ابھی تک بہو نے…
ہمارے ہاں کی ماں اب بھی کہتی ہے کہ اس کی بہو جیسی لڑکی چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی۔
پنجاب کے لوگوں کے مزاج کے بارے میں قدرے وثوق سے اور طویل عرصہ سندھ اور بلوچستان میں گزارنے کے بعد میری ان کے بارے میں بھی یہی رائے ہے کہ ہم سب چند معاملات میں ایک جیسے ہیں، ہم میں بہت سی قدریں اور رسوم و رواج مشترک ہیں جن کے نام علاقائی زبانوں کی وجہ سے مختلف ہیں۔
ہم پنجابی عورتیں بیٹے کے پیدا ہوتے ہی بہو کے سپنے دیکھنا شروع کر دیتی ہیں اور ملک بھر کے ہر علاقے میں ماں اپنے بیٹے کی لوری میں بھی اس بات کا عہد کرتی ہے کہ وہ اس کا بیاہ چاند جیسی لڑکی کے ساتھ کرے گی۔ اس کے حوالے سے خواب بنتے بنتے وہ وقت آ جاتا ہے کہ جب وہ واقعی اپنے لیے بہو اور اپنے بیٹے کے لیے بیوی تلاش کرنا شروع کر دیتی ہے۔
دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے مگر ہمارے ہاں کی ماں اب بھی کہتی ہے کہ اس کی بہو جیسی لڑکی چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی۔ حالانکہ اب بجلی کے ہوتے ہوئے چراغ کا کیا کام ... اب تو اور بھی ترقی ہو گئی ہے اور ہم سب کے فون میں ٹارچ بھی ہوتی ہے۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی بیٹے کی دلہن لانے کی، جو کہ ہر ماں کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔ بیٹا چاہے خود چاہے یا نہ چاہے، اس ذمے داری کو اٹھانے کے قابل ہو یا نہیں، مگر ماں تو ماں ہے، بہو لا کر ہی دم لیتی ہے۔ بہو لاتی ہے تو اس کا دل اس سوچ کی تان پر دھڑکتا ہے، '' تبدیلی آئی رے، تبدیلی آئی رے!''
دلہن لال جوڑ ے میں ملبوس ( عموماً) گھر کی دہلیز پار کرتی ہے تو سسر اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھ کر شفقت سے کہتے ہیں، '' بیٹا آج سے اس گھر کا جو کچھ بھی ہے وہ تمہارا ہے!! '' اس سے ان کی مثال جائیداد اور اختیارات وغیرہ نہیں بلکہ کام کار کرنے کی ذمے داری اور مسائل کا انبار ہوتا ہے۔ وہ بے چاری خوش ہو جاتی ہے کہ اسے اتنا مان ملا۔
چند دن گزرتے ہیں تو ساس کی پہلی پڑوسن حیرت سے پوچھتی ہے، ''ائے ابھی تک بہو نے تمہارے بیٹے کے کپڑے نہیں دھونا شروع کیے، تم بوڑھی ہڈیوں کے ساتھ ابھی تک خود ہی... '' یعنی چند دن میں ساس جو شادی پر بھنگڑے ڈال رہی تھیں، بوڑھی ہو گئیں۔ایک اور رشتہ دار خاتون کہتی ہیں، '' بہو کے ہاتھ کی مہندی کا رنگ ہلکا نہیں ہوا... دو ہفتے ہو گئے ہیں، ابھی تک چولہا چوکی نہیں سنبھالا؟ '' ساس ایک بار پھر صدمے سے دوچار ہو جاتی ہے۔
سب سے اہم تو ہوتا ہے جب پوچھا جاتا ہے ، '' ارے پورا مہینہ گزر گیا ہے، ابھی تک بہو نے کوئی '' خوش خبری'' نہیں سنائی؟ '' گویا بہو نے خوشخبری جہیز میں لانا تھی۔ وہ بہو کا موازنہ مرغی کے ساتھ کرتی ہیں شاید۔ بہو کے آجانے سے متوقع تبدیلیوں کی فہرست اتنی لمبی ہوتی ہے کہ جیسے بہو نہ ہوئی عمران خان ہو گیا جس سے سب کی توقعات وابستہ تھیں کہ اس کے آتے ہی ہمارے حالات فوراً تبدیل ہو جائیں گے۔
''بیٹا ملازماؤں پر ذرا نظر رکھا کرو ، میری ہڈیوں میں اتنا دم کہاں کہ ان کے پہرے دیتی پھروں ، ذرا نظر چوکتی ہے تو کچھ نہ کچھ غائب کر لیتی ہیں۔ میں تو کہتی ہوں کہ وہ وقت ہی اچھے تھے جب ہمارے گھروں میں یہ ملازمائیں نہیں تھیں! '' گویا بہو کو آہستہ آہستہ ملازمہ کے فرائض بھی سونپے جانا ہیں۔'' بیٹا، شوہر کے کھانے پینے اور آرام کے ساتھ ساتھ اس کے کام کار، اس کی ضروریات، اس کے مزاج، اس کے مسائل اور اس کے مطالبات سمجھنا بھی بیوی کے لیے اہم ہوتا ہے۔ ''
چار دن کی بیاہی بہو سے ایسی ایسی توقعات وابستہ کر لی جاتی ہیں کہ وہ بے چاری بوکھلا کر رہ جاتی ہے۔ جو اولادیں اپنے ماں باپ سے سدھاری نہیں جا سکیں وہ اس سے سدھارنے کی توقع کی جاتی ہے۔ کوئی نالائق ہے، کوئی بد مزاج، کوئی آوارہ اور کوئی نکھٹو، سب کو دلہن ہی سمجھائے، ماں باپ اپنے سمجھانے کے فرض سے بھی فارغ ہو جاتے ہیں۔ ہمارا میڈیا آج کل کی نئی نسل کو بہت کچھ... مثبت کم اور منفی زیادہ سکھا رہا ہے ، لڑکیاں جب بہو بن کر جاتی ہیں تو وہ ایسے ممکنہ حالات کے لیے دل میں کئی طرح کی حکمت عملی کا سوچ کر جاتی ہیں مگر جب سسرال نام کی وادی میں قدم پڑتا ہے تو سارے ارادوں کے ٹوکرے اپنے اوپر ہی آن گرتے ہیں۔ دور سے سب کچھ اچھا نظر آنیوالاجب ملتا ہے، پاس آتا ہے تو اس کے سارے رخ واضع ہوتے ہیں۔
''سسرال میں جا کر اپنے گھر پر راج کرنا! '' ماں اپنی بیٹی کو اس امید کی ڈور پکڑا کر رخصت کرتی ہے مگرجب سسرال پہنچتی ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس اقتدار کے فقط خواب ہی سہانے ہیں۔ وہ جو کچھ کرنا چاہتی ہے اس کے لیے بھی اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوتے ہیں اور اختیارات محدود ۔ اس سے اتنی خوبیوں کی توقع کی جاتی ہے کہ بلاشبہ چار عورتوں کو ملا کر بھی اتنی خوبیاں جمع نہ کی جا سکیں۔
اگلے دن وزیر اعظم پاکستان کو میڈیا کے کچھ افراد کے ساتھ انٹرویو میں جوابات دیتے ہوئے دیکھ کر لگا کہ ایسا ہی منظر ہوتا ہے جب
ہمارے ہاں کوئی نئی بہو آتی ہے۔ اس سے اتنی ہی توقعات وابستہ کی جاتی ہیں، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تو وہ اپنے آپ کو اس ماحول کیمطابق ڈھال لیتی ہے مگر اس سے بہت جلد سب کچھ کرنے کی توقع کی جاتی ہے۔
حکومت کی طرف سے ''سو دن '' اور ان سو دنوں کی کارکردگی کا خواہ مخواہ کا غوغا سن کر یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کہ حکومت صرف سو دن کے لیے تھی۔ یہ سب کچھ غیر ضروری محسوس ہوا اور اس سے لگا کہ موجودہ حکمران ماضی کے حکمرانوں کے طرز کی تقلید کر رہے ہیں۔ حکومت کا کام یہ نہیں کہ وہ ایک دن وعدے کی ڈور پکڑائے اور اس سے اگلے دن کوئی اور منظر نظر آئے۔ کارکردگی کو بولنے دیں، بیانات ، سوالات اور جوابات سے کنفیوژن بڑھتا ہے اور حکومت اور عوام کے مابین عدم اعتماد کی فضا قائم ہوتی ہے۔ میڈیا کو اگر کسی حد تک قابو کر لیا گیا ہے تو اس جن کو تھیلے میں ہی رکھیں۔
ہمارے اس شعبے میں موجود کالی بھیڑوں سے کون واقف نہیں، وہ کن کے مفادات کے لیے کام کرتے ہیں اور کن کی زبان بولتے ہیں، ہم سب جانتے ہیں۔ وزیر اعظم کو اگر قوم سے خطاب کرنا ہے، کسی مسئلے پر قوم کو اعتماد میں لینا ہے تو اس کے لیے وہ براہ راست قوم سے خطاب کریں اور جو بھی مسائل یا صورتحال ہے، ہمیں بتائیں، نہ کہ خود کو ایسے کٹہرے میں کھڑا کریں کہ جہاں ایسے ایسے سوالات پوچھے جائیں جن سے آپ پر لوگوں کا اعتماد کم ہو اور ایک کے بعد ایک مسئلے کا تھیلا کھلتا جائے۔
اس حکومت سے بھی لوگوں کو ایسی ہی توقعات ہیں جیسی کہ نئی نویلی بہو سے ہوتی ہیں... ہمارے ملک میں کوئی کہیں بھی پہنچ جائے،میڈیا میں، عدلیہ میں، سول سروسزمیں، طب کے شعبے میں،کاروبار کریں، پولیس میںیا اقتدار کی کرسیوں پر ، سب میں ایک قدر مشترک ہے کہ ہمارا اصل وہی ہے۔ ہم سب اصل میں جس بیک گراؤنڈ سے تعلق رکھتے ہیں وہاں مہینے بھر کے اندر اندر بہوؤں سے ''کاکے'' کی خوش خبری کی توقع کی جاتی ہے۔ ہم اتنے صابر نہیں کہ کسی بھی حکومت کو اپنا کام کرنے دیں، اس کے ساتھ تعاون کریں ، اپنے حقوق مانگنے سے پہلے اپنے فرائض ادا کریں۔
ہمیں یہ علم نہیں کہ ہم نے کیا کرنا ہے مگر ہمیں علم ہے کہ آرمی چیف کو کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں۔ ہمیں علم ہے کہ چیف جسٹس کیا غلط کہتے ہیں اور کیا صحیح۔ ہمیں یہ بھی علم ہے کہ آپ کے کس وزیر یا مشیر کو کیا کرنا چاہیے اور کیا کیا کہنا چاہیے مگر ہمیں یہ معلوم نہیں کہ ہمیں کیا کہنا چاہیے اور کیا نہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ملک کس طرح چلائے جاتے ہیں مگر آپ پر تنقیدہم خوب کرلیں گے۔ ایک ہانڈی تک پکانا نہ بھی آئے مگر آپ کو سیکھنا ہو تو ہم سے پوچھ لیں ہم آپ کوسکھاسکتے ہیں کہ ملک کا نظام کس طرح چلانا ہے۔
لوگوں کو بہت امید ہے اور سب تبدیلی دیکھنے کے خواہاں ہیں بالخصوص نوجوان نسل ۔ اسی تبدیلی کی خواہش کی تکمیل اور خواب کی تعبیر کے لیے ملک کا ہر نوجوان اس حکومت کے ساتھ کھڑا ہے مگر انھیں کچھ ہوتا ہوا نظر نہیں آتا کیونکہ سو دن، سو دن کا غوغا خواہ مخواہ میں اتنا زیادہ تھا، اس کی قطعی ضرورت نہیں تھی۔ آپ اپنی ترجیحات سیٹ کریں، جس کام کاآپ نے ووٹ لیتے وقت ہم سے وعدہ کیا تھا، بس وہ کام کریں۔ اس ملک سے کرپشن کے خاتمے کو اپنی اولین ترجیح بنائیں، جب اس پر کچھ پیش رفت ہو، ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس آجائے تو ہمیں اس خوش خبری میں شامل کریں۔ آپ کے پاس لگ بھگ اٹھارہ سو دن ہیں... سو دن کی کارکردگی، چہ معنی دارد؟
ہم پنجابی عورتیں بیٹے کے پیدا ہوتے ہی بہو کے سپنے دیکھنا شروع کر دیتی ہیں اور ملک بھر کے ہر علاقے میں ماں اپنے بیٹے کی لوری میں بھی اس بات کا عہد کرتی ہے کہ وہ اس کا بیاہ چاند جیسی لڑکی کے ساتھ کرے گی۔ اس کے حوالے سے خواب بنتے بنتے وہ وقت آ جاتا ہے کہ جب وہ واقعی اپنے لیے بہو اور اپنے بیٹے کے لیے بیوی تلاش کرنا شروع کر دیتی ہے۔
دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے مگر ہمارے ہاں کی ماں اب بھی کہتی ہے کہ اس کی بہو جیسی لڑکی چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی۔ حالانکہ اب بجلی کے ہوتے ہوئے چراغ کا کیا کام ... اب تو اور بھی ترقی ہو گئی ہے اور ہم سب کے فون میں ٹارچ بھی ہوتی ہے۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی بیٹے کی دلہن لانے کی، جو کہ ہر ماں کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔ بیٹا چاہے خود چاہے یا نہ چاہے، اس ذمے داری کو اٹھانے کے قابل ہو یا نہیں، مگر ماں تو ماں ہے، بہو لا کر ہی دم لیتی ہے۔ بہو لاتی ہے تو اس کا دل اس سوچ کی تان پر دھڑکتا ہے، '' تبدیلی آئی رے، تبدیلی آئی رے!''
دلہن لال جوڑ ے میں ملبوس ( عموماً) گھر کی دہلیز پار کرتی ہے تو سسر اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھ کر شفقت سے کہتے ہیں، '' بیٹا آج سے اس گھر کا جو کچھ بھی ہے وہ تمہارا ہے!! '' اس سے ان کی مثال جائیداد اور اختیارات وغیرہ نہیں بلکہ کام کار کرنے کی ذمے داری اور مسائل کا انبار ہوتا ہے۔ وہ بے چاری خوش ہو جاتی ہے کہ اسے اتنا مان ملا۔
چند دن گزرتے ہیں تو ساس کی پہلی پڑوسن حیرت سے پوچھتی ہے، ''ائے ابھی تک بہو نے تمہارے بیٹے کے کپڑے نہیں دھونا شروع کیے، تم بوڑھی ہڈیوں کے ساتھ ابھی تک خود ہی... '' یعنی چند دن میں ساس جو شادی پر بھنگڑے ڈال رہی تھیں، بوڑھی ہو گئیں۔ایک اور رشتہ دار خاتون کہتی ہیں، '' بہو کے ہاتھ کی مہندی کا رنگ ہلکا نہیں ہوا... دو ہفتے ہو گئے ہیں، ابھی تک چولہا چوکی نہیں سنبھالا؟ '' ساس ایک بار پھر صدمے سے دوچار ہو جاتی ہے۔
سب سے اہم تو ہوتا ہے جب پوچھا جاتا ہے ، '' ارے پورا مہینہ گزر گیا ہے، ابھی تک بہو نے کوئی '' خوش خبری'' نہیں سنائی؟ '' گویا بہو نے خوشخبری جہیز میں لانا تھی۔ وہ بہو کا موازنہ مرغی کے ساتھ کرتی ہیں شاید۔ بہو کے آجانے سے متوقع تبدیلیوں کی فہرست اتنی لمبی ہوتی ہے کہ جیسے بہو نہ ہوئی عمران خان ہو گیا جس سے سب کی توقعات وابستہ تھیں کہ اس کے آتے ہی ہمارے حالات فوراً تبدیل ہو جائیں گے۔
''بیٹا ملازماؤں پر ذرا نظر رکھا کرو ، میری ہڈیوں میں اتنا دم کہاں کہ ان کے پہرے دیتی پھروں ، ذرا نظر چوکتی ہے تو کچھ نہ کچھ غائب کر لیتی ہیں۔ میں تو کہتی ہوں کہ وہ وقت ہی اچھے تھے جب ہمارے گھروں میں یہ ملازمائیں نہیں تھیں! '' گویا بہو کو آہستہ آہستہ ملازمہ کے فرائض بھی سونپے جانا ہیں۔'' بیٹا، شوہر کے کھانے پینے اور آرام کے ساتھ ساتھ اس کے کام کار، اس کی ضروریات، اس کے مزاج، اس کے مسائل اور اس کے مطالبات سمجھنا بھی بیوی کے لیے اہم ہوتا ہے۔ ''
چار دن کی بیاہی بہو سے ایسی ایسی توقعات وابستہ کر لی جاتی ہیں کہ وہ بے چاری بوکھلا کر رہ جاتی ہے۔ جو اولادیں اپنے ماں باپ سے سدھاری نہیں جا سکیں وہ اس سے سدھارنے کی توقع کی جاتی ہے۔ کوئی نالائق ہے، کوئی بد مزاج، کوئی آوارہ اور کوئی نکھٹو، سب کو دلہن ہی سمجھائے، ماں باپ اپنے سمجھانے کے فرض سے بھی فارغ ہو جاتے ہیں۔ ہمارا میڈیا آج کل کی نئی نسل کو بہت کچھ... مثبت کم اور منفی زیادہ سکھا رہا ہے ، لڑکیاں جب بہو بن کر جاتی ہیں تو وہ ایسے ممکنہ حالات کے لیے دل میں کئی طرح کی حکمت عملی کا سوچ کر جاتی ہیں مگر جب سسرال نام کی وادی میں قدم پڑتا ہے تو سارے ارادوں کے ٹوکرے اپنے اوپر ہی آن گرتے ہیں۔ دور سے سب کچھ اچھا نظر آنیوالاجب ملتا ہے، پاس آتا ہے تو اس کے سارے رخ واضع ہوتے ہیں۔
''سسرال میں جا کر اپنے گھر پر راج کرنا! '' ماں اپنی بیٹی کو اس امید کی ڈور پکڑا کر رخصت کرتی ہے مگرجب سسرال پہنچتی ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس اقتدار کے فقط خواب ہی سہانے ہیں۔ وہ جو کچھ کرنا چاہتی ہے اس کے لیے بھی اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوتے ہیں اور اختیارات محدود ۔ اس سے اتنی خوبیوں کی توقع کی جاتی ہے کہ بلاشبہ چار عورتوں کو ملا کر بھی اتنی خوبیاں جمع نہ کی جا سکیں۔
اگلے دن وزیر اعظم پاکستان کو میڈیا کے کچھ افراد کے ساتھ انٹرویو میں جوابات دیتے ہوئے دیکھ کر لگا کہ ایسا ہی منظر ہوتا ہے جب
ہمارے ہاں کوئی نئی بہو آتی ہے۔ اس سے اتنی ہی توقعات وابستہ کی جاتی ہیں، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تو وہ اپنے آپ کو اس ماحول کیمطابق ڈھال لیتی ہے مگر اس سے بہت جلد سب کچھ کرنے کی توقع کی جاتی ہے۔
حکومت کی طرف سے ''سو دن '' اور ان سو دنوں کی کارکردگی کا خواہ مخواہ کا غوغا سن کر یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کہ حکومت صرف سو دن کے لیے تھی۔ یہ سب کچھ غیر ضروری محسوس ہوا اور اس سے لگا کہ موجودہ حکمران ماضی کے حکمرانوں کے طرز کی تقلید کر رہے ہیں۔ حکومت کا کام یہ نہیں کہ وہ ایک دن وعدے کی ڈور پکڑائے اور اس سے اگلے دن کوئی اور منظر نظر آئے۔ کارکردگی کو بولنے دیں، بیانات ، سوالات اور جوابات سے کنفیوژن بڑھتا ہے اور حکومت اور عوام کے مابین عدم اعتماد کی فضا قائم ہوتی ہے۔ میڈیا کو اگر کسی حد تک قابو کر لیا گیا ہے تو اس جن کو تھیلے میں ہی رکھیں۔
ہمارے اس شعبے میں موجود کالی بھیڑوں سے کون واقف نہیں، وہ کن کے مفادات کے لیے کام کرتے ہیں اور کن کی زبان بولتے ہیں، ہم سب جانتے ہیں۔ وزیر اعظم کو اگر قوم سے خطاب کرنا ہے، کسی مسئلے پر قوم کو اعتماد میں لینا ہے تو اس کے لیے وہ براہ راست قوم سے خطاب کریں اور جو بھی مسائل یا صورتحال ہے، ہمیں بتائیں، نہ کہ خود کو ایسے کٹہرے میں کھڑا کریں کہ جہاں ایسے ایسے سوالات پوچھے جائیں جن سے آپ پر لوگوں کا اعتماد کم ہو اور ایک کے بعد ایک مسئلے کا تھیلا کھلتا جائے۔
اس حکومت سے بھی لوگوں کو ایسی ہی توقعات ہیں جیسی کہ نئی نویلی بہو سے ہوتی ہیں... ہمارے ملک میں کوئی کہیں بھی پہنچ جائے،میڈیا میں، عدلیہ میں، سول سروسزمیں، طب کے شعبے میں،کاروبار کریں، پولیس میںیا اقتدار کی کرسیوں پر ، سب میں ایک قدر مشترک ہے کہ ہمارا اصل وہی ہے۔ ہم سب اصل میں جس بیک گراؤنڈ سے تعلق رکھتے ہیں وہاں مہینے بھر کے اندر اندر بہوؤں سے ''کاکے'' کی خوش خبری کی توقع کی جاتی ہے۔ ہم اتنے صابر نہیں کہ کسی بھی حکومت کو اپنا کام کرنے دیں، اس کے ساتھ تعاون کریں ، اپنے حقوق مانگنے سے پہلے اپنے فرائض ادا کریں۔
ہمیں یہ علم نہیں کہ ہم نے کیا کرنا ہے مگر ہمیں علم ہے کہ آرمی چیف کو کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں۔ ہمیں علم ہے کہ چیف جسٹس کیا غلط کہتے ہیں اور کیا صحیح۔ ہمیں یہ بھی علم ہے کہ آپ کے کس وزیر یا مشیر کو کیا کرنا چاہیے اور کیا کیا کہنا چاہیے مگر ہمیں یہ معلوم نہیں کہ ہمیں کیا کہنا چاہیے اور کیا نہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ملک کس طرح چلائے جاتے ہیں مگر آپ پر تنقیدہم خوب کرلیں گے۔ ایک ہانڈی تک پکانا نہ بھی آئے مگر آپ کو سیکھنا ہو تو ہم سے پوچھ لیں ہم آپ کوسکھاسکتے ہیں کہ ملک کا نظام کس طرح چلانا ہے۔
لوگوں کو بہت امید ہے اور سب تبدیلی دیکھنے کے خواہاں ہیں بالخصوص نوجوان نسل ۔ اسی تبدیلی کی خواہش کی تکمیل اور خواب کی تعبیر کے لیے ملک کا ہر نوجوان اس حکومت کے ساتھ کھڑا ہے مگر انھیں کچھ ہوتا ہوا نظر نہیں آتا کیونکہ سو دن، سو دن کا غوغا خواہ مخواہ میں اتنا زیادہ تھا، اس کی قطعی ضرورت نہیں تھی۔ آپ اپنی ترجیحات سیٹ کریں، جس کام کاآپ نے ووٹ لیتے وقت ہم سے وعدہ کیا تھا، بس وہ کام کریں۔ اس ملک سے کرپشن کے خاتمے کو اپنی اولین ترجیح بنائیں، جب اس پر کچھ پیش رفت ہو، ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس آجائے تو ہمیں اس خوش خبری میں شامل کریں۔ آپ کے پاس لگ بھگ اٹھارہ سو دن ہیں... سو دن کی کارکردگی، چہ معنی دارد؟