حکومت آؤٹ آف ٹرن پروموشن پولیس افسران کو ہٹانے کیلیے تیار نہیں
حکومت سندھ کے مطابق عدالتی فیصلے کے مطابق حکومت نے 4 نکات پر مشتمل نوٹیفکیشن جاری کردیا
حکومت سندھ آؤٹ آف ٹرن پروموشن پانیوالے پولیس افسران کو ابھی ان کے عہدوں سے ہٹانے کے لیے تیار نہیں ہے اور اس ضمن میں سپریم کورٹ سے درخواست کی گئی ہے کہ یہ پولیس افسران شہرمیں دہشت گردی کے خاتمے اورامن وامان کی صورتحال بہتر بنانے میں مصروف ہیں۔
انکی فوری واپسی سے دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف حکومت کی کوششوں کو شدید نقصان پہنچے گا، اس لیے سپریم کورٹ اپنے 12جون 2013کے فیصلے کے اس حصے کے بارے میں عملدرآمدسے متعلق دی گئی3 ہفتوں کی ڈیڈ لائن کا جائزہ لے۔ استدعا کی جاتی ہے کہ قیام امن کے لیے حکومت کی کوششوںمیں تسلسل کے لیے خلاف ضابطہ ترقیاں حاصل کرنیوالے افسران کے خلاف اقدامات کے متعلق عدالتی حکم پر عملدرآمد کیلیے 2 ماہ کی مزید مہلت دی جائے۔ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ مسز شیراز اقبال کے توسط سے درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ اس سلسلے میں ایک اور متفرق درخواست دائر کی جارہی ہے ، اس کی ہنگامی طور پر 4جولائی یا عدالت اپنی سہولت کے مطابق کوئی تاریخ مقرر کردے۔ حکومت سندھ کی جانب سے منگل کوسپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں 2درخواستیں جمع کرائی گئیں ۔
جن میں سے ایک میں کریمنل اوریجنل پٹیشن نمبر 89/2011 میں سپریم کورٹ کے3 رکنی بینچ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ فیصلے میں چیف سیکریٹری سندھ ، سیکریٹری سروسز گورنمنٹ آف سندھ کو ہدایت کی گئی تھی کہ فیصلے پر اسکی روح کے مطابق عمل کرکے 3 ہفتے میں رپورٹ پیش کی جائے۔
حکومت سندھ کے مطابق عدالتی فیصلے کے مطابق حکومت نے 4 نکات پر مشتمل نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے، ان میں محکمہ پولیس سمیت حکومت سندھ کے تمام محکموںسے ابزارپشن کی منسوخی،کوٹے سے زائد اسسٹنٹ کمشنرز کی نامزدگی سے دستبرداری ، ڈیپوٹیشن پر آئے ہوئے افسران کی سندھ حکومت کے محکموں میں واپسی اورمحکمہ پولیس کے علاوہ تمام محکموںسے آؤٹ آف ٹرن پروموشن والے افسران کی واپسی شامل ہیں۔
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ محکمہ پولیس سے آؤٹ آف ٹرن پروموشن پانیوالے افسران کے متعلق نوٹیفکیشن تیارہی تھاکہ شہر میں امن وامان کی صورتحال بری طرح بگڑ گئی جس کا واضح ثبوت سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس مقبول باقر پر حملہ ہے۔ حکومت سندھ نے درخواست میں موقف اختیارکیا ہے کہ کراچی میں امن وامان کی صورتحال انتہائی مخدوش ہے، افسران کی ایک بڑی تعداد اس کیس کی تفتیش اور دہشت گردی کے خاتمے میں مصروف عمل ہے، اسلیے اچانک بڑی تعداد میں افسران کی واپسی سے شہر میں دہشت گردی کے خاتمے ، تشدد اور جرائم کے خلاف جہدوجہد کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قراردیا ہے کہ اگر کسی اہلکار نے کسی موقع پر غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے تو اسے نقد رقم یا کسی اور طرح نوازا جائے اور ان سے ان کے عہدے کے مطابق کام لیا جائے ، لیکن ایسے فرد کو ترقی دے کر دیگر اہلکاروں کی سنیارٹی متاثر نہ کی جائے کیونکہ کچھ اہلکاروں کی قیمت پر پورے محکمے کے افسران کا مورال ڈاؤن ہوجاتا ہے۔
انکی فوری واپسی سے دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف حکومت کی کوششوں کو شدید نقصان پہنچے گا، اس لیے سپریم کورٹ اپنے 12جون 2013کے فیصلے کے اس حصے کے بارے میں عملدرآمدسے متعلق دی گئی3 ہفتوں کی ڈیڈ لائن کا جائزہ لے۔ استدعا کی جاتی ہے کہ قیام امن کے لیے حکومت کی کوششوںمیں تسلسل کے لیے خلاف ضابطہ ترقیاں حاصل کرنیوالے افسران کے خلاف اقدامات کے متعلق عدالتی حکم پر عملدرآمد کیلیے 2 ماہ کی مزید مہلت دی جائے۔ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ مسز شیراز اقبال کے توسط سے درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ اس سلسلے میں ایک اور متفرق درخواست دائر کی جارہی ہے ، اس کی ہنگامی طور پر 4جولائی یا عدالت اپنی سہولت کے مطابق کوئی تاریخ مقرر کردے۔ حکومت سندھ کی جانب سے منگل کوسپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں 2درخواستیں جمع کرائی گئیں ۔
جن میں سے ایک میں کریمنل اوریجنل پٹیشن نمبر 89/2011 میں سپریم کورٹ کے3 رکنی بینچ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ فیصلے میں چیف سیکریٹری سندھ ، سیکریٹری سروسز گورنمنٹ آف سندھ کو ہدایت کی گئی تھی کہ فیصلے پر اسکی روح کے مطابق عمل کرکے 3 ہفتے میں رپورٹ پیش کی جائے۔
حکومت سندھ کے مطابق عدالتی فیصلے کے مطابق حکومت نے 4 نکات پر مشتمل نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے، ان میں محکمہ پولیس سمیت حکومت سندھ کے تمام محکموںسے ابزارپشن کی منسوخی،کوٹے سے زائد اسسٹنٹ کمشنرز کی نامزدگی سے دستبرداری ، ڈیپوٹیشن پر آئے ہوئے افسران کی سندھ حکومت کے محکموں میں واپسی اورمحکمہ پولیس کے علاوہ تمام محکموںسے آؤٹ آف ٹرن پروموشن والے افسران کی واپسی شامل ہیں۔
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ محکمہ پولیس سے آؤٹ آف ٹرن پروموشن پانیوالے افسران کے متعلق نوٹیفکیشن تیارہی تھاکہ شہر میں امن وامان کی صورتحال بری طرح بگڑ گئی جس کا واضح ثبوت سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس مقبول باقر پر حملہ ہے۔ حکومت سندھ نے درخواست میں موقف اختیارکیا ہے کہ کراچی میں امن وامان کی صورتحال انتہائی مخدوش ہے، افسران کی ایک بڑی تعداد اس کیس کی تفتیش اور دہشت گردی کے خاتمے میں مصروف عمل ہے، اسلیے اچانک بڑی تعداد میں افسران کی واپسی سے شہر میں دہشت گردی کے خاتمے ، تشدد اور جرائم کے خلاف جہدوجہد کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قراردیا ہے کہ اگر کسی اہلکار نے کسی موقع پر غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے تو اسے نقد رقم یا کسی اور طرح نوازا جائے اور ان سے ان کے عہدے کے مطابق کام لیا جائے ، لیکن ایسے فرد کو ترقی دے کر دیگر اہلکاروں کی سنیارٹی متاثر نہ کی جائے کیونکہ کچھ اہلکاروں کی قیمت پر پورے محکمے کے افسران کا مورال ڈاؤن ہوجاتا ہے۔