یوٹرن تو آسمان اور ہلال بھی لیتا ہے
ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ، اگر وہ ’’یوٹرن‘‘ کی بنیاد پر ہٹلر اور نپولین سے خود کو برتر بنائیں
ہم نے آپ کو کہیں نہ کہیں کبھی نہ کبھی 'کسی نہ کسی کالم میں مثنوی ''فتح خان رابعہ'' کا ایک مشہور و معروف شعر تو سنایا ہی ہو گا لیکن ہمیں پتہ ہے کہ آپ کی یادداشت فلم گجنی کے عامر خان سے بھی گئی گزری ہے، اس لیے دوبارہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔فتح خان اس رومانی کہانی کا ہیرو اور رابعہ کا عاشق ہے، ساتھ ہی شہزادہ بھی ۔جس کا ایک دوست ''کرم'' ہے جو حد درجہ پرابلم کریٹ کرنے والا ہے، پرابلم پیدا کرنا اور پھر لاکر اسے فتح خان کے گلے میں ڈالنا ہی اس کا مشغلہ ہے چنانچہ شاعر ایک موقع پرکہتا ہے کہ
یہ ''کرمے'' ڈم ہرگز دہ بدو ناوڑی
چہ چرتہ بد وی دہ ''فتحے '' سرلہ بہ ئے راوڑی
یعنی یہ ڈوم صفت کرمے جو ہے، یہ ہرگز اپنی عادت سے باز نہیں آتا اور جہاں کہیں کوئی غم ہوتا ہے لا کر ''فتح'' کے سرمڑھ دیتا ہے اور یہی بات ہم اپنی اس تبدیلی والی سرکاری کے بارے میں بھی کہہ سکتے ہیں جو روزانہ ایک نہ ایک ایسا ''شوشہ'' چھوڑتی رہتی ہے جس کو لے کر ہم ''دنوں'' پریشان رہتے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا، کیا کہیں، کیا لکھیں ،کیا سوچیں۔اب مثلاً یہ جو حضرت قائد انصاف'معمار نیا پاکستان اور مینار نیا پاکستان نے ''یوٹرن'' کا قصہ چھیڑا ہے، اس سے نہ جانے کیا کیا، کیسی کیسی اور کتنی کتنی شاخیں نکل رہی ہیں۔ گویا،
اس نے اک اینٹ پہ تعمیر کیا تاج محل
اس نے اک بات کی اور لاکھ فسانے نکلے
ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ، اگر وہ ''یوٹرن'' کی بنیاد پر ہٹلر اور نپولین سے خود کو برتر بنائیں۔ ہر کسی کو حق ہے کہ وہ خودکو جوچاہے بنا سکتا ہے لیکن خود ''بنانے'' کے جوش میں اگر کوئی دوسروں کو ''بنانا'' شروع کردے جو پہلے ہی سے اچھے خاصے ''بنے'' ہوئے ہیں تو یہ بات ذرا ٹیڑھی ہوجاتی ہے کیونکہ بہت سارے لوگ بے شک بہت زیادہ بنے یا بنائے جا سکتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ ہر کسی پر ''بنے'' بلکہ ''بنے میاں'' کا گمان کیا جائے ۔شیخ سعدی نے اس موقع پر کہا ہے کہ ء
تا مرد سخن نگفتہ باشد'عیب وہنرش نہفتہ باشد
ہربیشہ گمان مبرد کہ خالی ست'شاید کہ پلنگ خفتہ باشد
ترجمہ:جب تک کوئی بولتا نہیں اس کا عیب وہنر چھپا رہتا ہے ، ہر جنگل پر گمان مت کرکہ خالی ہے شاید وہاں کے درندے سوئے ہوئے ہوں۔
جہاں تک اس یوٹرن کا معاملہ ہے تو اب تک دنیا کی کسی بھی لغت میں اس کے معنی وہی ہیں جو ہیں اور جسے صرف ایک لفظ ''منافقت'' میں سمویا جا سکتا ہے ۔پشتو میں اسے ''کوے کا کام'' کہتے ہیں، کہانی اس کے پیچھے یہ ہے کہ ایک کوا اسلام آباد کی طرف جا رہا تھا۔کسی نے پوچھا کوے میاں کدھر۔بولا ، اسلام آباد میں بڑا ضروری کام ہے، اس کے لیے جا رہا ہوں۔ تھوڑی دیر بعد سخت آندھی چلی توکوے کی اڑان کا رخ پشاور کی طرف ہوگیا ۔اس پوچھنے والے نے دیکھا تو پوچھا۔ کیوں میاں تم تو اسلام آباد ضروری کام سے جا رہے تھے ۔بولا ، اس آندھی نے مجھے یاد دلایا کہ مجھے پشاور میں تو اس سے بھی زیادہ ضروری کام ہے ۔
یوں ''ٹرن'' کو ہم ''نیم دائرہ'' بھی کہہ سکتے ہیں جیسے ہم نے ایک مرتبہ پشاور کے ''رنگ روڈ'' کے بارے میں بتایا تھا کہ نام تو اس کا رنگ یعنی دائرہ ہے لیکن اصل میں یہ نیم دائرہ یا یوٹرن یا گھوڑے کی نسل ہے ۔اس لیے اگر صاحبان انصاف نے انصاف یعنی نصف نصف کرتے ہوئے دائرے کو یوٹرن بنا لیا ہے بلکہ تقریباً بنا ہوا کہئے کیونکہ بڑے انصاف دار کے منہ سے یہ لفظ نکلا ہے تو اب سارے چھوٹے بڑے انصاف دار اس کا ''گن گان'' تو کریں گے ہی۔
ہمیں یاد ہے ایک مرتبہ جب ابھی پاکستان کا آپریشن سکسیسفل اس وقت کے فخر ایشا قائد عوام ڈبل بیرل خان عبدالقیوم خان اور جنرل یحییٰ خان کے جیسے ماہر سرجنوں نے نہیں کیا تھا اور اس بیکار سے ''لوتھڑے '' کو کاٹ کر دور نہیں پھینکا تھا ۔تو اس وقت نیپ یعنی نیشنل عوامی پارٹی نے اپنا انتخابی نشان ''گھوڑا'' چنا تھا جس پر مولانا محمد اسماعیل ذبیح نام کے ایک معروف لکھنے والے نے روزنامہ شہباز میں ایک زبردست مضمون لکھا تھا، اس مضمون میں گھوڑے کی تاریخ ، اس کی فضیلت اور بلند مقام کا تفصیل سے ذکر کیا تھا اور اسے انسان کے بعد دوسرے درجے کا اشرف المخلوقات قرار دیا تھا۔
اس وقت ہم نیپ کے اخبار شہباز سے منسلک تھے، بڑا اچھا مضمون تھا ، ہم نے ادارتی صفحے پر خوب حاشیئے وغیرہ چڑھا کر پریس میں دے دیا ۔اس عرصے میں بنگالیوں کی طرف سے مطالبہ آیا کہ مشرقی پاکستان میں بہت کم لوگ گھوڑے سے واقف ہیں، اکثریت کے لیے یہ ایک نابلد اور غیر مانوس جانور ہے۔اس لیے پارٹی نے فیصلہ کیا کہ گھوڑے کی جگہ '' جھونپڑی'' کا نشان ہمارا ہو گا، گھوڑے والا مضمون پریس میں چھپ رہا تھا ، ہم نے مولانا ذبیح کو فون کرکے کہا کہ گھوڑے کی دم پر تو ہتھوڑا لگ گیا۔ بولے، کوئی بات نہیں میں ''جھونپڑی'' پر دوسرا مضمون ارسال کر رہا ہوں، وضاحتی نوٹ کے ساتھ اسے کل کے اخبار میں چھاپ دیں۔
مضمون آگیا۔جس میں گھوڑے کی تمام فضیلتیں بڑی ہنر مندی کے ساتھ جھونپڑے میں ڈال دی گئی تھیں۔اسے درویشوں، قلندروں اور اللہ والوں کا ٹھکانہ بتایا گیا تھا۔اور اتنا مقدس بنایا گیا کہ گھوڑا اس کے آگے دم دبا کر دوڑا دوڑا نہ جانے کہاں چلا گیا ۔
اب یہ جو ''یوٹرن'' ہے، اس کے بارے میں بھی دیکھئے گا کہ ہر طرف ٹرن ٹرن کی گھنٹیاں سنائی دینے لگیں گے بلکہ عین ممکن ہے کہ کچھ دانا دانشور یہ بھی ثابت کر دیں کہ یوٹرن تو آسمان میں بھی ہے کہ ایک کنارے سے اوپرگیا ہے اور پھر وہیں سے ایک خوبصورت موڑلے کردوبارہ زمین کی طرف یوٹرن ہوگیا ہے ۔سمندروں میں تو یوٹرن ہی یوٹرن ہیں اور کوہ ہمالیہ وغیرہ کا سلسلہ کوہ بھی برہم پترا سے چل کر اور یوں ٹرن لیتا ہوا بلوچستان اور پھر کیرتھر تک پہنچا ہے ۔سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ ہمارے پرچم ستارہ وہلال میں بھی ''ہلال'' یوٹرن ہی کے لیے شامل کیا گیا ہے بلکہ بزرگوں نے پرچم میں ہلال اس لیے ہی رکھا ہے کہ اس ملک میں ہلال ہی ہلال یعنی یوٹرن ہی یوٹرن ہوتے رہیں گے ۔مطلب یہ کہ ملک تو کیا پوری دنیا بلکہ ساری کائنات میں سے اگر ''یوٹرن'' کو نکال دیا جائے تو کچھ بھی باقی نہیں بچے گا سوائے ''ٹرن ٹرن '' کے ۔جس کے لیے ایک شاعر نے فیض کی پیروڈی یعنی یوٹرن کرتے ہوئے کہا ہے ۔
پھر کوئی آیا ٹیلیفون ۔
نہیں کوئی نہیں
سائیکل ہو گی کہیں اور چلی جائے گی
ویسے ہمیں کچھ شک شبہ سا ہو رہا ہے کہ یہ جو ''نئے پاکستان'' کی تعمیر کی جگہ ''یوٹرن'' کی بات ہونے لگی ہے تو اس کے پیچھے کوئی بڑا ''یوٹرن'' چھپا ہوا ہے جس کی آمد آمد کی تیاری ہے ۔
یہ ''کرمے'' ڈم ہرگز دہ بدو ناوڑی
چہ چرتہ بد وی دہ ''فتحے '' سرلہ بہ ئے راوڑی
یعنی یہ ڈوم صفت کرمے جو ہے، یہ ہرگز اپنی عادت سے باز نہیں آتا اور جہاں کہیں کوئی غم ہوتا ہے لا کر ''فتح'' کے سرمڑھ دیتا ہے اور یہی بات ہم اپنی اس تبدیلی والی سرکاری کے بارے میں بھی کہہ سکتے ہیں جو روزانہ ایک نہ ایک ایسا ''شوشہ'' چھوڑتی رہتی ہے جس کو لے کر ہم ''دنوں'' پریشان رہتے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا، کیا کہیں، کیا لکھیں ،کیا سوچیں۔اب مثلاً یہ جو حضرت قائد انصاف'معمار نیا پاکستان اور مینار نیا پاکستان نے ''یوٹرن'' کا قصہ چھیڑا ہے، اس سے نہ جانے کیا کیا، کیسی کیسی اور کتنی کتنی شاخیں نکل رہی ہیں۔ گویا،
اس نے اک اینٹ پہ تعمیر کیا تاج محل
اس نے اک بات کی اور لاکھ فسانے نکلے
ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ، اگر وہ ''یوٹرن'' کی بنیاد پر ہٹلر اور نپولین سے خود کو برتر بنائیں۔ ہر کسی کو حق ہے کہ وہ خودکو جوچاہے بنا سکتا ہے لیکن خود ''بنانے'' کے جوش میں اگر کوئی دوسروں کو ''بنانا'' شروع کردے جو پہلے ہی سے اچھے خاصے ''بنے'' ہوئے ہیں تو یہ بات ذرا ٹیڑھی ہوجاتی ہے کیونکہ بہت سارے لوگ بے شک بہت زیادہ بنے یا بنائے جا سکتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ ہر کسی پر ''بنے'' بلکہ ''بنے میاں'' کا گمان کیا جائے ۔شیخ سعدی نے اس موقع پر کہا ہے کہ ء
تا مرد سخن نگفتہ باشد'عیب وہنرش نہفتہ باشد
ہربیشہ گمان مبرد کہ خالی ست'شاید کہ پلنگ خفتہ باشد
ترجمہ:جب تک کوئی بولتا نہیں اس کا عیب وہنر چھپا رہتا ہے ، ہر جنگل پر گمان مت کرکہ خالی ہے شاید وہاں کے درندے سوئے ہوئے ہوں۔
جہاں تک اس یوٹرن کا معاملہ ہے تو اب تک دنیا کی کسی بھی لغت میں اس کے معنی وہی ہیں جو ہیں اور جسے صرف ایک لفظ ''منافقت'' میں سمویا جا سکتا ہے ۔پشتو میں اسے ''کوے کا کام'' کہتے ہیں، کہانی اس کے پیچھے یہ ہے کہ ایک کوا اسلام آباد کی طرف جا رہا تھا۔کسی نے پوچھا کوے میاں کدھر۔بولا ، اسلام آباد میں بڑا ضروری کام ہے، اس کے لیے جا رہا ہوں۔ تھوڑی دیر بعد سخت آندھی چلی توکوے کی اڑان کا رخ پشاور کی طرف ہوگیا ۔اس پوچھنے والے نے دیکھا تو پوچھا۔ کیوں میاں تم تو اسلام آباد ضروری کام سے جا رہے تھے ۔بولا ، اس آندھی نے مجھے یاد دلایا کہ مجھے پشاور میں تو اس سے بھی زیادہ ضروری کام ہے ۔
یوں ''ٹرن'' کو ہم ''نیم دائرہ'' بھی کہہ سکتے ہیں جیسے ہم نے ایک مرتبہ پشاور کے ''رنگ روڈ'' کے بارے میں بتایا تھا کہ نام تو اس کا رنگ یعنی دائرہ ہے لیکن اصل میں یہ نیم دائرہ یا یوٹرن یا گھوڑے کی نسل ہے ۔اس لیے اگر صاحبان انصاف نے انصاف یعنی نصف نصف کرتے ہوئے دائرے کو یوٹرن بنا لیا ہے بلکہ تقریباً بنا ہوا کہئے کیونکہ بڑے انصاف دار کے منہ سے یہ لفظ نکلا ہے تو اب سارے چھوٹے بڑے انصاف دار اس کا ''گن گان'' تو کریں گے ہی۔
ہمیں یاد ہے ایک مرتبہ جب ابھی پاکستان کا آپریشن سکسیسفل اس وقت کے فخر ایشا قائد عوام ڈبل بیرل خان عبدالقیوم خان اور جنرل یحییٰ خان کے جیسے ماہر سرجنوں نے نہیں کیا تھا اور اس بیکار سے ''لوتھڑے '' کو کاٹ کر دور نہیں پھینکا تھا ۔تو اس وقت نیپ یعنی نیشنل عوامی پارٹی نے اپنا انتخابی نشان ''گھوڑا'' چنا تھا جس پر مولانا محمد اسماعیل ذبیح نام کے ایک معروف لکھنے والے نے روزنامہ شہباز میں ایک زبردست مضمون لکھا تھا، اس مضمون میں گھوڑے کی تاریخ ، اس کی فضیلت اور بلند مقام کا تفصیل سے ذکر کیا تھا اور اسے انسان کے بعد دوسرے درجے کا اشرف المخلوقات قرار دیا تھا۔
اس وقت ہم نیپ کے اخبار شہباز سے منسلک تھے، بڑا اچھا مضمون تھا ، ہم نے ادارتی صفحے پر خوب حاشیئے وغیرہ چڑھا کر پریس میں دے دیا ۔اس عرصے میں بنگالیوں کی طرف سے مطالبہ آیا کہ مشرقی پاکستان میں بہت کم لوگ گھوڑے سے واقف ہیں، اکثریت کے لیے یہ ایک نابلد اور غیر مانوس جانور ہے۔اس لیے پارٹی نے فیصلہ کیا کہ گھوڑے کی جگہ '' جھونپڑی'' کا نشان ہمارا ہو گا، گھوڑے والا مضمون پریس میں چھپ رہا تھا ، ہم نے مولانا ذبیح کو فون کرکے کہا کہ گھوڑے کی دم پر تو ہتھوڑا لگ گیا۔ بولے، کوئی بات نہیں میں ''جھونپڑی'' پر دوسرا مضمون ارسال کر رہا ہوں، وضاحتی نوٹ کے ساتھ اسے کل کے اخبار میں چھاپ دیں۔
مضمون آگیا۔جس میں گھوڑے کی تمام فضیلتیں بڑی ہنر مندی کے ساتھ جھونپڑے میں ڈال دی گئی تھیں۔اسے درویشوں، قلندروں اور اللہ والوں کا ٹھکانہ بتایا گیا تھا۔اور اتنا مقدس بنایا گیا کہ گھوڑا اس کے آگے دم دبا کر دوڑا دوڑا نہ جانے کہاں چلا گیا ۔
اب یہ جو ''یوٹرن'' ہے، اس کے بارے میں بھی دیکھئے گا کہ ہر طرف ٹرن ٹرن کی گھنٹیاں سنائی دینے لگیں گے بلکہ عین ممکن ہے کہ کچھ دانا دانشور یہ بھی ثابت کر دیں کہ یوٹرن تو آسمان میں بھی ہے کہ ایک کنارے سے اوپرگیا ہے اور پھر وہیں سے ایک خوبصورت موڑلے کردوبارہ زمین کی طرف یوٹرن ہوگیا ہے ۔سمندروں میں تو یوٹرن ہی یوٹرن ہیں اور کوہ ہمالیہ وغیرہ کا سلسلہ کوہ بھی برہم پترا سے چل کر اور یوں ٹرن لیتا ہوا بلوچستان اور پھر کیرتھر تک پہنچا ہے ۔سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ ہمارے پرچم ستارہ وہلال میں بھی ''ہلال'' یوٹرن ہی کے لیے شامل کیا گیا ہے بلکہ بزرگوں نے پرچم میں ہلال اس لیے ہی رکھا ہے کہ اس ملک میں ہلال ہی ہلال یعنی یوٹرن ہی یوٹرن ہوتے رہیں گے ۔مطلب یہ کہ ملک تو کیا پوری دنیا بلکہ ساری کائنات میں سے اگر ''یوٹرن'' کو نکال دیا جائے تو کچھ بھی باقی نہیں بچے گا سوائے ''ٹرن ٹرن '' کے ۔جس کے لیے ایک شاعر نے فیض کی پیروڈی یعنی یوٹرن کرتے ہوئے کہا ہے ۔
پھر کوئی آیا ٹیلیفون ۔
نہیں کوئی نہیں
سائیکل ہو گی کہیں اور چلی جائے گی
ویسے ہمیں کچھ شک شبہ سا ہو رہا ہے کہ یہ جو ''نئے پاکستان'' کی تعمیر کی جگہ ''یوٹرن'' کی بات ہونے لگی ہے تو اس کے پیچھے کوئی بڑا ''یوٹرن'' چھپا ہوا ہے جس کی آمد آمد کی تیاری ہے ۔