چینی محکمہ ڈاک دور دراز علاقوں تک ڈاک پہنچانے کیلیے ڈرون استعمال کرتا ہے

چین میں فیس بک‘ وائبر اور ٹیوٹر کے بجائے مقامی متبادل ہی استعمال کیے جاتے ہیں‘۔


محمد کریم احمد December 09, 2018
امریکی جی پی ایس کے مقابل چین اپنا بیدو نیوی گیشن نظام استعمال کرتا ہے‘ ایک پاکستانی کے چین میں گزرے روز و شب کا دلچسپ احوال۔ فوٹو: فائل

(قسط نمبرآٹھ )

چین پہنچ کر جس واحد پریشانی نے ہمیں آ گھیرا وہ یہ خبر تھی کہ وہاں عوامی رابطے کی ایپس مثلاً فیس بک، واٹس ایپ، وائبر وغیرہ کے استعمال پر پابندی ہے۔سن کر حیران ہوئے کہ یہاں کیسے گزرے گی اور انٹر نیٹ کے بغیر اہل خانہ اور دوستو ں سے کیسے رابطے میں رہیں گے۔مگر ساتھ ہی سی آر آئی میں موجود ہمارے پیش رو ساتھیوں عبد المجید بلوچ اور ریئس سلیم نے بتایا کہ یہاں پرسب سے زیادہ استعمال ہونے والی ایپ وی چیٹ (WeChat) ہے ۔

اس کو انسٹال کریں اور گھر والوں کو بھی یہ انسٹال کروا دیں تو دو طرفہ روابط بغیر کسی مشکل کے آسان ہو جائیں گے۔ اب چونکہ ہمیں چین میں رہنا تھا تواس لیے اس ایپ کو ڈاون لوڈ کرنے اور اکاونٹ بنانے کا سوچا۔ چونکہ سب کچھ چینی زبان میں تھا تواس لیے اس کوڈاون لوڈ کرنے میں سی آر آئی تامل سروس کے فارن ایکسپرٹ ڈاکٹر منی کندن(Manikandan) نے مدد کی۔ ڈاکٹر منی کندن کو چین میں رہتے ہوئے کم و بیش دو برس ہو چکے تھے۔

اور انہیں چینی زبان بھی آتی تھی۔اس لیے انہوں نے وی چیٹ اکاونٹ بنانے میں مدد کی۔ اب اکاونٹ تو بن گیا مگر چونکہ بعض ہدایات چینی زبان میں تھیں تولاعلمی اور نادانستگی میں کوئی ایسا آپشن منتخب ہو گیا جس سے ہمارا نیا نیا بنا اکاونٹ Hang ہو گیا اور ہماری( میری اور ڈاکٹر منی کندن) کی سر توڑ کوششوں کے باجود اکاونٹ فعال نہ ہوسکا۔ پھر ایک روز ہماری اردو سروس کے چینی ساتھی ین پھنگ شون (Yin Pengxuan)جن کا اردو نام فراز تھا وہ ہمیں ملنے ہمارے فلیٹ پر آئے۔فراز امورِ ٹیکنالوجی میں ماہر تھے۔ہم نے ان سے یہ مدعا بیان کیا کہ ہمارا وی چیٹ اکاونٹ فعال نہیں ہے۔انہوں نے ہمارا موبائل فون تھاما اورپھر ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے مختلف آپشنز استعمال کرتے ہوئے ہمارا اکاونٹ فعال کردیا۔ اور اس دن سے لے کر آج تک یہ فعال ہی چلا آرہا ہے۔ اس پر ہم نے فراز صاحب کا شکریہ ادا کیا ۔ یہ ہمارا وی چیٹ سے ابتدائی تعارف تھا۔

آہستہ آہستہ اس کے اسرار کھلتے چلے گئے۔کھوجنے پر معلو م ہوا کہ وی چیٹ چین کی تیارکردہ ایکApp ہے اور چین بھر میں عوامی سطح پر مقبول ہے۔ اس کا پھنین میں چینی نام وی شن (Weixin) ہے۔چین میں رہتے ہوئے اگر آپ کا وی شن (Weixin) اکاونٹ نہیں تو پھر سمجھ لیں کہ آپکا یہاں رہنا محال ہے۔

کیونکہ چین اور وی چیٹ لازم و ملزوم ہیں۔ مراد ہے کہ آپ چین میں رہتے ہوئے وی چیٹ سے دور ہو ہی نہیں سکتے۔ چین کے معاشرے کی ساخت ایسی ہے کہ وہاں کسی فرد کا اس کے بغیر گزارہ نہیں ہو سکتا۔فراز چونکہ پاس تھے تو ان کی موجودگی سے فائد ہ اٹھاتے ہوئے اُن سے وی چیٹ کے استعمال سے متعلق کئی اسرارو رموز جانے۔طویل قامت فرازنے وی چیٹ کے تاریخی پس منظر کے متعلق بتاتے ہوئے کہا کہ اس کاآغاز Tencent Guanzhou Research Centre میں ایک پراجیکٹ کے طور پر دو ہزار دس میں ہوا۔ اس کا ابتدائی ورژن Zhang Xiaolongنامی چینی ماہرنے تیارکیاتھا اور Tencent کے سی ای او Ma Huatengنے اسے وی شن (Weixin) کا نام دیا۔اس کو دو ہزار گیارہ میں لانچ کیا گیا تھا۔ حکومت چین نے ملک میں E-Commerce مارکیٹ کی ترقی کو بارہویں پنج سالہ ترقیاتی منصوبے میں شامل کیا تھا۔

دو ہزار بارہ میں جب اس کے صارفین کی تعداد سو ملین تک پہنچی تو اس کا نام وی چیٹ(WeChat) رکھ دیا گیا۔ وی چیٹ(WeChat) کے فیچرز بہت ہی مفید اور متنوع ہیں۔ اس میں ٹیکسٹ میسجز، وائس میسجز، ویڈیو کالز، کانفرنسنگ، ویڈیو گیمز، تصاویر اور ویڈیوز کی شیئرنگ ، لوکیشن شیئرنگ، رئیل ٹائم شیئرنگ اور Nearby People ایسے فیچرز اس کی مقبولیت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ رئیل ٹائم لوکیشن شیئرنگ سے ایک ذاتی تجربہ بھی یا د آگیا ۔ بیجینگ میں قیام کے دوران رِن مِن یونیورسٹی کے قریب رہائش پزیر ایک پاکستانی صحافی دوست حسن ارشد سے ایک پلازے میں ملاقات طے پائی۔

انہوں نے آنے میں کافی تاخیر کی۔وہ آتے ہوئے اس پلازے کے قریبی چوک سے سیدھا آنے کے بجائے دائیں طرف مڑ گئے اور غلط سمت کو چل دیے۔ بعد ازاں وی چیٹ رئیل ٹائم لوکیشن شیئرنگ سے وہ بالکل درست سمت میں ہمارے پاس پہنچ گئے۔ٹیکنالوجی کی مدد سے کافی سہولت ہو گئی۔ چین میں رہتے ہوئے غیر ملکی وی چیٹ کا انگلش ورژن استعمال کرتے ہیںمگر پھر بھی اس میں کئی پیغامات چینی زبان میں آتے ہیں۔

جس کے ترجمے کے لیے وی چیٹ میں ٹرانسلیشن کی سہولت موجود ہے۔ مگر چینی زبان میں موصول ہونے والے پیغامات کی انگلش زبان میں ترجمے کو بہت غورسے دیکھنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔کیونکہ وہ کسی فرد کی بجائے ایک سافٹ وئیر کے ذریعے ترجمہ شدہ ہوتے ہیں تو بعض اوقات مفہوم کچھ سے کچھ بن جاتا ہے۔ اگر کامن سینس یا عقل سے کام نہ لیا جائے تو وی چیٹ ترجمے کے حوالے سے ـ۔ایک نقطے نے محرم سے مجر م بنا دیا والی صورتحال کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔وی چیٹ کو تعلیمی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے اورکئی طرح کی تعلیمی سروسزمثلاً چینی اورانگلش زبان سیکھنا وغیرہ بھی وی چیٹ کے ذریعے ہی فراہم کی جاتی ہیں۔

وی چیٹ پر مختلف نوعیت کے اکاونٹس ہیں۔ایک تو فرد کا ذاتی اکاونٹ ہوتا ہے اس کے علاوہ آفیشل اکاونٹس بھی ہوتے ہیں۔ان میں سروس اکاونٹ، سبسکرپشن اکاونٹ اور انٹر پرائز اکاونٹ شامل ہیں۔یہ اکاونٹس مختلف نوعیت کی عوامی سہولیات کی فراہمی کے لیے قائم کیے گیے ہیں۔اس میں ویزہ ، ہسپتالوں میں وزٹ کی پیشگی بکنگ، بجلی کے بلوں کی ادائیگی،ٹریفک کے جرمانوں کی ادائیگی اور اسی نوعیت کی دیگر سروسز شامل ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق وی چیٹ پر آفیشل اکاونٹس کی تعداد دس ملین کے لگ بھگ ہے۔آفیشل اکاونٹس کی تصدیق کے چارجز بھی لاگو ہوتے ہیں۔

سبسکرپشن اکاونٹس میں مختلف کاروباری ، صحافتی ،تعلیمی اور دیگر اداروں کے اکاونٹس ہیں۔ سی آر آئی اردو کا شعرو شاعری کے حوالے سے ایک سبسکرپشن اکاونٹ بھی فعال ہے۔ا س کے علاوہ چین کے صفِ اول کے میڈیا کے اداروں پیپلز ڈیلی، چائنہ ڈیلی، سی جی ٹی این آفیشل کے بھی سبسکرپشن کے اکاونٹس موجود ہیں۔۔ہم بذات خود بیجینگ میں قیام کے دوران نانبائی سے روٹی یا کسی بھی محلے میں واقع سبزی کی دکان سے خریداری کرتے وقت وی چیٹ کے ذریعے ہی ادائیگی کیا کرتے تھے۔

یہ ہے ترقی کامعیار جو چین نے حاصل کیا۔ہمارے ہاں کے معاشرے میں نانبائی اور محلے کے سبزی فروش کو سماجی درجہ بندی میں نچلے درجے پر رکھا جاتا ہے اور ان سے کاروباری ضروریات کے لیے کسی نئی ٹیکنالوجی کے استعمال کی عمومی طور پر توقع نہیں کی جاتی۔مگر یہ کریڈٹ چین کوجاتا ہے کہ اس نے ایسے جامع اور مربوط انداز میں ترقی کی ہے کہ اس کے ثمرات معاشرے کے تمام طبقا ت تک پہنچے ہیں اور معاشرے کا ہر فرد اس سے اپنی سطح پر مستفید بھی ہور ہاہے۔

چین میں تو گھوم پھر کر سبزی، پھل یا کوئی اور شے بیچنے والا فرد بھی وی چیٹ کے ذریعے ہی گاہکوں سے رقم کو وصول کرتا ہے۔یہاں تک کوئی شخص کسی چوراہے پر فٹ پاتھ پر عارضی دکان سجا ئے ہوئے ہو تو وہ بھی وی چیٹ کے ذریعے ہی کاروباری لین دین کرے گا۔وی چیٹ پیمینٹ سسٹم نے چین کو ایک Cashless سوسائٹی میں بدل دیا ہے۔وہاں کسی بھی فرد کو جیب میں کیش رکھ کر گھومنے کی ضرورت نہیںہے۔ بس ایک سمارٹ فون، وی چیٹ پیمینٹ اکاونٹ اورانٹرنیٹ کی ضرورت ہے پھر آپ جیب میں کیش رکھنے کی ضرورت اور ا س کے تحفظ کی فکر سے بے فکر ہو جائیں ۔

چین میںچینی نئے سال کے موقع پر سرخ لفافہ(Red Envelope) دینے کی ایک مضبوط روایت ہے۔ یہ ہمار ے ہاں کی عید کے موقع پر عیدی دینے کی روایت سے مشابہ ہے۔دو ہزار چودہ میں وی چیٹ نے سرخ لفافہ(Red Envelope) کو متعارف کروایا۔ اس کے متعارف ہوتے ہی وی چیٹ کے صارفین کی تعداد میں دن دگنی رات چوگنی کے مصداق اضافہ ہوا۔ آج کل کے دور میں مارکیٹنگ بہت اہم حکمت عملی ہے۔وی چیٹ نے اس شعبے میں بھی نمایاں پیش رفت کی ہے۔



اس سے صارفین کے سوشل رجحانا ت پر نظر رکھی جاتی ہے۔ دوہزار سترہ میں سوشل میڈیا ایڈورٹائزنگ سے ہونے والی آمدنی چھ بلین یوان تھی۔ وی چیٹ بزنس انفرادی سطح پر کاروبار کرنیوالوں یا تنظیموں اور کاروباری اداروں کے لیے ہے۔ اسے اپنے اپنے کاروبارکی تشہیر اور نئے نئے گاہک ڈھونڈنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس سہولت سے ہسپتال، بینکس، فیشن برینڈز، مختلف کمپنیاں استفادہ کرر ہی ہیں۔

وی چیٹ کا ایک دلچسپ آپشن Shake ہے۔اس میں کوئی بھی فرد اپنے موبائل کو ہاتھ میں پکڑ کر Shake کرتا ہے۔ تو اس لمحے اگر کسی دوسرے فرد یا ایک سے زائد وی چیٹ صارفین نے اپنے اپنے موبائلز کو دنیا کے کسی بھی کونے میں Shakeکیا ہو گا تو وہ موبائل سکرین پر نمودار ہو جائے گا۔ اس طرح موبائل کو Shakeکرنے والے افراد ایک دوسرے کو پیغام بھیج سکتے ہیں۔ اسی طرح چین میں ٹویٹر (Twitter) کے مساوی ان کی اپنی ایپSina Weibo ہے۔ چین کی بہت سی مشہور شخصیات، میڈیا، حکومتی اداروں، غیر حکومتی اداروں کے اس پر اکاونٹس ہیں۔ چین کی شوبز کی کئی شخصیات یہاں پر بہت ایکٹو ہیں اور ان کو فالو کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔یہاں پر بھی ٹویٹر کی طرح ایک سو چالیس الفاظ ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

یہ تو ذکر ہو گیا زمین پر عوامی رابطوںکی جدید اپلیکیشنز کی تیاری اور اس میں چین کی مہارت کا ۔چین نے زمین کی وسعتوں سے بالا آسمانوں میں بھی اپنی کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کو متعارف کروا رکھا ہے اور اس کااحوال ہمیں بیجنگ کی بے ہانگ یونیورسٹی کی پی ایچ ڈی سکالر زینب فاروق جو کہ انسٹی ٹیوٹ آف ا سپیس ٹیکنالوجی اسلام آبادسے وابستہ ہیں نے بتایا کہ چین نے اپنا بیدو(BeiDou Navigation Satellite System) تیار کیا ہوا ہے۔

اس وقت بیدو کی تھرڈ جنریشن پر کا م جاری ہے۔جب یہ مکمل طور پر تیار ہو جائے گا تو یہ امریکہ کے جی پی ایس Global Positionign System کا متبادل ہو گا اور اس سے بہتر اور درست انداز میں کام کرے گا۔بیدو نیوی گیشن سیٹلائٹ سسٹم کی سیکنڈ جنریشن کو کمپاس COMPASSیا بیدو ٹو بھی کہا جاتا ہے۔

یہ چین میں دسمبر دو ہزار گیارہ میں فعال ہوا۔ اوردسمبر دو ہزار بارہ سے یہ ایشیا پیسفیک ریجن میں مختلف نوعیت کی سروسز فراہم کر رہا ہے۔دو ہزار پندرہ میں چین نے بیدو تھری گلوبل کوریج کنسٹیلیشن پر کا م کرنا شروع کیا۔اس کو تیس مارچ دو ہزار پندرہ کو لانچ کیا گیا۔ سولہ نومبر دو ہزاراٹھارہ کو چین نے کامیابی سے دو جڑواں سیٹلائٹس کو مدار میں بھیجا۔ اس کامیابی نے بیدو تھری کی کامیابی کو یقینی بنادیا۔اس کے بعد اس کی درستگی کے معیار کو دو اعشاریہ پانچ میڑ سے پانچ میٹر تک بڑھا دیا جائے گا۔

بیدو کا یہ سسٹم دنیا بھر کے پچاس ممالک اورریجنز کو کور کرتا ہے۔اور اس سے مستفید ہونے والی آبادی کی تعداد تین ارب سے زائد ہے۔ دو ہزار بیس کے اختتام تک بیدو سسٹم دنیا بھر میں اپنی سروسز فراہم کررہاہو گا۔ نیوی گیشن سیٹلائٹ سسٹم جیسا کہ اپنے نام سے ہی ظاہر ہے کو بنیادی طور پر نیوی گیشن کے لیے استعمال کیا جارہا ہے مگر اس سے تمام شعبہ ہائے زندگی میں فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔مثال کے طورپر یہ ماہی گیری، ٹرانسپورٹیشن، زراعت، جنگلات، ٹیلی میڈیسن، پبلک سیکورٹی اور دیگر کئی شعبوں میں استعمال کیا جاسکتاہے۔ سیٹلائٹ نیوی گیشن کے میدان میں چین کی کامیابی کے سماجی ثمرات چین میںکاروباری افراد خوب سمیٹ رہے ہیں۔

وہاں آن لائن اشیاء کی خریدوفروخت اور ترسیل کا کاروبارکرنے والی کمپنیاں صارفین کو اب ڈاک آئٹمز کی ترسیل ڈرونز (Drones) کے ذریعے کر رہی ہیں۔یہ ڈرونز دور افتادہ پہاڑی علاقوں میں بہت کامیاب ہیں۔اس کے علاوہ چین کے مخصوص بڑے شہروں میں بھی تجارتی مقاصد کے لیے ان ڈرونز کا استعمال کیا جارہا ہے۔ اور ان سبکے لئے بیدو نیوی گیشن سسٹم سے بھرپور استفادہ کیا جارہا ہے۔

چین میں ترقی کا یہ سفر صرف نت نئی اشیاء اور سائنسی آلات کی تیاری تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ عام شہریوں کی سہولت کے لیے بھی جدید ٹیکنالوجی کا استعمال جاری ہے۔ماضی قریب میں جو اُمور انسان اپنے ہاتھوں سے سر انجام دیتاتھا یا بعض کاموں کی تکمیل یا ان کی انجام دہی کے مختلف مراحل کے لیے افرادی قوت(Man Power) استعمال ہوتی تھی وہی کام اب مشینوں یا جدید ٹیکنالوجی سے کیا جارہا ہے۔اس سے نہ صرف وقت کی بچت ہوئی ہے بلکہ معاملات میں شفافیت بھی آئی ہے۔

اسی جدید ٹیکنالوجی کے چین میں جا بجا استعمال کا مشاہدہ ہمیں چین آتے ہی ہو نا شروع ہوگیا۔ ہمارے قیام کے ابتدائی دنوں سے ہی ہمارے پیش رو پاکستانی ساتھیوں نے جس چیز کے حصول پر سب سے زیادہ زور دیا وہ ٹرانسپورٹ کا کارڈ تھا۔یہ کارڈ دو ہزار پندرہ میں شاید چالیس یوان میں بنا تھا۔ اس میں بھی کارڈ کو واپس کرنے کی صورت میں بیس یوان ادا کر دیئے جاتے ہیں ۔ صارف اس کارڈ کو مختص مقام سے پیشگی چارج کرواتا ہے ۔یہ کارڈ سب وے (زیرزمین ریلوے سسٹم) اور پبلک ٹرانسپورٹ بس جس کو چینی زبان میں Gong Jiao Che کہتے ہیں ۔ دونوںمیں استعمال ہوتا ہے۔ سب وے (زیرزمین ریلوے سسٹم) میں کم سے کم کرایہ چار یوان ہے جبکہ زیادہ کرائے کا تعین سفر کی طوالت کے اعتبار سے ہوتا ہے۔سب وے نہایت آرامدہ اور با سہولت سفر کا ذریعہ ہے۔

اس میں سماجی رتبے سے قطع نظر ہر شخص سفر کرتا ہے اور اپنی شان میں کوئی کمی محسوس نہیں کرتا۔سب وے میں صبح اور شام کے اوقات میں بہت ہی رش ہوتا ہے۔اس کا اندازہ ایک روز ہمیں پاکستانی سفارت خانے جانے سے ہوا۔ہوا یوں کہ دو ہزار پندرہ میں ہم جولائی کے آخری روز چین پہنچے تھے اور اگست میں پاکستان کے یومِ آزادی کی تقریب پاکستان کے سفارتخانے میں تھی اور وہ چین کے مقامی وقت کے مطابق صبح نو بجے شروع ہونی تھی۔ہمارے دفتر سے پاکستانی سفارتخانہ کافی فاصلے پر تھا۔ سب وے میں وہاں جانے تک کم سے کم سوا گھنٹہ یا زیادہ وقت لگ ہی جاتا تھا۔تو ہم وقت کی پابندی کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے صبح سویرے سات بجے ہی نکل پڑے۔ ہم آدھے گھنٹے کا مارجن رکھ کر نکلے تھے۔

سب وے سٹیشن کے پاس پہنچے تو وہاں بالکل ہی ایک نیا منظر دیکھنے کو ملا۔ وہی سب وے سٹیشن جہاں دن کے وقت معمول کا رش نظر آتا تھا وہاں لوگوں کی ایک طویل قطار سب وے سٹیشن کے باہر سٹیشن میں داخلے کی منتظر تھی۔خیر ہم بھی قطار میں لگ گئے اورجلد ہی ہماری باری بھی آگئی۔اندرداخل ہوئے تو ٹرانسپورٹ کارڈنے بہت فائدہ دیا کہ اس کو سوائپ کیا اور سیڑھیاں اتر کر سٹیشن میںداخل ہو گئے۔ اگر کارڈ نہ ہوتا تو اندر مشین سے ٹکٹ خریدنے کی سہولت سے فائدہ اٹھانا پڑتا جو صبح کے وقت آپکی منزل تک پہنچنے میں تھوڑی سے تاخیر کا باعث بن سکتا ہے۔کیونکہ سب وے میں سفر کرتے ہوئے آپ اپنی منزل تک پہنچنے کے وقت کا پیشگی تعین کر سکتے ہیں اور اس میں کوئی تاخیر پیدا ہونے کا سوال خارج از امکان ہے۔سب وے آپس میں باہم مربوط ہیں اور ایک لائن سے دوسری لائن میں آپ ٹرانسفر ہو سکتے ہیں۔

ٹرانسفرا سٹیشن کا باقاعدہ اعلان ہوتا ہے ۔اس کے علاوہ سب وے کے اندر سب وے کا پورا روٹ اور روٹ پر آنے والے سٹیشنز کے نام چینی اور انگلش زبانوں میں لکھے ہوئے ہوتے ہیںہی۔ ٹرانسفرا سٹیشن کو بہت واضح انداز میں نمایاں کیا ہوا ہے۔ پورا بیجینگ ہی سب وے کے نظام سے باہم جڑ ا ہوا ہے۔ وہاں پر نئی سب ویز بھی بنائی جارہی ہیں تاکہ بیجینگ کے مضافاتی علاقوں اور ایسے علاقے جو ابھی تک سب وے سٹیشن سے منسلک نہیں ہیں ان کو مرکزی شہر سے ملا دیا جائے۔ سب وے نظام اتنی منصوبہ بندی سے بنایا گیا ہے کہ بیجینگ شہر کے کئی تاریخی مقامات، جامعات، پارکس، عوامی سہولت کے دفاتر، شاپنگ سٹورز ، ہوٹلز تک رسائی سب وے کے ذریعے ممکن ہے۔ بلکہ بیجینگ کی مشہور سلک مارکیٹ(Silk Market) جہاں دنیا بھر کے سیاح آتے ہیں اور کئی ممالک کے صدور، وزرائے اعظم ، مشہور شخصیات وہاں آچکی ہیں۔

اس کا زیر زمین راستہ سب وے اسٹیشن سے منسلک ہے۔ آپ سب وے کے ذریعے سلک مارکیٹ جائیں، وہاں گھومیں پھریں، خریداری کریں اور سلک مارکیٹ کے چھٹے فلور پر واقع فوڈ سڑیٹ میں واقع ایک پاکستانی ہوٹل سے پاکستانی کھانوں سے لطف اندوز ہوں اور وہیں سے واپس آ جائیں۔آپ کو باہر سڑک پر آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگرچہ سڑک کے ذریعے بھی وہاں تک پہنچا جا سکتا ہے مگر سب وے کی سہولت بھی دستیا ب ہے۔سب وے کی مختلف لائنز کی کل تعداد بائیس ہے۔ اوراسٹیشنز کی تعداد تین سو ستر ہے۔اس سب وے سسٹم کے ذریعے ایک محتاط اندازے کے مطابق روزانہ سوا کروڑ افراد سفر کرتے ہیں۔اس سے اس سسٹم کی افادیت اور لوگوں کے اس پر اعتماد کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

سب وے سسٹم کا آغاز انیس سو انہترمیں ہوا۔ اس وقت سے لیکر اب تک اس میں توسیع کا سلسلہ جاری ہے۔ چین کے دارالحکومت بیجنگ کے قریب واقع شہر تیانجن کو بھی سب وے سے منسلک کرنے کا منصوبہ جاری ہے۔ بیجنگ میں بننے والے نئے ائر پورٹ کو بھی سب وے سے جوڑا جار ہا ہے جبکہ موجودہ ائرپورٹ تو پہلے ہی سب وے سے منسلک ہے۔بیجنگ میں سب وے اور پبلک ٹرانسپورٹ کی موجودگی کے ساتھ ساتھ شہریوں کی سہولت کے لیے پورے بیجنگ میں ائر پورٹ تک جانے کے لیے ایک Shuttle بس سروس بھی جاری ہے ۔ لوگ ٹریفک جام سے بچنے اور وقت پر پہنچنے کے لیے سب وے کا استعمال کرتے ہیں۔

سب وے کا ہر اسٹیشن بہت خوبصورت، کشادہ، صاف ستھرا ہے۔ وہاں پرآپ کو کسی قسم کی تنگی، گھٹن کا احساس نہیںہوتا۔ سب وے میں حاملہ خواتین، بزرگوں کے لیے نشستیں مختص ہیں۔اسٹیشنز چونکہ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر ہیں اس لیے اگر سفر کھڑے ہو کر بھی کرنا پڑے تولوگ بخوشی کرتے ہیں۔ بیجینگ کی سب ویز میںسفر کرنا غیر ملکیوں کے لئے نہایت آسان ہے کیونکہ تمام ہدایات انگلش زبان میں موجود ہیں۔ ایک بار سفر کرنے سے ہی وہاں کے طریقہ کار کا علم ہو جاتا ہے اور لائن ٹرانسفر آسانی سے ہوجاتی ہے۔بعد میں تو ہمیں اگر بیجنگ میں کہیں بھی جانا ہوتا تو ہم صرف یہ پوچھتے کہ وہاں سب وے جاتی ہے یا قریب کوئی سب و ے سٹیشن ہے ۔ اثبات میں جواب پا کر ہم مطمئن ہو جاتے۔بیجینگ میں گھومتے ہوئے کہیں بھی ہوتے واپسی پر صرف چینی شہریوں سے صرف چینی زبان میں سب وے کا پوچھتے اور اپنی منزل پر پہنچ جاتے۔

سب وے کے ساتھ ساتھ بیجنگ میں شہر کے اندر سفر کرنے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بھی بہت باسہولت اور باکفایت ہے۔اس سسٹم کے ذریعے بس میں سفر کرنے کے لیے بھی وہی سب وے کارڈ استعمال ہوتا ہے۔اس کا کرایہ دو یوان ہے۔ اس کرائے میں بیجنگ میں کہیں بھی چلے جائیں ۔ راقم کو ایک مرتبہ بس میں بیجنگ کی مشہور تاریخی مسجد نیوجے جانے کا بس نمبر 76کے ذریعے اتفاق ہوا۔اس بس کے روٹ کا ہمیں اندازہ نہیں تھا۔

یہ بس ہمیں بیجنگ کے مختلف علاقوں سے گزارتی ہوئی نیوجے کے علاقے کے قریب لے گئی۔وہاں سے کافی پیدل چل کر مسجد پہنچنا پڑا مگرکرایہ صرف دویوان ہی لگا حالانکہ ہم نے کم وبیش ایک گھنٹے سے زائد تک بس میں سفر کیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں بنگلہ سروس میں کام کرنے والے ایک فارن ایکسپرٹ علیم الحق نے ہمیں بس کے ذریعے نیو جے مسجد جانے کا نہایت آسان اور سیدھا راستہ بتادیا۔ بات جدیدٹیکنالوجی اور اس کی سہولیا ت سے شروع ہوئی اور کہاں سب وے تک آپہنچی۔یہاںٹیکنالوجی کا استعمال شفافیت کو یقینی بناتا ہے۔سب وے یا بس میں سفر کرتے وقت داخلے کے ساتھ ہی مسافر اپناکارڈ سوائپ کرتا ہے جس سے کارڈ میں موجود رقم ظاہر ہو جاتی ہے۔

جب مسافر اپنی منزل پر پہنچتا ہے تو اترتے وقت وہ ا پنا کارڈ پھر سے سوائپ کرتا ہے۔جس سے ایک خودکار نظام کے تحت سب وے میں فاصلے کے اعتبار سے جبکہ بس میں مقررہ ریٹ کے مطابق پیسے کٹ جاتے ہیں۔اگرکوئی مسافر دانستہ یا نادانستگی میں بس سے اترتے وقت کارڈ سوائپ نہیں کرتا تو جب بھی دوبارہ وہ بس پرسوار ہونے کے لیے کارڈ کو سوائپ کرے گا تو اس سے دوگنا چارجز کاٹ لیے جائیں گے۔ اس کی وجہ ہے کہ کسی بھی بس کا جومکمل روٹ ہوتا ہے ۔

وہ جب اپنا روٹ مکمل کرتی ہے تو تکمیل پر دوران روٹ سوائپ ہونے والے کارڈز کو چیک کیا جاتا ہے کہ آیا بس پر سوار ہوتے اور اترتے وقت تمام کارڈز کو سوائپ کیا گیا کہ نہیں۔جو کارڈمسنگ ہو وہ خود کار سسٹم کے تحت پکڑا جاتا ہے۔اس طرح کارڈ سے شفافیت کو یقینی بنایا گیا ہے۔بیجنگ کی ایک جامعہ میں زیر تعلیم پی ایچ ڈی سکالر امجد زریں ہمارے ساتھ بیجنگ کی ایک مارکیٹ کی جانب بس میں سفر کرتے ہوئے اترتے وقت اپنا کارڈ سوائپ کرنا بھول گئے جب ہم واپسی پر بس میںسوار ہوئے تو ان کے کارڈ کو سوائپ کرتے ہی ان سے دگنی رقم کی کٹوتی ہو گئی۔کارڈ سے کرائے کے تعین کے معاملات کے حوالے سے جھگڑے بھی نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں اب لاہو، راولپنڈی اور ملتان میں میٹرو چل پڑی ہے۔

جس کی وجہ سے لوگوں کو سفر میں آسانی ہوئی وگر نہ پنڈی میں روٹ نمبر ایک ، تین اور چھ پر چلنے والی ہائی ایس کے مسافروں اور کنڈکٹر کے درمیان مختلف سٹاپس کے کرائے کے تعین اور باقی رقم کی واپسی یا ریزگاری نہ ہونے کے حوالے سے اکثر تکرار ہوتی تھی۔ اس کارڈ سے کسی بھی مسافر کے بغیر ٹکٹ سفر نہ کرنے کو یقینی بنایا گیا ہے۔اس کے علاوہ روز سفر کرنے والوں کا ڈیٹا بھی اکٹھا ہورہاہے ۔ رش کے اوقات میں مسافروں کی تعدادکا بھی اندازہ ہوجاتا ہے۔ بیجنگ میں چلنے والی بسوں کے ایک سٹاپ سے دوسرے سٹاپ تک پہنچنے کے اوقات مقرر ہیں۔ شاذ ہی ایسا ہو گا کہ کوئی بس اپنے مقررہ وقت پر نہ آئے۔ چین میں اس حوالے سے APPs ہیں جہاں سے چینی شہری سٹاپ پر کھڑے کھڑے اگلی بس کے آنے کے وقت کا تعین کر لیتے ہیں۔

یہ تو بیجنگ شہر میں عوا م کے لیے ٹرانسپورٹ کی سہولت ہے۔ چین میں عوام کی سہولت کے لیے مختلف شہروں کے درمیان ہائی سپیڈ ٹرینز بھی چلتی ہیں۔ چین میںہائی سپیڈ ٹرینز کا آغاز دو ہزار آٹھ میں ہوا۔یہ ٹرینز دنیا بھر میں چین کی پہچان ہیں۔چین میں ہائی سپیڈ ریلوے نیٹ ورک کی طوالت ایک لاکھ چوبیس ہزار کلومیڑ سے زیادہ ہے۔اس ٹریک پر دو ہزار پانچ سو پچانوے سے زائدہائی سپیڈ ٹرینز چلتی ہیں اور یہ تعداد دنیا میں چلنے والی ہائی سپیڈ ٹرینز کا ساٹھ فیصد ہے۔چین میں قیام کے دوران ہمیں شنگھائی اور شنیانگ تک ہائی سپیڈ ٹرین میں سفر کا موقع ملا۔ ان ٹرینز میں سفر کرتے ہوئے ذرا بھر بھی احساس نہیں ہوا کہ بندہ اتنی تیز رفتار ٹرین میں بیٹھا ہوا ہے۔بیجینگ سے شنگھائی تک کا تیرہ سو کلومیٹر سے زائدکا سفراس ہائی سپیڈ ٹرین نے چار گھنٹے اڑتالیس منٹ میںطے کیا۔

اس سے نہ صرف شہریوں کو سہولت ملی بلکہ اس تیز ترین سروس سے معاشی سرگرمیوں اور سماجی روابط میں بھی اضافہ ہواہے۔ چین میں ہائی سپیڈ ٹرینز کے ذریعے مسافروں کی تعداد میں سالانہ اضافے کی شرح تیس فیصد سے زائد ہے۔اور دو ہزار بیس تک چین کے80 فیصد سے زائد شہروںکو ہائی سپیڈ ٹرینز نیٹ ورک سے منسلک کر دیا جائے گا۔چین کی ہائی سپیڈ ٹرینز بیرون ملک بھی بہت مقبول ہیں۔ چین نے بیرون ملک پہلی ہائی سپیڈ ٹرین ٹریک کی تعمیرترکی میں کی۔اس کے علاوہ چین نے انڈونیشیا میں بھی ایک ہائی سپیڈ ٹرین ٹریک کی تعمیر کا معاہدہ کیا ہوا ہے۔یہ تیز ریل گاڑیاں اپنی جگہ اب تو چین میں ہائی سپیڈ بلٹ ٹرینز پر بھی کام ہورہا ہے ۔ جن کی رفتارچار سوکلومیٹر فی گھنٹہ ہو گی ۔

چین میں جدت اور ترقی کاسفر ان شعبوں میں بھی جاری ہے جہاں ہم اس کا گمان بھی نہیں کر سکتے ہیں۔بیجنگ میں سی آرآئی کے دفترکے قریب ہی پاپاوشن کا ریوولوشنری قبرستان ہے۔ جہاں چین کی اہم شخصیات دفن ہیں۔ اب چین میں مردوں کی تدفین کی بجائے ان کو جلایا جاتا ہے اور بعد میں راکھ لواحقین کے حوالے کی جاتی ہے۔ چین نے اس شعبے میں بھی جدت اورٹیکنالوجی کو متعارف کروا دیا ہے ۔چین میں مردوں کے لیے کیو آر کوڈ متعارف کروادیا گیاہے۔بیجینگ کے چاو یانگ ڈسٹرکٹ میں ُمردوں کی آخری رسومات کی ادائیگی کے بعد ان کی راکھ کو ایک کینٹینر میں رکھا جاتاہے۔یہ راکھ چھ ماہ کے بعد مٹی کا حصہ بن جاتی ہے۔

تدفین کے اس طریقہ کار کو اپنانے والے لواحقین کوایک یاد گاری تختی دی جاتی ہے۔اس تختی پر مرحوم کا نام اورکیوآر کوڈ ہوتا ہے۔ اس کوڈ کو سکین کرنے کے بعد اس مرحوم شخص کی تصاویر،ویڈیوز، آب بیتی اور شجرہ نسب کو آن لائن دیکھا جا سکتا ہے۔اس کے علاوہ آن لائن تعزیتی پیغام بھی چھوڑا جا سکتا ہے۔مزیدبرآں بیجنگ کے پاپاوشن قبرستان میں مرحوم کی باقیات کو تلاش کرنے کے لیے جی پی ایس کو استعمال کیا جاتا ہے۔اس بڑے قبرستان کے سولہ ہزار مربع میڑپر مشتمل حصے میں دو ہزار افراد کی راکھ دفن ہے۔یہ راکھ پودوںکی جڑوں، درختوںکے قریب،گھاس، چٹانوں اورمختلف جگہ پرمدفن ہے۔اس کی کوئی نمبرنگ نہیں ہے۔

اس کے لیے جی پی ایس کو استعمال کیاجار ہاہے۔ جی پی ایس کی درستگی تین میڑ کے دائرے میں ہے۔چین میں ُمردوں کی آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے متعین عملے کی تنخواہیں بہت زیادہ ہیں۔ان کے لباس اور وضع قطع سے ذرا بھر بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ افراد تدفین کے عمل سے وابستہ ہیں۔ ان کو اگر دیکھا جائے تویہ کسی بینک کے ایگزیکٹویا ملٹی نیشنل کمپنی سے وابستہ اعلیٰ سطحی اہلکار دکھائیں گے۔مگر درحقیت یہ مُردوں کی آخری رسومات کی ادائیگی کے عمل سے وابستہ ہیں۔آخری رسومات کی ادائیگی کے دوران اپنے آپ کو جراثیم سے بچانا بہت اہم کام ہے۔جراثیم سے اپنے آپ کو بچانے کا عمل ایک گھنٹے پر مشتمل ہوا کرتا تھا اور اس میں پانچ افراد شریک ہوتے تھے۔ صفائی کے حوالے سے لوگوں کو تحفظا ت رہا کرتے تھے۔مگر چین نے اس عمل میںبھی جدت اور جدید ٹیکنالوجی کو متعارف کروا دیا ہے۔

اب صفائی کے کام کے لیے ایک میٹر طویل روبوٹ استعمال ہوتا ہے اور اس کا جراثیم کی صفائی کے حوالے سے درستگی کا معیار اٹھانوے اعشاریہ ایک چار فیصد ہے۔تدفین کے عمل میں چین میں تھری ڈی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جارہاہے۔اس طریقہ کار سے مرحوم کے چہرے کاماسک تین گھنٹے میں تیار کیا جاتا ہے۔ تدفین اورآخری رسومات کی ادائیگی کا ذکر ہوا ہے تو بتاتا چلوںکہ چین میں قبر کے لیے جگہ خریدنی پڑتی ہے۔

اور اس کی ایک مدت مقرر ہے۔ مقررہ مدت کے گزر جانے کے بعداس قبر کی دوبارہ تجدید کرانا پڑتی ہے۔ تجدید کی ضرورت اس لیے پڑتی ہے کہ انسان کے فانی ہونے کے باعث اس دنیا سے اس کی رخصتی کا سلسلہ جاری رہتا ہے او ر قبرستانوں میں بھی نئے مکین آتے رہتے ہیں۔ چونکہ چین میں آبادی زیادہ ہے تو اس لیے شہرِ خموشاں میں نئے آبادکار بھی تسلسل سے آتے رہتے ہیں۔دنیا سے کوچ کر جانے والوں کے بعدازمرگ معاملات کا انتظام تو چین نے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے احسن اندا ز میں کیا ہوا ہے مگر چین میں رہائش پذیر زندہ انسانوں کی ایک کثیر تعدادکو بروقت غذائی اشیاء کی فراہمی اس سے بھی بڑی کامیابی ہے۔

(جاری ہے)

محمد کریم احمد
سابق فارن ایکسپرٹ، چائنہ ریڈیو انٹرنیشنل ، اردو سروس بیجنگ

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |