سرتاج عزیز کا افغان امن فارمولا

’’پاکستان افغانستان کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے طالبان کی بادشاہت قائم کرنا چاہتا ہے‘‘۔ افغان صدر حامد کرزئی نے الزام۔۔۔


Aslam Khan July 02, 2013

KARACHI: ''پاکستان افغانستان کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے طالبان کی بادشاہت قائم کرنا چاہتا ہے''۔ افغان صدر حامد کرزئی نے الزام لگایا کہ گزشتہ 6 ماہ سے افغانستان کے ڈیورنڈ لا ئن سے ملحقہ علاقوں میں طالبان کی بادشاہی قائم کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ جس میں اسلام آباد کے حکمران ملوث ہیں، صدر کرزئی اخبار نویسوں سے گفتگو کر رہے تھے۔

اس مبینہ سازش کے حوالے سے مزید تفصیلات کا نائب وزیر خارجہ ارشاد احمدی نے رائٹرز سے گفتگو میں انکشاف کیا کہ شراکت اقتدار کا فارمولہ وزیراعظم نواز شریف کے خصوصی مشیر سرتاج عزیز نے افٖغان سفیر متعین اسلام آباد عمر داؤد زئی سے ملا قا ت میں باضابطہ طور پر پیش کیا۔ جس میں ڈیورنڈ لائن سے ملحقہ صوبو ں کا انتظام طالبان کے سپرد کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ دوحہ میں طالبان کا دفتر کھلنے کے بعد پاکستان کی کوششوں میں تیزی آ گئی ہے افغان انتظامیہ کو افغانوں کے درمیان باہمی مذاکرات پر بھی شدید اعتراضات ہیں کہ منتخب جمہوری حکومت کی موجودگی میں اجنبی سر زمینوں پر افغانوں کے باہمی مذاکرات ہماری توہین ہیں۔

ویسے تو ڈیورنڈ لائن کے آرپار بسنے والے تمام پختونوں کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے وہ جو بھی نقطہ نظر رکھتے ہوں جس بھی مکتبہ فکر سے تعلق ہو وہ روشن خیال ہوں یا رجعت پسند، یہا ں تک کہ باہم جنگ آزما بھی ہو ں تو سب سے پہلے پختوں ہوتے ہیں اپنے شاندار ماضی کے سحر میں گرفتار صدیوں پرانی روایا ت کے پابند، اس میں مسٹر اور ملا کی کوئی تخصیص نہیں اور جناب سرتاج عزیز تو پختونوں کی روحانی شخصیت حضرت کا کاخیل جیسی ہستی کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔

سرتاج عزیز نے ماضی میں پختون ہو نے کے ناتے جس طرح افغانستان کو بربادی سے بچانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے اس پر ڈیورنڈ لائن کے دونو ں اطراف بسنے والے با خبر افغانوں کے سر احترام سے جھک جاتے ہیں۔ لیکن برا ہو عالمی سازشوں اور طالبان کے بے لچک رویے کا کہ سرتاج عزیز افغانوں کو امریکی قیادت میں لڑی جانے والی 12 سالہ جنگ کی تباہی و بربادی سے نہ بچا سکے۔

اب تو مدتیں بیت چکیںکہ اکتوبر2001 میں افغانستان پر تیسر ی عالمی جنگ کے سا ئے گہر ے ہوتے جارہے تھے اس وقت اعداد و شمار کے عالمی کھلاڑی سرتاج عزیز کو وزیر خزانہ بنا دیا گیا۔ اس تبدیلی کا پس منظر جاننے کے لیے یہ کالم نگار جناب سرتاج عزیز سے ملا، وفا قی دارلحکومت کے پوش ایف 8 سیکٹر میں پارک روڈ پر واقع ان کی سرسبز نجی رہائش گاہ پر طویل گفتگو کے دوران خاموش طبع سرتاج عزیز نے بڑے دلچسپ انکشافات کیے اور عالمی اور علاقائی سیاست کی ان کہی کہانیاں سنائیں اور بہت سے رازوں سے پردہ اٹھایا۔

انھوں نے بتایا کہ ملاعمر کی قندہاری پشتو سمجھنا پختونوں کے لیے بھی کارِ دارد تھا۔ اور جناب سرتاج عزیز ان چند ایسے پشتو لسانی ماہرین میں شامل تھے تو بلا تردد ملا عمر کی قندہاری لب و لہجے والی پشتو سمجھ سکتے تھے اس لیے حکومت پاکستان کے لیے نمایند ے کی حیثیت سے ملا عمر مجاہد سے گفتگو کرنا ان کے کار منصبی کا سب سے اہم فریضہ تھا۔

سرتاج عزیز نے بتایا کہ حکومت پاکستان نے تجویز پیش کی تھی کہ اسامہ بن لادن کو خصوصی چارٹرڈ جہاز پر بحٖفاظت ان کے پسندیدہ ملک بجھوانے کے انتظامات کیے جا سکتے ہیں۔ میں نے ذاتی طور پر ملا عمر سے درخواست کی تھی کہ افغان قوم کو نئے صدمات سے بچنے کے لیے اسامہ بن لادن کو رضاکارانہ طور پر افغانستان کو خیرباد کہہ دینا چاہیے جس کے لیے پاکستان تمام تر انتظامات اور ضمانتیں مہیا کرنے کے لیے تیار ہے۔ اگر اسامہ بن لادن افغانستان اور افغان عوام کے حقیقی خیرخواہ ہیں تو انھیں رضا کارانہ طور پر خود افغانستان سے چلے جانا چاہیے۔

مزار شریف کے طالبان کے ہاتھوں سے نکل جا نے کے بعد اس وقت کے افغان وزیر خارجہ ملا حسن اخوند ے سے گزارش کی تھی کہ افغانستان کو مکمل تباہی و بربادی سے بچانے کے لیے یہ سنہری موقع نہ گنوائیں۔ پاکستان یہ ضمانت دینے کو بھی تیار تھا کہ اسامہ بن لادن کی روانگی کے سا تھ ہی امریکا سمیت عالمی برادری فوری طور پر طالبان کی حکومت کو تسلیم کر لیتی لیکن بوجو ہ یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔

سرتاج عزیز افغان عوام کی حالت زار پر بڑے دکھی رہے ہیں۔ 1979 کے بعد ان کے دکھوں کی کہانی نت نئے موڑ تو لیتی رہی لیکن ختم ہونے میں نہیں آئی۔ پہلے 12سال سوویت یونین کے خلاف جہاد کیا پھر ایک دہائی خانہ جنگی میں بیت گئی پھر اقوام متحدہ کی پابندیوں نے شکنجہ جکڑ لیا۔ اب 12 سا ل سے امریکی قیادت میں 33 ملکوں کی نیٹو افواج یکطرفہ تیسری عالمی جنگ مسلط کرنے کے بعد دسمبر 2014 تک لہولہان افغانستا ن اپنے من پسند افغانوں کے سپرد کر کے واپس جا رہی ہیں۔

تاریخ کے اس نازک موڑ پر جناب سرتاج عزیز ایک بار پھر پختونوں کے لیے شراکت اقتدار کا ''امن فارمو لا'' لے کر میدان میں آئے ہیں جس پر افغان صدر حامد کرزئی آگ بگولہ ہو رہے ہیں اور اسے افغانستا ن کے اندرونی معاملات میں بیرونی مداخلت قرار دے رہے ہیں ویسے جناب سرتاج عزیز ہر اعتبار سے حامد کرزئی سے بڑ ے پختون اور ان کے خیر خواہ ہیں۔ حامد کرزئی مانیں نا مانیں ان کے لیے ملا خیر اللہ خیر خواہ ہی کافی ہیں جو کسی بھی وقت گوانتانامو بے کے بندی خانے سے قطر پہنچے والے ہیں۔

امریکی خصوصی نمایندہ برائے پاکستان و افغانستان James Dobbins نے انکشاف کیا ہے کہ طالبان شراکت اقتدار کے (سرتاج عزیز کے فارمولے) پر آمادہ ہو چکے ہیں وہ صرف کیک کا بڑا حصہ لینا چاہتے ہیں جس پر اب مذاکرات ہو رہے ہیں۔ انہو ں نے کہا کہ پاکستان کے طالبان قیادت سے موثر روابط تو موجود ہیں لیکن وہ اپنی شرائط منوانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں پاکستانی ماہرین کا خیال ہے کہ حامد کرزئی کی انتظامیہ کا واجبی، غیر موثر کنٹرول ہے جب کہ طالبا ن کا اثر و رسوخ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ جب کہ امریکی ماہرین کا خیال ہے آج کا افغانستان یکسر بدل چکا ہے اب نوجوانوں افغان نسل کسی طور پر طالبان کے دور کا جبر قبول نہیں کرے گی امریکیوں کا تجزیہ ہے کہ طالبان موثر فوجی طاقت رکھتے ہیں لیکن وہ اب سار ے افغانستان کو فتح کر نے کی صلاحیت کھو چکے ہیں۔ افغانستان کی تقدیر کا فیصلہ وقت کر ے گا اور جناب سرتاج عزیز کا امن فارمولہ وقت کی آواز ہے۔ کو ئی سنے یا نہ سنے یہ آواز جنو بی ایشیاء میں چار سو گونج رہی ہے۔ یہ حضرت کا کاخیل کے ایک فرزند کی آواز ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔