اہمیت عوامی مسائل کو دیں
چیمپئنز ٹرافی بھی اختتام پذیر ہوئی۔ بھارت چیمپئن بن گیا۔ پاکستانی ٹیم تو دو میچ ہارنے کے بعد ہی ٹورنامنٹ سے باہرہو....
چیمپئنز ٹرافی بھی اختتام پذیر ہوئی۔ بھارت چیمپئن بن گیا۔ پاکستانی ٹیم تو دو میچ ہارنے کے بعد ہی ٹورنامنٹ سے باہر ہو چکی تھی اس کا چیمپئن بننے کا خواب چکنا چور ہو گیا۔ پاکستانی ٹیم کی جو بدنامی ہوئی سو ہوئی لیکن ملک کی بدنامی الگ ہو گئی۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ وزیر اعظم صاحب کے علم میں یہ بات آئی نہیں یا پھر وہ پاکستانی ٹیم کی شکست کے معاملے کو نظر انداز کر گئے، مگر ہمارے وزیر اعظم اپنے ملک میں ہی ایک چیمپئن شپ کا انعقاد کرنے جا رہے ہیں۔ یعنی ''نوازشریف بمقابل پرویز مشرف'' چیمپئن شپ۔ اور چیمپئن شپ 12 اکتوبر 99 کے سانحے کی یاد میں منعقد کی جا رہی ہے۔
چونکہ 13-12 سال کے طویل عرصے کے بعد میاں صاحب سیاست کے میدان میں اترے ہیں لہٰذا منصبی ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ میاں صاحب کو کرکٹ کا شوق بھی ہے۔ لیکن میدان سیاست میں وہ ضرور اپنے جوہر دکھانے کے لیے بے چین نظر آتے ہیں۔ میاں صاحب کو اقتدار ملتے ہی ساتھ میں بے شمار مسائل ورثے میں ملے جن کا ذکر وہ کئی دفعہ کر چکے ہیں اور ان تمام مسائل کا ذمے دار گزشتہ حکومت کو ٹھہراتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی فرماتے ہیں کہ گزشتہ حکومت کے پیدا کردہ مسائل کے ذمے دار بھی پرویز مشرف ہیں۔ معاملہ دراصل یہ ہے کہ میاں صاحب دودھ کے جلے ہیں، اس لیے وہ چھاچھ کو بھی پھونک پھونک کر پینا چاہتے ہیں۔
نواز شریف جب مسند اقتدار پر براجمان ہوئے تھے تو انھوں نے خود فرمایا تھا کہ ہم جمہوریت بردار ہیں، جمہوریت کے رکھوالے ہیں، ہم جمہوری نظام کو ٹھیس نہیں پہنچنے دیں گے، ہم جمہوریت (جو بڑی جدوجہد کے بعد حاصل ہوئی ہے) کو کسی صورت ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے، ہم انصاف کا نظام قائم کریں گے، ہم کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کریں گے ، ہم انتقامی سیاست نہیں کریں گے، ہم کسی سے انتقام نہیں لیں گے۔ لیکن حالیہ رویے سے ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ مندرجہ بالا بیانات شاید گزشتہ حکمرانوں کی طرف اشارہ دے رہے تھے لیکن اب تو یہ اقدامات اس کے برعکس نظر آ رہے ہیں۔
ابھی تو اور امتحان باقی ہیں سفر میں، ابھی تو سفر شروع ہوا ہے۔ پرویز مشرف تو ابھی وطن ہی میں ہیں، اپنے خلاف بے شمار الزامات کے حصار میں گھرے ہوئے اور بے شمار مقدمات کا عدالت میں سامنا کر رہے ہیں۔ ابھی تو وہ کہیں نہیں جا رہے بلکہ انھوں نے باہر جانے یا جلاوطنی کی پیشکش کو بھی مسترد کر دیا ہے، انھوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ وہ ان تمام مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں اور جب تک ان مقدمات کے فیصلے نہیں آتے وہ ملک سے باہر کبھی نہیں جائیں گے۔ تمام حالات کا پراعتماد طریقے سے سامنا کریں گے، ہر عدالت میں جائیں گے، الزامات کو غلط ثابت کریں گے، اس طرح وہ مفرور ہونے کا ٹائٹل اپنے سر نہیں سجائیں گے۔ سچائی اور حق پر جو گامزن ہوتا ہے قدرت اسی کو فتح سے ہمکنار کرتی ہے۔
عوام 65 سال سے یہ ''میوزیکل چیئر'' سیاست کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔ ہر آنے والا، جانے والے کو برا کہتا ہے اور جب خود برسراقتدار ہوتا ہے تو وہی کچھ کرتا ہے جس کے لیے وہ جانے والے کو مورد الزام ٹھہراتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ''خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے''۔
بڑے بڑے تجزیہ نگار کہہ رہے ہیں کہ اگر پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ چلے گا تو ایک ''پنڈورا بکس'' کھلے گا کیونکہ اس مقدمے میں صرف پرویز مشرف ہی کا کردار نہیں ہو گا بلکہ ان کی معاونت و مشاورت کرنے والے بھی شامل ہوں گے، جن کی تعداد کے متعلق ایک جج صاحب نے تو یہ ریمارکس بھی دے دیے ہیں کہ اس مقدمے کے کھلنے سے 627 شخصیات ملوث ہوں گی۔ واقعی میں جب مقدمہ قائم ہو گا اور سماعت شروع ہو گی تو ایک جم غفیر ہو گا، ملزمان، گواہان، وکلا کا، شاید سپریم کورٹ میں جگہ کی گنجائش بھی کم پڑ جائے اور پھر یہ بھی پتہ نہیں کہ مقدمے کی سماعت کتنے عرصے تک چلے گی۔ پتہ نہیں کون زندہ رہے گا کون مر جائے گا۔ مثال مشہور ہے کہ ''کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک''۔
بہر حال ان تمام مندرجہ بالا گزارشات کا حاصل یہ ہے کہ خدارا! عوام کے مسائل کی طرف زیادہ توجہ دیں۔ ان تمام سیاسی جھگڑوں سے عوام کا کوئی سروکار نہیں۔ اگر پرویز مشرف کو آپ تختہ دار پر چڑھا دیں گے تو عوام کے مسائل تو پھر بھی وہیں کے وہیں رہیں گے۔ ''زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد''۔ عوام کو امن و امان چاہیے، روزگار چاہیے، جان و مال کی حفاظت چاہیے، مہنگائی کا خاتمہ چاہیے، غربت کا خاتمہ چاہیے، آپ کے پیش کردہ ''ٹیکس زدہ'' بجٹ نے تو عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، انسان کو ادھ موا کر دیا ہے، مہنگائی، بے روزگاری، دہشت گردی اور دیگر جرائم نے زندگی اجیرن کر دی ہے، کیا حکومت کو، وزراء کو اس کا احساس ہے؟ اگر ہے تو پھر عوامی مسائل حل کرنے پر توجہ مرکوز کیجیے۔ فضول کے سیاسی جھگڑوں میں نہ الجھیے۔ عوام گزشتہ 65 سال سے قربانیاں دے رہے ہیں، ان سے مزید قربانی نہ مانگیں۔
اب آپ لوگوں کی باری ہے قربانی دینے کی۔ اپنے شاہانہ ٹھاٹ چھوڑیے، خود سادگی اپنا کر عوام کی حوصلہ افزائی کیجیے۔ عوام کو خوشحال رکھیے، عوام خوشحال ہوں گے تو ملک خوشحال ہو گا۔ فوجی حکومتوں کا رونا نہ روئیں، یہ حقیقت ہے کہ سیاستدان ہی فوج کو بلاتے ہیں۔ مداخلت کی اجازت دیتے ہیں اور فوج کو ہی الزام دیتے ہیں، انھیں غدار قرار دیتے ہیں۔ یہ بھی تو ذہن نشین کریں کہ یہ فوج ہمارے ملک کی فوج ہے۔ یہ فوج ہی ہمارے نوجوان بناتے ہیں۔ اپنی مرضی سے فوج میں بھرتی ہوتے ہیں اور سب سے زیادہ پنجاب کے نوجوان ہی فوج میں شامل ہیں، اس کے بعد سرحد اور بلوچستان کے نوجوان شامل ہوتے ہیں۔ خدارا! فوج کو بدنام نہ کریں۔ غیر ممالک کے پاس کیا پیغام جاتا ہے۔
پڑوسی ملک ہی کو دیکھ لیں کتنی فوجی طاقت بڑھا رہا ہے، کتنا جنگی سامان و اسلحہ خرید رہا ہے، ہمارے لیے عبرت کا مقام ہے۔ آپ کیا کر رہے ہیں۔ خدارا! عوام کے مسائل پر بھرپور توجہ دیں۔ غیر ضروری ایشوز پر عوام کو نہ استعمال کریں۔ عوام پہلے ہی ظلم و ستم کے مارے ہوئے ہیں۔ دہشت گردوں نے پہلے ہی عوام کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ بے گناہ عوام، بچوں، نوجوانوں، طالبات، بزرگ، خواتین و بچے ، مرد سب کو قتل کیا جا رہا ہے۔ اسکول اور مدرسوں کو تباہ کر رہے ہیں۔ عوام سخت عذاب میں مبتلا ہیں لیکن عوام کے دکھ و درد کو دور کرنے کے بجائے ان میں اضافہ کرنے کا سامان کیا جا رہا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ حالیہ دہشت گردی اور دیگر عوامی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانا مقصد ہے۔
عوام کی توجہ بٹ جائے گی تو بجٹ کی زیادتیاں، قتل و غارت گری کے واقعات پس پردہ چلے جائیں گے۔ یہ رویہ کسی حد تک قابل قبول نہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ غیر ضروری ایشوز کی سیاست چھوڑ کر ملک و قوم کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیا جائے تو عوام کو دلی تسکین ملے گی۔ ورنہ ملک کے حالات کو سدھارنا مشکل ہو جائے گا۔ ملک کے معاشی حب کراچی کی حالت دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے، مگر اس اہم ایشو کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ اگر یہی روش جاری رہی تو حکومت کے لیے ہی نہیں ملک و قوم کے لیے بھی نقصان دہ ہو گی۔