’گوردوارہ کرتارپور‘ سکھ برادری کا مقدس استھان
کوریڈورکا سنگِ بنیاد رکھ دیا گیا، کیا اب بھی بھارتی فوج رکاوٹ ڈال سکتی ہے؟
لاہور:
چند ماہ پہلے جب پاکستان کے آرمی چیف نے سابق بھارتی کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو سے ملاقات میں کرتارپور اورگورداس پورکے درمیان چندکلومیٹرکا کوریڈورکھولنے کی بات کی تو بھارت سمیت دنیا بھرکے سکھوں میں خوشی کی لہردوڑ گئی تھی۔
بیرون ملک مقیم بہت سے سکھ اس مقام کی یاتراکرنے چاہتے تھے، سردار گورویندرسنگھ بھی کینیڈا سے شری دربارصاحب کرتارپور کے درشن کرنے یہاں آئے تھے، مجھے ان کی میزبانی کرنی تھی اوران کے ساتھ کرتارپور جاناتھا، گورویندر سنگھ میرے ایک بھارتی صحافی دوست کے بھائی ہیں جو کئی برسوں سے کینیڈا میں ہی مقیم ہیں اور وہاں کی شہریت رکھتے ہیں۔
میں نے لاہورائیرپورٹ پرسردارگورویندرسنگھ اورانکی اہلیہ کا استقبال کیا، سردارصاحب اپنی اہلیہ کو ہنی مون پر پاکستان میں سکھوں کے مقدس استھانوں کے درشن کروانے لیکرآئے تھے اوران کی اہلیہ جو پہلی بار پاکستان آئی تھیں انہیں سب سے زیادہ کرتارپوردیکھنے کا شوق تھا۔
پہلے ہم لاہور میں واقع گوردوارہ ڈیرہ صاحب گئے جہاں انہوں نے ماتھا ٹیکا اور سکھوں کے پانچویں گوروارجن دیوجی کے شہیدی استھان پر حاضری دی اور پھر یہاں سے ہم کرتار پور نارووال کی طرف روانہ ہوگئے، لاہور سے تقریباً اڑھائی گھنٹے کا سفر طے کرکے ہم نارووال پہنچ گئے، یہ گرودوارہ شکرگڑھ کو جانے والی سڑک پر نارووال کے قصبے کے باہر واقع ہے، بھارتی سرحد یہاں سے محض چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، دوپہر ایک بجے کے قریب ہم کرتارپور پہنچ گئے تھے، متروکہ وقف املاک بورڈکے ڈپٹی سیکرٹری شرائنز برادرعمران گوندل نے ہمارے بارے میں وہاں پہلے ہی بتادیا تھا،کرتارپور کے میدانی علاقوں میں ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں، سرسبز میدانوں اور ٹھنڈی ہواؤں کے ساتھ ساتھ ہم بابا گرونانک دیوجی کی آخری آرام گاہ میں داخل ہو رہے تھے۔
گزشتہ دو برسوں میں یہاں کافی کارسیوا ہوئی ہے، گوردوارے کے اطراف میں چاردیواری کے ساتھ ساتھ سکیورٹی پوسٹیں بنائی گئی ہیں جبکہ اندرکافی درخت اور باغیچے بھی سجائے گئے ہیں، مرکزی دروازے سے داخل ہونے کے بعد جب ہم گوردوارے کے قریب پہنچے تو بائیں جانب کنواں صاحب ہے، یہ وہ مقام ہے جہاں سے گورونانک دیوجی کھیتوں کوپانی دیتے تھے، متروکہ وقف املاک بورڈ اور پاکستان سکھ گوردوارہ پربندھک کمیٹی نے اس جگہ کو بحال کیا ہے اورکنویں میں آج بھی پانی موجود ہے تاہم تبدیلی یہ ہوئی ہے کہ اب پانی نکالنے کے لئے بیل استعمال نہیں ہوتے بلکہ موٹرکی مدد سے پرانی طرزکی کپیوں کے ساتھ پانی نکالاجاتا ہے، اس کے ساتھ ایک چبوترے پر بم نصب ہے ، خیال کیا جاتا ہے کہ 1965 کی جنگ کے دوران بھارتی ائیرفورس کی طرف سے پھینکا گیا تھا، لیکن وہ پھٹ نہیں سکا تھا، مرکزی داخلی راستے کے باہر جس جگہ یہ بم گرا تھا، اس سے کچھ فاصلے پر ایک چوکی نصب ہے،اس جگہ ایک تختی نصب ہے جس پر تحریر ہے کہ 'واہے گروجی کا معجزہ'۔ واہے کا لفظ سکھوں میں اعلٰی ترین ہستی کے معنوں میں بولاجاتا ہے۔
جب ہم گوردوارے کے مرکزی صحن کے قریب پہنچے تو سامنے بنے کمروں کے برآمدے میں گوردوارے کے گرنتھی سردار گوبند سنگھ نظرآگئے، انہوں نے ہمارا استقبال کیا، حال احوال کے بعد چائے پی گئی اور پھر میں مہمانوں کو گوردوارہ کے اندر لے گیا، داخلی دروازے کے ساتھ ہی پلاسٹک کی ٹوپیاں اور رومالے رکھے گئے ہیں تاکہ گوردوارہ صاحب کے اندر جاتے ہوئے سرکو ڈھانپ لیا جائے، گوردوارہ کے اندر ننگے سر جانا گناہ سمجھا جاتا ہے، پانی کے حوض میں پاؤں دھوکر ہم اندرداخل ہوگئے، ہمارے بالکل سامنے گورونانک دیوجی کی قبر ہے جبکہ بائیں جانب سمادھی بنی ہے۔
یہاں آنیوالے پہلے قبر پرحاضری دیتے اور پھر سمادھ میں ماتھا ٹیکتے ہیں، یہاں چند اورلوگ بھی آئے ہوئے تھے تاہم وہ سب مقامی ہی تھے، پھر ہم گوردوارے کے اوپر والے حصے پر گئے، یہاں سے اطراف میں دور دورتک دیکھا جا سکتا ہے، ہمارے ایک جانب سرسبزلہلہاتے کھیت تودوسری طرف دریائے راوی کا خشک پاٹ، جھاڑیاں اور درخت تھے۔ میں نے درختوں کے ایک جھنڈکی جانب اشارہ کرتے ہوئے گورویندرسنگھ اوران کی اہلیہ کو بتایا کہ اس مقام کے دوسری جانب ڈیرہ بابا نانک ہے، جہاں بھارت کی طرف سے درشن پوائنٹ بنایا گیا ہے، وہ دونوں کافی کوشش کرتے رہے کہ انہیں درشن پوائنٹ کے کوئی آثار نظرآجائیں لیکن فاصلہ زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کی یہ حسرت پوری نہ ہو سکی۔
گوردوارے کے نگہبان اورگرنتھی سردارگوبند سنگھ نے ہمیں اس گوردوارے کے اتہاس اورتاریخ کے بارے میں بتاتے ہوئے کہاکہ کرتارپور گرداسپور کا حصہ تھا، یہ سرحد پر واقع قصبوں میں سے ایک تھا، جسے تین جون کے پلان کے تحت پاکستان کو دیا جانا تھا، لیکن ریڈکلف کے طے شدہ تقسیم کے نقشے کے ذریعے اسے چھین لیا گیا، تقسیم کی لکیر نے ناصرف ہزاروں سکھوں کو بابا گرونانک سے دور کردیا، جو کئی دہائیوں سے یہاں آتے ہیں بلکہ دربار صاحب کو ڈیرہ بابانانک سے بھی منقسم کردیا گیا۔
گوبند سنگھ نے بتایا کہ کرتار پور وہ سرزمین ہے جہاں بابا گرونانک نے اپنی زندگی کے آخری 18 سال گزارے تھے، وہ ننکانہ صاحب میں پیدا ہوئے، محبت اور اپنے فلسفے کی تبلیغ کے لئے انہوں نے پوری دنیا کا سفر کیا، انہوں نے سکھ دھرم کی بنیاد رکھی جو بنیادی طور پر تین ستونوں پر استوار ہے، خدا کی بندگی کرو، خدا کے سوا کسی کو سجدہ جائز نہیں، دوسرا اپنے ہاتھ سے محنت کر کے روزی کماؤ اور تیسرا اس روزی میں دوسروں کو بھی شریک کرو۔ سکھوں کے گوردوارے میں مسلمان، ہندو، عیسائی غرض ہر شخص داخل ہو سکتا ہے، ان سب کو لنگرخانے سے لنگر ملتا ہے، بعض گوردواروں میں رہائش کا انتظام بھی ہے۔
گوردوارہ کے صحن میں ایک قبر ہے، جبکہ عمارت کے اندر ایک سمادھی ہے۔ ان دونوں کا تعلق باباگرونانک سے ہے۔ ان کے متعلق سکھوں میں ایک روایت ہے جو گوردوارہ میں ایک بورڈ پر درج ہے، اس بورڈ پر لکھا ہے'' بابا جی کو سکھ مذہب کے لوگ اپنا گورو اور مسلمان اپنا بزرگ (پیر) مانتے تھے، 22 ستمبر 1539 کو جب بابا جی اس دنیا سے پردہ کر گئے تونانک نام لیوا سنگتیں اور مسلمان بھائی آپس میں جھگڑنے لگے کہ ہم بابا جی کے جسم کی آخری رسومات اپنے اپنے مذہب کے مطابق ادا کریں گے، اس جھگڑے کے فیصلے کے لئے کسی درویش کے کہنے پر بابا جی کے جسم سے چادر اٹھائی گئی تو ان کے جسم کی بجائے پھول موجود تھے۔ فیصلے کے مطابق چادر اور پھولوں کو برابر دو حصوں میں بانٹ لیا گیا اور اپنی اپنی مذہبی رسومات کے مطابق مسلمان بھائیوں نے چادر اور پھولوں کو دفن کر کے مزار صاحب بنا دیا اور سکھوں نے چادر پھولوں کو سکار کر کے سمادھ استھان بنا دی ۔ آج بھی یہ دونوں نشانیاں قائم ہیں اور یہاں دونوں مذاہب کے لوگ عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہیں۔
بعض روایات کے مطابق دریائے راوی میں آنے والے سیلاب نے ان دونوں نشانیوں کو مٹا دیا تھا، کرتار پور کے گردوارے کی موجودہ عمارت کی تعمیر مہاراجہ پٹیالہ بھوپندر سنگھ بہادر نے 1921 تا 1929کے درمیان کروائی تھی، یہ جگہ پاکستان اوربھارت کے بارڈر سے محض چار کلومیٹر دور پاکستانی ضلع نارووال میں دریائے راوی کے مغربی کنارے پر واقع ہے۔1995 میں پاکستانی حکومت نے اس گوردوارے کی کارسیواکروائی اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
بارڈر کی بھارتی سائیڈ پر ڈیرہ بابا نانک ہے جو کہ سرحد کے ڈیڑھ کلو میٹر کے اندر بھارتی ضلع گورداس پور میں واقع ہے۔ وہاں پر ایک اونچے ٹیلے پر چند دور بینیں لگا کر اس طرف کے سکھوں کی اشک شوئی کی ناکام کوشش کی گئی۔اب اس مقام پر سکھوں کی کثیر تعداد اپنی اس انتہائی مقدس جگہ کے درشن کرنے روز آتی ہے۔
سکھ قوم آئندہ برس نومبر میں بابا گرو نانک جی کا 550 واں جنم دن منانے کی تیاریاں کر رہی ہے ، جس کو وہ پرکاش پورب کہتے ہیں۔ اس موقع پر جنرل قمر جاوید باجوہ نے تو بھارتی سابقہ کرکٹر اور حالیہ ریاستی وزیر نوجوت سنگھ سدھو کو جو بھارت میں سے ہر طرح کی مخالفت جھیل کر،اپنے دوست وزیر اعظم عمران خان کی تقریب حلف برداری میں شامل ہونے کے لئے پاکستان آئے تھے تواس وقت آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ نے انہیں گلے لگایا اور انہیں کرتار پور کا کوریڈور کھولنے کی خوشخبری دی تھی، مگر اس وقت ایسا نہ ہو سکا۔ کیونکہ بھارتی حکومت کا رویہ سب سے بڑی رکاوٹ تھا، حالانکہ بھارتی ریاست پنجاب کے وزیراعلیٰ امریندر سنگھ نے بھی وزیرخارجہ سشما سوراج سے درخواست کی تھی کہ وہ کرتار پور کوریڈور پر پاکستان سے بات کریں۔
امریندر سنگھ نے سشما سوراج کو خط لکھا کہ مرکزی حکومت بابا گرونانک کی 550 ویں سالگرہ کی تقریبات شروع ہونے سے قبل کرتار پور کوریڈور کھولنے کیلئے پاکستان سے بات چیت کا آغاز کرے۔ انہوں نے خط میں ریاستی اسمبلی کی جانب سے متفقہ طور پر منظور کی گئی قرارداد کا حوالہ دیتے ہوئے سشما سوراج سے درخواست کی کہ فوری طور پر بلا کسی رکاوٹ کے اس سرحدی راستے کو کھولنے کے سلسلے میں اقدامات کریں لیکن بھارتی حکومت کی طرف سے کوئی مثبت جواب نہیں دیا گیا تھا۔
برسوں سے سکھوں کا یہ مطالبہ ہے کہ بھارتی سرحد سے گوردوارہ کرتار پور صاحب تک ایک کوریڈور بنائے، جہاں سکھ یاتری ویزے کے بغیر آ سکیں۔ سکھ سیاسی قیادت بھی اس کے لئے جدوجہد کرتی رہی، مگر اس معاملے میں بھارتی فوج رکاوٹ بنی رہی۔ بھارتی فوجی قیادت کی دلیل ہے کہ گوروداسپور میں بھارتی فوجی چھاؤ نی ہے، جبکہ اس کے قریبی ضلع پٹھانکوٹ میں اسلحہ کا سب سے بڑا ڈپو ہے۔ اس کے علاوہ پٹھانکوٹ میں ایئرفورس کی متعدد بڑی تنصیبات ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اگر سکھوں کو بھارتی سرحد سے کوریڈور کے ذریعے گوردوارہ کرتار پور تک رسائی دی جاتی ہے تو اس سے سکیورٹی کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ سیاسی قیادت نے اس سلسلے میں متعدد کوششیں کیں مگر بھارتی فوج اس سلسلے میں کوئی رعایت دینے کے لئے تیار نہ ہوئی۔
2004 میں ونود کھنہ وزیر مملکت برائے امور خارجہ بنے تو انہوں نے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کو کوریڈور کے منصوبے کی تجویز پیش کی، مگر فوج نے اس کی مخالفت کی ۔ سکھ اس سلسلے میں آواز اٹھاتے رہے ۔ 2 مئی 2017 کو پارلیمنٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے امور خارجہ نے اس علاقے کا دورہ کیا اور انہوں نے کوریڈور کے منصوبے کو ختم کرنے کا اعلان کیا ۔ اس وفد کی قیادت سابق وزیرمملکت ششی تھرور کر رہے تھے۔ تجویز پیش کی گئی کہ درشن کے لئے چار اعلیٰ درجے کی دوربینیں نصب کر دی جائیں اور ان کے ذریعے گورودوارہ صاحب کا درشن کیا جائے۔ یہ معاملات سالہا سال تک یوں ہی چلتے رہے۔مگر اب پاکستان اور بھارت کی حکومت کی طرف سے کرتارپور کوریڈور کی تعمیر کی منظوری کے بعد سنگ بنیاد رکھ دیا گیا ہے جس کا تمام ترکریڈٹ وزیراعظم عمران خان اورآرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو جاتا ہے تاہم اب بھی ایسے خدشات موجود ہیں کہ بھارتی فوج کی طرف سے کوئی ایسی رکاوٹ ڈال دی جائے اور سکھوں کا کوریڈور کی تعمیر کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے۔
مہمانوں کو گوردوارے سے باہر اس مقام پر بھی لے جایا گیا جہاں پاکستان کی طرف سے کوریڈورکی تعمیرکے لیے ماضی میں کام شروع کیا گیا تھا، ہم نے دریائے راوی کا ایک حصہ، جسے اب نالہ بئی کا نام دیا گیا ہے،کو ایک کشتی کے ذریعے عبورکیا، اس سے آگے سڑک کی تعمیرکے لئے ڈالے گئے پتھر اور اطراف میں جھاڑیاں تھیں، گورویندر سنگھ کی اہلیہ کو اس ویرانے میں ڈرلگ رہا تھا اس لئے ہم زیادہ آگے جانے کی بجائے واپس لوٹ آئے۔ یہاں بھینسیں چرانے والے ایک چرواہے نے بتایا کہ دریائے راوی کے دوسری جانب بھارتی سرحد ہے، دریا کا زیادہ حصہ خشک ہو چکا ہے تاہم درمیان میں اب بھی دریا بہتا ہے، اس کے علاوہ اس علاقے میں سرکنڈا بڑی تیزی سے اگتا ہے۔ رینجرز کے جوان اس کو کاٹتے رہتے ہیں، تاکہ بھارتی سرحد سے درشن کرنے والوں کو سہولت ہو ۔ اس علاقے میں ایک روایت مشہور ہے کہ 20 سال بعد دریائے راوی عقیدت کے طور پر سلام کرنے کے لئے گورودوارہ صاحب تک آتا ہے۔
اس علاقے میں بہت زیادہ سانپ ہیں اور یہ سانپ بھی اکثر سلامی کے لئے آتے ہیں۔ چند سال پہلے اس علاقے میں ایک بہت بڑا اژدھا بھی دیکھا گیا۔ گورودوارہ کے منتظمین کا کہنا ہے کہ بعض اوقات وہ خود سانپوں کو اٹھا کر دربار صاحب کے سامنے رکھ دیتے ہیں اور وہ درشن کرنے کے بعد چلے جاتے ہیں ۔ سکھوں کے علاوہ مسلمان بھی اس گورودوارے میں عقیدت کا اظہار کرنے آتے ہیں۔
دریائے راوی کے کنارے سے ہم گوردوارے لوٹ آئے یہاں ایک بار پھرسردارگوبند سنگھ نے میزبانی کی ، انہوں نے لنگرخانے میں لنگرکروایا ، لنگر میں دال ،چاول ، سبزی ، روٹیاں، اچار اورسلاد تھا۔ کھانے کے بعد ہمیں سٹیل کے گلاسوں میں گرماگرم چائے دی گئی اور ہم گوروکا لنگرچکھنے کے بعد لاہورکی طرف روانہ ہو گئے ۔
چند ماہ پہلے جب پاکستان کے آرمی چیف نے سابق بھارتی کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو سے ملاقات میں کرتارپور اورگورداس پورکے درمیان چندکلومیٹرکا کوریڈورکھولنے کی بات کی تو بھارت سمیت دنیا بھرکے سکھوں میں خوشی کی لہردوڑ گئی تھی۔
بیرون ملک مقیم بہت سے سکھ اس مقام کی یاتراکرنے چاہتے تھے، سردار گورویندرسنگھ بھی کینیڈا سے شری دربارصاحب کرتارپور کے درشن کرنے یہاں آئے تھے، مجھے ان کی میزبانی کرنی تھی اوران کے ساتھ کرتارپور جاناتھا، گورویندر سنگھ میرے ایک بھارتی صحافی دوست کے بھائی ہیں جو کئی برسوں سے کینیڈا میں ہی مقیم ہیں اور وہاں کی شہریت رکھتے ہیں۔
میں نے لاہورائیرپورٹ پرسردارگورویندرسنگھ اورانکی اہلیہ کا استقبال کیا، سردارصاحب اپنی اہلیہ کو ہنی مون پر پاکستان میں سکھوں کے مقدس استھانوں کے درشن کروانے لیکرآئے تھے اوران کی اہلیہ جو پہلی بار پاکستان آئی تھیں انہیں سب سے زیادہ کرتارپوردیکھنے کا شوق تھا۔
پہلے ہم لاہور میں واقع گوردوارہ ڈیرہ صاحب گئے جہاں انہوں نے ماتھا ٹیکا اور سکھوں کے پانچویں گوروارجن دیوجی کے شہیدی استھان پر حاضری دی اور پھر یہاں سے ہم کرتار پور نارووال کی طرف روانہ ہوگئے، لاہور سے تقریباً اڑھائی گھنٹے کا سفر طے کرکے ہم نارووال پہنچ گئے، یہ گرودوارہ شکرگڑھ کو جانے والی سڑک پر نارووال کے قصبے کے باہر واقع ہے، بھارتی سرحد یہاں سے محض چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، دوپہر ایک بجے کے قریب ہم کرتارپور پہنچ گئے تھے، متروکہ وقف املاک بورڈکے ڈپٹی سیکرٹری شرائنز برادرعمران گوندل نے ہمارے بارے میں وہاں پہلے ہی بتادیا تھا،کرتارپور کے میدانی علاقوں میں ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں، سرسبز میدانوں اور ٹھنڈی ہواؤں کے ساتھ ساتھ ہم بابا گرونانک دیوجی کی آخری آرام گاہ میں داخل ہو رہے تھے۔
گزشتہ دو برسوں میں یہاں کافی کارسیوا ہوئی ہے، گوردوارے کے اطراف میں چاردیواری کے ساتھ ساتھ سکیورٹی پوسٹیں بنائی گئی ہیں جبکہ اندرکافی درخت اور باغیچے بھی سجائے گئے ہیں، مرکزی دروازے سے داخل ہونے کے بعد جب ہم گوردوارے کے قریب پہنچے تو بائیں جانب کنواں صاحب ہے، یہ وہ مقام ہے جہاں سے گورونانک دیوجی کھیتوں کوپانی دیتے تھے، متروکہ وقف املاک بورڈ اور پاکستان سکھ گوردوارہ پربندھک کمیٹی نے اس جگہ کو بحال کیا ہے اورکنویں میں آج بھی پانی موجود ہے تاہم تبدیلی یہ ہوئی ہے کہ اب پانی نکالنے کے لئے بیل استعمال نہیں ہوتے بلکہ موٹرکی مدد سے پرانی طرزکی کپیوں کے ساتھ پانی نکالاجاتا ہے، اس کے ساتھ ایک چبوترے پر بم نصب ہے ، خیال کیا جاتا ہے کہ 1965 کی جنگ کے دوران بھارتی ائیرفورس کی طرف سے پھینکا گیا تھا، لیکن وہ پھٹ نہیں سکا تھا، مرکزی داخلی راستے کے باہر جس جگہ یہ بم گرا تھا، اس سے کچھ فاصلے پر ایک چوکی نصب ہے،اس جگہ ایک تختی نصب ہے جس پر تحریر ہے کہ 'واہے گروجی کا معجزہ'۔ واہے کا لفظ سکھوں میں اعلٰی ترین ہستی کے معنوں میں بولاجاتا ہے۔
جب ہم گوردوارے کے مرکزی صحن کے قریب پہنچے تو سامنے بنے کمروں کے برآمدے میں گوردوارے کے گرنتھی سردار گوبند سنگھ نظرآگئے، انہوں نے ہمارا استقبال کیا، حال احوال کے بعد چائے پی گئی اور پھر میں مہمانوں کو گوردوارہ کے اندر لے گیا، داخلی دروازے کے ساتھ ہی پلاسٹک کی ٹوپیاں اور رومالے رکھے گئے ہیں تاکہ گوردوارہ صاحب کے اندر جاتے ہوئے سرکو ڈھانپ لیا جائے، گوردوارہ کے اندر ننگے سر جانا گناہ سمجھا جاتا ہے، پانی کے حوض میں پاؤں دھوکر ہم اندرداخل ہوگئے، ہمارے بالکل سامنے گورونانک دیوجی کی قبر ہے جبکہ بائیں جانب سمادھی بنی ہے۔
یہاں آنیوالے پہلے قبر پرحاضری دیتے اور پھر سمادھ میں ماتھا ٹیکتے ہیں، یہاں چند اورلوگ بھی آئے ہوئے تھے تاہم وہ سب مقامی ہی تھے، پھر ہم گوردوارے کے اوپر والے حصے پر گئے، یہاں سے اطراف میں دور دورتک دیکھا جا سکتا ہے، ہمارے ایک جانب سرسبزلہلہاتے کھیت تودوسری طرف دریائے راوی کا خشک پاٹ، جھاڑیاں اور درخت تھے۔ میں نے درختوں کے ایک جھنڈکی جانب اشارہ کرتے ہوئے گورویندرسنگھ اوران کی اہلیہ کو بتایا کہ اس مقام کے دوسری جانب ڈیرہ بابا نانک ہے، جہاں بھارت کی طرف سے درشن پوائنٹ بنایا گیا ہے، وہ دونوں کافی کوشش کرتے رہے کہ انہیں درشن پوائنٹ کے کوئی آثار نظرآجائیں لیکن فاصلہ زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کی یہ حسرت پوری نہ ہو سکی۔
گوردوارے کے نگہبان اورگرنتھی سردارگوبند سنگھ نے ہمیں اس گوردوارے کے اتہاس اورتاریخ کے بارے میں بتاتے ہوئے کہاکہ کرتارپور گرداسپور کا حصہ تھا، یہ سرحد پر واقع قصبوں میں سے ایک تھا، جسے تین جون کے پلان کے تحت پاکستان کو دیا جانا تھا، لیکن ریڈکلف کے طے شدہ تقسیم کے نقشے کے ذریعے اسے چھین لیا گیا، تقسیم کی لکیر نے ناصرف ہزاروں سکھوں کو بابا گرونانک سے دور کردیا، جو کئی دہائیوں سے یہاں آتے ہیں بلکہ دربار صاحب کو ڈیرہ بابانانک سے بھی منقسم کردیا گیا۔
گوبند سنگھ نے بتایا کہ کرتار پور وہ سرزمین ہے جہاں بابا گرونانک نے اپنی زندگی کے آخری 18 سال گزارے تھے، وہ ننکانہ صاحب میں پیدا ہوئے، محبت اور اپنے فلسفے کی تبلیغ کے لئے انہوں نے پوری دنیا کا سفر کیا، انہوں نے سکھ دھرم کی بنیاد رکھی جو بنیادی طور پر تین ستونوں پر استوار ہے، خدا کی بندگی کرو، خدا کے سوا کسی کو سجدہ جائز نہیں، دوسرا اپنے ہاتھ سے محنت کر کے روزی کماؤ اور تیسرا اس روزی میں دوسروں کو بھی شریک کرو۔ سکھوں کے گوردوارے میں مسلمان، ہندو، عیسائی غرض ہر شخص داخل ہو سکتا ہے، ان سب کو لنگرخانے سے لنگر ملتا ہے، بعض گوردواروں میں رہائش کا انتظام بھی ہے۔
گوردوارہ کے صحن میں ایک قبر ہے، جبکہ عمارت کے اندر ایک سمادھی ہے۔ ان دونوں کا تعلق باباگرونانک سے ہے۔ ان کے متعلق سکھوں میں ایک روایت ہے جو گوردوارہ میں ایک بورڈ پر درج ہے، اس بورڈ پر لکھا ہے'' بابا جی کو سکھ مذہب کے لوگ اپنا گورو اور مسلمان اپنا بزرگ (پیر) مانتے تھے، 22 ستمبر 1539 کو جب بابا جی اس دنیا سے پردہ کر گئے تونانک نام لیوا سنگتیں اور مسلمان بھائی آپس میں جھگڑنے لگے کہ ہم بابا جی کے جسم کی آخری رسومات اپنے اپنے مذہب کے مطابق ادا کریں گے، اس جھگڑے کے فیصلے کے لئے کسی درویش کے کہنے پر بابا جی کے جسم سے چادر اٹھائی گئی تو ان کے جسم کی بجائے پھول موجود تھے۔ فیصلے کے مطابق چادر اور پھولوں کو برابر دو حصوں میں بانٹ لیا گیا اور اپنی اپنی مذہبی رسومات کے مطابق مسلمان بھائیوں نے چادر اور پھولوں کو دفن کر کے مزار صاحب بنا دیا اور سکھوں نے چادر پھولوں کو سکار کر کے سمادھ استھان بنا دی ۔ آج بھی یہ دونوں نشانیاں قائم ہیں اور یہاں دونوں مذاہب کے لوگ عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہیں۔
بعض روایات کے مطابق دریائے راوی میں آنے والے سیلاب نے ان دونوں نشانیوں کو مٹا دیا تھا، کرتار پور کے گردوارے کی موجودہ عمارت کی تعمیر مہاراجہ پٹیالہ بھوپندر سنگھ بہادر نے 1921 تا 1929کے درمیان کروائی تھی، یہ جگہ پاکستان اوربھارت کے بارڈر سے محض چار کلومیٹر دور پاکستانی ضلع نارووال میں دریائے راوی کے مغربی کنارے پر واقع ہے۔1995 میں پاکستانی حکومت نے اس گوردوارے کی کارسیواکروائی اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
بارڈر کی بھارتی سائیڈ پر ڈیرہ بابا نانک ہے جو کہ سرحد کے ڈیڑھ کلو میٹر کے اندر بھارتی ضلع گورداس پور میں واقع ہے۔ وہاں پر ایک اونچے ٹیلے پر چند دور بینیں لگا کر اس طرف کے سکھوں کی اشک شوئی کی ناکام کوشش کی گئی۔اب اس مقام پر سکھوں کی کثیر تعداد اپنی اس انتہائی مقدس جگہ کے درشن کرنے روز آتی ہے۔
سکھ قوم آئندہ برس نومبر میں بابا گرو نانک جی کا 550 واں جنم دن منانے کی تیاریاں کر رہی ہے ، جس کو وہ پرکاش پورب کہتے ہیں۔ اس موقع پر جنرل قمر جاوید باجوہ نے تو بھارتی سابقہ کرکٹر اور حالیہ ریاستی وزیر نوجوت سنگھ سدھو کو جو بھارت میں سے ہر طرح کی مخالفت جھیل کر،اپنے دوست وزیر اعظم عمران خان کی تقریب حلف برداری میں شامل ہونے کے لئے پاکستان آئے تھے تواس وقت آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ نے انہیں گلے لگایا اور انہیں کرتار پور کا کوریڈور کھولنے کی خوشخبری دی تھی، مگر اس وقت ایسا نہ ہو سکا۔ کیونکہ بھارتی حکومت کا رویہ سب سے بڑی رکاوٹ تھا، حالانکہ بھارتی ریاست پنجاب کے وزیراعلیٰ امریندر سنگھ نے بھی وزیرخارجہ سشما سوراج سے درخواست کی تھی کہ وہ کرتار پور کوریڈور پر پاکستان سے بات کریں۔
امریندر سنگھ نے سشما سوراج کو خط لکھا کہ مرکزی حکومت بابا گرونانک کی 550 ویں سالگرہ کی تقریبات شروع ہونے سے قبل کرتار پور کوریڈور کھولنے کیلئے پاکستان سے بات چیت کا آغاز کرے۔ انہوں نے خط میں ریاستی اسمبلی کی جانب سے متفقہ طور پر منظور کی گئی قرارداد کا حوالہ دیتے ہوئے سشما سوراج سے درخواست کی کہ فوری طور پر بلا کسی رکاوٹ کے اس سرحدی راستے کو کھولنے کے سلسلے میں اقدامات کریں لیکن بھارتی حکومت کی طرف سے کوئی مثبت جواب نہیں دیا گیا تھا۔
برسوں سے سکھوں کا یہ مطالبہ ہے کہ بھارتی سرحد سے گوردوارہ کرتار پور صاحب تک ایک کوریڈور بنائے، جہاں سکھ یاتری ویزے کے بغیر آ سکیں۔ سکھ سیاسی قیادت بھی اس کے لئے جدوجہد کرتی رہی، مگر اس معاملے میں بھارتی فوج رکاوٹ بنی رہی۔ بھارتی فوجی قیادت کی دلیل ہے کہ گوروداسپور میں بھارتی فوجی چھاؤ نی ہے، جبکہ اس کے قریبی ضلع پٹھانکوٹ میں اسلحہ کا سب سے بڑا ڈپو ہے۔ اس کے علاوہ پٹھانکوٹ میں ایئرفورس کی متعدد بڑی تنصیبات ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اگر سکھوں کو بھارتی سرحد سے کوریڈور کے ذریعے گوردوارہ کرتار پور تک رسائی دی جاتی ہے تو اس سے سکیورٹی کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ سیاسی قیادت نے اس سلسلے میں متعدد کوششیں کیں مگر بھارتی فوج اس سلسلے میں کوئی رعایت دینے کے لئے تیار نہ ہوئی۔
2004 میں ونود کھنہ وزیر مملکت برائے امور خارجہ بنے تو انہوں نے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کو کوریڈور کے منصوبے کی تجویز پیش کی، مگر فوج نے اس کی مخالفت کی ۔ سکھ اس سلسلے میں آواز اٹھاتے رہے ۔ 2 مئی 2017 کو پارلیمنٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے امور خارجہ نے اس علاقے کا دورہ کیا اور انہوں نے کوریڈور کے منصوبے کو ختم کرنے کا اعلان کیا ۔ اس وفد کی قیادت سابق وزیرمملکت ششی تھرور کر رہے تھے۔ تجویز پیش کی گئی کہ درشن کے لئے چار اعلیٰ درجے کی دوربینیں نصب کر دی جائیں اور ان کے ذریعے گورودوارہ صاحب کا درشن کیا جائے۔ یہ معاملات سالہا سال تک یوں ہی چلتے رہے۔مگر اب پاکستان اور بھارت کی حکومت کی طرف سے کرتارپور کوریڈور کی تعمیر کی منظوری کے بعد سنگ بنیاد رکھ دیا گیا ہے جس کا تمام ترکریڈٹ وزیراعظم عمران خان اورآرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو جاتا ہے تاہم اب بھی ایسے خدشات موجود ہیں کہ بھارتی فوج کی طرف سے کوئی ایسی رکاوٹ ڈال دی جائے اور سکھوں کا کوریڈور کی تعمیر کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے۔
مہمانوں کو گوردوارے سے باہر اس مقام پر بھی لے جایا گیا جہاں پاکستان کی طرف سے کوریڈورکی تعمیرکے لیے ماضی میں کام شروع کیا گیا تھا، ہم نے دریائے راوی کا ایک حصہ، جسے اب نالہ بئی کا نام دیا گیا ہے،کو ایک کشتی کے ذریعے عبورکیا، اس سے آگے سڑک کی تعمیرکے لئے ڈالے گئے پتھر اور اطراف میں جھاڑیاں تھیں، گورویندر سنگھ کی اہلیہ کو اس ویرانے میں ڈرلگ رہا تھا اس لئے ہم زیادہ آگے جانے کی بجائے واپس لوٹ آئے۔ یہاں بھینسیں چرانے والے ایک چرواہے نے بتایا کہ دریائے راوی کے دوسری جانب بھارتی سرحد ہے، دریا کا زیادہ حصہ خشک ہو چکا ہے تاہم درمیان میں اب بھی دریا بہتا ہے، اس کے علاوہ اس علاقے میں سرکنڈا بڑی تیزی سے اگتا ہے۔ رینجرز کے جوان اس کو کاٹتے رہتے ہیں، تاکہ بھارتی سرحد سے درشن کرنے والوں کو سہولت ہو ۔ اس علاقے میں ایک روایت مشہور ہے کہ 20 سال بعد دریائے راوی عقیدت کے طور پر سلام کرنے کے لئے گورودوارہ صاحب تک آتا ہے۔
اس علاقے میں بہت زیادہ سانپ ہیں اور یہ سانپ بھی اکثر سلامی کے لئے آتے ہیں۔ چند سال پہلے اس علاقے میں ایک بہت بڑا اژدھا بھی دیکھا گیا۔ گورودوارہ کے منتظمین کا کہنا ہے کہ بعض اوقات وہ خود سانپوں کو اٹھا کر دربار صاحب کے سامنے رکھ دیتے ہیں اور وہ درشن کرنے کے بعد چلے جاتے ہیں ۔ سکھوں کے علاوہ مسلمان بھی اس گورودوارے میں عقیدت کا اظہار کرنے آتے ہیں۔
دریائے راوی کے کنارے سے ہم گوردوارے لوٹ آئے یہاں ایک بار پھرسردارگوبند سنگھ نے میزبانی کی ، انہوں نے لنگرخانے میں لنگرکروایا ، لنگر میں دال ،چاول ، سبزی ، روٹیاں، اچار اورسلاد تھا۔ کھانے کے بعد ہمیں سٹیل کے گلاسوں میں گرماگرم چائے دی گئی اور ہم گوروکا لنگرچکھنے کے بعد لاہورکی طرف روانہ ہو گئے ۔