نبی آخرالزماںؐ کی حیات طیبہ تیسرا اور آخری حصہ
واقعہ معراج اسرار الٰہی میں سے ہے جس کی تہہ تک پہنچنا عقل انسانی کی بس کی بات نہیں۔
بنی ہاشم کی شعب ابی طالب میں محصوری کو دو ہی برس پورے ہوئے تھے کہ شق القمرکا محیر العقول واقعہ پیش آیا۔ آپؐ اس وقت منیٰ میں تھے۔ آپؐ نے لوگوں سے دیکھنے اورگواہ رہنے کوکہا ۔ باہر سے آنے والے لوگوں نے بھی اس واقعے کی عینی شہادت دی۔
ابھی کچھ ہی دن اطمینان اور سکون کے دیکھنے پائے تھے کہ دو صدموں نے آپؐ کو غم سے نڈھال کردیا۔آپؐ کے زبردست جانثار اور مددگار چچا ابوطالب اور آپؐ کی بے حد وفادار اور اطاعت شعار زوجہ حضرت خدیجہؓ یکے بعد دیگرے آپؐ کا ساتھ چھوڑ کر اللہ کو پیارے ہوگئے۔ یہ دونوں سخت صدمے آپؐ کو 10 نبوی میں پہنچے۔
اس خیال سے کہ کمسن صاحبزادیوں کی نگہداشت کا خیال فرائض رسالت میں رکاوٹ نہ بن جائے آپؐ نے محبت پر فرض کو ترجیح دیتے ہوئے حضرت خدیجہؓ کی وفات کے چند روز بعد شوال 10 نبوی میں ایک سن رسیدہ خاتون حضرت سودہؓ سے نکاح کیا تاکہ لڑکیوں کی دیکھ بھال ہوسکے کیونکہ یہ وہ خطرناک زمانہ تھا جب آپؐ کی عزت کے دشمن آپؐ کے چاروں طرف منڈلا رہے تھے۔
جب اہل مکہ نے اپنے آپ کو اندھے،گونگے بہرے مرد ناداں ثابت کردیا۔ مخالفت، عداوت، نفرت اور شقاوت سے اپنے دلوں کو اندھا کرلیا تو آپؐ نے 10نبوی میں طائف کے سفرکا ارادہ کیا ۔ سوچا یہ لوگ نادان نکلے شاید وہ دانا و بینا ہوں۔ اللہ کا کلام ان پر اثرکرے۔آپؐ کی شان رحمت کا یہ عالم دیکھ کر ایسے سخت وقت میں بھی دشمنوں، ظالموں، انسان نما شیطانوں کے حق میں زحمت اور ہلاکت گوارا نہ کی۔ تعمیل حکم کے منتظر پہاڑوں کے فرشتے کو رحمت للعالمینؐ نے رحمت میں ڈوبا ہوا جواب دیا ''نہیں، مجھے امید ہے کہ اللہ ان کی نسلوں سے ایسے فرزند پیدا کرے گا جو اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت بجا لائیں گے۔''
طائف سے نکل کر آپؐ نے کچھ روز نخلہ میں قیام کیا۔ پریشانی لاحق ہوئی۔ سوچا نہ ادھرکا رہا نہ اُدھرکا۔ اب مکہ واپسی کیسے ہو۔ ایک روز بطن نخلہ میں رب کے سامنے رحمت للعالمینؐ نماز میں سورۂ رحمن کی تلاوت فرما رہے تھے کہ ایک گروہِ جن وہاں سے گزرتے ہوئے ٹھہرگیا۔ قرآن کی تلاوت اور حلاوت سے بے حد متاثر ہوا ۔ مشرف بہ اسلام ہوا اور اپنی جنس میں جاکر اسلام کی دعوت و تبلیغ کا کام شروع کردیا۔مگر ایذا رسانیاں اور ظلم و ستم کی آندھیاں برابر چلتی رہیں اور آپؐ ان کے سامنے صبرواستقامت کا پہاڑ بنے کھڑے رہے۔
قریش اور اہل طائف سے مایوس ہوکر آپؐ نے عرب کے دوسرے قبائل کی طرف دعوت اسلام کا رخ پھیرا۔ عرب کے مشرق سے لے کر مغرب تک شمال سے لے کر جنوب تک کوئی ایسا معروف قبیلہ نہ تھا جس کا آپؐ نے دورہ نہ کیا ہو اور دعوت اسلام کے ساتھ حمایت اسلام کا مطالبہ نہ کیا ہو، ہر جگہ چراغ مصطفویٰؐ سے شرر بولہبی ستیزہ کار رہا لیکن آپؐ کا کام جاری رہا۔
حسب معمول موسم حج میں قبائل سے ملنے کے لیے نکلے،گھومتے پھرتے، منیٰ کے علاقے میں عقبہ کے مقام پر قبیلہ خزرج کے چھ آدمیوں کے ایک گروہ سے ملے۔ دعوت اسلام پیش کی۔ قرآن سنایا ان کے دل ظلمات سے نورکی طرف پلٹ آئے۔ آپؐ کی زلفوں کے اسیر ہوگئے۔
بصیرت رسالتؐ نے حضرت عائشہؓ کی غیر معمولی لیاقت، صلاحیت اور ذہنی قوت کو فیضان نظر رسالت سے دوآتشہ کرکے خدمت اسلام لینے کے لیے اور انقلابی معاشرے کی تعمیر میں اپنا شریک کار بنانے کی غرض سے شوال 11 نبوی کو اپنی شریک حیات بنایا۔
واقعہ معراج اسرار الٰہی میں سے ہے جس کی تہہ تک پہنچنا عقل انسانی کی بس کی بات نہیں۔ یہ واقعہ تقریباً 11 نبوی کو پیش آیا اس وقت آپ کی عمر مبارک 52 سال تھی۔
حج کے موقعے پرگیارہ نبوی کو پہلا گروہ اسلام کے پانچ افراد اپنے ساتھ مزید سات افراد (5 خزرج اور دو اوس) لے کرآئے جنھوں نے عقبہ کے مقام پر آپؐ کے ہاتھ پر اسلام کی بیعت کی۔چراغ تلے اندھیرا کی مثل یہ اہل مکہ کی بدنصیبی تھی کہ نعمت اور رحمت جو خود چل کر ان کے پاس آئی اسے ٹھکرادیا اور اہل مدینہ کی خوش نصیبی تھی کہ وہ خود چل کر نعمت اور رحمت کے پاس آئے، اسے گلے لگا کر، کاندھوں پر اٹھا کر، اپنے ساتھ لے گئے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسلام غربت میں آکر چمکا، گمنام تھا وطن میں۔
ذی الحجہ 12 نبوی کو مقام عقبہ پر 75 افراد مشرف بہ اسلام ہوئے اور آپؐ کے ہاتھ پر یثرب چلنے کی صورت میں آپؐ کی اسی طرح حفاظت رفاقت! اور حمایت کرنے کی بیعت کی جس طرح وہ خود اپنی جان اور اپنی آل اولاد کی حفاظت، رفاقت اور حمایت کرتے ہیں۔ اس طرح نبوت کے بارہویں سال وہ تاریخی معاہدہ ہوا جس کے ذریعے یثرب کے دروازے اسلام کے لیے کھل گئے۔
حالت فتنہ، بہیمانہ مخالفت اور ظالمانہ مزاحمت کو دیکھتے ہوئے اور اہل یثرب کی بھرپور اخلاقی اور مادی تعاون کی یقین دہانی پر آپؐ نے مسلمانوں کو یثرب کی طرف ہجرت کر جانے کا اِذن عام دے دیا۔ فرزندان توحید اور شمع رسالت کے پروانے تمام ذاتی، نسلی، وطنی، معاشی اور مادی تعلقات سے بے نیاز ہوکر خوشی خوشی راہ خدا میں نکل کھڑے ہوئے ۔ مہاجرین کا ایک تانتا بندھ گیا۔ آپؐ تنہا اپنے دو جا نثاروں کے ساتھ ظلم کی نگری میں حکم الٰہی کا انتظار کرتے رہے۔ آخر وہ گھڑی آ پہنچی آپؐ حضرت علیؓ کو اپنے بستر پر لٹا کر سورۂ یٰسین کی تلاوت کرتے ہوئے اپنے قاتلوں کے درمیان سے گزرگئے۔ حضرت ابو بکرؓ کو اپنے ساتھ لے کر مکہ سے نکل کر غار ثور میں پناہ لی۔
قریش اپنا شکار ہاتھ سے نکل جانے پر آگ بگولہ ہوگئے۔ آپؐ کو زندہ یا مردہ لانے والے کو 100 اونٹ کے انعام کا اعلان کیا۔ انعام کے لالچ میں لوگ آپؐ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے یہاں تک کہ غار ثورکے دھانے پر پہنچ گئے۔ خدا کے حکم سے غار کے دھانے پر مکڑی نے جالا تن دیا تھا جو ایسا لگتا تھا گویا برسوں کا ہو اس لیے عقل پر پردے پڑ گئے اور غار کے اندر جانا حماقت سمجھا۔
تین دن غار میں قیام کے بعد عبداللہ بن اریقط کی قیادت میں یثرب کی طرف روانہ ہوگئے۔ اس طرح مکہ سے ہجرت کا الوداعی سفر شروع ہوا ، پھر مدینہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ راستے میں سراقہ بن مالک بن جعشم کی نظروں کا شکار ہوگئے۔ انعامی شکار دیکھ کر اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ آپؐ تلاوت کلام پاک میں مگن تھے۔ حضرت ابو بکرؓ بار بار ہر طرف دیکھتے جاتے تھے۔ جب آپؐ کو بتایا گیا کہ تعاقب کرنے والا قریب آ ہی چاہتا ہے آپؐ نے دعا کی یکلخت گھوڑے کے پاؤں زمین میں دھنس گئے۔ گھبرا کر آپؐ سے معافی مانگی۔
دشمن جان، نگہبان بن گیا۔ حضورؐ کے فرمان کے مطابق وہیں کھڑا رہا۔ کسی کو اس راستے کی طرف جانے نہ دیا جس طرف آپؐ روانہ ہوئے۔ آخر آپؐ خیروعافیت سے قبا پہنچ گئے وہاں قبیلہ اوس کی شاخ بنی عمرو بن عوف کی بستی میں تین دن قیام کیا۔ آپؐ کی میزبانی کے فرائض کلثوم بن ھدم نے انجام دیے۔ قیام کے دوران آپؐ نے وہاں مسجد قبا کی بنیاد رکھی۔ قبا سے روانگی اور یثرب میں آمد پر آپؐ کا بڑے جوش و خروش اور والہانہ انداز میں استقبال کیا گیا۔ آپؐ حضرت ابو ایوب انصاری کے ہاں ٹھہرے۔ سات مہینے وہاں مقیم رہے اور پھر مسجد نبوی سے متصل دو تعمیر کیے گئے گھر (ایک حضرت سودہؓ کے لیے اور دوسرا حضرت عائشہؓ کے لیے) میں منتقل ہوگئے۔
اس طرح آپؐ کی حیاتؐ مبارکہ کا پرآشوب مکی دور اختتام کو پہنچا اور آپ کی زندگی کا روحانی باغ و بہار، پرسکون مدنی دور کی ابتدا ہوئی۔کلمۂ اختتام۔ آپؐ پہ لاکھوں سلام۔