ڈونلڈ ٹرمپ کا چینل
ہم ٹرمپ صاحب کی آسانی کے لیے اس مجوزہ ٹی وی چینل کا نام ‘‘ٹیبل نیوز نیٹ ورک‘‘ تجویز کیے دیتے ہیں۔
کسی کو بگاڑ کی تصویر دیکھنا ہو تو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو دیکھ لے۔
ایک مشہور مصرعہ ذرا سے ردوبدل کرکے پڑھا جائے تو ان پر پوری طرح چسپاں ہوتا ہے ''دہن بگڑا تو بگڑا تھا، خبر لیجے زباں بگڑی۔'' اپنی زبان کی طرح وہ ہر ایک سے بگڑے رہتے ہیں، اہلیہ سے میڈیا تک ان کی کسی سے نہیں بنتی۔ حال ہی میں اپنی پریس کانفرنس کے دوران سی این این کے مخفف سے مشہور کیبل نیوز نیٹ ورک کے رپورٹر جِم اکوسٹا کے سوال پر برہم ہوگئے۔
سی این این پر تو وہ پہلے ہی غصے میں ہیں اس واقعے کے بعد ان کی خفگی مزید بڑھ گئی ہے، سو انھوں نے تجویز پیش کی ہے کہ سی این این کے مقابلے میں ایک نیا نیوز نیٹ ورک قائم کیا جانا چاہیے جس کا مقصد بیرون ملک دنیا بھر کے ناظرین کے سامنے امریکا کی خبروں اور واقعات کو مناسب صورت میں پیش کرنا ہو۔ اپنے ایک ٹوئیٹ میں ٹرمپ نے مجوزہ چینل کے قیام کا مقصد دنیا میں امریکا کی عظمت کا اظہار قرار دیا ہے۔
ظاہر ہے مجوزہ چینل خبروں اور واقعات کی جو ''مناسب صورت'' خبر یا تجزیے کی صورت پیش کرے گا وہ کچھ یوں ہوں گی ''شام میں امریکی بم باری سے ایک دہشت گرد ہلاک۔۔۔اس موقع پر پچاس عام شہری بھی موجود تھے، جو اتفاق سے مارے گئے''،''افغانستان سے روز بائیس امریکی فوجیوں کی واپسی، وہ وطن واپسی کی خوشی میں شادیٔ مرگ کا شکار ہوکر چل بسے، اس لیے تابوت میں لائے جارہے ہیں''،''افغانستان سے واپس آنے والے فوجی کسی اور وجہ سے نہیں طالبان کے خلاف امریکا کی فتح کی خوشی کو سہار نہ پانے کے باعث نفسیاتی مریض ہورہے ہیں۔''
ہم ٹرمپ صاحب کی آسانی کے لیے اس مجوزہ ٹی وی چینل کا نام ''ٹیبل نیوز نیٹ ورک'' تجویز کیے دیتے ہیں، کیوں کہ ایک تو یہ صدر ٹرمپ کی ٹیبل سے چلایا جائے گا دوسرے اس پر ''ٹیبل اسٹوریز'' ہی چلیں گی۔
جانے امریکی صدر کو سی این این سے مقابلے کے لیے کسی نئے چینل کے قیام کا خیال کیوں آیا، صحافت اور صحافیوں کو قابو میں کرنے کے لیے وہ اپنے قریبی دوست شہزادہ محمد بن سلمان سے بھی پوچھ سکتے تھے کہ ''پائی جان! تُسی دَسو کی کرنا اے'' جس پر سعودی ولی عہد مسکرا کر جواب دیتے ''بس ایک دو صحافیوں کو ہمارے سفارت خانے بھیج دو۔'' یوں آزاد اور تنقید کرتی صحافت ٹھکانے لگانے کا کام بہ آسانی کیا جاسکتا ہے۔
ویسے خبروں اور صحافت کو مناسب یا من مانی صورت دینے کے اس سے کہیں زیادہ معقول اور مہذب طریقے بعض ممالک میں رائج ہیں، جنھیں آزمایا جائے تو سی این این کیبل کے ذریعے دیکھے جانے والے ہر ٹی وی پر سویں یا ایک سو دسویں نمبر پر چلا جائے گا، اور ڈھونڈنے والے اُسے ڈھونڈتے ہی رہ جائیں گے چراغِ رُخِ زیبا لے کر، اینکر ٹرمپ صاحب کی سیرت اور صورت کی یوں تعریف کریں گے کہ وہ مدرٹریسا اور ٹام کروز لگنے لگیں گے، تجزیہ کار ان کی حمایت میں یوں گُل فشانی کریں گے اور ان کی ستائش میں ایسے ایسے نُکتے لائیں گے کہ ٹرمپ شرمندہ ہوکر کہہ اٹھیں گے۔۔۔جانے نہ جانے گُل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔
ایک مشہور مصرعہ ذرا سے ردوبدل کرکے پڑھا جائے تو ان پر پوری طرح چسپاں ہوتا ہے ''دہن بگڑا تو بگڑا تھا، خبر لیجے زباں بگڑی۔'' اپنی زبان کی طرح وہ ہر ایک سے بگڑے رہتے ہیں، اہلیہ سے میڈیا تک ان کی کسی سے نہیں بنتی۔ حال ہی میں اپنی پریس کانفرنس کے دوران سی این این کے مخفف سے مشہور کیبل نیوز نیٹ ورک کے رپورٹر جِم اکوسٹا کے سوال پر برہم ہوگئے۔
سی این این پر تو وہ پہلے ہی غصے میں ہیں اس واقعے کے بعد ان کی خفگی مزید بڑھ گئی ہے، سو انھوں نے تجویز پیش کی ہے کہ سی این این کے مقابلے میں ایک نیا نیوز نیٹ ورک قائم کیا جانا چاہیے جس کا مقصد بیرون ملک دنیا بھر کے ناظرین کے سامنے امریکا کی خبروں اور واقعات کو مناسب صورت میں پیش کرنا ہو۔ اپنے ایک ٹوئیٹ میں ٹرمپ نے مجوزہ چینل کے قیام کا مقصد دنیا میں امریکا کی عظمت کا اظہار قرار دیا ہے۔
ظاہر ہے مجوزہ چینل خبروں اور واقعات کی جو ''مناسب صورت'' خبر یا تجزیے کی صورت پیش کرے گا وہ کچھ یوں ہوں گی ''شام میں امریکی بم باری سے ایک دہشت گرد ہلاک۔۔۔اس موقع پر پچاس عام شہری بھی موجود تھے، جو اتفاق سے مارے گئے''،''افغانستان سے روز بائیس امریکی فوجیوں کی واپسی، وہ وطن واپسی کی خوشی میں شادیٔ مرگ کا شکار ہوکر چل بسے، اس لیے تابوت میں لائے جارہے ہیں''،''افغانستان سے واپس آنے والے فوجی کسی اور وجہ سے نہیں طالبان کے خلاف امریکا کی فتح کی خوشی کو سہار نہ پانے کے باعث نفسیاتی مریض ہورہے ہیں۔''
ہم ٹرمپ صاحب کی آسانی کے لیے اس مجوزہ ٹی وی چینل کا نام ''ٹیبل نیوز نیٹ ورک'' تجویز کیے دیتے ہیں، کیوں کہ ایک تو یہ صدر ٹرمپ کی ٹیبل سے چلایا جائے گا دوسرے اس پر ''ٹیبل اسٹوریز'' ہی چلیں گی۔
جانے امریکی صدر کو سی این این سے مقابلے کے لیے کسی نئے چینل کے قیام کا خیال کیوں آیا، صحافت اور صحافیوں کو قابو میں کرنے کے لیے وہ اپنے قریبی دوست شہزادہ محمد بن سلمان سے بھی پوچھ سکتے تھے کہ ''پائی جان! تُسی دَسو کی کرنا اے'' جس پر سعودی ولی عہد مسکرا کر جواب دیتے ''بس ایک دو صحافیوں کو ہمارے سفارت خانے بھیج دو۔'' یوں آزاد اور تنقید کرتی صحافت ٹھکانے لگانے کا کام بہ آسانی کیا جاسکتا ہے۔
ویسے خبروں اور صحافت کو مناسب یا من مانی صورت دینے کے اس سے کہیں زیادہ معقول اور مہذب طریقے بعض ممالک میں رائج ہیں، جنھیں آزمایا جائے تو سی این این کیبل کے ذریعے دیکھے جانے والے ہر ٹی وی پر سویں یا ایک سو دسویں نمبر پر چلا جائے گا، اور ڈھونڈنے والے اُسے ڈھونڈتے ہی رہ جائیں گے چراغِ رُخِ زیبا لے کر، اینکر ٹرمپ صاحب کی سیرت اور صورت کی یوں تعریف کریں گے کہ وہ مدرٹریسا اور ٹام کروز لگنے لگیں گے، تجزیہ کار ان کی حمایت میں یوں گُل فشانی کریں گے اور ان کی ستائش میں ایسے ایسے نُکتے لائیں گے کہ ٹرمپ شرمندہ ہوکر کہہ اٹھیں گے۔۔۔جانے نہ جانے گُل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔