عیدالفطر انفرادی و اجتماعی خود احتسابی کا دن

عید کا دن انفرادی اور اجتماعی سطح پر خود احتسابی کرنے کا دن ہے

ہمارا ملک اس وقت عالمی برادری میں جس مقام پر کھڑا ہے اس کے لئیے ضروری ہے کہ اسے سیاسی معاشی اور معاشرتی لحاظ سے زیادہ مضبوط بنایا جائے۔ فوٹو: رائٹرز

امسال عیدالفطر ایک ایسے موقعے پر آئی ہے جب یوم آزادی کو گزرے ابھی ایک ہفتہ ہی ہوا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت بھی رمضان المبارک کا آخری عشرہ چل رہا تھا اور آزادی ملنے کے چند روز بعد اس لٹی پٹی قوم نے عیدالفطر منائی تھی۔

آج ہم جو عیدالفطر منا رہے ہیں اس کے اور آزادی کے فوری بعد والی عید کے مابین 65 برس کا طویل عرصہ پھیلا ہوا ہے' اس دوران اگرچہ ہم نے کئی شعبوں اور کئی میدانوں میں بے مثال کارکردگی کا مظاہرہ کیا' مثالی کامیابیاں حاصل کیں اور کئی سنگ میل عبور کیے لیکن یہ بھی اب بڑی شدت سے محسوس ہونے لگا ہے کہ ہم نے بہت کچھ کھویا بھی ہے اور شاید ہم اس منزل اور اس مقصد سے منحرف بھی ہو چکے ہیں جن کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلمانان برصغیر نے ایک الگ وطن کے قیام کی لازوال جدوجہد میں لاتعداد قربانیاں دیں۔

بلاشبہ انھوں نے ایک ایسے پاکستان کی طلب کی تھی جہاں امن' خوشیاں' ترقی کے وسائل' روزگار کے مواقعے اور خوشحالی کے ذرایع ہوں' جہاں سب کو ان کا حق ملتا ہو اور جہاں مسلمان قوم اور اس ملک میں رہنے والی اقلیتیں اقوام عالم کے شانہ بشانہ آگے بڑھ سکیں لیکن آج جب ہم وطن عزیز کی حالت کا جائزہ لیتے ہیں تو ایک ابتری نظر آتی ہے' ایک عجب سی بے یقینی اور بے سکونی ہے جو محبان وطن کو بے چین کیے دے رہی ہے۔

اس قوم کی بدقسمتی ہے کہ یہاں زیادہ عرصہ طالع آزما حکمران رہے لیکن جب عوام کی منتخب کردہ حکومتوں کو کام کرنے کا موقع ملتا ہے تب بھی ڈھنگ کا کوئی کام ہوتا نظر نہیں آتا' عوام جو چاہتے ہیں انھیں وہ نہیں ملتا' توانائی کا بحران معیشت کو گُھن کی طرح چاٹے جا رہا ہے۔ یہ ایک آزمائی ہوئی حقیقت ہے کہ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان جب بھی اختلافات بڑھے اس کا فائدہ ہمیشہ غیرجمہوری قوتوں نے اٹھایا اس کے باوجود جب بھی سول حکومت کو برسراقتدار آنے کا موقع ملتا ہے وہی ٹانگ کھینچنے والا سلسلہ پھر شروع ہو جاتا ہے۔


یہ کھیل گزشتہ پینسٹھ برسوں سے جاری ہے لیکن کوئی ماضی میں پیش آنے والے واقعات سے سبق حاصل کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ہمارے سیاستدان جب تک اپنی اس روش کو تبدیل نہیں کرتے اس وقت تک حالات میں بہتری کی توقع عبث ہے۔ ضروری ہے کہ ملک کے لیے ٹھوس اور طویل المیعاد پالیسیاں بنائی جائیں تاکہ ان کے اثرات اور فائدوں سے فیض یاب ہوا جا سکے۔ بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر جو تبدیلیاں روپذیر ہوتی نظر آ رہی ہیں اور ہمارا ملک اس وقت عالمی برادری میں جس مقام پر کھڑا ہے اس کا بھی تقاضا ہے کہ اسے سیاسی معاشی اور معاشرتی لحاظ سے زیادہ مضبوط بنایا جائے۔

یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں اگر رواداری' معاملہ فہمی' افہام و تفہیم اور دانش مندی سے کام لیں تو موجودہ گھمبیر صورتحال کا کوئی مثبت اور قابل اطمینان حل تلاش کرنا چنداں مشکل نہ ہو گا۔ اقوام عالم کے لیے اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مسئلہ کشمیر ہی جنوبی ایشیاء میں پائیدار امن کے قیام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور یہ بالکل واضح ہے کہ جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو جاتا اس وقت تک اس خطے میں امن کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔

کشمیر کے الحاق اور کشمیری عوام کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کے اتفاق رائے سے منظور ہونے والی اقوام متحدہ قراردادیں گزشتہ چونسٹھ برسوں سے اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر کی بند الماریوں میں پڑی ہیں اور عالمی ضمیر کی بے حسی پر ماتم کناں ہیں۔ یہ بات افسوسناک ہے کہ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے بڑے ملکوں کے مفادات پر مبنی قراردادیں تو فوراً منظور کر لی جاتی ہیں اور ان پر عمل بھی ہو جاتا ہے لیکن پس ماندہ یا ترقی پذیر ملکوں کے تنازعات کے لیے تسلیم کیے جانے والے معاہدوں پر کئی کئی عشروں تک عمل درآمد کی نوبت نہیں آتی۔ چنانچہ جنوبی ایشیاء اگر مسئلہ کشمیر کی وجہ سے سلگ رہا ہے تو مشرق وسطیٰ میں اسرائیل فلسطین تنازع وہاں کی اقوام اور پوری مسلم دنیا کے لیے سوہان روح بنا ہوا ہے۔

یہ تنازعات حل نہ ہونے کی ایک وجہ مسلم امہ کی ضرورت سے زیادہ کمزوری ہے۔ گزشتہ دنوں منعقد کیے گئے او آئی سی کے ایک غیرمعمولی اجلاس کے اختتام پر جاری کیے گئے اعلامیہ میں مسلم ممالک کے اندر پائی جانے والی منافرت اور ایک دوسرے کو قتل کرنے کے روّیے کی شدید مذمت کی گئی اور تمام ممالک اور حکومتوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ فروعی اختلافات سے بالاتر ہو کر دین کی طرف لوٹ آئیں اور دہشت گردی و گمراہ نظریات کے خلاف جنگ میں اپنی توانائیاں صرف کریں۔ دیکھا جائے تو ایک لحاظ سے یہ وہی درس ہے جو ہمیں 'اللہ کی رسی تھامنے اور تفرقے میں نہ پڑنے' کا حکم دے کر دیا گیا ہے۔

کاش کہ ہم اس پر عمل کو بھی تیار ہو جائیں تو فی زمانہ امت مسلمہ کو جن مسائل اور شورشوں کا سامنا ہے ان سے ہمیں نجات مل جائے۔ آج کا دن اس حوالے سے بہترین ہے کہ ہم اپنے پروردگار کے سامنے ہاتھ پھیلائیں اور دعا مانگیں کہ وہ ہمیں اپنی ہدایات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما دے اور ہمارے لیے آسانیاں پیدا کر دے۔ آج کا دن انفرادی اور اجتماعی سطح پر خود احتسابی کے لیے بھی اہم و مفید ہے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم ہر مسئلے اور مشکل پر واویلا کرتے ہیں لیکن ہم نے ایک مسلمان ہونے اور امت مسلمہ کا ایک فرد ہونے کے ناتے اپنے فرائض کس قدر پورے کیے ہیں اور یہ کہ ہم اللہ کے دربار میں خود کو کتنا سرخرو خیال کرتے ہیں۔

Recommended Stories

Load Next Story