پھر تین عیدیں‘ یہ سلسلہ کب تک چلے گا
اس سال امید تھی کہ پورے پاکستان میں عید ایک ہی روز ہو لیکن افسوس...
ہمارے ملک میں شوال کا چاند نظر آنے یا نہ آنے کا معاملہ ایک بار پھر اختلافات کا باعث بن گیا۔ ایک ماہ قبل چاند کی رویت کے وقت ایک خوشگوار صورتحال سامنے آئی تھی جب خیبر پختونخوا سمیت پورے ملک میں ایک ہی روز رمضان المبارک کا آغاز ہوا، البتہ قبائلی علاقوں کے بعض حصوں سے ایسی اطلاعات ملی تھیں کہ وہاں اس سے ایک روز قبل روزہ رکھا گیا۔ اس سال امید تھی کہ پورے پاکستان میں عید بھی ایک ہی روز ہو گی لیکن افسوس ایسا نہ ہو سکا۔
جمعے کی شام کو جب ابھی چاند کی پیدائش بھی نہیں ہوئی تھی حتیٰ کہ پاکستان سے مغرب کی جانب واقع یورپ اور سعودی عرب میں بھی چاند نظر نہیں آیا تھا ، شمالی وزیرستان کے بعض لوگوں کو وہ نظر آ گیا چنانچہ وہاں ہفتے کو عید منائی گئی حالانکہ پورے ملک میں اس روز انتیسواں روزہ تھا۔ مرکزی رویت ہلال کمیٹی نے ہفتے کی شام کو اعلان کیا کہ شوال المکرم کا چاند نظر آنے کی کوئی قابل قبول شرعی شہادت موصول نہیں ہوئی لہٰذا عید آج (پیر) کو منائی جائے گی۔
ادھر اسی روز پشاور میں صورتحال بالکل مختلف تھی۔ پشاور کی سرکاری زونل رویت ہلال کمیٹی اور جامع مسجد قاسم کے مطابق چاند نظر آنے کی کئی شہادتیں موصول ہوئیں ۔خیبر پختونخوا حکومت نے بھی اتوار کو عید منانے کا اعلان کر دیا۔یوں وہاں عید گزشتہ روز یعنی اتوار کو منائی گئی تاہم ہزارہ ڈویژن اور بعض دیگر مقامات پر آج ہی عید منائی جائے گی۔ یہ صورتحال ملک بھر کے عوام کے لیے انتہائی دکھ اور کرب کا باعث ہے' انھیں سمجھ نہیں آ رہی کہ کون درست ہے اور کون غلط۔
محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ ہفتے کی شام تک چاند کی عمر اتنی نہیں تھی کہ یہ پاکستان کے کسی علاقے میں انسانی آنکھ سے دکھائی دیتا۔ ادھر پشاور میں پڑھے لکھے ذمے دار اور دیندار حضرات کہہ رہے ہیں کہ ان کے پاس چاند دیکھنے کی شہادتیں موجود ہیں تو انھیں کیسے غلط قرار دیا جائے، یہ صورتحال عام مسلمان کے لیے پریشان کن ہے کہ وہ کس کی بات مانے اور کس کی نہ مانے۔ گزشتہ برسوں میں ملک میں دو عیدیں منائی جاتی رہیں لیکن اس بار تین عیدیں منائی جا رہی ہیں یعنی یہ انتشار بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ اصول کے مطابق ہونا تو یہ چاہیے کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا فیصلہ حتمی تسلیم کیا جائے۔
جب سرکاری اعلان ہو جائے تو شک کی گنجائش نہیں رہتی۔ روزہ اور عید کوئی میلہ ٹھیلہ نہیں' یہ مسلمانوں کے عقائد کا معاملہ ہے لیکن ہمارے ملک میں موجود بعض عناصر نے روزہ اور عید کو بھی مذاق بنا کر رکھ دیا ہے جس کا مطلب مقصد انتشار پھیلانے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس صورتحال سے پوری دنیا میں پاکستان طنز اور استہزا کا نشانہ بن رہا ہے۔ حکومت کو عوام کو تقسیم کرنے اور قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے کے ایسے اقدامات کے سدباب کے لیے ٹھوس فیصلے کرنے چاہئیں جن کی وجہ سے تفرقہ بازی بڑھ رہی ہے اور مذہبی معاملات میں خرابی در آ رہی ہے۔
غیرمنطقی بات بہرحال مسترد کی جانی چاہیے چاہے اس کے لیے ڈائیلاگ کا راستہ اختیار کرنا پڑے یا طاقت دکھانا پڑے کیونکہ یہ سلسلہ اگر مزید چلتا رہا تو قوم کو مزید تقسیم کرنے کا باعث بنے گا جو ظاہر ملکی سالمیت اور استحکام بلکہ بقا کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو گا۔
جمعے کی شام کو جب ابھی چاند کی پیدائش بھی نہیں ہوئی تھی حتیٰ کہ پاکستان سے مغرب کی جانب واقع یورپ اور سعودی عرب میں بھی چاند نظر نہیں آیا تھا ، شمالی وزیرستان کے بعض لوگوں کو وہ نظر آ گیا چنانچہ وہاں ہفتے کو عید منائی گئی حالانکہ پورے ملک میں اس روز انتیسواں روزہ تھا۔ مرکزی رویت ہلال کمیٹی نے ہفتے کی شام کو اعلان کیا کہ شوال المکرم کا چاند نظر آنے کی کوئی قابل قبول شرعی شہادت موصول نہیں ہوئی لہٰذا عید آج (پیر) کو منائی جائے گی۔
ادھر اسی روز پشاور میں صورتحال بالکل مختلف تھی۔ پشاور کی سرکاری زونل رویت ہلال کمیٹی اور جامع مسجد قاسم کے مطابق چاند نظر آنے کی کئی شہادتیں موصول ہوئیں ۔خیبر پختونخوا حکومت نے بھی اتوار کو عید منانے کا اعلان کر دیا۔یوں وہاں عید گزشتہ روز یعنی اتوار کو منائی گئی تاہم ہزارہ ڈویژن اور بعض دیگر مقامات پر آج ہی عید منائی جائے گی۔ یہ صورتحال ملک بھر کے عوام کے لیے انتہائی دکھ اور کرب کا باعث ہے' انھیں سمجھ نہیں آ رہی کہ کون درست ہے اور کون غلط۔
محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ ہفتے کی شام تک چاند کی عمر اتنی نہیں تھی کہ یہ پاکستان کے کسی علاقے میں انسانی آنکھ سے دکھائی دیتا۔ ادھر پشاور میں پڑھے لکھے ذمے دار اور دیندار حضرات کہہ رہے ہیں کہ ان کے پاس چاند دیکھنے کی شہادتیں موجود ہیں تو انھیں کیسے غلط قرار دیا جائے، یہ صورتحال عام مسلمان کے لیے پریشان کن ہے کہ وہ کس کی بات مانے اور کس کی نہ مانے۔ گزشتہ برسوں میں ملک میں دو عیدیں منائی جاتی رہیں لیکن اس بار تین عیدیں منائی جا رہی ہیں یعنی یہ انتشار بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ اصول کے مطابق ہونا تو یہ چاہیے کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا فیصلہ حتمی تسلیم کیا جائے۔
جب سرکاری اعلان ہو جائے تو شک کی گنجائش نہیں رہتی۔ روزہ اور عید کوئی میلہ ٹھیلہ نہیں' یہ مسلمانوں کے عقائد کا معاملہ ہے لیکن ہمارے ملک میں موجود بعض عناصر نے روزہ اور عید کو بھی مذاق بنا کر رکھ دیا ہے جس کا مطلب مقصد انتشار پھیلانے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس صورتحال سے پوری دنیا میں پاکستان طنز اور استہزا کا نشانہ بن رہا ہے۔ حکومت کو عوام کو تقسیم کرنے اور قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے کے ایسے اقدامات کے سدباب کے لیے ٹھوس فیصلے کرنے چاہئیں جن کی وجہ سے تفرقہ بازی بڑھ رہی ہے اور مذہبی معاملات میں خرابی در آ رہی ہے۔
غیرمنطقی بات بہرحال مسترد کی جانی چاہیے چاہے اس کے لیے ڈائیلاگ کا راستہ اختیار کرنا پڑے یا طاقت دکھانا پڑے کیونکہ یہ سلسلہ اگر مزید چلتا رہا تو قوم کو مزید تقسیم کرنے کا باعث بنے گا جو ظاہر ملکی سالمیت اور استحکام بلکہ بقا کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو گا۔