خصوصی افراد کی بحالی کیلئے معاشرتی رویے تبدیل کرنا ہوں گے
شرکاء کا ’’معذوروں کے عالمی دن‘‘ کے موقع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال
KARACHI:
معذور افراد معاشرے کا ایک اہم حصہ ہیں جنہیں ''خصوصی افراد'' کا نام دیا گیا ہے جس کا مقصد ان کی بحالی کے خصوصی اقدامات کرنے کے حوالے سے احساس پیدا کرنا ہے ۔
انسانی حقوق کا عالمی قانون خصوصی افراد کے تمام تر بنیادی حقوق کی گارنٹی دیتا ہے جبکہ ہمارے ملکی قانون میںبھی معذور افراد کو خصوصی مراعات دی گئی ہیں جن میں ملازمتوں میں کوٹہ، مفت تعلیم، علاج و دیگر سہولیات شامل ہیں تاہم ابھی ان میں مزید بہتری کی گنجائش موجود ہے۔پاکستان میں خصوصی افراد کو دی جانے والی مراعات اور ان کی صورتحال جاننے کے لیے ''معذوروں کے عالمی دن'' کے موقع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت و خصوصی افراد کے نمائندوں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
محمد اخلاق
(صوبائی وزیر برائے سپیشل ایجوکیشن پنجاب )
میں نے قلمدان سنبھالنے کے بعد جب ڈیپارٹمنٹ سے بریفنگ لی تو مجھے ایک خوبصورت سلائڈز والی پریزینٹیشن دکھائی گئی جس کے اختتام پر میں نے افسران سے پوچھا کہ محکمے میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ ہے؟معذور افراد کی تعداد کے حوالے سے اعداد و شمار کیا ہیں؟ مجھے جان کر افسوس ہوا کہ محکمے کے پاس معذور افراد کاکوئی ڈیٹا موجود نہیں لہٰذا اس حوالے سے میں نے فوری دو اقدامات کئے ہیں۔ پہلا یہ کہ میں نے شماریاتی ڈیپارٹمنٹ کو خصوصی افراد کا ڈیٹااکٹھا کرنے کا کہا ہے۔
دوسرایہ کہ اس کام کے لیے ایک متبادل باڈی بنا رہا ہوں۔ سیاسی جماعتوں کے تمام علاقوں میںگراس روٹ لیول تک نمائندے موجود ہوتے ہیں جنہوں نے بلدیاتی الیکشن لڑنا ہوتا ہے اور انہیں اپنے گلی، محلے کے تمام لوگوں کی معلومات ہوتی ہیں۔اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے ایسے علاقے جہاں ہمارے سنٹرز موجود ہیں،و ہاںکے تمام جیتنے اور ہارنے والے بلدیاتی نمائندوں کو دو، دو فوکل پرسنز دینے کا کہا ہے جن کا تعلق سیاست سے نہ ہوبلکہ ان میں ڈاکٹر،انجینئر، پروفیسر و دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہوں۔
یہ نظام بنانے سے مجھے اپنے تمام سنٹرز میں موجود کوآرڈینیٹرز اور متبادل نظام کے ذریعے لگائے گئے فوکل پرسنز کی رپورٹس کا موازنہ کرکے بہتر جائزہ لینے میں مدد ملے گی۔ میں نے 1998ء میں بلدیاتی الیکشن لڑا تھا لہٰذا مجھے معلوم ہے کہ بلدیاتی نمائندوں کو اپنے علاقے کے ہر شخص کا علم ہوتا ہے لہٰذا ان سے خصوصی افراد کے بہتر اعداد و شمار اور صورتحال معلوم ہوسکتی ہے۔ اگر ان سے اعداد و شمار نہ مل سکے تو کم از کم ایک فائدہ ضرور ہوگا کہ جو معذور بچے ابھی تک ہمارے سنٹرز میں نہیں آئے، انہیں وہاں تک لانے میں مدد ملے گی۔
خصوصی افراد کی بحالی کے لیے حکومت خطیر رقم خرچ کررہی ہے تاہم بعض جگہ کرپشن ہے اور ادارے تباہ ہیں ۔ محکمے کا سٹاف قابل ہے۔ تمام افسران ایم فل اور پی ایچ ڈی ہیں جو اچھا کام کررہے ہیں مگر بعض جگہ مسائل ہیں جنہیں حل کرنے کے لیے کام کررہا ہوں اور بعض افسران کے تبادلے بھی کیے ہیں۔ ہمارے پاس زیادہ معذوری والے بچے ہیں جن میں اندھے، گونگے، بہرے و دیگر شامل ہیں۔ اس وقت محکمہ سپیشل ایجوکیشن پنجاب کے 292 سنٹرز اور 5ڈگری کالج ہیں جن کے طلبہ کومفت پک اینڈ ڈراپ سروس فراہم کی جارہی ہے اور ماہانہ 800 روپے وظیفہ، کتابیں اور یونیفارم بھی مفت دیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ معذور طلبہ کیلئے 35 نئی ایئرکنڈیشن بسیں بھی آگئی ہیں جبکہ گوجرانوالہ میں 6 بسیں دے دی گئی ہیں۔
محکمے کو فنڈز کی کمی کا بھی سامنا ہے جس کی وجہ سے بعض علاقوں میں سنٹرز کیلئے کرایہ پر عمارتیں لی گئی ہیں۔ بعض علاقوں میں خصوصی بچوں کی تعداد انتہائی کم ہے لہٰذا وہاں بھی عمارتیں تعمیر نہیں کی گئیں بلکہ کرایہ پر لے لی گئی ہیں تاکہ اخراجات زیادہ نہ ہوں۔ اس وقت 11 اضلاع میں محکمہ کی نئی عمارتیں زیر تعمیر ہیں جن میں جنوبی پنجاب کے اضلاع بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ تمام سپیشل ایجوکیشن سنٹرز میں اساتذہ کی حاضری بائیومیٹرک کی جارہی ہے تاکہ حاضری و دیگر معاملات کو بہتر کیا جاسکے۔ میرے لیے یہ نشست سود مند ثابت ہوئی ہے کیونکہ اس میں بہت سی اچھی تجاویز سامنے آئی ہیں ۔ معذوروں کی بحالی کے لیے قانون سازی کی جارہی ہے جس کے لیے خصوصی افراد کے نمائندوں و دیگر ماہرین کے ساتھ مشاورت جاری ہے۔
میں اس فورم میں موجود خصوصی افراد کے نمائندوں کی تجاویز پر بھی غور کروں گا اور ان کے ساتھ میٹنگ بھی رکھی جائے گی تاکہ بہتر قانون سازی ہوسکے۔ میں نجی اداروں کے دورے بھی کر رہا ہوں تاکہ سرکاری اور نجی اداروں کے درمیان معیار تعلیم، سہولیات و دیگر معاملات کا موزانہ کرکے بہتری لائی جائے سکے۔ میں نے حال ہی میں لاہور، گجرات، نارووال و دیگر علاقوں میں قائم خصوصی افراد کے نجی سنٹرز کا دورہ کیا جو اچھا کام کر رہے ہیں۔ خصوصی افراد کے لیے عمارتوں میں ''ریمپ'' تعمیر کرنے کے حوالے سے کوئی قانون سازی نہیں ہے۔
گزشتہ ہفتے میں نے اپنے محکمے کو تمام عمارتوں میں معذور افراد کے لیے ''ریمپ'' کو لازمی قرار دینے کا قانون بنانے کا کہا ہے۔ اس قانون کے تحت کسی نئی عمارت کا نقشہ ''ریمپ'' کے بغیر منظور نہیں ہوگا جبکہ پرانی عمارتوں کو بھی ''ریمپ'' تعمیر کرنے کا پابند کیا جائے گا، اس سے خصوصی افراد کے لیے آسانی پیدا ہوگی۔ ایک بات غور طلب ہے کہ ''کزن میرج'' معذوری کی ایک بڑی وجہ ہے جس کے بارے میں آگاہی دینے کیلئے سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کے تعاون سے بڑے پیمانے پر مہم شروع کی جارہی ہے۔ اس حوالے سے معاشرے کے تمام سٹیک ہولڈرز کو چاہیے کہ ہمارے ساتھ تعاون کریں اور میڈیا پر بھی خصوصی آگاہی مہم چلائی جائے ۔میرے نزدیک جسمانی طور پر معذور شخص معذور نہیں ہے بلکہ وہ شخص معذور ہے جو ناانصافی کرتا ہے۔
رشوت لیتا ہے اور اپنا کام ایمانداری سے نہیں کرتا کیونکہ اس کا ضمیر مرچکا ہے۔ اسی طرح جس کے دل میں بغض، کینہ اور حسد ہے اس کا دل مردہ ہوچکا ہے اور میرے نزدیک وہ بھی معذور ہے لہٰذا ہمیں خود احتسابی کرتے ہوئے اپنے اپنے حصے کا کام ایمانداری سے کرنا ہوگا۔ خصوصی افراد کو معاشرے میں مختلف مسائل کا سامنا ہے لہٰذا ان کے حوالے سے معاشرتی رویوں میں تبدیلی کیلئے تعلیمی نصاب میں مضامین شامل کیے جائیں گے۔میں نے حال ہی میں ایک معذور ورکر کا تبادلہ ملتان سے گوجرانوالہ کرایا ہے جو سیالکوٹ کا رہائشی ہے مگر گزشتہ 8 برسوں سے ملتان میں نوکری کرنے پر مجبور ہے۔ وہ لڑکا انتہائی قابل ہے، اس نے مختلف مضامین میں تین ایم اے کیے ہیں جبکہ اس کی زوجہ نے بھی دو ایم اے کیے ہیں جو قابل تعریف ہے۔ میں نے چند روز قبل اپنے حلقے میں خصوصی افراد کا بنایا ہوا کپڑا خریدا ہے جو بہترین ہے۔ مجھے یہ اندازہ ہے کہ خصوصی افراد میں بہت زیادہ ٹیلنٹ موجود ہے لہٰذاان کی ووکیشنل ٹریننگ کا بجٹ بڑھایا جارہا ہے تاکہ انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جاسکے۔
ڈاکٹر خالد جمیل
(بگ برادر)
بدقسمتی سے حکومت کو ابھی تک معذور افراد کی تعداد ہی معلوم نہیں۔گزشتہ حکومت نے ہمارے احتجاج پر مردم شماری کے فارم میں معذور افراد کا خانہ شامل کیا مگر اس میں معذوری کی قسم یا نوعیت کی کوئی تفصیل نہیں تھی لہٰذا ایسی صورت میں ان کی بحالی کے موثر اقدامات کیسے کئے جاسکتے ہیں؟ جب خصوصی افراد کی تعداد اور معذوری کی نوعیت معلوم نہیں تو پھر ان کی تعلیم، صحت و دیگر سہولیات کے لیے بجٹ کیسے مختص کیا جائے گا ؟سابق حکومت نے ہمارے ساتھ معذوروں کے حوالے سے مردم شماری کرانے کا وعدہ کیا تھا جو وفا نہیں ہوا۔ ہمارا موجودہ حکومت سے مطالبہ ہے کہ معذوروں کا ڈیٹا اکٹھا کرنے کیلئے پنجاب کی سطح پر فوری مردم شماری کرائی جائے اور مرحلہ وار دیگر صوبوں میں بھی کی جائے ۔
ایسا کرنے سے حکومت کے پاس خصوصی افراد کے حوالے سے اعداد و شمار آجائیں گے اور پھر ان کی روشنی میں اقدامات کرنے میں مدد ملے گی۔خصوصی افراد کے حوالے سے چند اقدامات انتہائی ضروری ہیں۔ حکومت اگر انہیں دیگر سہولیات نہیں دے سکتی تو کم از کم ان کی معذوری ختم کرنے کے لیے مدد فراہم کرے۔اس کے لیے تمام معذور افراد کا علاج مفت ہونا چاہیے اور جسے مصنوعی بازو، ٹانگ ، وہیل چیئر، کان کا آلہ یا کسی اور سہولت کی ضرورت ہے، اسے سرکار کی جانب سے مفت دی جائے۔ یہ حکومت کا بہت بڑا قدم ہوگا اور اس سے خصوصی افراد کو ریلیف ملے گا۔ خصوصی افراد کو اپنے علاج کے لیے معذوری کا سرٹیفکیٹ لینے میں مشکلات کا سامنا ہے۔جسے مصنوعی ٹانگ یا بازو کی ضرورت ہے اسے بھی اپنے ڈسٹرکٹ ہسپتال سے معذوری کی تصدیق کروانی پڑتی ہے۔
دور دراز علاقوں سے لوگ علاج کے لیے آتے ہیں مگر انہیں اس سرٹیفکیٹ کے حصول کے لیے واپس اپنے ڈسٹرکٹ جانا پڑتا ہے جو افسوسناک ہے۔ اس کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات کی ضرورت ہے۔ میرے نزدیک معائنے میں معذوری کی تصدیق ہونے کے بعد اس کا فوری علاج ہونا چاہیے اور اسے سرٹیفکیٹ کے حصول کیلئے واپس ڈسٹرکٹ ہسپتال نہیں بھیجنا چاہیے۔ تعلیمی اداروں میں خصوصی افراد کا 3 فیصد کوٹہ ہونا چاہیے اور اسے معذوری کی نوعیت سے مشروط کیا جائے۔ اس میں ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ انگلی کٹے بچے کو اس کوٹہ پر داخلہ دے دیا جائے اور وہیل چیئر پر بیٹھے بچے کو داخلہ نہ ملے۔ جس مقصد کے لیے یہ قانون بنا ہے وہ پورا ہونا چاہیے لہٰذا ایسے معذور جو کسی دوسرے پر انحصار کرتے ہیں انہیں داخلہ ملنا چاہیے۔
بدقسمتی سے ہمارے لیے کی جانے والی منصوبہ بندی میں ہمیں شامل نہیں کیا جاتا جس کے باعث مسائل حل نہیں ہوتے۔ جو لوگ ہمارے لیے کام کرتے ہیں ہمیں ان کی نیت پر شک نہیں ہے بلکہ وہ اپنی طرف سے اچھا کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر وہ نارمل افراد ہیں اور انہیں ہمارے مسائل کا ٹھیک سے ادراک نہیں ہے۔ ہم جس کیفیت سے گزر رہے ہیں اور ہمیں کیا سہولیات چاہئیں اور کس طرح کی چاہئیں یہ ہم بہتر طریقے سے بتا سکتے ہیں۔میرا مطالبہ ہے کہ خصوصی افراد کے لیے بنائی جانے والی کمیٹیوں میں انہیں لازمی نمائندگی دی جائے اور پالیسی سازی میں مشاورت بھی کی جائے۔
میں نے حکومت کو تجویز دی کی معذوری کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ ایک کم معذوری جس میں کسی شخص کا پاؤں تھوڑا سا ٹیڑھا ہے مگر وہ بھاگ لیتا ہے اور لنگڑا کر چلتا ہے، اسے کوٹہ پر تعلیم یا ملازمت نہ دی جائے بلکہ صرف علاج کی سہولت دی جائے۔ اس کے بعد درمیانے درجے کے معذور ہیں جو وہیل چیئر یا دیگر سہارے سے حرکت کرتے ہیں، انہیں کوٹہ پر داخلہ دیا جائے۔ اس کے بعد شدید قسم کے معذور ہیں جو بستر سے اٹھ نہیں سکتے۔ حکومت کو چاہیے کہ انہیں بیت المال سے خوراک، علاج و دیگر اخراجات ادا کرے۔ معذوری کی نوعیت کے حوالے سے پالیسی بنائی جائے اور پھر جب معذوری کا سرٹیفکیٹ بنایا جائے تو اس میں لکھا جائے کہ اس شخص کو تعلیمی ادارے میں داخلہ ، علاج، نوکری میں سے کونسی سہولت دینی ہے۔ ہمارا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ عمارتیں معذور فرینڈلی نہیں ہیں۔ افسوس ہے کہ ریلوے سٹیشن پر بھی معذوروں کے لیے سہولت نہیں۔ 25 برس قبل ایئر پورٹ پر بھی وہیل چیئر کی سہولت نہیں تھی اور وہاں سب سے پہلے میں نے وہیل چیئر عطیہ کی۔اب تو وہاں خاصی تعداد میں وہیل چیئرز موجود ہیں۔
معذوروں کے حوالے سے سپیشل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے بہت اچھا کام کیا اور مختلف پارکس اور عمارتوں کو معذوروں کے لیے قابل رسائی بنایا۔ 10 برس قبل اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے خصوصی افراد کے حوالے سے اقدامات کیلئے مجھے تجاویز دینے کے لیے بلایا۔ میں نے انہیں ہسپتال بنانے کی تجویز دی جس پر انہوں نے کہا کہ وہ سپیشل بچوں کے لیے سٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال بنانا چاہتے ہیں جس کے لیے ایک ارب ڈالر کی خطیر رقم بھی مختص کردی۔
اس کے بعد یہ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ ہسپتال سپیشل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ بنائے یا سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ ۔ اسی کشمکش میں یہ منصوبہ التوا کا شکار رہا اور 10 برسوں میں یہ ہسپتال نہیں بن سکا۔ جب سپیشل ایجوکیشن والوں سے یہ کہا جاتا کہ یہ منصوبہ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کو دے دیں تو وہ کہتے تھے کہ یہ ہمارے دائرہ کار میں ہے لہٰذا ہم ہی اسے بنائیں گے۔ اس وقت سپیشل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ ، سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ اور ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ، تین محکمے خصوصی افراد کے لیے کام کررہے ہیں جن کے دائرہ اختیار کی وجہ سے مسائل ہیں لہٰذا جاپان، چین و دیگر ممالک کی طرح خصوصی افراد کے لیے ایک الگ وزارت بنائی جائے جس کے نیچے تمام متعلقہ محکمے تشکیل دیے جائیں تاکہ موثر کام ہوسکے۔
لالہ جی سعید اقبال مرزا
( چیئرمین پاکستان سپیشل پرسنز)
38 برس قبل میں ایک حادثے میں معذور ہوا تو مجھے خصوصی افراد کے مسائل کا ادراک ہوا اور پھر میں نے ان کی بحالی کے لیے کام کا آغاز کردیا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور سے پہلے خصوصی افراد کا کوٹہ نہیں تھا لہٰذا میں نے اس دور میں ان سے معذوروں کے لیے 1 فیصد کوٹہ منظور کروایا۔ خصوصی افراد کے حوالے سے عالمی دن تو منایا جاتا ہے مگر انہیں آگے نہیں آنے دیا جاتا اور نہ ہی ان کے لیے کوئی سہولیات ہیں۔یہ خوش آئند ہے کہ وزیراعظم عمران خان پاکستان کو مدینہ جیسی ریاست بنانا چاہتے ہیں لہٰذا ہمیں ان سے پوری امید ہے کہ وہ لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے موثر کام کریں گے اور ہم انہیں بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرواتے ہیں۔ اس وقت پنجاب کے ضلع گجرات اور گوجرانوالہ میں سپیشل ایجوکیشن کی کئی عمارتیں کرایہ پر ہیں جن کا ماہانہ کرایہ لاکھوں روپے ہے۔
اگر حکومت اپنے خرانے سے محکمہ اوقاف یا کسی دوسرے سرکاری ادارے کی اراضی پر خصوصی افراد کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ عمارتیں تعمیر کردے تو کروڑوں روپے بچائے جاسکتے ہیں اور خزانے پر بوجھ بھی کم ہو جائے گا۔ لالہ موسیٰ کھاریاں میں قائم سپیشل ایجوکیشن سکول کو میٹرک تک کرنے کیلئے گزشتہ 3 برسوں سے کوشش کر رہے ہیں لہٰذا حکومت سے مطالبہ ہے کہ اسے جلد از جلد میٹرک تک کا درجہ دیا جائے تاکہ خصوصی بچوں کوان کے علاقے میں ہی تعلیم کی سہولت دی جاسکے۔ حکومت سپیشل ایجوکیشن کے سکولوں میں طلبہ کو ماہانہ 800 روپے وظیفہ دے رہی ہے جبکہ ٹرانسپورٹ، یونیفارم و دیگر سہولیات بھی مفت ہیں۔ افسوس ہے کہ بہت سارے والدین اپنے معذور بچوں کو صرف اس لیے سکول بھیجتے ہیں کہ 800 روپے ملیں گے اور بچہ 6 گھنٹے وہاں گزارے گا۔ حکومت کا مقصد 800 روپے دینا نہیں بلکہ انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہے لہٰذا اس حوالے سے معاشرے کی تربیت کی ضرورت ہے۔
معذور افرادبڑے مشکل حالات میںتعلیم حاصل کرتے ہیں لہٰذا انہیں این ٹی ایس یا اس طرح کے دیگر امتحانات سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ اس کے علاوہ گوجرانوالہ میں خصوصی افراد کیلئے ٹیکنیکل ایجوکیشن کا ادارہ بنایا جائے۔ صرف پنجاب میں 50 لاکھ سے زائد خصوصی افراد ہیں جنہیں مشکلات کا سامنا ہے۔ انہیںمعذوری کے سرٹیفکیٹ کے حصول کیلئے بیسیوں چکر لگانے پڑتے ہیں جو افسوسناک ہے۔ شناختی کارڈ بنوانے کیلئے نادرا کی فیس 850 روپے ہے جو معذور افراد کیلئے زیادہ ہے۔
ہمارا مطالبہ ہے کہ خصوصی افراد کے تمام مسائل کے حل کے لیے انہیں سہولیات دی جائے۔ تعلیم یافتہ خصوصی افراد کو ملازمت، ٹیکنیکل مہارت رکھنے والوں کو 3 لاکھ قرض جبکہ وہ معذور افراد جو بستر سے نہیں اٹھ سکتے، انہیں 5 ہزار ماہانہ وظیفہ دیا جائے۔ ڈاکٹر خالد جمیل خصوصی افراد کی بحالی کے لیے مثالی کام کررہے ہیں۔ ہم نے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے درخواست کی تھی کہ عدالت میں وہیل چیئرز رکھوائی جائیں لہٰذا ان کے حکم پر تمام اضلاع و تحصیلوں میں قائم عدالتوں میں وہیل چیئرز رکھ دی گئی ہیں جو خوش آئند ہیں۔ یہ باعث افسوس ہے کہ سابق دور حکومت میں اسمبلی میں خصوصی افراد کے لیے کوٹہ کا بل کسی جماعت نے منظور نہیں کیا جبکہ بلدیاتی اداروں میں بھی خصوصی افراد کی نمائندگی پر رضامندی ظاہر نہیں کی گئی۔ مطالبہ ہے کہ معذوروں کو ہر سطح پر نمائندگی دی جائے۔
عاکفہ سعید
(ملٹی میڈیا آرٹسٹ،فوٹو گرافر و گرافک ڈیزائنر)
خصوصی افراد میں بہت زیادہ ٹیلنٹ موجود ہے۔ وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر ان کے پاس آگے بڑھنے کے مواقع نہیں ہیں جبکہ انہیں تعلیم کے حصول میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ پہلے معذور افراد کی تعلیم مفت نہیں تھی۔میں نے سرکاری یونیورسٹی میں گریجوایشن کے تین برس تک اپنی فیس خود جمع کروائی جبکہ چوتھے برس میں میری فیس معاف ہوئی۔اس کے بعد ایک اور ادارے میں تعلیم کیلئے فیس دینا پڑی لہٰذا سرکاری اداروں کے ساتھ ساتھ نجی تعلیمی اداروں میں بھی کوٹہ مقرر کیا جائے۔ معذور افراد کو صحت کی سہولیات مفت ملنی چاہئیں۔
یہاں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ معیاری علاج نہیں ہوتا۔ بچپن میں ایک حادثہ کے دوران میرا ایک بازو ضائع ہوا جس کا مصنوعی بازو پاکستان میں میسر نہیںجبکہ جاپان سے یہ بازو 40 لاکھ روپے میں درآمد ہو گا لہٰذا میرا مطالبہ ہے کہ پاکستان میں ہی عالمی معیار کے مصنوعی اعضاء بنائے جائیں۔ افسوس ہے کہ لوگ خصوصی افراد کو صرف ہمدردی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اوران پر ترس کھاتے ہیں مگر ان کے ٹیلنٹ کی قدر نہیں کرتے۔ اگر انہیں آگے بڑھنے میں سپورٹ کیا جائے اور ان کی معذوری کو کمزوری نہ سمجھا جائے تو بہت حد تک بہتری آسکتی ہے۔ میرے نزدیک معاشرتی رویوں میں تبدیلی لانے کے لیے خصوصی افراد کے ساتھ برتاؤ کے حوالے سے تعلیمی نصاب میں خصوصی مضامین شامل کیے جائیں۔
لوگوں کو یہ آگاہی دی جائے کہ وہ کس طرح خصوصی افراد کے لیے سازگار ماحول پیدا کریں۔ ہمیں چاہیے کہ آنے والی نسلوں کی ایسی تربیت کریں کہ معاشرے میں سدھار پیدا ہو لیکن اگر صرف عالمی دن کے موقع پر فوٹوسیشن کے لیے اقدامات کیے جائیں گے تو کوئی خاطر خواہ فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ خوش قسمتی سے ہمارے ہاں بہت اچھے قوانین موجود ہیں مگر بدقسمتی سے ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا لہٰذا ان پر عملدرآمد یقینی بنا کر مسائل حل کیے جائیں۔
معذور افراد معاشرے کا ایک اہم حصہ ہیں جنہیں ''خصوصی افراد'' کا نام دیا گیا ہے جس کا مقصد ان کی بحالی کے خصوصی اقدامات کرنے کے حوالے سے احساس پیدا کرنا ہے ۔
انسانی حقوق کا عالمی قانون خصوصی افراد کے تمام تر بنیادی حقوق کی گارنٹی دیتا ہے جبکہ ہمارے ملکی قانون میںبھی معذور افراد کو خصوصی مراعات دی گئی ہیں جن میں ملازمتوں میں کوٹہ، مفت تعلیم، علاج و دیگر سہولیات شامل ہیں تاہم ابھی ان میں مزید بہتری کی گنجائش موجود ہے۔پاکستان میں خصوصی افراد کو دی جانے والی مراعات اور ان کی صورتحال جاننے کے لیے ''معذوروں کے عالمی دن'' کے موقع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت و خصوصی افراد کے نمائندوں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
محمد اخلاق
(صوبائی وزیر برائے سپیشل ایجوکیشن پنجاب )
میں نے قلمدان سنبھالنے کے بعد جب ڈیپارٹمنٹ سے بریفنگ لی تو مجھے ایک خوبصورت سلائڈز والی پریزینٹیشن دکھائی گئی جس کے اختتام پر میں نے افسران سے پوچھا کہ محکمے میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ ہے؟معذور افراد کی تعداد کے حوالے سے اعداد و شمار کیا ہیں؟ مجھے جان کر افسوس ہوا کہ محکمے کے پاس معذور افراد کاکوئی ڈیٹا موجود نہیں لہٰذا اس حوالے سے میں نے فوری دو اقدامات کئے ہیں۔ پہلا یہ کہ میں نے شماریاتی ڈیپارٹمنٹ کو خصوصی افراد کا ڈیٹااکٹھا کرنے کا کہا ہے۔
دوسرایہ کہ اس کام کے لیے ایک متبادل باڈی بنا رہا ہوں۔ سیاسی جماعتوں کے تمام علاقوں میںگراس روٹ لیول تک نمائندے موجود ہوتے ہیں جنہوں نے بلدیاتی الیکشن لڑنا ہوتا ہے اور انہیں اپنے گلی، محلے کے تمام لوگوں کی معلومات ہوتی ہیں۔اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے ایسے علاقے جہاں ہمارے سنٹرز موجود ہیں،و ہاںکے تمام جیتنے اور ہارنے والے بلدیاتی نمائندوں کو دو، دو فوکل پرسنز دینے کا کہا ہے جن کا تعلق سیاست سے نہ ہوبلکہ ان میں ڈاکٹر،انجینئر، پروفیسر و دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہوں۔
یہ نظام بنانے سے مجھے اپنے تمام سنٹرز میں موجود کوآرڈینیٹرز اور متبادل نظام کے ذریعے لگائے گئے فوکل پرسنز کی رپورٹس کا موازنہ کرکے بہتر جائزہ لینے میں مدد ملے گی۔ میں نے 1998ء میں بلدیاتی الیکشن لڑا تھا لہٰذا مجھے معلوم ہے کہ بلدیاتی نمائندوں کو اپنے علاقے کے ہر شخص کا علم ہوتا ہے لہٰذا ان سے خصوصی افراد کے بہتر اعداد و شمار اور صورتحال معلوم ہوسکتی ہے۔ اگر ان سے اعداد و شمار نہ مل سکے تو کم از کم ایک فائدہ ضرور ہوگا کہ جو معذور بچے ابھی تک ہمارے سنٹرز میں نہیں آئے، انہیں وہاں تک لانے میں مدد ملے گی۔
خصوصی افراد کی بحالی کے لیے حکومت خطیر رقم خرچ کررہی ہے تاہم بعض جگہ کرپشن ہے اور ادارے تباہ ہیں ۔ محکمے کا سٹاف قابل ہے۔ تمام افسران ایم فل اور پی ایچ ڈی ہیں جو اچھا کام کررہے ہیں مگر بعض جگہ مسائل ہیں جنہیں حل کرنے کے لیے کام کررہا ہوں اور بعض افسران کے تبادلے بھی کیے ہیں۔ ہمارے پاس زیادہ معذوری والے بچے ہیں جن میں اندھے، گونگے، بہرے و دیگر شامل ہیں۔ اس وقت محکمہ سپیشل ایجوکیشن پنجاب کے 292 سنٹرز اور 5ڈگری کالج ہیں جن کے طلبہ کومفت پک اینڈ ڈراپ سروس فراہم کی جارہی ہے اور ماہانہ 800 روپے وظیفہ، کتابیں اور یونیفارم بھی مفت دیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ معذور طلبہ کیلئے 35 نئی ایئرکنڈیشن بسیں بھی آگئی ہیں جبکہ گوجرانوالہ میں 6 بسیں دے دی گئی ہیں۔
محکمے کو فنڈز کی کمی کا بھی سامنا ہے جس کی وجہ سے بعض علاقوں میں سنٹرز کیلئے کرایہ پر عمارتیں لی گئی ہیں۔ بعض علاقوں میں خصوصی بچوں کی تعداد انتہائی کم ہے لہٰذا وہاں بھی عمارتیں تعمیر نہیں کی گئیں بلکہ کرایہ پر لے لی گئی ہیں تاکہ اخراجات زیادہ نہ ہوں۔ اس وقت 11 اضلاع میں محکمہ کی نئی عمارتیں زیر تعمیر ہیں جن میں جنوبی پنجاب کے اضلاع بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ تمام سپیشل ایجوکیشن سنٹرز میں اساتذہ کی حاضری بائیومیٹرک کی جارہی ہے تاکہ حاضری و دیگر معاملات کو بہتر کیا جاسکے۔ میرے لیے یہ نشست سود مند ثابت ہوئی ہے کیونکہ اس میں بہت سی اچھی تجاویز سامنے آئی ہیں ۔ معذوروں کی بحالی کے لیے قانون سازی کی جارہی ہے جس کے لیے خصوصی افراد کے نمائندوں و دیگر ماہرین کے ساتھ مشاورت جاری ہے۔
میں اس فورم میں موجود خصوصی افراد کے نمائندوں کی تجاویز پر بھی غور کروں گا اور ان کے ساتھ میٹنگ بھی رکھی جائے گی تاکہ بہتر قانون سازی ہوسکے۔ میں نجی اداروں کے دورے بھی کر رہا ہوں تاکہ سرکاری اور نجی اداروں کے درمیان معیار تعلیم، سہولیات و دیگر معاملات کا موزانہ کرکے بہتری لائی جائے سکے۔ میں نے حال ہی میں لاہور، گجرات، نارووال و دیگر علاقوں میں قائم خصوصی افراد کے نجی سنٹرز کا دورہ کیا جو اچھا کام کر رہے ہیں۔ خصوصی افراد کے لیے عمارتوں میں ''ریمپ'' تعمیر کرنے کے حوالے سے کوئی قانون سازی نہیں ہے۔
گزشتہ ہفتے میں نے اپنے محکمے کو تمام عمارتوں میں معذور افراد کے لیے ''ریمپ'' کو لازمی قرار دینے کا قانون بنانے کا کہا ہے۔ اس قانون کے تحت کسی نئی عمارت کا نقشہ ''ریمپ'' کے بغیر منظور نہیں ہوگا جبکہ پرانی عمارتوں کو بھی ''ریمپ'' تعمیر کرنے کا پابند کیا جائے گا، اس سے خصوصی افراد کے لیے آسانی پیدا ہوگی۔ ایک بات غور طلب ہے کہ ''کزن میرج'' معذوری کی ایک بڑی وجہ ہے جس کے بارے میں آگاہی دینے کیلئے سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کے تعاون سے بڑے پیمانے پر مہم شروع کی جارہی ہے۔ اس حوالے سے معاشرے کے تمام سٹیک ہولڈرز کو چاہیے کہ ہمارے ساتھ تعاون کریں اور میڈیا پر بھی خصوصی آگاہی مہم چلائی جائے ۔میرے نزدیک جسمانی طور پر معذور شخص معذور نہیں ہے بلکہ وہ شخص معذور ہے جو ناانصافی کرتا ہے۔
رشوت لیتا ہے اور اپنا کام ایمانداری سے نہیں کرتا کیونکہ اس کا ضمیر مرچکا ہے۔ اسی طرح جس کے دل میں بغض، کینہ اور حسد ہے اس کا دل مردہ ہوچکا ہے اور میرے نزدیک وہ بھی معذور ہے لہٰذا ہمیں خود احتسابی کرتے ہوئے اپنے اپنے حصے کا کام ایمانداری سے کرنا ہوگا۔ خصوصی افراد کو معاشرے میں مختلف مسائل کا سامنا ہے لہٰذا ان کے حوالے سے معاشرتی رویوں میں تبدیلی کیلئے تعلیمی نصاب میں مضامین شامل کیے جائیں گے۔میں نے حال ہی میں ایک معذور ورکر کا تبادلہ ملتان سے گوجرانوالہ کرایا ہے جو سیالکوٹ کا رہائشی ہے مگر گزشتہ 8 برسوں سے ملتان میں نوکری کرنے پر مجبور ہے۔ وہ لڑکا انتہائی قابل ہے، اس نے مختلف مضامین میں تین ایم اے کیے ہیں جبکہ اس کی زوجہ نے بھی دو ایم اے کیے ہیں جو قابل تعریف ہے۔ میں نے چند روز قبل اپنے حلقے میں خصوصی افراد کا بنایا ہوا کپڑا خریدا ہے جو بہترین ہے۔ مجھے یہ اندازہ ہے کہ خصوصی افراد میں بہت زیادہ ٹیلنٹ موجود ہے لہٰذاان کی ووکیشنل ٹریننگ کا بجٹ بڑھایا جارہا ہے تاکہ انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جاسکے۔
ڈاکٹر خالد جمیل
(بگ برادر)
بدقسمتی سے حکومت کو ابھی تک معذور افراد کی تعداد ہی معلوم نہیں۔گزشتہ حکومت نے ہمارے احتجاج پر مردم شماری کے فارم میں معذور افراد کا خانہ شامل کیا مگر اس میں معذوری کی قسم یا نوعیت کی کوئی تفصیل نہیں تھی لہٰذا ایسی صورت میں ان کی بحالی کے موثر اقدامات کیسے کئے جاسکتے ہیں؟ جب خصوصی افراد کی تعداد اور معذوری کی نوعیت معلوم نہیں تو پھر ان کی تعلیم، صحت و دیگر سہولیات کے لیے بجٹ کیسے مختص کیا جائے گا ؟سابق حکومت نے ہمارے ساتھ معذوروں کے حوالے سے مردم شماری کرانے کا وعدہ کیا تھا جو وفا نہیں ہوا۔ ہمارا موجودہ حکومت سے مطالبہ ہے کہ معذوروں کا ڈیٹا اکٹھا کرنے کیلئے پنجاب کی سطح پر فوری مردم شماری کرائی جائے اور مرحلہ وار دیگر صوبوں میں بھی کی جائے ۔
ایسا کرنے سے حکومت کے پاس خصوصی افراد کے حوالے سے اعداد و شمار آجائیں گے اور پھر ان کی روشنی میں اقدامات کرنے میں مدد ملے گی۔خصوصی افراد کے حوالے سے چند اقدامات انتہائی ضروری ہیں۔ حکومت اگر انہیں دیگر سہولیات نہیں دے سکتی تو کم از کم ان کی معذوری ختم کرنے کے لیے مدد فراہم کرے۔اس کے لیے تمام معذور افراد کا علاج مفت ہونا چاہیے اور جسے مصنوعی بازو، ٹانگ ، وہیل چیئر، کان کا آلہ یا کسی اور سہولت کی ضرورت ہے، اسے سرکار کی جانب سے مفت دی جائے۔ یہ حکومت کا بہت بڑا قدم ہوگا اور اس سے خصوصی افراد کو ریلیف ملے گا۔ خصوصی افراد کو اپنے علاج کے لیے معذوری کا سرٹیفکیٹ لینے میں مشکلات کا سامنا ہے۔جسے مصنوعی ٹانگ یا بازو کی ضرورت ہے اسے بھی اپنے ڈسٹرکٹ ہسپتال سے معذوری کی تصدیق کروانی پڑتی ہے۔
دور دراز علاقوں سے لوگ علاج کے لیے آتے ہیں مگر انہیں اس سرٹیفکیٹ کے حصول کے لیے واپس اپنے ڈسٹرکٹ جانا پڑتا ہے جو افسوسناک ہے۔ اس کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات کی ضرورت ہے۔ میرے نزدیک معائنے میں معذوری کی تصدیق ہونے کے بعد اس کا فوری علاج ہونا چاہیے اور اسے سرٹیفکیٹ کے حصول کیلئے واپس ڈسٹرکٹ ہسپتال نہیں بھیجنا چاہیے۔ تعلیمی اداروں میں خصوصی افراد کا 3 فیصد کوٹہ ہونا چاہیے اور اسے معذوری کی نوعیت سے مشروط کیا جائے۔ اس میں ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ انگلی کٹے بچے کو اس کوٹہ پر داخلہ دے دیا جائے اور وہیل چیئر پر بیٹھے بچے کو داخلہ نہ ملے۔ جس مقصد کے لیے یہ قانون بنا ہے وہ پورا ہونا چاہیے لہٰذا ایسے معذور جو کسی دوسرے پر انحصار کرتے ہیں انہیں داخلہ ملنا چاہیے۔
بدقسمتی سے ہمارے لیے کی جانے والی منصوبہ بندی میں ہمیں شامل نہیں کیا جاتا جس کے باعث مسائل حل نہیں ہوتے۔ جو لوگ ہمارے لیے کام کرتے ہیں ہمیں ان کی نیت پر شک نہیں ہے بلکہ وہ اپنی طرف سے اچھا کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر وہ نارمل افراد ہیں اور انہیں ہمارے مسائل کا ٹھیک سے ادراک نہیں ہے۔ ہم جس کیفیت سے گزر رہے ہیں اور ہمیں کیا سہولیات چاہئیں اور کس طرح کی چاہئیں یہ ہم بہتر طریقے سے بتا سکتے ہیں۔میرا مطالبہ ہے کہ خصوصی افراد کے لیے بنائی جانے والی کمیٹیوں میں انہیں لازمی نمائندگی دی جائے اور پالیسی سازی میں مشاورت بھی کی جائے۔
میں نے حکومت کو تجویز دی کی معذوری کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ ایک کم معذوری جس میں کسی شخص کا پاؤں تھوڑا سا ٹیڑھا ہے مگر وہ بھاگ لیتا ہے اور لنگڑا کر چلتا ہے، اسے کوٹہ پر تعلیم یا ملازمت نہ دی جائے بلکہ صرف علاج کی سہولت دی جائے۔ اس کے بعد درمیانے درجے کے معذور ہیں جو وہیل چیئر یا دیگر سہارے سے حرکت کرتے ہیں، انہیں کوٹہ پر داخلہ دیا جائے۔ اس کے بعد شدید قسم کے معذور ہیں جو بستر سے اٹھ نہیں سکتے۔ حکومت کو چاہیے کہ انہیں بیت المال سے خوراک، علاج و دیگر اخراجات ادا کرے۔ معذوری کی نوعیت کے حوالے سے پالیسی بنائی جائے اور پھر جب معذوری کا سرٹیفکیٹ بنایا جائے تو اس میں لکھا جائے کہ اس شخص کو تعلیمی ادارے میں داخلہ ، علاج، نوکری میں سے کونسی سہولت دینی ہے۔ ہمارا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ عمارتیں معذور فرینڈلی نہیں ہیں۔ افسوس ہے کہ ریلوے سٹیشن پر بھی معذوروں کے لیے سہولت نہیں۔ 25 برس قبل ایئر پورٹ پر بھی وہیل چیئر کی سہولت نہیں تھی اور وہاں سب سے پہلے میں نے وہیل چیئر عطیہ کی۔اب تو وہاں خاصی تعداد میں وہیل چیئرز موجود ہیں۔
معذوروں کے حوالے سے سپیشل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے بہت اچھا کام کیا اور مختلف پارکس اور عمارتوں کو معذوروں کے لیے قابل رسائی بنایا۔ 10 برس قبل اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے خصوصی افراد کے حوالے سے اقدامات کیلئے مجھے تجاویز دینے کے لیے بلایا۔ میں نے انہیں ہسپتال بنانے کی تجویز دی جس پر انہوں نے کہا کہ وہ سپیشل بچوں کے لیے سٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال بنانا چاہتے ہیں جس کے لیے ایک ارب ڈالر کی خطیر رقم بھی مختص کردی۔
اس کے بعد یہ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ ہسپتال سپیشل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ بنائے یا سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ ۔ اسی کشمکش میں یہ منصوبہ التوا کا شکار رہا اور 10 برسوں میں یہ ہسپتال نہیں بن سکا۔ جب سپیشل ایجوکیشن والوں سے یہ کہا جاتا کہ یہ منصوبہ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کو دے دیں تو وہ کہتے تھے کہ یہ ہمارے دائرہ کار میں ہے لہٰذا ہم ہی اسے بنائیں گے۔ اس وقت سپیشل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ ، سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ اور ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ، تین محکمے خصوصی افراد کے لیے کام کررہے ہیں جن کے دائرہ اختیار کی وجہ سے مسائل ہیں لہٰذا جاپان، چین و دیگر ممالک کی طرح خصوصی افراد کے لیے ایک الگ وزارت بنائی جائے جس کے نیچے تمام متعلقہ محکمے تشکیل دیے جائیں تاکہ موثر کام ہوسکے۔
لالہ جی سعید اقبال مرزا
( چیئرمین پاکستان سپیشل پرسنز)
38 برس قبل میں ایک حادثے میں معذور ہوا تو مجھے خصوصی افراد کے مسائل کا ادراک ہوا اور پھر میں نے ان کی بحالی کے لیے کام کا آغاز کردیا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور سے پہلے خصوصی افراد کا کوٹہ نہیں تھا لہٰذا میں نے اس دور میں ان سے معذوروں کے لیے 1 فیصد کوٹہ منظور کروایا۔ خصوصی افراد کے حوالے سے عالمی دن تو منایا جاتا ہے مگر انہیں آگے نہیں آنے دیا جاتا اور نہ ہی ان کے لیے کوئی سہولیات ہیں۔یہ خوش آئند ہے کہ وزیراعظم عمران خان پاکستان کو مدینہ جیسی ریاست بنانا چاہتے ہیں لہٰذا ہمیں ان سے پوری امید ہے کہ وہ لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے موثر کام کریں گے اور ہم انہیں بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرواتے ہیں۔ اس وقت پنجاب کے ضلع گجرات اور گوجرانوالہ میں سپیشل ایجوکیشن کی کئی عمارتیں کرایہ پر ہیں جن کا ماہانہ کرایہ لاکھوں روپے ہے۔
اگر حکومت اپنے خرانے سے محکمہ اوقاف یا کسی دوسرے سرکاری ادارے کی اراضی پر خصوصی افراد کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ عمارتیں تعمیر کردے تو کروڑوں روپے بچائے جاسکتے ہیں اور خزانے پر بوجھ بھی کم ہو جائے گا۔ لالہ موسیٰ کھاریاں میں قائم سپیشل ایجوکیشن سکول کو میٹرک تک کرنے کیلئے گزشتہ 3 برسوں سے کوشش کر رہے ہیں لہٰذا حکومت سے مطالبہ ہے کہ اسے جلد از جلد میٹرک تک کا درجہ دیا جائے تاکہ خصوصی بچوں کوان کے علاقے میں ہی تعلیم کی سہولت دی جاسکے۔ حکومت سپیشل ایجوکیشن کے سکولوں میں طلبہ کو ماہانہ 800 روپے وظیفہ دے رہی ہے جبکہ ٹرانسپورٹ، یونیفارم و دیگر سہولیات بھی مفت ہیں۔ افسوس ہے کہ بہت سارے والدین اپنے معذور بچوں کو صرف اس لیے سکول بھیجتے ہیں کہ 800 روپے ملیں گے اور بچہ 6 گھنٹے وہاں گزارے گا۔ حکومت کا مقصد 800 روپے دینا نہیں بلکہ انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہے لہٰذا اس حوالے سے معاشرے کی تربیت کی ضرورت ہے۔
معذور افرادبڑے مشکل حالات میںتعلیم حاصل کرتے ہیں لہٰذا انہیں این ٹی ایس یا اس طرح کے دیگر امتحانات سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ اس کے علاوہ گوجرانوالہ میں خصوصی افراد کیلئے ٹیکنیکل ایجوکیشن کا ادارہ بنایا جائے۔ صرف پنجاب میں 50 لاکھ سے زائد خصوصی افراد ہیں جنہیں مشکلات کا سامنا ہے۔ انہیںمعذوری کے سرٹیفکیٹ کے حصول کیلئے بیسیوں چکر لگانے پڑتے ہیں جو افسوسناک ہے۔ شناختی کارڈ بنوانے کیلئے نادرا کی فیس 850 روپے ہے جو معذور افراد کیلئے زیادہ ہے۔
ہمارا مطالبہ ہے کہ خصوصی افراد کے تمام مسائل کے حل کے لیے انہیں سہولیات دی جائے۔ تعلیم یافتہ خصوصی افراد کو ملازمت، ٹیکنیکل مہارت رکھنے والوں کو 3 لاکھ قرض جبکہ وہ معذور افراد جو بستر سے نہیں اٹھ سکتے، انہیں 5 ہزار ماہانہ وظیفہ دیا جائے۔ ڈاکٹر خالد جمیل خصوصی افراد کی بحالی کے لیے مثالی کام کررہے ہیں۔ ہم نے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے درخواست کی تھی کہ عدالت میں وہیل چیئرز رکھوائی جائیں لہٰذا ان کے حکم پر تمام اضلاع و تحصیلوں میں قائم عدالتوں میں وہیل چیئرز رکھ دی گئی ہیں جو خوش آئند ہیں۔ یہ باعث افسوس ہے کہ سابق دور حکومت میں اسمبلی میں خصوصی افراد کے لیے کوٹہ کا بل کسی جماعت نے منظور نہیں کیا جبکہ بلدیاتی اداروں میں بھی خصوصی افراد کی نمائندگی پر رضامندی ظاہر نہیں کی گئی۔ مطالبہ ہے کہ معذوروں کو ہر سطح پر نمائندگی دی جائے۔
عاکفہ سعید
(ملٹی میڈیا آرٹسٹ،فوٹو گرافر و گرافک ڈیزائنر)
خصوصی افراد میں بہت زیادہ ٹیلنٹ موجود ہے۔ وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر ان کے پاس آگے بڑھنے کے مواقع نہیں ہیں جبکہ انہیں تعلیم کے حصول میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ پہلے معذور افراد کی تعلیم مفت نہیں تھی۔میں نے سرکاری یونیورسٹی میں گریجوایشن کے تین برس تک اپنی فیس خود جمع کروائی جبکہ چوتھے برس میں میری فیس معاف ہوئی۔اس کے بعد ایک اور ادارے میں تعلیم کیلئے فیس دینا پڑی لہٰذا سرکاری اداروں کے ساتھ ساتھ نجی تعلیمی اداروں میں بھی کوٹہ مقرر کیا جائے۔ معذور افراد کو صحت کی سہولیات مفت ملنی چاہئیں۔
یہاں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ معیاری علاج نہیں ہوتا۔ بچپن میں ایک حادثہ کے دوران میرا ایک بازو ضائع ہوا جس کا مصنوعی بازو پاکستان میں میسر نہیںجبکہ جاپان سے یہ بازو 40 لاکھ روپے میں درآمد ہو گا لہٰذا میرا مطالبہ ہے کہ پاکستان میں ہی عالمی معیار کے مصنوعی اعضاء بنائے جائیں۔ افسوس ہے کہ لوگ خصوصی افراد کو صرف ہمدردی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اوران پر ترس کھاتے ہیں مگر ان کے ٹیلنٹ کی قدر نہیں کرتے۔ اگر انہیں آگے بڑھنے میں سپورٹ کیا جائے اور ان کی معذوری کو کمزوری نہ سمجھا جائے تو بہت حد تک بہتری آسکتی ہے۔ میرے نزدیک معاشرتی رویوں میں تبدیلی لانے کے لیے خصوصی افراد کے ساتھ برتاؤ کے حوالے سے تعلیمی نصاب میں خصوصی مضامین شامل کیے جائیں۔
لوگوں کو یہ آگاہی دی جائے کہ وہ کس طرح خصوصی افراد کے لیے سازگار ماحول پیدا کریں۔ ہمیں چاہیے کہ آنے والی نسلوں کی ایسی تربیت کریں کہ معاشرے میں سدھار پیدا ہو لیکن اگر صرف عالمی دن کے موقع پر فوٹوسیشن کے لیے اقدامات کیے جائیں گے تو کوئی خاطر خواہ فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ خوش قسمتی سے ہمارے ہاں بہت اچھے قوانین موجود ہیں مگر بدقسمتی سے ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا لہٰذا ان پر عملدرآمد یقینی بنا کر مسائل حل کیے جائیں۔