اسرائیل ایک جعلی ملک

عربوں کا ایک بڑا مسئلہ ایران کا خوف ہے۔ یہ اکیسویں صدی ہے دنیا چاند اور مریخ پر کمند ڈال رہے ہیں

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

ایران کے صدر حسن روحانی نے تہران میں منعقدہ سالانہ اسلامی یکجہتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دوسری عالمی جنگ کا ایک منحوس سایہ خطے میں کینسرکی شکل میں نکلا ہے ۔ اسرائیل ایک جعلی حکومت ہے جسے مغربی ملکوں نے اپنے علاقائی مفادات کے تحفظ کے لیے بنایا ہے ۔

امریکا مشرق وسطیٰ کے ملکوں سے دھونس دباؤ اور ترغیب کے ذریعے تعلقات استوارکرکے اسرائیل کو محفوظ بنانے کی کوشش کررہا ہے ،جب کہ ایران کے حریف سعودی عرب کے ساتھ امریکا کی پالیسی خوشامد پر مبنی ہے، یہ سامراجی ملکوں کا وطیرہ ہے کہ ان کی پالیسیاں اصولوں پر مبنی نہیں ہوتیں بلکہ مفادات کے مطابق ہوتی ہیں جس کا نتیجہ انتشار اور کھینچا تانی کی شکل میں نکلتا ہے۔ صدر روحانی نے کہاکہ ایران دہشت گردوں اور عالمی سازشی طاقتوں کے معاملے میں سعودی عرب کا دفاع کرنے کے لیے تیار ہے۔ ہم سعودی شہریوں کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں۔ حسن روحانی کا کہنا ہے کہ امریکا کے سامنے جھکنا غداری کے مترادف ہے۔

امریکا کا اصل مقصد عرب ملکوں کو غلام بنائے رکھنا ہے۔ مسلم ممالک عالمی مجرموں کے لیے ریڈکارپٹ بچھانے کی روایت ترک کرکے اپنے پاؤں پرکھڑے ہونا سیکھیں۔ اسرائیل فلسطینیوں اور عربوں کا ڈکلیئرڈ دشمن ہے، اسرائیلی مظالم سے لاکھوں فلسطینی ہلاک و دربدر ہوگئے ہیں لیکن وہ غزہ پر قبضہ کرکے فلسطینیوں کو مسلسل شہید کررہا ہے، بلا شبہ علاقے میں اسرائیل کو زندہ رہنے کا حق ہے لیکن اسرائیل یہ حق دھونس کے ذریعے حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ عرب اس سیاست سے سمجھوتے کرکے زندہ رہنا چاہتے ہیں، لیکن ایران اسرائیل کے ساتھ کسی قیمت پر محکومی پالیسی پر چلنے کے لیے تیار نہیں ۔ یہی وہ تضاد ہے جو مشرق وسطیٰ کے مسلم ملکوں کو ایک دوسرے کے قریب آنے نہیں دیتا ۔

دنیا اب جنگوں، نفرتوں، خون خرابے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ عرب ملک بھی جنگ کے متحمل نہیں ہوسکتے، لیکن عرب ملکوں کی اسرائیل کے ساتھ عاجزانہ رویوں کے باوجود اسرائیل اس عاجزانہ پالیسی کے جواب میں حاکمانہ پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ عرب ملکوں کی اجتماعی طاقت دور حاضر کی دفاعی ضرورتوں کے مطابق ہو تو اسرائیل کے لیے عربوں کے ساتھ دادا گیری ممکن نہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ امریکا اسرائیل کی سلامتی کا ضامن ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ عرب بادشاہوں اور حکمران شیوخ کو یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ کسی بھی شاہ کو دشمن طاقت کی طرف سے کوئی خطرہ لاحق نہ ہو، اس لیے عرب شیوخ اور عرب بادشاہ نہ امریکا سے سرتابی کرسکتے ہیں نہ اسرائیل کے خلاف سر اٹھاسکتے۔ ان حقائق کی پیش نظر عرب حکمران مستقل دباؤ کی کیفیت میں رہتے ہیں۔


عربوں کا ایک بڑا مسئلہ ایران کا خوف ہے۔ یہ اکیسویں صدی ہے دنیا چاند اور مریخ پر کمند ڈال رہے ہیں اور ہمارے مسلمان بھائی رنگ نسل زبان اور مسلک کے گورکھ دھندوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ جنگیں اور جنگوں کی تیاری اکیسویں صدی کی ضرورتوں کے بالکل برعکس لیکن عربوں کی جنگ ضرورت ہو یا نہ ہو عربوں پر جنگ کا خوف مسلط رکھنا امریکا اور مغرب کی ضرورت ہے کیونکہ مغربی ملکوں کی ہتھیاروں کی صنعت پر جوکھربوں ڈالر لگائے گئے ہیں ان کی واپسی کا واحد راستہ آزاد لیکن کمزور ملکوں پر جنگ کا خوف مسلط رکھنا ہے اور امریکا اور اس کے اتحادی عشروں سے اسی پالیسی پر کار بند ہیں۔ سونے پر سہاگہ ایران ایٹمی ملک بھی ہے، مکار اور مفاد پرست سامراجی ملک اگر ایمانداری سے کشمیر اور فلسطین کا مسئلہ حل کرنا چاہیں تو یہ دونوں 70 سالوں سے اقوام متحدہ کے گیٹ پر لٹکے ہوئے یہ دونوں مسئلے دو ہفتوں میں حل کیے جاسکتے ہیں لیکن ہتھیاروں کی صنعت کے مالکان کے مفادات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ جنگ کے کلچر سے علیحدگی اختیار کریں۔

فلسطین اور کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے تو اس کے اثرات پوری دنیا پر پڑیں گے۔ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں تعمیر و ترقی کا نیا دور شروع ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کا عفریت بھی ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا ۔ غور کیا جائے تو دہشت گردی کی تہہ میں یہی دو تنازعہ کار فرما ہیں'اگر یہ دو تنازعے حل ہو جاتے ہیں تو دہشت گردی ختم ہو جائے گی۔ اس کے اثرات براعظم افریقہ کے کئی ملکوں میں جاری خانہ جنگی پر بھی پڑیں گے اور وہاں بھی امن قائم ہونے کے امکانات پیدا ہو جائیں گے۔

بھارت دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے لیکن بھارت ماضی کی غیر جانبدارانہ پالیسی کو چھوڑ کر امریکا کا فوجی اتحادی بنا ہوا ہے۔ بھارتی قیادت کو ذرا برابر احساس نہیں کہ دنیا کے اس دوسرے بڑے ملک کو بھارت سے فوجی معاہدوں میں نتھی نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن بھارت کی آر ایس ایس کی امریکا نواز حکومت نے جنوبی ایشیا کے عوام کے مفادات اور بہتر مستقبل کو نظر انداز کرکے کشمیر کے گھنٹی اپنے گلے میں اس مضبوطی سے باندھ لی ہے کہ جنوبی ایشیا کے عوام کا مستقبل اس گھنٹی سے بندھ گیا ہے۔ بھارت اپنے آپ کو ایک سیکولر ملک کہتا ہے لیکن اس کی مفاد پرستانہ اور غیر منطقی سیاست سے اس پورے خطے کے عوام کا مستقبل متاثر ہو رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں جو کردار اسرائیل ادا کررہاہے وہی کردار جنوبی ایشیا میں بھارت ادا کررہا ہے۔

جن بنیادوں پر فلسطین اورکشمیر میں غیر منطقی بنیاد پر عوام کو ایک دوسرے سے برسر پیکارکردیاگیا ہے سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے ان بنیادوں کو ڈھادیا ہے۔ اسرائیل اور بھارت میں ترقی پسند روشن خیال طاقتیں مضبوط ہیں لیکن افسوس اور دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس خطے میں مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے پھیلاؤ اور مستحکم ہونے کا سب سے بڑا سبب فلسطین اور کشمیر ہیں اگر ان دنوں مسئلوں کو غیر منطقی اور غیر انسانی تنازعات میں نہ بدل دیا جاتا تو مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کی صورتحال بالکل مختلف ہوتی ۔ آج کل یہ سوال بڑی شدت سے کیا جا رہاہے کہ جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کی فکری ایلیٹ اپنے علاقوں میں مذہبی انتہا پسند طاقتوں کو پھلنے پھولنے دے کر کیا وہ اپنی نظریاتی ذمے داریاں پوری کررہی ہے۔

دنیا میں امن اور خوشحالی ہر مذہب و ملت کے ماننے والے کی شدید خواہش ہے لیکن رنگ نسل زبان قومیت مذہب و ملت کے نام پر نہ صرف عوام کو منقسم کردیاگا بلکہ متحارب بھی کردیاگیا، عوام کو منقسم کرنے والے بے حد طاقتور ہیں۔ عوام کو متحد کرنے والے کمزور پوزیشن میں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام دوست طاقتیں وہ کردار ادا نہیں کررہی ہیں جو انھوں نے 1917 سے 1990 تک ادا کیا تھا اگر عوام دوست طاقتیں فروعی نظریات کے جال سے نکل کر عوام کے قریب رہیں تو اس کے مثبت نتائج نکل سکتے ہیں۔
Load Next Story