صوبے میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال
گزشتہ حکومت کی طرح موجودہ حکومت کے لیے بھی امن وامان کا قیام ہی سب سے بڑا مسئلہ بن کر ابھرا ہے...
گزشتہ حکومت کی طرح موجودہ حکومت کے لیے بھی امن وامان کا قیام ہی سب سے بڑا مسئلہ بن کر ابھرا ہے اور چاہے مرکزی ہو یا صوبائی حکومت ،دونوں میں سے کوئی بھی ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈال کر اس مسلہ سے اپنی جان نہیں چھڑاسکتی ۔
تاہم اس وقت صورت حال یہ ہے کہ مرکزی حکومت امن وامان کو صوبائی مسئلہ قراردیتے ہوئے خود کو اس اہم ترین مسئلہ سے بری الذمہ ہونے کے چکر میں ہے جبکہ صوبائی حکومت امن وامان کی ساری خراب صورت حال کو ڈرون حملوں کے ساتھ نتھی کرتے ہوئے اسے مرکزی حکومت کی پالیسیوں کا نتیجہ قراردے رہی ہے ، جب تک مرکز میں پیپلزپارٹی اور خیبرپختونخوا میں اے این پی کی حکومت تھی اس وقت تک آج کی برسراقتدار جماعتیں جو اس وقت اپوزیشن میں تھیں ساری ذمہ داری ان سیاسی پارٹیوں اور ان کی حکومتوں اور ان کی پالیسیوں پر عائد کرتے آرہی تھیں اور ان پر یہ الزام عائد کیاجارہا تھا کہ وہ اپنی ہی عوام کے خون کا سوداکررہی ہیں حالانکہ صورت حال اس وقت بھی ایسی ہی تھی اور عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کے سلسلے میں اس وقت بھی جو کوششیں کی گئی تھیں وہ کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوپائیں جس کی وجوہات کی تلاش کرنا بھی اب موجودہ حکومت ہی کی ذمہ داری ہے جبکہ اب موجودہ حکومت کو بھی ویسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جس سے وہ خود کو بری الذمہ قراردینے کیلئے کوشاں ہے ۔
گیارہ مئی کو عوام نے جن سیاسی پارٹیوں کو مینڈیٹ دیا وہ قیام امن، معاشی استحکام اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے سمیت دیگر مسائل کے خاتمے کے لیے تھا اور اس وقت ہر پارٹی فارمولے لیے پھر رہی تھی کہ اگر وہ اقتدار میں آگئی تو مہینو ں یا سالوں نہیں بلکہ دنوں میں امن کا قیام ممکن کردکھائیں گی لیکن اب جبکہ کل کی اپوزیشن کی پارٹیاں آج برسراقتدار ہیں، وہ یہ ذمہ داری اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہیں ، اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعداختیارات صوبوں کو منتقل ہونے کے باعث امن کا قیام مرکزی نہیں بلکہ صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔
اس لیے اگر خیبرپختونخوا میں بم دھماکے ہورہے ہیں یا پولیس اہلکاروں کو ٹارگٹ کرتے ہوئے مارا جارہا ہے تو اس کی روک تھام کے لیے بھی صوبہ کی عوام مرکز کی جانب نہیں بلکہ صوبائی حکومت ہی کی جانب دیکھے گی اوریہاں پر تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتیں گیند مرکز کے کورٹ میں پھینکتے ہوئے مرکز کی طرف سے کسی اقدام کی منتظر ہیں لیکن عوام ان کو موقع دینے کے موڈ میں قطعاًنہیں بلکہ عوام یہ جاننا چاہتی ہے کہ اگر امن کا قیام نہیں ہوپا رہا۔
اگر بم دھماکے اور خود کش حملے ہونے ہیں اور اگر پولیس اہلکاروں کو ٹارگٹ کرتے ہوئے یونہی مارا جانا ہے تو ان کو بتایا جائے کہ وہ کون سی قوتیں ہیں جو حکومت اور عسکریت پسندوں کے درمیان بات چیت کی راہ میں آڑے آرہی ہیں ،عوام کے ذہنوں میں یقینی طور پر یہ سوال بھی ابھرتا ہے کہ مرکزاور صوبہ میں حکومت سازی کے دنوں میں مولانا سمیع الحق کے ساتھ جو رابطے کیے گئے تھے وہ رابطے آگے کیوں نہیں بڑھے ؟ان رابطوں کو آگے بڑھنے سے روکا گیا ہے یا پھر مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے خود ہی ان رابطوں کو آگے بڑھانے اور انھیں کسی منطقی انجام تک پہنچانے میں دلچسپی نہیں لی ؟
یہ سارے سوالات اپنی جگہ موجود ہیں جن سے نہ تو مرکز پیچھا چھڑا سکتا ہے اور نہ ہی صوبائی حکومت اور نہ ہی عوام ان باتوں پر مطمین ہونے والے ہیں کہ یہ مرکز کی ذمہ داری ہے یا صوبہ کی ،کیونکہ عوام نے ووٹ دے کر مختلف پارٹیوں کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال دیا ہے اور یہی پارٹیاں آج اس مینڈیٹ اور ووٹوں کی بدولت حکومتوں میں ہیں اس لیے عوام بھی اب ان حکومتوں سے جواب مانگنے میں حق بجانب ہیں ، یہ بات بڑی واضح ہے کہ عسکریت پسندوں کے ساتھ با ت چیت کے حوالے سے سب سے زیادہ سنجیدہ کوشش گزشتہ دور حکومت میں اس وقت کی گئی تھی جب اے این پی اور جے یو آئی کی جانب سے بلائی جانے والی دو الگ ،الگ آل پارٹیز کانفرنسز کے بعد جے یو آئی کے پلیٹ فارم سے جرگہ تشکیل دیا گیا اور اس جرگہ نے مذاکراتی عمل شروع کرنے کے سلسلے میں اپنے کام کا آغاز بھی کردیا ۔
جرگہ کو دوبارہ فعال کیوں نہیں کیا جا رہا اور اس جرگہ کے ذریعے معاملات کو آگے بڑھانے میں مرکزی اور صوبائی حکومتیں دلچپسی کا اظہار کیوں نہیں کررہیں، اس بارے میں لوگ ضرور جاننا چاہتے ہیں اور وہ اس بات کے بھی متمنی ہیں کہ اگر مذکورہ جرگہ سے ہٹ کر مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے پاس کوئی دوسرا فارمولا ہے تو اس فارمولے کو سامنے لایاجائے تاکہ بات آگے بڑھ سکے کیونکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر اب تک اس خطے میں جتنا خون بہہ چکا ہے وہ کافی سے بھی زیادہ ہے اور لوگ اب مزید جنازے اٹھانے کی سکت نہیں رکھتے ،اس لیے ضروری ہے کہ مرکزی اور صوبائی حکومتیں جن اے پی سیز یا سیاسی قیادت کے اکٹھ کی باتیں کرتی آئی ہیں وہ اکٹھ اب ہوجانے چاہیں کیونکہ مزید تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک اور جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے درمیان گزشتہ ہفتے ہونے والی ملاقات کو بھی اسی تناظر میں دیکھاجا رہا ہے کہ وزیراعلیٰ ،مولانا فضل الرحمٰن سے قیام امن کے حوالے سے تعاون مانگنے گئے تھے تاہم جے یو آئی اور صوبائی حکومت دونوں جانب سے اس ملاقات کو صرف خیر سگالی کی ملاقات قراردیا گیا ،تاہم مذکورہ ملاقات میں شامل افراد کاکہنا ہے کہ اس میں تعاون کی بات ضرور ہوئی ہے جو قیام امن کے حوالے سے بھی تھا اور حکومت کے حوالے سے بھی، یہ بات بڑی واضح ہے کہ جہاں تک قیام امن اور عسکریت پسندوں سے مذاکرات کے سلسلے میں تعاون کا معاملہ ہے تو مولانا فضل الرحمٰن ،تحریک انصاف کے کہنے پر شاید ہی ان مراحل کو طے کرنا چاہیں گے جن کی توقع ان سے کی جا رہی ہے ۔
اگر یہی تعاون مرکزی حکومت یعنی مسلم لیگ(ن)،جے یو آئی سے مانگے تو یقینی طور پر صورت حال مختلف ہوگی اور مولانا فضل الرحمٰن شاید زیادہ بہتر پوزیشن میں مرکز کے ساتھ مل کر معاملات کو آگے بڑھا سکیں گے تاہم جہاں تک صوبہ میں حکومت کے ساتھ تعاون کا معاملہ ہے تو اس سلسلے میں مذکورہ ملاقات میں ضرور بات ہوئی ہے اور کہنے والوں کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ مذکورہ ملاقات میں یہاں تک کہا گیا کہ تحریک انصاف کی اتحادی جماعتوں کی جگہ اگر جے یو آئی (ف) ان کے ساتھ شامل ہوجائے تو زیادہ مضبوط پوزیشن میں ہوں گے، تاہم مولانا فضل الرحمٰن نے بڑے روایتی انداز میں تعاون کے معاملے پر علم منطق کا سہارا لیتے ہوئے معاملات کو ٹال دیا کیونکہ جے یو آئی جس کی ساری انتخابی مہم بھی تحریک انصاف کے خلاف تھی اور انتخابی نتائج کے سامنے آنے کے بعد بھی جے یو آئی نے تحریک انصاف ہی کو ٹارگٹ بنائے رکھا ،اب کیسے اور کیونکر تحریک انصا ف کے ساتھ اکھٹی ہوسکتی ہے اس لیے اپوزیشن میں ہی رہتے ہوئے معاملات کو آگے بڑھائے گی ۔
جہاں تک پیپلزپارٹی کا معاملہ ہے تو پیپلزپارٹی کی پارلیمانی پارٹی جو چار ارکان پر مشتمل ہے وہ پر تول رہی ہے کہ اپوزیشن بنچوں سے اڑ کر حکومتی بنچوں پر پہنچ جائے ، پیپلزپارٹی کے حوالے سے جن امکانات کا اظہار کیاجا رہا ہے اس بارے میں پارٹی کی صوبائی کور کمیٹی کے اجلاس میں بھی غور کیا گیا اور اس امکان کو مسترد کردیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ پیپلزپارٹی اپوزیشن ہی میں رہے گی تاہم پارلیمانی پارٹی اس فیصلہ سے متفق نہیں۔
کیونکہ بقول ان کے کور کمیٹی میں وہ رہنما شامل ہیں جو الیکشن ہار چکے ہیں اور ہارے ہوؤں کو جیتے ہوؤں کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے اور اب لگ یہی رہا ہے کہ اس فیصلہ کا اختیار پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر انور سیف اللہ کو دیاجائے گا جو اس وقت بیرون ملک ہیں اور بعض ذرائع اس امکان کو ظاہر کررہے ہیں کہ انور سیف اللہ سے پارلیمانی پارٹی اپنی منشا کے مطابق فیصلہ کرانے میں کامیاب ہوجائے گی اور اگر ایسا ہوگیا تو حکومت کی جانب سے پہلے ہی فیصلہ کیاجا چکا ہے کہ چار ارکان میں سے ایک کو معاون خصوصی برائے وزیراعلیٰ ،ایک کو ضلع کی سطح پر ترقیاتی ومشاورتی کمیٹی کا چیئرمین جبکہ دو کو اسمبلی کی ''اچھی''قائمہ کمیٹیوں کی چیئرپرسن شپ ملے گی ،مذکورہ فارمولا صرف زیر گردش نہیں بلکہ باقاعدہ طور پر زیر بحث بھی آچکا ہے اور اس بارے میں آئندہ چند دنوں میں صورت حال واضح ہوجائے گی۔
تاہم اس وقت صورت حال یہ ہے کہ مرکزی حکومت امن وامان کو صوبائی مسئلہ قراردیتے ہوئے خود کو اس اہم ترین مسئلہ سے بری الذمہ ہونے کے چکر میں ہے جبکہ صوبائی حکومت امن وامان کی ساری خراب صورت حال کو ڈرون حملوں کے ساتھ نتھی کرتے ہوئے اسے مرکزی حکومت کی پالیسیوں کا نتیجہ قراردے رہی ہے ، جب تک مرکز میں پیپلزپارٹی اور خیبرپختونخوا میں اے این پی کی حکومت تھی اس وقت تک آج کی برسراقتدار جماعتیں جو اس وقت اپوزیشن میں تھیں ساری ذمہ داری ان سیاسی پارٹیوں اور ان کی حکومتوں اور ان کی پالیسیوں پر عائد کرتے آرہی تھیں اور ان پر یہ الزام عائد کیاجارہا تھا کہ وہ اپنی ہی عوام کے خون کا سوداکررہی ہیں حالانکہ صورت حال اس وقت بھی ایسی ہی تھی اور عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کے سلسلے میں اس وقت بھی جو کوششیں کی گئی تھیں وہ کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوپائیں جس کی وجوہات کی تلاش کرنا بھی اب موجودہ حکومت ہی کی ذمہ داری ہے جبکہ اب موجودہ حکومت کو بھی ویسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جس سے وہ خود کو بری الذمہ قراردینے کیلئے کوشاں ہے ۔
گیارہ مئی کو عوام نے جن سیاسی پارٹیوں کو مینڈیٹ دیا وہ قیام امن، معاشی استحکام اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے سمیت دیگر مسائل کے خاتمے کے لیے تھا اور اس وقت ہر پارٹی فارمولے لیے پھر رہی تھی کہ اگر وہ اقتدار میں آگئی تو مہینو ں یا سالوں نہیں بلکہ دنوں میں امن کا قیام ممکن کردکھائیں گی لیکن اب جبکہ کل کی اپوزیشن کی پارٹیاں آج برسراقتدار ہیں، وہ یہ ذمہ داری اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہیں ، اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعداختیارات صوبوں کو منتقل ہونے کے باعث امن کا قیام مرکزی نہیں بلکہ صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔
اس لیے اگر خیبرپختونخوا میں بم دھماکے ہورہے ہیں یا پولیس اہلکاروں کو ٹارگٹ کرتے ہوئے مارا جارہا ہے تو اس کی روک تھام کے لیے بھی صوبہ کی عوام مرکز کی جانب نہیں بلکہ صوبائی حکومت ہی کی جانب دیکھے گی اوریہاں پر تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتیں گیند مرکز کے کورٹ میں پھینکتے ہوئے مرکز کی طرف سے کسی اقدام کی منتظر ہیں لیکن عوام ان کو موقع دینے کے موڈ میں قطعاًنہیں بلکہ عوام یہ جاننا چاہتی ہے کہ اگر امن کا قیام نہیں ہوپا رہا۔
اگر بم دھماکے اور خود کش حملے ہونے ہیں اور اگر پولیس اہلکاروں کو ٹارگٹ کرتے ہوئے یونہی مارا جانا ہے تو ان کو بتایا جائے کہ وہ کون سی قوتیں ہیں جو حکومت اور عسکریت پسندوں کے درمیان بات چیت کی راہ میں آڑے آرہی ہیں ،عوام کے ذہنوں میں یقینی طور پر یہ سوال بھی ابھرتا ہے کہ مرکزاور صوبہ میں حکومت سازی کے دنوں میں مولانا سمیع الحق کے ساتھ جو رابطے کیے گئے تھے وہ رابطے آگے کیوں نہیں بڑھے ؟ان رابطوں کو آگے بڑھنے سے روکا گیا ہے یا پھر مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے خود ہی ان رابطوں کو آگے بڑھانے اور انھیں کسی منطقی انجام تک پہنچانے میں دلچسپی نہیں لی ؟
یہ سارے سوالات اپنی جگہ موجود ہیں جن سے نہ تو مرکز پیچھا چھڑا سکتا ہے اور نہ ہی صوبائی حکومت اور نہ ہی عوام ان باتوں پر مطمین ہونے والے ہیں کہ یہ مرکز کی ذمہ داری ہے یا صوبہ کی ،کیونکہ عوام نے ووٹ دے کر مختلف پارٹیوں کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال دیا ہے اور یہی پارٹیاں آج اس مینڈیٹ اور ووٹوں کی بدولت حکومتوں میں ہیں اس لیے عوام بھی اب ان حکومتوں سے جواب مانگنے میں حق بجانب ہیں ، یہ بات بڑی واضح ہے کہ عسکریت پسندوں کے ساتھ با ت چیت کے حوالے سے سب سے زیادہ سنجیدہ کوشش گزشتہ دور حکومت میں اس وقت کی گئی تھی جب اے این پی اور جے یو آئی کی جانب سے بلائی جانے والی دو الگ ،الگ آل پارٹیز کانفرنسز کے بعد جے یو آئی کے پلیٹ فارم سے جرگہ تشکیل دیا گیا اور اس جرگہ نے مذاکراتی عمل شروع کرنے کے سلسلے میں اپنے کام کا آغاز بھی کردیا ۔
جرگہ کو دوبارہ فعال کیوں نہیں کیا جا رہا اور اس جرگہ کے ذریعے معاملات کو آگے بڑھانے میں مرکزی اور صوبائی حکومتیں دلچپسی کا اظہار کیوں نہیں کررہیں، اس بارے میں لوگ ضرور جاننا چاہتے ہیں اور وہ اس بات کے بھی متمنی ہیں کہ اگر مذکورہ جرگہ سے ہٹ کر مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے پاس کوئی دوسرا فارمولا ہے تو اس فارمولے کو سامنے لایاجائے تاکہ بات آگے بڑھ سکے کیونکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر اب تک اس خطے میں جتنا خون بہہ چکا ہے وہ کافی سے بھی زیادہ ہے اور لوگ اب مزید جنازے اٹھانے کی سکت نہیں رکھتے ،اس لیے ضروری ہے کہ مرکزی اور صوبائی حکومتیں جن اے پی سیز یا سیاسی قیادت کے اکٹھ کی باتیں کرتی آئی ہیں وہ اکٹھ اب ہوجانے چاہیں کیونکہ مزید تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک اور جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے درمیان گزشتہ ہفتے ہونے والی ملاقات کو بھی اسی تناظر میں دیکھاجا رہا ہے کہ وزیراعلیٰ ،مولانا فضل الرحمٰن سے قیام امن کے حوالے سے تعاون مانگنے گئے تھے تاہم جے یو آئی اور صوبائی حکومت دونوں جانب سے اس ملاقات کو صرف خیر سگالی کی ملاقات قراردیا گیا ،تاہم مذکورہ ملاقات میں شامل افراد کاکہنا ہے کہ اس میں تعاون کی بات ضرور ہوئی ہے جو قیام امن کے حوالے سے بھی تھا اور حکومت کے حوالے سے بھی، یہ بات بڑی واضح ہے کہ جہاں تک قیام امن اور عسکریت پسندوں سے مذاکرات کے سلسلے میں تعاون کا معاملہ ہے تو مولانا فضل الرحمٰن ،تحریک انصاف کے کہنے پر شاید ہی ان مراحل کو طے کرنا چاہیں گے جن کی توقع ان سے کی جا رہی ہے ۔
اگر یہی تعاون مرکزی حکومت یعنی مسلم لیگ(ن)،جے یو آئی سے مانگے تو یقینی طور پر صورت حال مختلف ہوگی اور مولانا فضل الرحمٰن شاید زیادہ بہتر پوزیشن میں مرکز کے ساتھ مل کر معاملات کو آگے بڑھا سکیں گے تاہم جہاں تک صوبہ میں حکومت کے ساتھ تعاون کا معاملہ ہے تو اس سلسلے میں مذکورہ ملاقات میں ضرور بات ہوئی ہے اور کہنے والوں کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ مذکورہ ملاقات میں یہاں تک کہا گیا کہ تحریک انصاف کی اتحادی جماعتوں کی جگہ اگر جے یو آئی (ف) ان کے ساتھ شامل ہوجائے تو زیادہ مضبوط پوزیشن میں ہوں گے، تاہم مولانا فضل الرحمٰن نے بڑے روایتی انداز میں تعاون کے معاملے پر علم منطق کا سہارا لیتے ہوئے معاملات کو ٹال دیا کیونکہ جے یو آئی جس کی ساری انتخابی مہم بھی تحریک انصاف کے خلاف تھی اور انتخابی نتائج کے سامنے آنے کے بعد بھی جے یو آئی نے تحریک انصاف ہی کو ٹارگٹ بنائے رکھا ،اب کیسے اور کیونکر تحریک انصا ف کے ساتھ اکھٹی ہوسکتی ہے اس لیے اپوزیشن میں ہی رہتے ہوئے معاملات کو آگے بڑھائے گی ۔
جہاں تک پیپلزپارٹی کا معاملہ ہے تو پیپلزپارٹی کی پارلیمانی پارٹی جو چار ارکان پر مشتمل ہے وہ پر تول رہی ہے کہ اپوزیشن بنچوں سے اڑ کر حکومتی بنچوں پر پہنچ جائے ، پیپلزپارٹی کے حوالے سے جن امکانات کا اظہار کیاجا رہا ہے اس بارے میں پارٹی کی صوبائی کور کمیٹی کے اجلاس میں بھی غور کیا گیا اور اس امکان کو مسترد کردیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ پیپلزپارٹی اپوزیشن ہی میں رہے گی تاہم پارلیمانی پارٹی اس فیصلہ سے متفق نہیں۔
کیونکہ بقول ان کے کور کمیٹی میں وہ رہنما شامل ہیں جو الیکشن ہار چکے ہیں اور ہارے ہوؤں کو جیتے ہوؤں کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے اور اب لگ یہی رہا ہے کہ اس فیصلہ کا اختیار پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر انور سیف اللہ کو دیاجائے گا جو اس وقت بیرون ملک ہیں اور بعض ذرائع اس امکان کو ظاہر کررہے ہیں کہ انور سیف اللہ سے پارلیمانی پارٹی اپنی منشا کے مطابق فیصلہ کرانے میں کامیاب ہوجائے گی اور اگر ایسا ہوگیا تو حکومت کی جانب سے پہلے ہی فیصلہ کیاجا چکا ہے کہ چار ارکان میں سے ایک کو معاون خصوصی برائے وزیراعلیٰ ،ایک کو ضلع کی سطح پر ترقیاتی ومشاورتی کمیٹی کا چیئرمین جبکہ دو کو اسمبلی کی ''اچھی''قائمہ کمیٹیوں کی چیئرپرسن شپ ملے گی ،مذکورہ فارمولا صرف زیر گردش نہیں بلکہ باقاعدہ طور پر زیر بحث بھی آچکا ہے اور اس بارے میں آئندہ چند دنوں میں صورت حال واضح ہوجائے گی۔