ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس پر متحدہ کے شدید تحفظات

شہر قائد بدا منی، سیاسی اختلاف اور بے چینی کا شکار ہے

شہر قائد بدا منی، سیاسی اختلاف اور بے چینی کا شکار ہے فوٹو : فائل

اتوار کو علی الصبح متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کی جانب سے پارٹی کی قیادت چھوڑنے اور اختیارات رابطہ کمیٹی کے سپرد کرنے کے اعلان نے ایک بار پھر ایک بھونچال سا پیدا کردیا۔

الطاف حسین کا کہنا تھا کہ لندن میں متحدہ کے سابق کنوینر ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے سلسلے میں ان سے تفتیش کی جارہی ہے اور ان کے گھر پر چھاپے بھی مارے گئے ہیں۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ اس کا فیصلے ہونے تک پارٹی کے معاملات رابطہ کمیٹی چلائے۔ الطاف حسین کے اس اعلان کے بعد کارکنوں اور ہم دردوں کی ایک بڑی تعداد نے متحدہ کے مرکز نائن زیرو پہنچ کر اپنے جذبات کا اظہار کیا اور ان سے یہ فیصلہ واپس لینے کی استدعا کی۔ ڈاکٹر عمران فاروق کی بیوہ شمائلہ عمران نے بھی اپنے شوہر اور بچوں کا واسطہ دے کر الطاف حسین سے قیادت سے سبکدوشی کا فیصلہ واپس لینے کی اپیل کی۔

جس کے بعد الطاف حسین نے قیادت چھوڑنے کا فیصلہ واپس لے لیا۔ اس موقع پر الطاف حسین نے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ مجھے ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل میں ملوث کرنے کی سازشیں بند کی جائیں۔ یہاں ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ میں مخالفین کو برداشت نہیں کرتا۔ اگر ایسا ہوتا تو اپنی الگ سیاسی جماعت بنانے والے عامر اور آفاق اب تک زندہ کیسے ہیں۔ متحدہ کے قائد نے یہ بھی بتایا کہ اسکاٹ لینڈ یارڈ اور برطانوی پولیس نے لندن میں میرے گھر پر چھا پا مارا، کئی گھنٹے کے محاصرے اور تلاشی کے بعد بہت سا سامان ساتھ لے گئے، اور میرے علم میں بھی نہیں لایا گیا۔

برطانیہ میں جو مقدمات مجھ پر بنائے جائیں گے۔میں اس میں کسی وکیل مدد لینے کے بہ جائے خود اپنا مقدمہ لڑوں گا، میرا ضمیر صاف ہے، اللہ دلوں کا حال بہترجانتا ہے۔ الطاف حسین نے عمران فاروق کے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ اسٹیبلشمنٹ جب کسی کو سزا دینے کا فیصلہ کر لیتی ہے تو پھر اس پر عمل کوئی مشکل نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر عمران فاروق کی زندگی میں ہی اسکاٹ لینڈ یارڈ کی جانب سے اس طرح کی تفتیش کی جاتی تھی کہ عمران فاروق کی زندگی کو خطرہ ہے۔ کئی دفعہ ان سے بھی دریافت کیا گیا کہ آپ کو اغوا کر لیا گیا ہے، لیکن خود انہوں نے بھی اس کی تردید کی۔ برطانوی اسٹبلشمنٹ بڑی صفائی سے میری جان لے سکتی ہے کہ کسی کو پتا نہیں چلے گا۔ انہوںنے کارکنوں کو متحد رہنے اور اہلیت پر فیصلہ کرنے کی تلقین کی۔

الطاف حسین کے گھر پر چھاپے کے خلاف برطانوی قونصل خانے کے سامنے احتجاج بھی کیا گیا۔ اس حوالے سے متحدہ کے رکن قومی اسمبلی عبدالرشید گوڈیل کا کہنا ہے کہ برطانیہ سے ہمارا احتجاج الطاف حسین کے گھر پر چھاپے پر تھا، ان کے گھر پر چھاپا مارا گیا اور اٹھائے گئے سامان کی رسید تک نہیں دی گئی۔ اب وہ جو چاہے اس سامان میں شامل کر دے کہ ہمیں الطاف حسین کے گھر سے یہ ملا ہے۔

سیاسی گرما گرمی کے ساتھ شہر قائد میں دہشت گردی کا بازار بھی گرم رہا۔ روزانہ کی قتل وغارت کے ساتھ اس ہفتے دو بڑے دہشت گردی کے واقعات بھی پیش آئے۔ بدھ کے روز سندھ ہائی کورٹ کے سینئر جج جسٹس مقبول باقر کے قافلے کو نصب بم کے ذریعے دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا جس میں 9 اہلکار جان سے گئے۔ اس افسوس ناک واقعے کے دوسرے روز شہر کے پرانے علاقے کھارادرمیں درجنوں مسلح افراد کی فائرنگ کے نتیجے میں 4 شہری جاں بحق ہو گئے۔ واقعے کو جرائم پیشہ افراد کی کارروائی قرار دیا گیا۔


جس کے بعد رینجرز کی جانب سے مبینہ مقابلے میں ثاقب باکسر نامی ایک شخص قتل ہوا۔ جسے کھارادر واقعے میں ملوث قرار دیا گیا۔ دوسری جانب لیاری کے لوگوں کی جانب سے اس واقعے کے خلاف شدید احتجاج کیا گیا اور احتجاجی ریلی نکالی گئی جو لیاری سے نکل کر آئی آئی چندریگر روڈ کے قریب واقع رینجرز ہیڈ کوارٹر تک آئی۔ ثاقب باکسر کی ہلاکت پر پیپلزپارٹی کراچی کے صدر عبدالقادر پٹیل نے بھی سخت ردعمل کا اظہار کیا۔ اس سے قبل اورنگی میں کارکنوں کی ہلاکت پر بھی انہوںنے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ان کے کارکنوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

مجموعی طور پر شہر قائد اس وقت امن وامان کے حوالے سے خراب ترین صورت حال کا شکار نظر آتا ہے۔ ایک طرف پورے شہر میں روزانہ گولیاں چل رہی ہیں اور لاشیں گر رہی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ چھ ماہ کے دوران کراچی میں ڈیڑھ ہزار کے لگ بھگ افراد دہشت گردی کی نذر ہوگئے اور یہ سلسلہ کسی طرح تھمنے میں نہیں آرہا ۔ وفاق اور صوبوں میں نئی حکومتیں بنے ہوئے بھی ایک ماہ سے زیادہ وقت بیت چکا، لیکن شہر قائد میں پولیس، رینجرز اور ایف سی کی موجودگی میں بھی امن کی صورت حال میں ذرہ بھی بہتری دیکھنے میں نہیں آرہی۔

تحریک انصاف کے راہ نما سبحان علی ساحل نے کراچی پریس کلب پر ''پرامن کراچی، خوش حال پاکستان'' ریلی سے خطاب کرتے ہوئے حفاظتی اداروں پر شدید تنقید کی اور کہا کہ ان پر 3 ارب سالانہ خرچ کرکے بھی جواب طلبی نہیں کی جاتی ۔ پولیس اور حکومت کی ناک کے نیچے تاجروں اور دکان داروں کو بھتے کی پرچیاں دی جارہی ہیں، مگر نااہل حکم راں شہریوں کو لٹتا دیکھ رہے ہیں۔ عوام کے شعور نے ہی آج تحریک انصاف کو کراچی میں مینڈیٹ دیا ہے۔

اب ایوانوں اور وزیراعلا ہاؤس کو معصوم جانوں کے خون کا حساب دینا ہوگا۔ جماعت اسلامی کے راہ نما محمد حسین محنتی نے پیٹرولیم مصنوعات کے نرخ میں اضافے پر وفاقی حکومت کو متنبہ کیا اور کہا کہ یہ عوام کے معاشی استحصال اورظلم ڈھانے کے مترادف ہے۔ نواز لیگ نے عوام کی نئی حکومت سے وابستہ ساری توقعات پر پانی پھیردیا۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر شاہی سید نے کہا ہے کہ وہ شہر میں قیام امن کے لیے ہر اقدام کی حمایت کرتے ہیں۔کراچی کی موجودہ صورت حال پر ان کی نظر ہے،جب کہ ماہ صیام کے بعد عوامی نیشنل پارٹی بھرپور لائحہ عمل کا اعلان کرے گی۔

30 جون کو عبوری بلدیاتی نظام کی مدت تمام ہونے کے بعد صوبائی حکومت نے 1979ء کا بلدیاتی نظام مکمل طور پر نافذ کردیا ہے، جس کے مطابق ٹاؤن میونسپل ایڈمنسٹریشن کا نظام ختم ہوگیا ۔ 1979ء کے بلدیاتی نظام پر متحدہ کو سخت تحفظات رہے ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ سندھ کے منتخب ایوان میں وہ حزب اختلاف کی حیثیت سے کیا حکمت عملی اپناتے ہیں اور ان کے ساتھ موجود فنکشنل لیگ، نواز لیگ اور تحریک انصاف کے اراکین ان کے لائحہ عمل سے کس قدر اتفاق کرتے ہیں۔ کیوں کہ پچھلی حکومت میں متحدہ کے حزب اقتدار کے کردار کو فنکشنل لیگ کے اراکین کی طرف سے شدید ترین تنقید کا سامنا تھا، جب کہ نواز لیگ اور تحریک انصاف کی نمائندگی اس اسمبلی میں سامنے آئی ہے۔ بلدیاتی نظام پر لائحہ عمل کے ساتھ متحدہ کو اس وقت حکومت میں شمولیت یا عدم شمولیت کا بھی حتمی اعلان کرنا ہے، اس کے ساتھ ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے حوالے سے پیدا شدہ صورت حال سے بھی متحدہ کو نبرد آزما ہونا ہے۔
Load Next Story