’اقبال‘ حرفِ نعت اور تشکیلِ افکار

اقبال سے پہلے اردو کی شعری روایت دراصل غزل کی روایت ہے۔

اقبال سے پہلے اردو کی شعری روایت دراصل غزل کی روایت ہے۔ فوٹو: فائل

(دوسرا حصہ)

عقل و عشق، خودی و خود آگاہی، حیات و مرگ، فنا و بقا، اجتہاد و انقلاب اور عروج و زوال سے لے کر اقبال کے عہد تک کے فکری، سیاسی، سماجی اور معاشی تصورات و نظریات جیسے مابعدالطبیعیات، سوشلزم، سیکولرزم اور جمہوریت تک آپ جس زاویے سے چاہے دیکھ لیجیے، اُن کی دانش و بینش کا تقریباً سارا نمایاں منظرنامہ اور اُن کے افکار و تصورات کا دائرہ جس سرچشمے سے روشنی حاصل کرتا ہوا نظر آتا ہے، وہ آپ ا کی ذاتِ گرامی ہے۔ لہٰذا مطالعے کے لیے فکر و شعور اور جذبہ و احساس کا جو رُخ بھی سامنے رکھا جائے، سخنِ اقبال پر اسی سرچشمے کی چھوٹ پڑتی دکھائی دیتی ہے۔ اب اگر اس لحاظ سے غور کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ نعت گو شعرا میں اقبال کا مقام کس قدر بلند اور کتنا منفرد ہے۔

وہ لوگ جو شعروفکرِاقبال کا مطالعہ نعت کی جہت سے کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے یا پھر کسی بھی اور وجہ سے ایسا نہیں کرنا چاہتے، انھیں اس نکتے کو تسلیم کرنے میں تأمل ہوسکتا ہے اور ان کی طرف سے اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ یہ دعویٰ بے محل ہے۔ اس لیے کہ اقبال کا تو نعت گو شعرا میں شمار ہی نہیں ہوتا، اور ہو بھی کیسے سکتا ہے کہ جب انھوں نے باضابطہ نعت کہی ہی نہیں۔ اب اگر بات رسمی اندازِنعت کی ہے تو یہ رائے بالکل درست ہے۔ اقبال نے واقعی اُس مزاج اور اسلوب کی نعت نہیں کہی جو عام طور سے ہمارے یہاں رائج ہے اور جس سے عامۃ الناس خوب مانوس ہیں۔ یہ اردو نعت کی عوامی روایت ہے۔ یقیناً اس کے اپنے کچھ موضوعات و مضامین ہیں۔ اسی طرح اس کا اپنا ایک پیٹرن اور ڈکشن بھی ہے۔ عوامی حلقوں میں مروّج اس نعت کے مضامین، موضوعات، طرزِ اظہار اور اسلوبِ بیاں میں عقیدے اور عقیدت کو نسبتاً فوقیت حاصل ہے۔ ظاہر ہے، یہ عوامی مزاج کا معاملہ ہے۔

تاہم دیکھا جائے تو یہ مزاج صرف اور صرف اردو اور مسلمانوں سے مخصوص بھی نہیں ہے۔ دوسری زبانوں میں بھی عوامی نعت کا رنگ و آہنگ یہی ملتا ہے۔ علاوہ ازیں حضرت یحییٰ، حضرت مریم اور حضرت عیسیٰؑ کے لیے محبت و عقیدت سے لکھی گئی نظموں کا بھی کچھ ایسا ہی مزاج نظر آتا ہے۔ یہی نہیں، بلکہ دنیا کی قدیم تہذیبوں، مثلاً چینی یا ہندی تہذیب میں بھی اگر دیکھیے تو ایسے ہی رنگ و اسلوب کی مذہبی شاعری ملے گی، جس میں اوتاروں سے عقیدت و محبت کا اظہار اسی انداز سے کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ یہ معاملہ کسی مذہب، قوم یا خطے سے مخصوص نہیں ہے۔ تہذیبوں اور اقوامِ عالم کی تاریخ ہر تفریق سے بالاتر ہوکر عوامی عقیدت کو اسی رنگ میں ابھارتی نظر آتی ہے۔

بایں ہمہ یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ عربی اور فارسی کی طرح اردو میں بھی فکری و فنی دبازت رکھنے والی نعت کی ایک مستحکم اور مہتم بالشان روایت موجود ہے۔ یہاں موضوعات کا دائرہ قدرے وسیع ہوجاتا ہے جس میں مذہبی افکار، کونیاتی امور اور مابعد الطبیعیاتی عناصر ملتے ہیں۔ ساتھ ہی لہجہ اور اسلوب بھی بدلا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ دنیا کے دوسری زبان و ادب کے قارئین کی طرح اردو میں بھی فکری جہت والے نعتیہ ادب کے قارئین ذرا مختلف ہوتے ہیں۔ اب رہا معاملہ اقبال کا تو واقعہ یہ ہے کہ اردو نعت کی شعری تہذیب میں بھی وہ اُسی طرح انفرادیت کے حامل ہیں جیسے اردو شاعری کی روایت میں۔ ''بالِ جبریل'' اور ''ضربِ کلیم'' میں تو یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے، لیکن خود ان کے پہلے مجموعے کا مطالعہ بھی ذرا توجہ سے کیا جائے تو وہ بجائے خود اقبال کی انفرادیت کا اوّلین نقش نظر آتا ہے۔

یہ ٹھیک ہے کہ ''بانگِ درا'' کی کچھ نظمیں یا آپ کہہ لیجیے، اس کا ایک حصہ اسی جدید نظم کا تسلسل محسوس ہوتا ہے جس کی طرح حالی اور آزاد نے ڈالی تھی۔ تاہم اس کتاب کا ایک وقیع حصہ قطعی طور پر مختلف ہے۔ یہاں اقبال کی انفرادیت کا واضح طور پر احساس ہوتا ہے، صرف موضوع کی حد تک نہیں، بلکہ طرزِسخن، کنایات، اشارات، استعارات، تشبیہات، تلمیحات اور علامات تک آپ کو بہت کچھ ایسا ملے گا جو یہ بات قطعی طور پر ثابت کردے گا کہ اقبال کا کلام ایک الگ شے ہے اور اسے اُس طرح پڑھا ہی نہیں جاسکتا جس طرح ہم اس سے پہلے اپنی شاعری کو پڑھتے رہے ہیں۔ اس کے بعد ''بالِ جبریل''، ''ضربِ کلیم'' اور ''ارمغانِ حجاز'' کی شاعری کو دیکھ لیجیے اور غور کیجیے کہ اس کا اردو کی شعری روایت سے کیا تعلق ہے۔

اقبال سے پہلے اردو کی شعری روایت دراصل غزل کی روایت ہے، اور یہ اتنی توانا اور ایسی مستحکم روایت ہے کہ اس نے ہند اسلامی تہذیب اور ثقافتی مظاہر کی صورت گری میں بھی ایک کردار ادا کیا ہے۔ تاہم اقبال کے یہاں دیکھا جاسکتا ہے کہ غزل کا قوام ہی بدل گیا ہے۔ ''بالِ جبریل'' کی غزلیں پڑھ کر غور کیجیے کہ وہ اپنے مزاج، رنگ، اسلوب، آہنگ، موضوعات اور کیفیات میں اردو غزل کی روایت سے کیا علاقہ رکھتی ہیں۔

اسی طرح ''شکوہ''، ''جوابِ شکوہ''، ''مسجدِ قرطبہ''، ''ذوق و شوق'' اور ''ساقی نامہ'' جیسی نظموں کو دیکھ کر فیصلہ کیجیے کہ ہماری شعری روایت کے تسلسل میں یہ نظمیں کس طرح دیکھی جاسکتی ہیں۔ بعینہٖ معاملہ اقبال کی نعت کا بھی ہے۔ یہ اردو نعت کی عوامی روایت سے کوئی علاقہ نہیں رکھتی۔ یہ اس روایت کا حصہ ہے جو مابعدالطبیعیاتی اور فکری تصورات کو معرضِ بیاں میں لاتی ہے۔ تاہم اپنے موضوعات، یعنی فکری content اور اپنے اسلوب و آہنگ، یعنی جمالیاتی اظہار میں مکمل طور سے اپنی انفرادیت کا ثبوت دیتی ہے۔ شعرِ اقبال کا یہ دریچہ جس سمت میں کھلتا ہے، اس کا منظرنامہ تمام تر اقبال ہی سے موسوم ہے۔ بات کی وضاحت کے لیے محض چند اشعار دیکھیے:

لوح بھی تو قلم بھی تو ، تیرا وجود الکتاب

گنبدِ آبگینہ رنگ ، تیرے محیط میں حباب

عالمِ آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ

ذرّۂ ریگ کو دیا تو نے طلوعِ آفتاب

شوکتِ سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود

فقرِ جنید و بایزید تیرا جمال بے نقاب


شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام

میرا قیام بھی حجاب میرا سجود بھی حجاب

تیری نگاہِ ناز سے دونوں مراد پاگئے

عقل غیاب و جستجو ، عشق حضور و اضطراب

حقیقت یہ ہے کہ صرف یہی چند اشعار بھی اقبال کی نعت کے فکری تناظر اور اسلوبیاتی مزاج کو سمجھنے کے لیے کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ کسی فن کار کی بنیادی تفہیم یا اُس کے فکر و فن کی نادرہ کاری اور بلندی سے عمومی آگہی کے لیے اُس کا ہر فن پارہ سامنے رکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ ہی اُس کی تمام جہات کا بہ نگاہِ غائر تجزیہ درکار ہوتا ہے۔ دیکھا بس یہ جاتا ہے کہ اپنے فن کی اعلیٰ ترین سطح پر وہ کن فکری مسائل سے سروکار رکھتا ہے اور دقیق ترین سوالات کی جستجو کرتے ہوئے وہ فنی اور شعری جمالیات کے کن معیارات کا حامل ہوتا ہے۔

اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اقبال کی یہ نعت صرف اُن کے شعری حاصلات ہی کا نہیں، بلکہ اردو کے بہترین نعتیہ ادب کا بھی ایک نادر نمونہ ہے۔ ایک ایسی بلند پایہ مثال جس میں شاعر کا فن ہی درجۂ کمال کو نہیں پہنچا، بلکہ فکری سطح پر دینی روایت اور تہذیبی نشانات بھی اپنی اعلیٰ ترین صورتوں کے ساتھ اس میں ظہور کرتے ہیں۔ اقبال کی نعت نے یہ آواز، یہ لہجہ، یہ آہنگ، یہ فکر، یہ شعور، یہ اسلوب اور یہ جمالیات کس طرح حاصل کی ہے، اس پر ہم ذرا بعد میں بات کرتے ہیں، اس سے پہلے ایک اور نکتے کو دیکھ لیتے ہیں۔

اقبال جیسے ایک بڑے شاعر کا مقام و مرتبہ اور اُس کے فن کی قدرومنزلت کا تعین اُن تصورات کی تشکیل اور سوالات کے جوابات پر منحصر ہوتا ہے جو اِس جہانِ رنگ و بو میں انسان کی حیثیت اور کائنات اور خالقِ کائنات سے اُس کے رشتے کی بابت تخلیقی سطح پر اس کے یہاں اظہار پاتے ہیں۔ یہ سوالات اُس شاعر کے یہاں انسانی وجود اور اس کی روح کے رشتے، کائنات میں اس کی زندگی کی معنویت اور اس کی تقدیر کی نوعیت اور حقیقت کا تعین کرتے ہیں۔ چوںکہ ہر بڑا شاعر اپنا ایک تہذیبی سیاق رکھتا ہے، اس لیے اُس کے فن کی صورت گری کرنے والے تصورات و سوالات اسی سیاق میں مرتب ہوتے ہیں۔ اس کے عہد تک تہذیب کے سفر، اسے پیش آنے والے حالات اور آئندہ کے امکانات کا نقشہ بھی اسی سیاق میں ترتیب پاتا اور اسی سے اپنے لیے معنی اخذ کرتا ہے۔ یہی نہیں، بلکہ اسی معنویت کے تناظر میں شاعر کے پیش کردہ تصورات و سوالات اس کی تہذیب کو ایک نئے تاریخی تناظر میں استحکام فراہم کرتے ہیں اور اس کی اقدار کے فروغ کا ذریعہ بنتے ہیں۔

بادی النظر میں ان تصورات اور سوالات کا متن شاعر کے تخلیقی بیانیے میں سامنے آتا ہے، یعنی وہ بہ ظاہر انفرادی شعور و احساس کا زائیدہ ہوتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ساری انفرادیت کے باوجود بڑے شاعر کی آواز کو محض ایک ذاتی یا شخصی کلامیہ نہیں سمجھنا چاہیے، بلکہ اُس کے تخلیقی بیانیے کے پس منظر میں روحِ عصر اور تہذیبی ضمیر کی گونج بھی لازماً موجود ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ جن تصورات کی تشکیل اور جن سوالات کے جوابات کی جستجو کرتا ہے، وہ دراصل اُس کی تہذیب کی فی نفسہٖ نقش گری کا وہ عمل ہے جو ایک زمانی دائرے میں اُس کے لیے سامانِ بقا کی صورت میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔

بنیادی اصولوں، معیارات، حقائق اور ضوابط کے حوالے سے تو بے شک تبدل کا کوئی نشان نہیں ابھرتا، لیکن دیکھا گیا ہے کہ تہذیبوں پر گزرنے والے مختلف زمانوں میں یہ عمل نہ صرف یہ کہ اپنی بقا کے مختلف مراحل میں صوری و معنوی تغیرات سے ہم کنار ہوتا رہتا ہے، بلکہ زمانے کی تبدیلی کے ساتھ اس کا لحن، اسلوب اور منہاج بھی کسی حد تک بدل جاتا ہے۔ اس حقیقت کا مشاہدہ و مطالعہ فارسی شاعری میں سعدی، رومی، جامی، عراقی اور حافظ کے کلام میں اور اُدھر انگریزی میں چوسر، شیکسپیئر، ملٹن، جون ڈن، ورڈز ورتھ، بائرن، ییٹس، براؤننگ اور ایلیٹ وغیرہم کے تخلیقی بیانیے میں صراحت سے کیا جاسکتا ہے۔ اس نوع کے مطالعے کے لیے اردو کی ایسی ہائر آرکی میں جن شاعروں کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے گا ان میں اب تک آخری بڑا شاعر اقبال ہے۔

اب یوں تو اصول کی بات یہ ہے کہ ایک بڑے شاعر کا مطالعہ کرتے ہوئے ذہن کو کشادہ اور غیرمتعصب رکھنا ضروری ہوتا ہے، تاکہ اُس کے خیالات یا نکاتِ سخن ذرا سہولت کے ساتھ اور وسیع تناظر میں روشن ہوسکیں، لیکن اقبال کے سلسلے میں یہ ضرورت کچھ سوا ہوجاتی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اقبال کے ساتھ پہلے ہی سے بہت سے سابقے اور لاحقے جوڑ لیے گئے ہیں، مثلاً حکیم الامت، شاعرِ مشرق، مصورِ قوم، روایت و تہذیب کا نقیب، انسانی اقدار کا علم بردار، مفکرِ اسلام، ترجمانِ حقیقت، مردِ خود آگاہ، پیامبرِ حیات وغیرہ۔ اِدھر آپ اقبال کا نام لیجیے، اور اُدھر یہ سابقے لاحقے آپ کے ذہن میں آنے لگتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اقبال کا ذکر کرتے ہوئے ہماری تنقید نے ان سب کو اس طرح اور اتنی بار دُہرایا ہے کہ اب یہ اُن کے ساتھ پیوست ہو کر رہ گئے ہیں۔ بات صرف یہاں بھی ختم نہیں ہوتی۔

مسئلہ اس کے بعد یہ پیش آتا ہے کہ ان عنوانات کے تحت اقبال پر جو مطالعات مرتب کیے جاتے ہیں، وہ حتمی اور فیصلہ کن بیانات سے لبالب چھلکتے ہوئے ملتے ہیں اور ساتھ ہی ان میں حوالوں اور مثالوں کا انبار بھی ہوتا ہے۔ بار بار کے دیے گئے حوالوں اور دہرائی گئی مثالوں کو ان کے معروف اور مروّجہ سیاق و سباق سے نکال کر نئے تناظر میں رکھنا اور نئی جہت اور نئے مفہوم کا تعین کرنا سہل نہیں ہوتا، لیکن اگر آپ اقبال جیسے شاعر کو معمول کے ڈھرے سے ہٹ کر دیکھنا، پڑھنا اور سمجھنا چاہتے ہیں تو اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں کہ آپ اپنا context خود بنائیں اور اس کے توسط سے مطالعے کا نیا پیراڈائم قائم کریں۔

وہ عنوانات اور حوالے جن کا ذکر سطورِ گزشتہ میں کیا گیا، مطالعۂ اقبال کے ضمن میں اپنی ایک اہمیت رکھتے ہیں۔ تاہم اگر کچھ اور پہلوؤں کو بھی ہم پیشِ نظر رکھیں تو اپنے مؤقف کو زیادہ محکم طور پر سامنے لاسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اقبال کے سیاسی تصورات کو دیکھ لیجیے۔ ویسے تو اس موضوع پر اتنا کام نہیں ہوا جتنا فکرِ اقبال کے دوسرے عنوانات پر ہوا ہے، اس کی اہم ترین وجہ یہ ہے کہ خود اقبال نے بھی اپنے سیاسی افکار کسی تصنیف، رسالے یا خطبے کی صورت میں یک جا اور جامعیت کے ساتھ پیش نہیں کیے ہیں۔

تاہم اُن کے یہاں نظم و نثر میں یہ موضوع بار بار ابھرتا ضرور رہا ہے۔ ظاہر ہے، اس کا سبب فرد سے لے کر عالمی سطح تک انسانی زندگی کا وہ منظرنامہ تھا جس میں اقبال کے شعور نے آنکھ کھولی اور حالات و حقائق کا مشاہدہ کیا۔ اقبال کی امنگوں کا مرکز مشرق تھا، لیکن اُس کا زوال بہت پہلے شروع ہوچکا تھا۔ مغرب کی برتری ہر میدان میں تسلیم کی جاچکی تھی۔ چناںچہ ہمارے یہاں اقبال کے سیاسی تصورات کا مطالعہ مغربی افکار کی روشنی میں کرنے کا رُجحان عام رہا ہے۔ افلاطون، ارسطو، کانٹ اور ہابز وغیرہم کے تناظر میں اقبال کے سیاسی نظریات کو دیکھنے اور سمجھنے کی جو کوششیں کی گئی ہیں، وہ تمام تر بے مصرف تو چلیے نہیں ہیں، لیکن ان کے ساتھ، بلکہ اُن کے مقابلے میں اگر ہم غزالی، رازی اور ابنِ خلدون اور سب سے بڑھ کر قرآن و سنت کے تناظر میں اقبال کے سیاسی تصورات اور رجحانات کا جائزہ لیں تو کہیں بہتر سطح کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ اندازِ نظر اور طریقِ کار اقبال کی سیاسی فکر کو اس کے ملی اور قومی سروکار کے ساتھ صراحت سے اجاگر کرسکتا ہے۔

(جاری ہے)
Load Next Story