مصر کا بحران

مصر کے صدر محمد مرسی کے حامیوں اور مخالفین کے مابین مظاہرے پیر کو بھی جاری رہے۔


Editorial July 02, 2013
مصر کے صدر محمد مرسی کے حامیوں اور مخالفین کے مابین مظاہرے پیر کو بھی جاری رہے۔ فوٹو: رائٹرز

مصر کے صدر محمد مرسی کے حامیوں اور مخالفین کے مابین مظاہرے پیر کو بھی جاری رہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اگلے روز جھڑپوں اور پرتشدد واقعات میں مزید 8 افراد ہلاک ہوئے جب کہ سو سے زائد زخمی ہو گئے۔حالات اس وقت زیادہ سنگین ہوئے جب مصری فوج نے دونوں فریقین کو معاملات حل کرنے کے لیے 48 گھنٹے کی مہلت دے دی تاہم صدر مرسی نے فوج کی طرف سے دیا جانے والا الٹی میٹم مسترد کر دیا ہے۔یوں مصر میں صدر اور فوج کے درمیان ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔

ادھر اپوزیشن تحریک تمرود نے مصری فوج کے ردعمل پر زبردست خیر مقدم کیا۔ مصر کی اپوزیشن تحریک کے ترجمان محمود بدر نے کہا ہے کہ فوج کا الٹی میٹم ملک میں جلد صدارتی انتخابات کے انعقاد کے امکان کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اپوزیشن کے ردعمل سے لگتا ہے کہ وہ نئے انتخابات چاہتی ہے۔ اخبارات میں جو خبریں شایع ہوئی ہیں' ان کے مطابق قاہرہ میں اخوان المسلمون کے ہیڈ کوارٹرز پر بھی حملہ کیا گیاہے ۔ تحریک تمُرود نے کہا ہے کہ اگر صدر محمد مرسی اپنا عہدہ نہیں چھوڑتے اور دوبارہ انتخابات نہیں کراتے تو ان کے خلاف ملک گیر سول نافرمانی کی تحریک چلائی جائے گی۔

انھوں نے صدر مرسی کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ مرسی اور ان کی پارٹی اخوان المسلمون کی حکومت کے خاتمے کے سوا اس صورتحال کا کوئی دوسرا پر امن حل نہیں ہے۔ مصری صدر محمد مرسی کے ترجمان نے جواب میں کہا ہے کہ موجودہ سیاسی بحران سے نکلنے کا واحد راستہ مذاکرات ہیں جن کے نتیجے میں ہم کسی مفاہمت تک پہنچ سکتے ہیں۔

ترجمان نے یقین دہانی کرائی کہ ایوان صدر حقیقی اور سنجیدہ قومی مذاکرات کے لیے تیار ہے۔اس سے لگتا ہے کہ حکومت میں خاصی لچک موجود ہے، صدر محمد مرسی کے خلاف لاکھوں افراد کے احتجاجی مظاہروں کے بعد سوموار کو کابینہ کے چار وزراء اپنے عہدوں سے مستعفی ہو گئے۔ صدر مرسی کی حکومت کے لیے ان وزراء کا استعفیٰ بڑا دھچکا ہے۔

ان استعفوں سے بحران مزید گہرا ہوا ہے جب کہ مصری جرنیلوں کا کہنا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے اختلافات ملک کو تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں لہٰذا حکومت کو یہ اختلافات جلد از جلد حل کر لینے چاہئیں بصورت دیگر فوج کو ملکی معاملات میں مداخلت کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔

مصر میں شاہ فاروق کی حکومت خاتمے کے بعد وہاں فوج مسلسل اقتدار میں چلی آ رہی ہے۔ پہلے جمال عبدالناصر برسر اقتدار آئے' ان کے بعد وہاں مسلسل فوج کی حکومت چلی آئی ہے۔ جمال عبدالناصر کے بعد انورالسادات مصر کے حکمران بنے' ان کے قتل کے بعد حسنی مبارک نے عنان اقتدار سنبھالی۔گو یہ آمرانہ حکومتیں تھیں لیکن یہ لبرل فکر کی حامل تھیں،قدامت پرست ان حکومتوں کے خلاف تھے جب کہ جمہوریت پسند قوتیں بھی ان کے خلاف تھیں۔

کچھ عرصہ قبل صدر حسنی مبارک کے خلاف مصری عوام نے زبردست مظاہرے اور قاہرہ کے التحریر اسکوائر میں دھرنے دیے' اس تحریک میں مصر کے تمام سیاسی طبقے شامل تھے' اخوان المسلمین بھی تحریک کی روح رواں تھی جب کہ ملک کے لبرل حلقے بھی آمریت کا خاتمہ چاہتے تھے' یوں دونوں نے مل کر مصر سے آمریت کا خاتمہ کیا۔ بہر حال حسنی مبارک کے زوال کے نتیجے میں انتخابات ہوئے اور محمد مرسی بھاری اکثریت سے ملک کے صدر منتخب کرلیے گئے۔یوں اخوان المسلمون اقتدار میں آگئی۔

صدارتی انتخابات میں صدر محمد مرسی نے 51 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کیے جب کہ ان کے مدمقابل احمد شفیق نے 48فیصد سے زائد ووٹ لیے تھے مگر صدر محمد مرسی کی بعض پالیسیوں کے نتیجے میں مصر کے لبرل حلقے تشویش میں مبتلا ہوئے' صدر مرسی اور مصری فوج کے درمیان بھی اختلافات پیدا ہوئے' اس موقعے پر ضرورت سیاسی تدبر کی تھی اور صدر محمد مرسی کو صبر اور تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے بتدریج اصلاحات کو جاری کرنا چاہیے تھا لیکن انھوں نے اپوزیشن کی کوئی پروا نہیں کی اور آمرانہ اختیارات حاصل کرنے کی کوشش کی' اس وجہ سے ان کے عدلیہ سے بھی اختلافات پیدا ہوئے جس کا نتیجہ ایک بڑی تحریک کی صورت میں سامنے آیا ہے۔

صدر مرسی اور ان کے ساتھی اگر ملک کے لبرل طبقے اور اقلیتوں کے تحفظات میں اضافہ نہ کرتے تو شاید اتنی جلد ان کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ نہ شروع ہوتا۔انھیں سوچنا چاہیے تھا کہ مصر کے سو فیصد عوام نے ان کے حق میں فیصلہ نہیں دیا۔اگر اکیاون فیصد ان کے حامی ہیں تو انچاس فیصد ان کی پالیسوں سے متفق نہیں ہیں۔ اس بحران کا انجام کیا ہو گا، اس کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن اس سے مصر کی معیشت کو نقصان ہو رہا ہے' عوام میں اضطراب اور پریشانی بڑھ رہی ہے' صدر مرسی اگر اپنے مینڈیٹ کے مطابق اصلاحات کرتے تو شاید ملک کے لبرل حلقے خاموش رہتے لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔

اس وقت مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں پر تشدد تحریکیں چل رہی ہیں۔ شام اور یمن کی صورتحال کو الگ رکھا جائے اور صرف عرب بہار والے ممالک کو دیکھا جائے تو وہاں صورتحال خوشگوار نظر نہیں آتی' مصر میں عوام نے جن خواہشوں کو سامنے رکھ کر تحریک چلائی' وہ پوری نہیں ہوئیں 'شخصی آزادیاں کم ہوئیں' اقلیتوں کے خوف میں اضافہ ہوا' بے روز گاری پہلے سے زیادہ ہوئی اور وہ سڑکوں پر آ گئے ہیں' تیونس میں بھی مظاہرہ ہو رہے ہیں۔ وہاں بھی عوام نے آمرانہ طرز حکومت کے خلاف تحریک چلائی تھی' عوام نے ایک جبر کا خاتمہ کیا تو دوسرا جبر ان پر مسلط ہو گیا۔

مصر عرب دنیا کا انتہائی اہم ملک ہے' یہ براعظم افریقہ میں واقع ہے لیکن مشرق وسطیٰ سے جڑا ہوا ہے' عرب ممالک پہلے ہی خلفشار کا شکار ہیں۔

شام میں خانہ جنگی کے باعث ہزاروں افراد مارے جا چکے ہیں جب کہ لاکھوں ملک چھوڑ کر ہمسایہ ممالک میں پناہ گزین ہیں' لیبیا میں بدترین صورتحال ہے' ان حالات میں مصر کی حکومت اور اپوزیشن کو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور ملک کو بچانے کے لیے بحران کا حل نکالنا چاہیے۔ مصر کی اپوزیشن کو صدر مرسی کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش قبول کر لینی چاہیے کیونکہ مذاکرات سے اس بحران کا کوئی پر امن حل نکل سکتا ہے ورنہ ملک کا دوبارہ آمریت کے زیر سایہ تلے آنے کا خطرہ موجود ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں