میاں صاحب پر تنقید شروع ہوگئی
گزشتہ چند روز سے اسلام آباد کی چند بڑی محفلوں میں شرکت کرنے کے بعد میں یہ محسوس کرنا شروع ہو گیا ہوں کہ پاکستان کے ۔۔۔
نواز شریف صاحب کو پاکستان کا تیسری بار وزیر اعظم بنے ابھی ایک مہینہ بھی پورا نہیں ہوا مگر اسلام آباد کے طاقتور گھروں کے ڈرائنگ رومز میں ان پر تنقید شروع ہو گئی ہے۔ وہ لوگ جو بڑے بڑے ملکی اور غیر ملکی کاروباری اداروں سے وابستہ ہیں، اس بات پر شدید خفگی کا ا ظہار کرنا شروع ہو گئے ہیں کہ نواز حکومت کی معاشی پالیسیاں بنانے والے اجلاسوں میں ہمیشہ وہ دو سے تین مخصوص لوگ کیوں موجود ہوتے ہیں جن کے مختلف حوالوں سے اپنے اپنے کاروبار اور بینک ہیں۔ ان لوگوں کی ایسے اجلاسوں میں اتنی نمایاں اور تواتر کے ساتھ موجودگی چرب زبانوں کو یہ سوال اُٹھانے کے مواقع فراہم کر رہی ہے جو معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ نواز شریف کے تیسرے دور کی معاشی پالیسیاں پاکستان اور اس کے لوگوں کے وسیع تر مفاد میں بنائی جائیں گی یا ان کا مقصد پہلے سے کاروباری دُنیا پر چھائے چند مخصوص افراد کو نواز کر امیر سے امیر تر بنانا ہے۔
1975سے اسلام آباد میں رہتے ہوئے میں جسے ''ڈرائنگ روم گوسپ'' کہا جاتا ہے بڑے عرصے سے سنا کرتا ہوں۔ جنرل مشرف کے آخری دو سالوں سے پہلے تک ہمیشہ یہ ہوتا تھا کہ کسی محفل میں اگر دو چار لوگ کسی حکومت کو مختلف کہانیاں سنا کر اپنی تنقید کا نشانہ بناتے تو وہیں موجود کچھ لوگ ان لوگوں سے بڑی شدت کے ساتھ اختلاف بھی کیا کرتے۔2006 سے مگر ہوتا یہ ہے کہ ایک دو لوگ حکومت مخالف کہانیاں سنانا شروع کرتے ہیں تو محفل میں موجود دوسرے افراد اپنی اپنی بساط مطابق ان کہانیوں میں اور کہانیاں ڈالنا شروع ہو جاتے ہیں۔ حکمرانوں کے بارے میں خواہ ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو خیر کے کلمات کہنے کو بہت کم لوگ تیار ہوتے ہیں۔
سیاست کا طالب علم ہوتے ہوئے میں اس منفی نظر آنے والے اجتماعی رویے کے بارے میں کافی فکر مند ہو گیا تھا۔ اس کے اسباب جاننے کی اپنے تئیں کوششیں بھی کیں۔ مگر کچھ سمجھ نہ آیا۔ پچھلے کچھ دنوں سے دُنیا کے مختلف ممالک میں اُبھرتے سیاسی، معاشرتی اور ثقافتی رویوں کو کافی سنجیدگی سے سمجھنے کی کوششیں کرنے والے دو امریکی کالم نگار Roger Cohen اور Thomas Friedman نے ترکی، برازیل اور مصر میں جاری احتجاجی تحاریک کو اپنا موضوع بنایا ہوا ہے اور انھوں نے اپنے موضوعات پر غور کرتے ہوئے تقریباََ یکساں نتائج نکالے۔
ان دونوں حضرات کا اصرار ہے کہ دُنیا بڑی تیزی سے بدل رہی ہے۔ ایک زمانے تک آپ کو اس بات کا یقین ہوتا تھا کہ قانون کا احترام کرتے ہوئے بڑی محنت سے پڑھنے لکھنے کے بعد آپ ایک معقول نوکری کا بندوبست کر سکتے ہیں۔ یہ نوکری آپ کو اپنا گھر بسانے اور بچوں کے مستقبل کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوتی۔ آپ خود کو متوسط طبقے کا ایک ایسا رکن گردانتے جس کی زندگی میں کچھ ثبات ہے۔ تھوڑی راحت اور کافی ساری بے فکری۔ 1990 کے بعد سے یہ سب کچھ ختم ہونا شروع ہو گیا۔ آپ بڑی ایمانداری اور محنت سے اپنے کام سے کام رکھتے ہیں مگر آپ کی آمدنی میں اتنا اضافہ نہیں ہوتا جو آپ کو وہ سب کچھ میسر کر سکے جو متوسط طبقے کی زندگی کو پرسکون بنانے کے لیے تقریباََ بنیادی سمجھا جاتا ہے۔ ہر وقت مزیدکی طلب جان کھائے رکھتی ہے۔ زندگی سے آپ کی توقعات بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ مگر آپ نے جو نصابی علم حاصل کیا ہے وہ آپ کو کسی ایسے ہنر کا مالک نہیں بناتا جو آجروں کو آپ کے نخرے اُٹھانے پر مجبور کرے۔ اپنی ذات کے اندر علم ہنر اور صلاحیت کی اس کمی کو آپ نہ تو سمجھتے ہیں نہ اس کا اعتراف کرتے ہیں۔ دوسروں کو اپنے فقدانِ راحت کا ذمے دار ٹھہراتے ہیں اور اس ضمن میں آپ کے غصے کا سب سے بڑا نشانہ وقت کے حکمران ہوتے ہیں۔
ترکی بہت سارے حوالوں سے اب ایک تیزی سے ترقی کرتا جدید ملک نظر آتا ہے۔ وہاں جمہوریت کی جڑیں بھی بہت مضبوط ہو گئی ہیں اور وہاں کی حکمران جماعت کو انتخابات میں تواتر کے ساتھ کامیابیاں بھی ملتی ہیں۔ اس کے باوجود استنبول کے تقسیم چوک میں جب حکومت نے قدیم درختوں سے بھرے ایک چمن کی جگہ ایک بڑی تعمیراتی کمپنی کو ایک پلازہ بنانے کی اجازت دی تو لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ ترکی کے حکمرانوں نے اپنے میڈیا کو اس احتجاج کے بارے میں کوئی خبر نہ دینے دی۔ پولیس نے بڑی بربریت سے مظاہروں پر قابو بھی پانا چاہا۔ اس سب کے باوجود احتجاج ختم نہیں ہوا۔ فیس بک اور ٹویٹر کی طفیل ناراض لوگ ایک دوسرے سے مسلسل رابطے میں ہیں اور احتجاج کے نت نئے انداز بھی تخلیق کر رہے ہیں۔ ترکی کی حکمران جماعت تقسیم چوک کے حوالے سے جاری تحریک کو ابھی تک حقارت سے چند سر پھرے لوگوں کا کارِ فضول ٹھہرا رہی ہے۔ اس سے کہیں زیادہ پریشان کن بات مگر یہ ہے کہ ترکی میں تاریخی طور پر قائم سیاسی جماعتیں جو آج کل حزبِ مخالف میں ہیں ان مظاہرین سے کوئی رشتہ بنانے میں ناکام رہی ہیں۔ مظاہرین خود ہی اپنے رہنما ہیں۔ اپنے طور پر ایک بھرپور تحریک مگر ایک ایسی بھرپور سیاسی جماعت نہیں جو ترکی کے موجودہ حکمرانوں اور ان کی پالیسیوں کے متبادل کا کردار ادا کر سکے ۔
برازیل بھی ترکی کی طرح معاشی طور پر پھلتا پھولتا ایک ملک ہے۔ وہاں کی حکومت نے بسوں کے کرائے میں اضافہ کیا تو وہاں بھی تقسیم چوک جیسی تحریک بن گئی۔ دونوں ملکوں کے مظاہرین یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی حکومتیں یقینی طور پر عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتی ہیں۔ مگر اقتدار میں آنے کے بعد وہ اپنے شہریوں کی اکثریت کو بھول گئی ہیں۔ حکمران چند بڑے اور مخصوص کاروباری لوگوں کے ساتھ مل کر بڑے شاندار نظر آنے والے منصوبے بناتے ہیں۔ ان منصوبوں پر بڑی سنجیدگی سے کام بھی کیا جاتا ہے۔ مگر لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کا فائدہ متوسط طبقے کو عمومی طور پر نہیں پہنچ رہا۔ چند خاندان ہیں جو حکمرانوں کے ساتھ مل کر امیر سے امیر تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔
گزشتہ چند روز سے اسلام آباد کی چند بڑی محفلوں میں شرکت کرنے کے بعد میں یہ محسوس کرنا شروع ہو گیا ہوں کہ پاکستان کے شہری متوسط طبقے میں بھی اپنے ترکی اور برازیل میں موجود ہم عصروں والے جذبات اُبھرنا شروع ہو گئے ہیں۔ ہمارے ہاں مگر فوری طور پر کوئی تقسیم چوک بننے کا امکان نظر نہیں آ رہا۔ شاید اس کی سب سے بڑی وجہ وہ دہشت گرد تنظیمیں ہیں جو روزانہ پاکستان کے کسی نہ کسی بڑے شہر میں دل دہلا دینے والی واردات کر دیتی ہیں اور ہمارے حکمرانوں کو اس کا کوئی حل نظر نہیں آ رہا۔ بس اسی بات پر باہمی داد و تحسین ہو رہی ہے کہ ''ہم'' سچے ثابت ہوئے۔ امریکی بالآخر طالبان سے دوحہ میں مذاکرات کرنے پر مجبور ہوئے۔ ''اجتماعی شتر مرغی'' کی ایسی مثالیں دُنیا میں بہت کم نظر آتی ہیں۔
1975سے اسلام آباد میں رہتے ہوئے میں جسے ''ڈرائنگ روم گوسپ'' کہا جاتا ہے بڑے عرصے سے سنا کرتا ہوں۔ جنرل مشرف کے آخری دو سالوں سے پہلے تک ہمیشہ یہ ہوتا تھا کہ کسی محفل میں اگر دو چار لوگ کسی حکومت کو مختلف کہانیاں سنا کر اپنی تنقید کا نشانہ بناتے تو وہیں موجود کچھ لوگ ان لوگوں سے بڑی شدت کے ساتھ اختلاف بھی کیا کرتے۔2006 سے مگر ہوتا یہ ہے کہ ایک دو لوگ حکومت مخالف کہانیاں سنانا شروع کرتے ہیں تو محفل میں موجود دوسرے افراد اپنی اپنی بساط مطابق ان کہانیوں میں اور کہانیاں ڈالنا شروع ہو جاتے ہیں۔ حکمرانوں کے بارے میں خواہ ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو خیر کے کلمات کہنے کو بہت کم لوگ تیار ہوتے ہیں۔
سیاست کا طالب علم ہوتے ہوئے میں اس منفی نظر آنے والے اجتماعی رویے کے بارے میں کافی فکر مند ہو گیا تھا۔ اس کے اسباب جاننے کی اپنے تئیں کوششیں بھی کیں۔ مگر کچھ سمجھ نہ آیا۔ پچھلے کچھ دنوں سے دُنیا کے مختلف ممالک میں اُبھرتے سیاسی، معاشرتی اور ثقافتی رویوں کو کافی سنجیدگی سے سمجھنے کی کوششیں کرنے والے دو امریکی کالم نگار Roger Cohen اور Thomas Friedman نے ترکی، برازیل اور مصر میں جاری احتجاجی تحاریک کو اپنا موضوع بنایا ہوا ہے اور انھوں نے اپنے موضوعات پر غور کرتے ہوئے تقریباََ یکساں نتائج نکالے۔
ان دونوں حضرات کا اصرار ہے کہ دُنیا بڑی تیزی سے بدل رہی ہے۔ ایک زمانے تک آپ کو اس بات کا یقین ہوتا تھا کہ قانون کا احترام کرتے ہوئے بڑی محنت سے پڑھنے لکھنے کے بعد آپ ایک معقول نوکری کا بندوبست کر سکتے ہیں۔ یہ نوکری آپ کو اپنا گھر بسانے اور بچوں کے مستقبل کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوتی۔ آپ خود کو متوسط طبقے کا ایک ایسا رکن گردانتے جس کی زندگی میں کچھ ثبات ہے۔ تھوڑی راحت اور کافی ساری بے فکری۔ 1990 کے بعد سے یہ سب کچھ ختم ہونا شروع ہو گیا۔ آپ بڑی ایمانداری اور محنت سے اپنے کام سے کام رکھتے ہیں مگر آپ کی آمدنی میں اتنا اضافہ نہیں ہوتا جو آپ کو وہ سب کچھ میسر کر سکے جو متوسط طبقے کی زندگی کو پرسکون بنانے کے لیے تقریباََ بنیادی سمجھا جاتا ہے۔ ہر وقت مزیدکی طلب جان کھائے رکھتی ہے۔ زندگی سے آپ کی توقعات بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ مگر آپ نے جو نصابی علم حاصل کیا ہے وہ آپ کو کسی ایسے ہنر کا مالک نہیں بناتا جو آجروں کو آپ کے نخرے اُٹھانے پر مجبور کرے۔ اپنی ذات کے اندر علم ہنر اور صلاحیت کی اس کمی کو آپ نہ تو سمجھتے ہیں نہ اس کا اعتراف کرتے ہیں۔ دوسروں کو اپنے فقدانِ راحت کا ذمے دار ٹھہراتے ہیں اور اس ضمن میں آپ کے غصے کا سب سے بڑا نشانہ وقت کے حکمران ہوتے ہیں۔
ترکی بہت سارے حوالوں سے اب ایک تیزی سے ترقی کرتا جدید ملک نظر آتا ہے۔ وہاں جمہوریت کی جڑیں بھی بہت مضبوط ہو گئی ہیں اور وہاں کی حکمران جماعت کو انتخابات میں تواتر کے ساتھ کامیابیاں بھی ملتی ہیں۔ اس کے باوجود استنبول کے تقسیم چوک میں جب حکومت نے قدیم درختوں سے بھرے ایک چمن کی جگہ ایک بڑی تعمیراتی کمپنی کو ایک پلازہ بنانے کی اجازت دی تو لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ ترکی کے حکمرانوں نے اپنے میڈیا کو اس احتجاج کے بارے میں کوئی خبر نہ دینے دی۔ پولیس نے بڑی بربریت سے مظاہروں پر قابو بھی پانا چاہا۔ اس سب کے باوجود احتجاج ختم نہیں ہوا۔ فیس بک اور ٹویٹر کی طفیل ناراض لوگ ایک دوسرے سے مسلسل رابطے میں ہیں اور احتجاج کے نت نئے انداز بھی تخلیق کر رہے ہیں۔ ترکی کی حکمران جماعت تقسیم چوک کے حوالے سے جاری تحریک کو ابھی تک حقارت سے چند سر پھرے لوگوں کا کارِ فضول ٹھہرا رہی ہے۔ اس سے کہیں زیادہ پریشان کن بات مگر یہ ہے کہ ترکی میں تاریخی طور پر قائم سیاسی جماعتیں جو آج کل حزبِ مخالف میں ہیں ان مظاہرین سے کوئی رشتہ بنانے میں ناکام رہی ہیں۔ مظاہرین خود ہی اپنے رہنما ہیں۔ اپنے طور پر ایک بھرپور تحریک مگر ایک ایسی بھرپور سیاسی جماعت نہیں جو ترکی کے موجودہ حکمرانوں اور ان کی پالیسیوں کے متبادل کا کردار ادا کر سکے ۔
برازیل بھی ترکی کی طرح معاشی طور پر پھلتا پھولتا ایک ملک ہے۔ وہاں کی حکومت نے بسوں کے کرائے میں اضافہ کیا تو وہاں بھی تقسیم چوک جیسی تحریک بن گئی۔ دونوں ملکوں کے مظاہرین یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی حکومتیں یقینی طور پر عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتی ہیں۔ مگر اقتدار میں آنے کے بعد وہ اپنے شہریوں کی اکثریت کو بھول گئی ہیں۔ حکمران چند بڑے اور مخصوص کاروباری لوگوں کے ساتھ مل کر بڑے شاندار نظر آنے والے منصوبے بناتے ہیں۔ ان منصوبوں پر بڑی سنجیدگی سے کام بھی کیا جاتا ہے۔ مگر لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کا فائدہ متوسط طبقے کو عمومی طور پر نہیں پہنچ رہا۔ چند خاندان ہیں جو حکمرانوں کے ساتھ مل کر امیر سے امیر تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔
گزشتہ چند روز سے اسلام آباد کی چند بڑی محفلوں میں شرکت کرنے کے بعد میں یہ محسوس کرنا شروع ہو گیا ہوں کہ پاکستان کے شہری متوسط طبقے میں بھی اپنے ترکی اور برازیل میں موجود ہم عصروں والے جذبات اُبھرنا شروع ہو گئے ہیں۔ ہمارے ہاں مگر فوری طور پر کوئی تقسیم چوک بننے کا امکان نظر نہیں آ رہا۔ شاید اس کی سب سے بڑی وجہ وہ دہشت گرد تنظیمیں ہیں جو روزانہ پاکستان کے کسی نہ کسی بڑے شہر میں دل دہلا دینے والی واردات کر دیتی ہیں اور ہمارے حکمرانوں کو اس کا کوئی حل نظر نہیں آ رہا۔ بس اسی بات پر باہمی داد و تحسین ہو رہی ہے کہ ''ہم'' سچے ثابت ہوئے۔ امریکی بالآخر طالبان سے دوحہ میں مذاکرات کرنے پر مجبور ہوئے۔ ''اجتماعی شتر مرغی'' کی ایسی مثالیں دُنیا میں بہت کم نظر آتی ہیں۔