صدقۂ فطر نماز عید سے قبل ادا کرنا چاہیے

امام بخاری کے نزدیک بھی صدقۂ فطر فرض ہے

حضرت عبداﷲ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے عید کی نماز کے لیے لوگوں کے نکلنے سے پہلے صدقۂ فطر ادا کرنے کا حکم دیا۔ فوٹو: فیضان دائود/فائل

اسلام بنیادی طور پر برابری اور بھائی چارے کا دین ہے، اسی لیے اس میں خاص خاص مواقع پر چاہے وہ خوشی کے ہوں یا غم کے، غریبوں اور مسکینوں کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عید الفطر کے پرمسرت موقع پر غریبوں اور ناداروں کو اس خوشی میں شریک کرنے کے لیے اسلام نے تمام مسلمانوں پر صدقۂ فطر کی ادائیگی کو واجب قرار دیا ہے۔

حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ہر مسلمان غلام اور آزاد، مرد اور عورت، چھوٹے اور بڑے کی طرف سے کھجور کا ایک صاع یا جو کا ایک صاع فرض کیا ہے اور اسے عید کی نماز کے لیے نکلنے سے پہلے ادا کرنے کا حکم فرمایا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی احادیث موجود ہیں جن سے صدقۂ فطر کی فرضیت و اہمیت ثابت ہوتی ہے۔ امام بخاری کے نزدیک بھی صدقۂ فطر فرض ہے۔

صدقۂ فطر کی ادائیگی کے کئی فائدے ہیں۔ اس کا پہلا اور بنیادی فائدہ یہ ہے کہ روزہ دار کے روزے ہر طرح کے میل کچیل سے پاک و صاف ہوجاتے ہیں اور جسم و جان کا صدقہ ادا ہوجاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ غریب اور نادار لوگ بھی اپنی ضروریات سے بے فکر ہوکر عید کی خوشی میں شامل ہوجاتے ہیں۔ بیوائوں، یتیموں اور مساکین کے لیے کچھ سامان مہیا ہوجاتا ہے اور ان لوگوں کے ساتھ کچھ مالی یا مادی تعاون بھی ہوجاتا ہے۔

حضرت عبداﷲ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے عیدالفطر کا صدقہ فرض قرار دیا، جو روزے دار کو لغو اور گناہ سے پاک کردیتا ہے اور یہ مساکین کے لیے خوراک بھی ہے۔ (ابوداؤد ، ابن ماجہ)

ایک دوسری روایت میں ابو سعید خدری ؓ کا بیان ہے:''ہم فطرے کا صدقہ ایک صاع اناج، گیہوں وغیرہ کا یا ایک صاع جو کا یا ایک صاع کھجور کا یا ایک صاع پنیر کا یا ایک صاع منقا (کشمش) کا نکالا کرتے تھے۔'' (بخاری شریف)

٭ صدقۃ الفطر کی مقدار:

صدقۃ الفطر کی مقدار ایک مکمل صاع ہے، خواہ وہ گندم، جو ، منقا کھجور، چاول، چنے، یا پنیر کا ہو۔ ایک حجازی صاع چار مد کا ہوتا ہے جس کا وزن آج کل کے ڈھائی کلو کے برابر ہے۔


حضرت ابو سعید خدری کا بیان ہے کہ ہم حضوراکرمﷺ کے زمانے میں عیدالفطر کے دن ایک صاع کھانے کا (صدقے کے لیے) نکالا کرتے تھے۔ ان دنوں ہمارا کھانا یہی جو ، منقا، پنیر اور کھجور ہوا کرتا تھا۔ (صحیح بخاری)

٭صدقۂ فطر کی ادائیگی:

صدقۃ الفطر کی ادائیگی کا صحیح وقت عید والے دن نماز عید سے قبل کا ہے۔ حضرت عبداﷲ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے عید کی نماز کے لیے لوگوں کے نکلنے سے پہلے صدقۂ فطر ادا کرنے کا حکم دیا۔

حضرت عبداﷲ ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے عیدالفطر کا صدقہ فرض قرار دیا ہے جو روزہ دار کو لغو اور گناہ سے پاک کردیتا ہے اور مساکین کی خوراک بھی ہے۔ جس کسی نے اسے نماز سے پہلے ادا کردیا، اس کی یہ زکوٰۃ (صدقہ) قبول ہوئی اور جس نے نماز کے بعد ادا کیا، اس کا باقی صدقات کی طرح ایک صدقہ ہے، صدقۂ فطر نہیں ہے۔

فطرہ نکالنے کا افضل وقت عید کے دن فجر کی نماز کے بعد اور عیدالفطر کی نماز پڑھنے سے پہلے کا ہے۔ عید کے دن سے پہلے صدقۂ فطر ادا کرنے کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک عید سے ایک دو دن پہلے ادا کردینے میں کوئی ہرج نہیں۔ حضرت نافع اور ابن عمرؓ اس طرح بھی کیا کرتے تھے۔ امام شافعی اور ان کے دوسرے رفقا کا کہنا ہے کہ غربا، فقرا، مساکین اور بیواؤں کی ضروریات کو ملحوظ رکھتے ہوئے اگر مہینے کے شروع میں ہی دے دیا جائے تب بھی جائز ہے۔

صدقۂ فطر کے مصارف عام مالی زکوٰۃ کی طرح ہیں البتہ باقی مصارف کے بجائے بہتر ہے کہ فقرا اور مساکین کو یہ خیرات دی جائے، اس لیے کہ رسول اکرمﷺؐ کا ارشاد ہے:''اس دن ان (فقرا و مساکین) کو سوال کرنے سے بے نیاز کردو۔''

اس سے معلوم ہوا کہ صدقۃ الفطر کے سب سے زیادہ مستحق غربا، فقراء، مساکین اور نادار و محتاج لوگ ہیں۔ اگر کوئی غریب یا فقیر نہ ہو تو غیر فقیر کو دیا جاسکتا ہے۔ اس شخص پر صدقۂ فطر واجب نہیں جو ایک وقت کی خوراک کا بھی مالک نہیں ہے۔

ایک شخص کا صدقۂ فطر کئی افراد کو دیا جاسکتا ہے، اسی طرح کئی افراد کا صدقۂ فطر ایک فرد کو دیا جاسکتا ہے۔ مسلمان پر صدقۃ الفطر اسی شہر میں واجب ہے جس میں وہ مقیم ہے۔ صدقۃ الفطر کسی ضرورت کے پیش نظر ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کیا جاسکتا ہے۔ زیر کفالت جو بھی لوگ ہیں مثلاً یتیم و غلام وغیرہ، ان کا فطرہ بھی سرپرست کو ادا کرنا چاہیے۔ نماز عیدالفطر سے پہلے اگر کوئی بچہ پیدا ہوجائے تو اس کا بھی فطرہ ادا کرنا لازم ہے۔

Recommended Stories

Load Next Story