائم ہوئی ہے۔ سینٹ ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں بہت سے ارکان ایسے ہیں، جو اگر تنخواہیں، الاؤنسز اور مراعات نہ لیں تو انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن قومی خزانے پر اس کا بہت اثر پڑھ سکتاہے ۔ کچھ ارکان ایسے ہیں جنہیں تنخواہوں، الاؤنسز اور مراعات کی ضرورت ہے لیکن ان کی تعداد خاصی کم ہے ۔ اس سے پہلے بھی کئی وزرا اور ارکان پارلیمنٹ نتخواہیں نہ لینے اعلان کرچکے ہیں۔ اویس مظفر اور سردار محمد بخش مہر نے جو روایت قائم کی ہے، اسے آگے بڑھنا چاہیے۔

گزشتہ اتوار کو متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیوایم) کے قائد الطاف حسین نے اچانک اپنی پارٹی کی قیادت سے دست بردار ہونے کا اعلان کردیا۔ جس کے بعد کراچی، حیدر آباد، سکھر، میرپورخاص اور سندھ کے دیگر شہروں میں ایم کیو ایم کے کارکن بڑی تعداد میں جمع ہوگئے اور انھوں نے اپنے لیڈر الطاف حسین سے کہا کہ وہ یہ فیصلہ واپس لیں۔ کارکنوں کے زبردست اصرار پر اگرچہ الطاف حسین نے قیادت سے دست برداری کا فیصلہ واپس لے لیا لیکن انھوں نے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے ایسی باتیں کیں، جس پر قیاس آرائیوں کا ایک طوفان امڈ آیا ہے۔


ایم کیو ایم کے قائد نے اپنی تقریر میں یہ الزام لگایا ہے کہ برطانوی حکومت انہیں ڈاکٹر عمران فاروق کیس میں ملوث کرنے کی سازش کررہی ہے اور برطانوی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ان کی جان بھی لے سکتی ہے۔ انھوں نے یہ الزام اس وقت لگایا، جب برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون پاکستان کے دورے پر تھے اور اپنے پاکستانی ہم منصب میاں محمد نواز شریف نے ملاقات کررہے تھے۔

ایم کیو ایم ارکان پارلیمنٹ نے کراچی میں واقع برطانوی ڈپٹی ہائی کمیشن کے سامنے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا اور وہاں ایک یادداشت بھی پیش کی۔ ایم کیو ایم کے قائد نے اپنی تقریر میں یہ بھی انکشاف کیا کہ اسکاٹ لینڈ یارڈ پولیس نے ان کے گھر پر چھاپہ مارا تھا اور وہ گھر سے بہت سارا سامان بھی لے گئی ہے۔ اس صورت حال کی وجہ سے سندھ خصوصاً کراچی میں بے یقینی کی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔

دوسری طرف کراچی میں جاری ٹارگیٹڈ آپریشن میں پولیس کی نسبت رینجرز زیادہ سرگرم نظر آرہی ہے۔ رینجرز کی طرف سے کراچی سنٹرل جیل پر بھی چھاپہ مارا گیا ہے، جو ایک غیر معمولی بات ہے۔ ابھی تک یہ بات واضح نہیں ہے کہ رینجرز کو جیل پر چھاپہ مارنے کے احکامات کس نے دیئے تھے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے ارکان سندھ اسمبلی نے کراچی کے علاقہ لیاری میں رینجرز کی کارروائیوں پر اسمبلی کے اجلاس کے دوران شدید احتجاج کیااور یہ الزام لگایا کہ رینجرز والے لیاری کے بے گناہ نوجوانو ں کو اٹھاکر لے جاتے ہیں اورپھر ان نوجوانوں کی لاشیں ملتی ہیں۔

پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن کے صدر عبدالقادر پٹیل نے لیاری کے ارکان اسمبلی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے لیاری کے باکسر ثاقب کے قتل کا الزام بھی رینجرز پر عائد کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ رینجرز نے چوک میں کھڑا کرکے ثاقب باکسر کو گولیاں ماریں۔ پیپلزپارٹی اور کراچی سٹی الائنس کی جانب سے رینجرز ہیڈکوارٹر کے سامنے مظاہرے کا بھی پروگرام بنایا گیا۔ یہ ایک نئی صورت حال ہے۔ کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ صورت حال کیا رخ اختیار کرے گی ۔ادھر پاکستان مسلم لیگ(ن) کی قیادت ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کرسکی ہے کہ سندھ میں گورنر کس کو تعینات کیا جائے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے بعض حلقوں کا یہ کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) سندھ کے رہنما ممتاز علی بھٹو یہ کوشش کررہے ہیں کہ انہیں گورنر سندھ بنایا جائے اور شاید ان کوششوں کی وجہ سے سندھ میں نئے گورنر کی تعیناتی کا مسئلہ اٹکا ہوا ہے ۔ اگلے روز ممتاز علی بھٹو نے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سے لاہور میں ملاقات کی ہے اور سندھ کے امور پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ باور کیا جاتا ہے کہ ممتاز بھٹو کو مرکز میں سندھ کے امور سے متعلق بھی کوئی ذمہ داری دی جاسکتی ہے۔

اگر کوئی ایسی صورت حال پیدا ہوئی تو وفاقی اور سندھ حکومت کے درمیان کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت اس بات کا انتظار کررہی ہے کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف سندھ حکومت سے کس طرح کے تعلقات استوار کرتی ہے اور سندھ میں امن وامان کے حوالے سے کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے۔
Load Next Story