مہران سے کامرہ تک
دہشت گردوں کوآزادی ہے کہ جہاں چاہیں جب چاہیں، قتل و غارت اور اہم...
BEIJING:
پاکستان میں دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ،کروڑوں روپوں کی بینک ڈکیتیاں وغیرہ ہماری روزمرّہ زندگی کا ایسا حصّہ بن گئے ہیں کہ ان پر اب عوام نے حیران اور پریشان ہونا ہی چھوڑ دیا ہے۔ لیکن 17 اگست 28 رمضان المبارک کی دہشت گردی کے دو واقعات اپنے اندر اتنے گہرے اور خطرناک مضمرات رکھتے ہیں کہ اگر ان کا حکومت، اسٹیبلشمنٹ، اہلِ دانش، اہلِ قلم، میڈیا زندگی کے دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے نمایندوں اور ملک کے 18 کروڑ عوام نے سنجیدگی سے نوٹس نہ لیا تو میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ یہ ملک ایسے وحشی بھیڑیوں کے ہاتھوں میں چلا جائے گا، جن کا تعلق تہذیب و تمدن سے ہے نہ ہوگا۔ یہ انسانی تاریخ کے وہ انسان نما حیوان ہیں جو بے گناہ انسانوں کو لائنوں میں کھڑے کرکے گولیوں سے بھون دیتے ہیں اور فخر سے اعلان کرتے ہیں کہ یہ کارنامہ ہم نے انجام دیا ہے۔ یہ ننگِ انسانیت معصوم بچّوں، عورتوں اور روزہ داروں کو اپنی بارودی گاڑیوں، خودکش حملوں، دستی بموں سے مار کر جشن مناتے ہیں اور اﷲ اکبر کے نعرے بلند کرتے ہیں۔
میں نے حسب معمول جب 17 اگست کی صبح 5 بج کر اٹھ کر ٹی وی آن کیا تو اسکرین پر ایک ہنگامہ بپا دیکھا۔ بتایا جارہا تھا کہ 9-8 دہشت گردوں نے پاکستان کے سب سے بڑے انتہائی حسّاس ایئربیس کامرہ پر حملہ کردیا ہے۔ کامرہ ایئربیس سے فائرنگ کی آوازیں آرہی تھیں اور بتایا جارہا تھا کہ ایئربیس کا سیکیورٹی اسٹاف دہشت گردوں کو آگے بڑھنے سے روک رہا ہے۔ میں کامرہ ایئربیس پر ہونے والی اس جنگ کے واقعات کا ذکر نہیں کروں گا اور ان سرکاری اطلاعات پر قناعت کرلوں گا کہ اس حملے سے صرف ایک ہوائی جہاز متاثر ہوا ہے اور آٹھ دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا ہے۔ ایک سیکیورٹی اہلکار شہید ہوا ہے اور ایک سیکیورٹی افسر زخمی ہوا ہے۔ ایئربیس پر کھڑے تمام جہازوں کو محفوظ شیڈز میں پہنچا دیا گیا ہے۔ اور اس واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بنادی گئی ہے، وغیرہ وغیرہ۔
ہمارے وزیر داخلہ نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ 27 رمضان کو دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ ہوسکتا ہے اور ساری اہم تنصیبات پر ہائی الرٹ کا حکم دے دیا گیا تھا۔ اسی دن ایک ٹی وی پروگرام میں ایک صحافی یہ حیرت انگیز انکشاف کررہے تھے کہ انھوں نے چند دن پہلے اپنی تحقیق پر مبنی ایک اسٹوری پرنٹ میڈیا میں لگائی تھی جس کے مطابق کچھ دن پہلے شمالی وزیرستان میں اسامہ بن لادن کی باقیات کی ایک اہم میٹنگ ہوئی تھی، جس میں 27 رمضان کے حملوں کی منصوبہ بندی کی گئی تھی اور اس حوالے سے کامرہ ایئربیس کو ٹارگٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے واضح انتباہوں کے باوجود کامرہ جیسے حسّاس ترین ایئر بیس کی جہاں جہازوں کا ہجوم ہی کھڑا نہیں ہوتا بلکہ اہم جنگی جہاز تیار بھی ہوتے ہیں، حفاظت کا فول پروف انتظام کیوں نہیں کیا گیا؟ یہ عذر ہرگز قابلِ تسلیم نہیں کہ یہ ایئربیس اتنے بڑے علاقے میں پھیلا ہوا ہے کہ اس کی سو فیصد حفاظت ممکن نہیں؟ اگر ایسا ہے تو پھر کسی بھی فوجی تنصیبات کی حفاظت ممکن نہیں، دوسرے الفاظ میں دہشت گردوں کو کھلی آزادی حاصل ہے کہ وہ جہاں چاہیں جب چاہیں، قتل و غارت اور اہم ترین فوجی تنصیبات کو آزادی سے نشانہ بناسکتے ہیں۔
اسی روز خیبر پختون خوا اور گلگت کے ایک ملحقہ علاقے بابو سرٹاپ میں مسافروں سے بھری پانچ بسوں کو روک کر 25 منتخب مسافروں کو جو روزے سے تھے، ایک لائن میں کھڑا کرکے گولیوں سے بھون دیا گیا۔ اے این پی کے شاہی سیّد کا کہنا ہے کہ کراچی میں دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے اے این پی کے رہنماؤں اور کامرہ پر حملہ کرنے والے ایک ہی تنظیم کے دہشت گرد ہیں۔ اور بابوٹاپ میں 25 افراد کو قتل کرنے والوں کا تعلق بھی اسی دہشت گرد تنظیم سے ہے۔
ہماری عقل حیران ہے کہ ہماری خفیہ ایجنسیاں کہاں ہیں اور کیا کررہی ہیں۔ کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ ہو، خیبر پختون خوا میں ہونے والی ہر روز کی دہشت گردی ہو، بلوچستان میں ہونے والا خون خرابہ ہو، ان سب کو الگ الگ سمجھنے والے حقیقت کو پوری طرح نہیں سمجھ رہے۔ یہ ساری کارروائیاں جو انتہائی منظم اور منصوبہ بند طریقوں سے کی جارہی ہیں، ایک بہت بڑے مکروہ خطرناک اور انسانیت دشمن ایجنڈے کا حصّہ ہیں، جس کی بنیاد 1949 کی وہ قرارداد مقاصد ہے جو 57 مسلم ملکوں میں کہیں بھی نظر نہیں آتی۔ ہمارے ملک میں جناح صاحب کی 11 اگست کی تقریر پر بحث جاری ہے، اس کی تشریح یا اس کے حوالوں سے اس ملک کا مستقبل طے کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
آج کا انسان اتنا باشعور اور آج کی دنیا کے تقاضوں سے مکمل طور پر آگاہ ہے، وہ اپنا مستقبل طے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اور آج کی دنیا کی ضرورت ایسے معاشروں کی تشکیل کرنا ہے جو مذہبی منافرت کے بجائے مذہبی ہم آہنگی اور بھائی چارے پر استوار ہوں، ایسے معاشروں کی حمایت کو لبرلزم یا سیکولر ازم کہاجاتا ہے تو یقیناً اس ملک کے اٹھارہ کروڑ اور دنیا کے سات ارب انسان لبرل بھی ہیں سیکولر بھی۔ اگر ٹارگٹ کلنگ بارودی گاڑیوں، ٹائم بموں، خودکش حملوں کا نام مذہب ہے تو ایسے مذہب کی کوئی پاگل ہی حمایت کرسکتا ہے۔ اس ملک کا بچّہ بچّہ اپنے مذہب سے محبت بھی کرتا ہے اور اس کا احترام بھی کرتا ہے۔ لیکن وہ بارودی گاڑیوں، خودکش جیکٹوں والے مذہب کو کسی قیمت پر ماننے کے لیے تیار نہیں۔
کراچی کے عوام یہ دیکھ رہے ہیں، محسوس کررہے ہیں کہ انتہائی منظم اور منصوبہ بندی کے ساتھ کراچی کے ہر علاقے ہر محلے میں دہشت گرد اپنے پیر جمارہے ہیں، ان کے پاس جدید اسلحہ ہے، جدید مواصلاتی نظام انتہائی کٹّر نظریاتی کارکنوں کی فوج اور بے پناہ وسائل ہیں، جو لوگ مہران بیس اور کامرہ بیس پر کامیاب حملے کرسکتے ہیں، جن کے کارکن ملک کے چپّے چپّے پر پھیلے ہوئے ہوں، کیا ان سے نمٹنے کا یہ طریقہ ہے کہ ہمارے سیاسی اور مذہبی رہنما اس شمالی وزیرستان میں آپریشن کے خلاف آسمان سر پر اٹھالیں، جہاں کامرہ پر حملے کے منصوبے بنتے ہیں جو دہشت گردوں کی سب سے بڑی پناہ گاہ ہو، ہمارے اعلیٰ پائے کے دانشور اور قلم کار جنھیں نشاۃ ثانیہ کے نقیب قرار دے رہے ہوں۔ جس ملک کی اعلیٰ قیادت، ان کی بالواسطہ حوصلہ افزائی کررہی ہو۔ اگر اس سیلاب بلا کے آگے ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام، میڈیا، سیاست دان، دانشور، اعتدال پسند مذہبی رہنما دیوار نہ بن جائیں تو یہ یاجوج ماجوج تہذیب و تمدن کی دیوار توڑ کر باہر آجائیں گے پھر...؟