سرمایہ دارانہ نظام میں لرزش

اکتوبر 2008 میں امریکا میں آئے بدترین معاشی بحران نے سپر پاور کی معیشت کی چولیں ہلا دیں۔


شعیب واجد July 02, 2013

اکتوبر 2008 میں امریکا میں آئے بدترین معاشی بحران نے سپر پاور کی معیشت کی چولیں ہلا دیں۔ سیکڑوں بینک، انشورنس کمپنیاں اور دیگر ادارے قلاش ہو کر بند ہو گئے۔ دس لاکھ لوگوں کو روزگار سے محروم ہونا پڑا۔ صورتحال اس قدر بدترین ہوئی کہ اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کو معیشت کو سہارا دینے کے لیے ایک معاشی انجکشن کا سہارا لینا پڑ گیا، جسے بیل آؤٹ پلان کا نام دیا گیا۔ اس منصوبے کے تحت دیوالیہ ہوتے امریکی معاشی اداروں کو 7سو ارب ڈالر کی امداد فراہم کی گئی۔

عالمی معاشی بحران کی لہر سے یورپ بھی محفوظ نہیں تھا اور برطانیہ، فرانس، جرمنی سمیت کئی ممالک کو معیشت کی بحالی کے لیے ہنگامی اقدامات کرنا پڑے خصوصاً فرانس کی حکومت کو بھی اندرونی معیشت کو بچانے کے لیے بڑے بیل آؤٹ پیکیج کا سہارا لینا پڑا۔ یورپ کے بڑے ممالک میں تو یہ بحران اب کچھ تھم گیا ہے لیکن مشرقی اور جنوبی یورپ سے یورپی یونین کے نئے ارکان ابھی تک یہ مشکل صورتحال جھیل رہے ہیں خصوصاً یونان کا حال بہت ہی برا ہے، جو آئی ایم ایف سے بڑا قرضہ لینے کے باوجود بھی دیوالیہ ہوا چاہتا ہے۔

یورپ کے علاوہ امریکا کے معاشی انڈیکیٹر پہلے سے قدرے بہتر تو ہوئے ہیں لیکن انھیں قابل اطمینان نہیں کہا جا سکتا۔ دنیا کے بڑے ملکوں میں پیدا ہوئے اس معاشی بحران کو ماہرین سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیوں کا ثمر قرار دے رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس نظام میں مالیاتی اداروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کو سہارا دینے کے لیے قرضوں کا پھیلاؤ اس قدر ہو گیا کہ سرمائے کی واپسی کی ضمانتیں فیل ہو گئیں اور بے یقینی کی ایسی کیفیت پیدا ہوئی، بہت سے مالیاتی ادارے ڈیفالٹر ہونے پر مجبور ہو گئے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کو اس کی تمام تر خرابیوں کے باوجود دنیا میں نافذ کیوں کیا گیا؟ اس کے پیچھے کیا مفادات تھے؟ یہ جاننے کے لیے ہمیں تھوڑا ماضی میں جھانکنا پڑیگا۔

جنگ عظیم دوم کے خاتمے کے بعد نوآبادیاتی دور کا خاتمہ تو ہو گیا لیکن عالمی طاقتیں دنیا سے اپنا اقتدار کھونے کے باوجود عالمی معیشت پر اپنا کنٹرول کھونے کو تیار نہیں تھیں اور اس کنٹرول کو برقرار رکھنے کے لیے انھیں سرمایہ دارانہ نظام کی بقا ہی واحد ہتھیار نظر آ رہا تھا چنانچہ جولائی 1944میں جنگ عظیم کی فاتح اتحادی طاقتیں امریکا میں جمع ہو گئیں۔ امریکی ریاست نیو ہیمپشائر کے شہر بریٹن ووڈ میں عالمی معاشی نظام کے خدوخال طے کرنے کے لیے چوالیس ملکوں کی کانفرنس ہوئی۔

اس کانفرنس کے نتیجے میں دنیا میں پہلی بار دو عالمی مالیاتی اداروں کا وجود عمل میں لایا گیا، جن میں آئی ایم ایف اور عالمی بینک شامل تھے۔ یہ وہ دور تھا جب امریکا جنگ عظیم میں کامیابی کے بعد اتحادیوں کا چیمپئن بن کر سامنے آ چکا تھا اور امریکی ڈالر دنیا کی سب سے مضبوط کرنسی کی صورت میں امریکی معاشی ہتھیار بن گیا تھا۔ امریکا کے لیے یہ بات بڑی اطمینان بخش تھی کہ گولڈ اسٹینڈرڈ کے خاتمے کے بعد ڈالر کو سونے کے متبادل کے طور پر لیا جانے لگا تھا اور عالمی تجارت کے لیے ڈالر کے ذخائر رکھنا ہر ملک کی مجبوری بن گیا تھا چنانچہ امریکا نے بریٹن ووڈ کانفرنس کو کامیاب بنانے کے لیے اپنا ایڑی چوٹی کا زور لگایا، حتیٰ کہ امریکا نے آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے قیام اور ان کے فنڈز میں بھاری سرمایہ کاری کی حامی بھی بھر لی۔

امریکا سمیت عالمی طاقتوں کا خیال تھا کہ ان کی مضبوط کرنسیوں اور صنعتی ترقی کی بنا پر وہ عالمی مارکیٹ پر چھائے رہیں گے اور عالمی مالیاتی اداروں سے ترقی پذیر ممالک کو قرض کا اجرا دنیا میں ان کی سیاسی پوزیشن مزید مضبوط بنا دیگا کیونکہ ان اداروں سے جاری ہونیوالے قرضے مشروط ہوا کریں گے۔ ان ممالک کی یہ پالیسی بظاہر تو کامیاب رہی اور امریکا اور یورپ نے نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے باوجود ترقی پذیر ملکوں کی معیشت پر پنجے گاڑے رکھے اور ان کی مقامی مارکیٹوں میں سرمایہ کاری کے نام پر اپنا اثر و رسوخ الگ مضبوط بناتے رہے، ساتھ ہی ترقی پذیر ممالک غیر ملکی کرنسی میں تجارت کرنے پر مجبور تھے، اس طرح وہ اپنے عوام کی کڑی محنت کے بدلے بھی معاشی ترقی کا ہدف حاصل نہیں کر سکے۔ پاکستان سمیت تمام ممالک میں یہی صورتحال دیکھی گئی۔

بریٹن ووڈ معاہدے کے بعد ستر سال تک مغربی ممالک نے دنیا کی معیشت پر راج کیا۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ دنیا کے غریب عوام کے سرمائے اور ان کی محنت پر عیش کیا۔ دنیا کی سات ارب آبادی میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو کام تو پورے آٹھ گھنٹے کرتے ہیں، لیکن ان کی یومیہ آمدنی دو ڈالر سے زیادہ نہیں۔ باوجود اس کے کہ عالمی تجارت میں امریکا اور یورپ کا حصہ بقدر جثہ کے لحاظ سے کہیں زیادہ تھا لیکن پھر بھی ترقی پذیر ممالک کی مارکیٹیں ہتھیانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے اور بجائے اس کے کہ غریب ممالک کو تجارت میں خصوصی سہولتیں دی جاتیں، الٹا آزاد تجارت کے نام پر ان کی مارکیٹ سے بچا کچھا سرمایہ بھی کھینچنے کی کوششیں کی جانے لگیں اور ڈبلیو ٹی او کا قیام بھی اسی لیے عمل میں لایا گیا۔

نقاد کہتے ہیں کہ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے قیام کا مقصد بظاہر تو آزاد تجارت کا فروغ بتایا گیا لیکن یہ نہیں سوچا گیا کہ ترقی یافتہ اور ترقی پذید ممالک پر ایک جیسے قوانین کیسے لاگو ہو سکتے ہیں۔ جس طرح ریسلنگ کے مقابلوں میں ہیوی ویٹ کا مقابلہ لائٹ ویٹ سے نہیں کرایا جاتا، اسی طرح عالمی معاشی مقابلے میں غریب ملک کو ترقی یافتہ ترین ملک کے مقابلے پر اتارنا اس کی معاشی موت ہو سکتا ہے۔ اس کی مزید وضاحت یوں کی جا سکتی ہے کہ اگر آزاد تجارت کا اصول امیر اور غریب دونوں ملکوں پر لاگو کر دیا جائے تو کیا ہو گا؟ نتیجہ صاف طاہر ہے، ترقی یافتہ ملک کی مصنوعات بڑے آرام سے ترقی پذیر ملک میں جگہ بنالیں گی، لیکن ترقی پذیر ملک کو ترقی یافتہ ملک میں اس کی مصنوعات کے کم تر معیار کی وجہ سے جگہ نہیں مل سکے گی۔

یوں بظاہر آزاد تجارت کا اصول دونوں پر نافذ ہونے کے باوجود غریب ملکوں کی معاشی موت ہو جائے گی۔ ان عوامل کو دیکھتے ہوئے ماہرین کہتے ہیں کہ دنیا میں آزاد تجارت کے بجائے منصفانہ تجارت کی ضرورت ہے۔ تا کہ ترقی پذیر ممالک کی معیشت کو سہارا دیا جائے۔ انھیں ترقی دی جائے اور جب وہ مقابلے کے قابل ہو جائیں تب بھلے ان پر آزاد تجارت کا قانون لاگو کر دیا جائے۔ترقی یافتہ ممالک ڈبلیو ٹی او کے پلیٹ فارم پر کبھی لچک دار رویہ اپنائے نہیں دکھائی دیے لیکن اب ان بڑے معاشی خطوں میں حالیہ معاشی بحران کی وجہ سے ان کی توجہ بٹ گئی ہے اور وہ ڈبلیو ٹی او اور آزاد تجارت کے بجائے اپنی مقامی مالیات کو بچانے کی فکر میں ہیں، کیوں کہ اب سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیاں خود ان کی معیشت کو بحران سے دوچار کرنے لگی ہیں۔

امریکا اور یورپ میں مالیاتی بحران ماہرین کے لیے کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ دنیا پر چھائے رہنے اور اصلاحات نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ دنیا کے بڑے معاشی خطوں کو اب اس بات پر غور کرنا پڑے گا۔ دنیا میں ایک منصفانہ عالمی معاشی نظام کے قیام کے لیے سنجیدگی سے کوشش کی جائے اور بریٹن ووڈ جیسی کانفرنس کے بجائے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم کو استعمال کیا جائے اور عالمی ادارے کے تمام اراکین کے معاشی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے نئی عالمی معاشی پالیسی ترتیب دی جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں