اب ہم سمجھے اُن کو اِتناغصہ کیوں ہے
غصے کے باعث ناک کا عبرت ناک انجام اپنی جگہ، مگر سوال یہ ہے کہ یہ ڈھیروں کے حساب سے غصہ آتا کیوں ہے؟
بعض لوگوں کے غصہ ناک پر دَھرا رہتا ہے، چناں چہ ذرا سی بات پر ان کے نتھنے پھولنے پچکنے لگتے ہیں۔
اب غصہ کیوں کہ ناک پر دھرا ہوتا ہے اور ناک بے چاری تو معصوم سا چشمہ بہ مشکل سنبھال پاتی ہے، یہ سُتواں عضو اتنا غصہ کیسے روک سکتا ہے، سو غصہ پھسل کر فوراً ہونٹوں پر آجاتا ہے، پھر حماقت سے شروع ہونے والا یہ معاملہ اکثر ندامت پر ختم ہوتا ہے، مگر اس سب میں غصے سے دہکتی آنکھوں، سُرخ رخساروں، آگ اُگلتے ہونٹوں، گھونسے مارتے ہاتھوں اور لاتیں بنی ٹانگوں کا کچھ بگڑے نہ بگڑے، بے چاری ناک ضرور کٹ جاتی ہے۔ لو جی، وہ شاخ ہی نہ رہی جس پہ (غصے کا) آشیانہ تھا۔
غصے کے باعث ناک کا عبرت ناک انجام اپنی جگہ، مگر سوال یہ ہے کہ یہ ڈھیروں کے حساب سے غصہ آتا کیوں ہے؟ حال ہی میں امریکی محققین نے اس کا سبب نیند میں کمی کو بتایا ہے۔ ایک خبر کے مطابق امریکا کی آئیووا اسٹیٹ یونیورسٹی کی تحقیق میں پہلی بار نیند کی کمی اور چڑچڑے پن کے درمیان براہ راست تعلق کو دریافت کیا گیا۔ ایسے شواہد پہلے ہی سامنے آچکے ہیں کہ نیند کی کمی ذہنی بے چینی اور اداسی کو بدترین بنادیتی ہے جب کہ خوشی اور جوش و خروش ختم کردیتی ہے۔ اس تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ نیند میں صرف دو گھنٹے کمی انسان کو چِِڑچِڑا اور مشتعل مزاج بنادیتی ہے۔
اس تحقیق کی خبر پڑھتے ہوئے ہمیں اپنے غصے سے بھرے حکم راں یاد آگئے، ہم اکثر سوچتے تھے کہ ان میں اتنا غصہ کیوں ہے بھئی؟ اس تحقیق سے پہلے حکم رانوں کی یہ اطلاع نظر سے گزری تھی کہ ''ہم مصروف تھے''، لیجیے کڑی سے کڑی مل گئی۔ چوں کہ حکم راں دن رات مصروف تھے، اس لیے ان کی نیند پوری نہیں ہورہی ہوگی، بلکہ ہمارے خیال میں مصروفیات اُن کے سر پر یوں سوار تھیں کہ وہ سوتے ہوئے بھی بے چینی کی حالت میں کروٹوں کے یوٹرن لیتے رہے۔
سوچا ہوگا جس طرح لوگ گھوڑے بیچ کے سوتے ہیں، اسی طرح ہم بھینسیں بیچ کے سکون سے سوجائیں گے، لیکن عقل کی طرح مسائل بھی بھینس سے بڑے نکلے، اس لیے سونے کی فرصت کم ہی مل پائی۔ نیند کی کمی غصے کی زیادتی کی شکل میں ظاہر ہوئی، بس پھر کیا تھا مصروف حضرات میں سے کسی نے کسی شہری کو تھپڑ جَِڑ دیا، تو کوئی فون نہ اٹھانے پر پولیس افسر کے پیچھے پڑگیا، اور ایک غصے سے بھرے وزیر اپنی جلالی کیفیت کا مظاہرہ ایوانوں میں کرتے رہے۔
ہمارا مشورہ ہے کہ حکومت اپنے وزراء کی برہمی کم کرنے کے لیے ان کی نیند پوری کرنے کا سامان کرے۔ اس مقصد کے لیے وزارت سُلائی قائم کی جائے، جس کا وزیر کسی ''ماتا سمان'' بزرگ خاتون کو مقرر کیا جائے۔ یہ خاتون وزیروں مشیروں کی مصنوعی امی بنی انھیں ٹھیک رات کے نو بجے ''چلیے، اب آپ سب اچھے بچوں کی طرح سوجائیں'' کہہ کر بستر پر بھیج دیں اور ضرورت ہو تو انھیں لوری دے کر سُلائیں۔ ان وزیروں مشیروں کے لیے یہ لوری مناسب رہے گی، جسے سُنتے ہی وہ نیند کی وادیوں میں کھوجائیں گے:
نندیا پری تو جلدی سے آجا
گُڈے کو میرے آکے سُلا جا
تبدیلی کے سپنے دکھا جا
سپنوں میں ڈالر کو گرا جا
روپے میاں کی قدر بڑھا جا
لوگوں کو نوکری پہ لگا جا
لاکھوں گھروں کی بِنا اُٹھا جا
نیا پاکستان بنا جا
اوں اوں اوں اوں اوں اوں اوں اوں
اناں اناں اناں اناں
اب غصہ کیوں کہ ناک پر دھرا ہوتا ہے اور ناک بے چاری تو معصوم سا چشمہ بہ مشکل سنبھال پاتی ہے، یہ سُتواں عضو اتنا غصہ کیسے روک سکتا ہے، سو غصہ پھسل کر فوراً ہونٹوں پر آجاتا ہے، پھر حماقت سے شروع ہونے والا یہ معاملہ اکثر ندامت پر ختم ہوتا ہے، مگر اس سب میں غصے سے دہکتی آنکھوں، سُرخ رخساروں، آگ اُگلتے ہونٹوں، گھونسے مارتے ہاتھوں اور لاتیں بنی ٹانگوں کا کچھ بگڑے نہ بگڑے، بے چاری ناک ضرور کٹ جاتی ہے۔ لو جی، وہ شاخ ہی نہ رہی جس پہ (غصے کا) آشیانہ تھا۔
غصے کے باعث ناک کا عبرت ناک انجام اپنی جگہ، مگر سوال یہ ہے کہ یہ ڈھیروں کے حساب سے غصہ آتا کیوں ہے؟ حال ہی میں امریکی محققین نے اس کا سبب نیند میں کمی کو بتایا ہے۔ ایک خبر کے مطابق امریکا کی آئیووا اسٹیٹ یونیورسٹی کی تحقیق میں پہلی بار نیند کی کمی اور چڑچڑے پن کے درمیان براہ راست تعلق کو دریافت کیا گیا۔ ایسے شواہد پہلے ہی سامنے آچکے ہیں کہ نیند کی کمی ذہنی بے چینی اور اداسی کو بدترین بنادیتی ہے جب کہ خوشی اور جوش و خروش ختم کردیتی ہے۔ اس تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ نیند میں صرف دو گھنٹے کمی انسان کو چِِڑچِڑا اور مشتعل مزاج بنادیتی ہے۔
اس تحقیق کی خبر پڑھتے ہوئے ہمیں اپنے غصے سے بھرے حکم راں یاد آگئے، ہم اکثر سوچتے تھے کہ ان میں اتنا غصہ کیوں ہے بھئی؟ اس تحقیق سے پہلے حکم رانوں کی یہ اطلاع نظر سے گزری تھی کہ ''ہم مصروف تھے''، لیجیے کڑی سے کڑی مل گئی۔ چوں کہ حکم راں دن رات مصروف تھے، اس لیے ان کی نیند پوری نہیں ہورہی ہوگی، بلکہ ہمارے خیال میں مصروفیات اُن کے سر پر یوں سوار تھیں کہ وہ سوتے ہوئے بھی بے چینی کی حالت میں کروٹوں کے یوٹرن لیتے رہے۔
سوچا ہوگا جس طرح لوگ گھوڑے بیچ کے سوتے ہیں، اسی طرح ہم بھینسیں بیچ کے سکون سے سوجائیں گے، لیکن عقل کی طرح مسائل بھی بھینس سے بڑے نکلے، اس لیے سونے کی فرصت کم ہی مل پائی۔ نیند کی کمی غصے کی زیادتی کی شکل میں ظاہر ہوئی، بس پھر کیا تھا مصروف حضرات میں سے کسی نے کسی شہری کو تھپڑ جَِڑ دیا، تو کوئی فون نہ اٹھانے پر پولیس افسر کے پیچھے پڑگیا، اور ایک غصے سے بھرے وزیر اپنی جلالی کیفیت کا مظاہرہ ایوانوں میں کرتے رہے۔
ہمارا مشورہ ہے کہ حکومت اپنے وزراء کی برہمی کم کرنے کے لیے ان کی نیند پوری کرنے کا سامان کرے۔ اس مقصد کے لیے وزارت سُلائی قائم کی جائے، جس کا وزیر کسی ''ماتا سمان'' بزرگ خاتون کو مقرر کیا جائے۔ یہ خاتون وزیروں مشیروں کی مصنوعی امی بنی انھیں ٹھیک رات کے نو بجے ''چلیے، اب آپ سب اچھے بچوں کی طرح سوجائیں'' کہہ کر بستر پر بھیج دیں اور ضرورت ہو تو انھیں لوری دے کر سُلائیں۔ ان وزیروں مشیروں کے لیے یہ لوری مناسب رہے گی، جسے سُنتے ہی وہ نیند کی وادیوں میں کھوجائیں گے:
نندیا پری تو جلدی سے آجا
گُڈے کو میرے آکے سُلا جا
تبدیلی کے سپنے دکھا جا
سپنوں میں ڈالر کو گرا جا
روپے میاں کی قدر بڑھا جا
لوگوں کو نوکری پہ لگا جا
لاکھوں گھروں کی بِنا اُٹھا جا
نیا پاکستان بنا جا
اوں اوں اوں اوں اوں اوں اوں اوں
اناں اناں اناں اناں