معروف ادیب قیصر سلیم بھی چل بسے…

32 کتابوں کے خالق اور انگنت مضامین کے مصنف قیصر سلیم 5 مئی 1927 کو ضلع مونگیر، بہار (انڈیا) میں پیدا ہوئے۔


آصف سہیل مظفر July 02, 2013

32 کتابوں کے خالق اور انگنت مضامین کے مصنف قیصر سلیم 5 مئی 1927 کو ضلع مونگیر، بہار (انڈیا) میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق بہار کی ملک برادری سے تھا۔ 6 سال کی عمر میں والدہ کا انتقال ہوا۔ اس وقت یہ لوگ لورا لائی (بلوچستان) میں مقیم تھے۔ والدہ کے انتقال کے بعد واپس بہار کے ایک چھوٹے سے گاؤں آڑھا میں آبسے والد نے دوسری شادی کرلی۔ 15 یا 16 سال کی عمر میں ان کے والد کا انتقال بھی ہوگیا اور پھر ان کے دادا فرخ حسین نے ان کی پرورش کی۔ اپنے بچپن کا ذکر کرتے ہوئے وہ چند واقعات کا اکثر ذکر کیا کرتے تھے۔

ان کا پیدائشی نام بدرالدین تھا جو نہ معلوم وجوہات کی بنا پر مڈل اسکول کے ماسٹر شمس الحق کے قلم کی جنبش سے بدرالحسن ہوگیا۔ مڈل اسکول ان کے گاؤں سے 26 میل دور تھا اور انھوں نے یہ سفر ایک دفعہ پیدل ہی کیا تھا۔ وہ بتاتے تھے کہ ایک دفعہ ان کے گاؤں کا ایک لڑکا جو شہر میں ریلوے اسٹیشن پر مزدوری کرتا تھا گاؤں آیا تو اس کا رکھ رکھاؤ بالکل شہری تھا۔ وہ ان کو شہر کی کہانیاں سناکر اپنے ساتھ لے گیا۔ مگر ان کی خوش قسمتی تھی کہ وہ راستے میں انھیں اس گاؤں لے گیا جہاں ان کے بہن بہنوئی رہا کرتے اور اتفاقاً ان کے بہنوئی ڈاکٹر ابوالفرح نے انھیں دیکھ لیا اور غصے سے لال بھبوکا ہوکر انھیں واپس گاؤں بھیج دیا۔

وہ کہتے تھے کہ اگر ان کے بہنوئی ایسا نہیں کرتے تو ان کا انجام ایک مزدور سے زیادہ نہ ہوتا اور آج جو یہ مقام اور ادب سے لگاؤ اور لکھنے کا جنون ہے کچھ بھی نہ ہوتا۔ اسکول کی لائبریری سے ''گلفام'' نامی رسالے کا اجراء کرکے ادب کی دنیا میں پہلا قدم رکھا۔پھر میٹرک کیا ۔ 1946 میں پہلا افسانہ ''سوتیلے بچے'' بدر عرفان کے نام سے لکھا جو اس وقت کے دہلی سے نکلنے والے ''خاتون مشرق'' نامی جریدے میں شایع ہوا۔ فسادات کی بنا پر تعلیم چھوٹ گئی اور وہ تقسیم ہند کے بعد 1948 میں تن تنہا مشرقی پاکستان چلے گئے۔

نئی زندگی کا آغاز انتہائی کسمپرسی سے ہوا۔ اس دور کا ایک واقعہ وہ کچھ یوں سنایا کرتے تھے کہ ''میں بھٹکتا بھٹکتا سید پور پہنچا وہاں کوئی کام نہ ملا تو سبزی بیچنے کے لیے ایک روز دیہات سے بینگن کا بورا اٹھالایا اور سبزی فروشوں کے درمیان چادر بچھا کر بیٹھ گیا، زندگی میں پہلی دفعہ ترازو پکڑا تھا اور یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ بینگنوں کو کب پانی لگانا ہے اور کب دھوپ دکھانی ہے، نتیجہ یہ ہوا کہ شام تک سارے بینگن گل سڑ گئے اور یہ کام بھی ہاتھ سے نکل گیا''۔

اس کسمپرسی میں بھی ان کے مشاغل میں لائبریری جانا اور اپنی عمر سے قد آدم کتب کو پڑھنا تھا۔ وہیں کچھ لکھنے لکھانے کا سلسلہ بھی ہوا، تب ہی یا بعد میں کبھی چند دوستوں نے جن میں ادیب سہیل بھی شامل تھے، ڈھاکہ کے ایڈن گارڈن میں ایک نشست کے دوران ان کا قلمی نام قیصر سلیم تجویز کیا۔ یوں آڑھا کے بدرالدین پہلے بدرالحسن اور پھر قیصر سلیم ہوگئے۔ مشرقی پاکستان میں ان کے مالی حالات خراب ہی رہے تو انھوں نے پاکستان ایئرفورس میں شمولیت حاصل کی اور 1948 میں مغربی پاکستان منتقل ہوئے اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔

دوران ملازمت تعلیم کو جاری رکھنے کی تحریک ہوئی اور گیارہ سال کے وقفے کے بعد 1959 میں انٹر کیا پھر دو سال بعد جامعہ کراچی سے بی اے کیا پھر آئی بی اے سے ایم بی اے کا ڈپلومہ لیا۔ وہ بتاتے تھے کہ ماڑی پور سے سولجر بازار سائیکل پر ہی جاتے تھے اور اس وقت ان کی تنخواہ صرف 300 روپے تھی۔قیصر سلیم کے شروع کے ناولوں میں سے ایک ناول ''عاطفہ'' کے نام سے شایع ہوا جو انھوں نے اپنی زوجہ عشرت سلطانہ کے نام سے لکھا۔ یہ موضوع کے اعتبار سے خالصتاً خواتین کا ناول تھا اور اس کی کہانی کراچی میں واقع بہار کالونی کی ایک غریب اور یتیم عاطفہ کے گرد گھومتی ہے۔

ایک اور ناول ''کشور'' جو پہلی مرتبہ 1966 میں شایع ہوا اسلوب اور ناول کی کہانی کے اعتبار سے بہار کی سرزمین سے وابستہ ہے اور ایک خوبصورت ناول ہے۔ ''سرخ مٹی ڈھلتا سورج'' ایک نوجوان کی کہانی ہے جو کوئٹہ سے ہوتا ہوا تیل کی تلاش میں مشرق وسطیٰ کے صحراؤں تک جاتا ہے۔ اس ناول کو اردو ڈائجسٹ نے قسط وار شایع کیا۔ ''کالی مٹی اڑتے رنگ'' افریقہ کے ان باشندوں کی کہانی ہے جو اپنی ہی سرزمین پر غلامی کی زندگی گزارتے رہے ہیں۔ ''تحریر کے سناٹے میں'' پاکستان کی کہانی ہے جو ایک نوجوان جوڑے کی زبانی ہے۔

یہ ناول پاکستان کے پچاسویں یوم آزادی پر منظر عام پر آیا۔ ''وادی زرداراں'' ایک جاسوسی ناول ہے جو زرداروں کی کہانی سناتا ہے۔ ''گھر پیارا گھر'' ایک ناولٹ ہے جو 1990 کے اوائل میں ہونے والے کراچی کے نامصائب حالات کا احاطہ کرتا ہے۔ ''نیا نگر بسالیا ہم نے'' ایک محبت بھرا ناول ہے جو امن، محبت اور ایک ایسی دنیا کی کہانی سناتا ہے جو دنیا کے موجودہ حالات میں ایک خواب سے کم نہیں لگتی۔

جو ناول موضوع کے اعتبار سے بالکل مختلف ہیں ان میں ''انقلابی آگئے'' اور اکیسویں صدی کا چنگیز خان'' شامل ہیں۔ انقلاب آگئے'' انقلاب زدہ لوگوں کی دردناک کہانی ہے جو ایک انقلاب آنے کے بعد انھی انقلابیوں کے ہاتھوں پس رہے ہیں اور اپنی جانیں گنوا رہے ہیں جب کہ ''اکیسویں صدی کا چنگیز خان'' کا کینوس عالمی ہے، مزاج سیاسی ہے، ماحول جنگی ہے اور انداز تمثیلی ہے۔ 1990 میں منظر عام پر آنے والے اس ناول میں اکیسویں صدی کی پیشن گوئیاں ہیں جو اس صدی کی ابتداء سے ہی صحیح معلوم ہوتی ہیں۔

ان کا آخری ناول ''نجات'' ہے جو جاسوسی طرز کا ناول ہے مگر اس میں پاکستان جیسے ملکوں کے لیے نجات کا پیغام ہے۔ انھوں نے ناولوں کے علاوہ تین عدد سفر نامے بھی لکھے ہیں جن میں سے دو امریکا پر اور ایک ''بندہ صحرائی'' کے نام سے لیبیا کا سفر نامہ ہے۔ ان کے سفر ناموں کا انداز بھی بالکل جدا ہے۔ ان کے سفر نامے بھی بڑی تحقیق اور تجزیے کے بعد منظر عام پر آتے ہیں۔قیصر سلیم کے ابتدائی افسانے لاہور سے جاری ہونے والے ''قندیل'' نامی ہفت روزہ میں شایع ہوتے رہے۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ وہ اچھے ناول نگار تھے یا اچھے افسانہ نگار۔

انھوں نے کئی افسانے لکھے جن کے دو عدد مجموعے شایع ہوچکے ہیں اور حال ہی میں ان دونوں مجموعوں کو یکجا کرکے ''تیسرا آدم'' کے نام سے افسانوں کی کلیات سامنے آئی ہے۔ قیصر سلیم کا ایک اور بڑا کارنامہ ان کا ترجمہ نگار ہونا ہے۔ انھوں نے گیارہ عظیم کتابوں کے ترجمے کیے۔ یہ تراجم عراق، افغانستان، ہندوستان اور امریکا سے متعلق ہیں۔ انھوں نے افسانوں کے ترجمے بھی کیے اور ایک ضخیم مجموعہ ''منتخب عالمی افسانے'' کے نام سے منظر عام پر آیا۔ اس کے علاوہ دو مجموعے ''منتخب امریکی افسانے '' اور ''بنگلہ دیشی افسانے'' بھی شایع ہوئے۔

ان کے ترجمے کو پڑھ کر یہ احساس کہیں بھی نہیں ہوتا کہ یہ ترجمے ہیں بلکہ یہ حقیقتاً انھی کی تخلیق معلوم ہوتے ہیں۔ان کے مطالعے کی عادت بھی انتہائی مختلف تھی۔ وہ بیک وقت 7 سے 8کتابوں کا مطالعہ کرتے تھے۔ کہتے تھے کہ جب ایک کتاب سے اکتاہٹ ہو تو دوسری اٹھالو۔ اور اسی وسیع ترین تجربے کو انھوں نے چار جلدوں پر شایع ہونے والی کتاب ''حاصل مطالعہ'' میں یکجا کرنے کی کوشش کی ہے جو 101 کتابوں کے اقتباسات پر مبنی ہے۔ مطالعے اور تحقیق کی اس عادت نے ایک اور کتاب ''بہار دانش'' کو جنم دیا جو گوتم بدھ سے شروع ہوکر تقسیم ہند تک صوبہ بہار میں پیدا ہونے والی علم و دانش کی چیدہ چیدہ شخصیات کا تعارف ہے۔اگر مضامین کے حوالے سے بات کی جائے تو انھوں نے بے شمار مضامین مختلف اوقات میں لکھے جو اخبارات اور رسائل میں چھپتے رہے ہیں۔

ان مضامین کا مجموعہ بھی انھوں نے ''چراغ فکر جلاؤ بہت اندھیرا ہے'' کے نام سے شایع کیا۔قیصر سلیم کی ادبی خدمات اس قدر وسیع ہیں کہ ان کا احاطہ ایک مضمون میں کرنام ممکن نہیںہے۔ اسی لیے ان کی ادبی خدمات کو سراہنے کے لیے ان کی زندگی میں ہی محترمہ زریں بانو زیدی نے ڈاکٹر ہلال نقوی کی نگرانی میں جامعہ کراچی سے ایم اے کا مقالہ تحریر کیا۔ اور حال ہی میں ایک اور طالبہ نازش فاطمہ جامعہ کراچی کے شعبہ اردو سے ڈاکٹر ظفر اقبال کی نگرانی میں قیصر سلیم کی ناول نگاری پر پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کر رہی ہیں۔

انتھک محنت اور مستقل مزاجی سے لکھنے والے عہد ساز ادیب اور مفکر، قیصر سلیم، جنھوں نے ہمیشہ اپنی تحریر سے پاکستان کو بہتر ملک اور پاکستانی اور مسلمان قوم کو ایک بہتر اور متحد قوم کی صورت میں دیکھنے کی خواہش کی۔ ان میں ایک فکر جگانے کی کوشش کی، 7 مارچ 2013 کو اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ انھوں نے تقریباً چھیاسی برس کی عمر پائی، اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔

چراغ بجھتے چلے جا رہے ہیں سلسلہ وار
میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں