…اگر پاکستان سیکولر بن جائے
جنرل صاحب دنیا آہستہ آہستہ اس سیکولر ازم کی طرف بڑھ رہی ہے جو ایک انسان کو دوسرے کا بھائی بنا دے گا۔
بھارتی فوج کے سربراہ بپن راوت نے کہا ہے کہ اگر پاکستان کو ہمارے ساتھ رہنا ہے تو اسے سیکولر ہونا پڑے گا، اگر پاکستان ہماری طرح سیکولر ہوگا تو ہمارے ساتھ رہ سکے گا ۔ بھارتی فوج کے سربراہ کا ارشاد بجا ہے، ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے کسی سپاہی سے یہ بات سن لی اور اسے موقع بے موقع دہرا دیا۔ بپن راوت آئے دن کوئی نہ کوئی اس قسم کے سنے سنائے شوشے چھوڑتے رہتے ہیں ۔
موصوف نے کہا ہے کہ پاکستان کو ہماری طرح سیکولر ہونا پڑے گا، پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور ایک اسلامی ریاست اور ایک سیکولر ریاست ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ بھارتی چیف آف اسٹاف کا یہ فرمانا درست ہے لیکن اس حوالے سے کہا جاسکتا ہے کہ سعودی عرب سمیت کئی اسلامی ملکوں کے بھارت سے نہ صرف سفارتی تعلقات ہیںبلکہ پاکستان سے زیادہ گہرے سفارتی تعلقات ہیں اور بھارت سرکار کا گزارا ان اسلامی ملکوں سے اچھی طرح ہو رہا ہے۔
بھارت کی سب سے بڑی کمزوری بلکہ دکھتی رگ یہ ہے کہ بھارت کشمیر کے مسئلے سے بہت گھبراتا ہے اور اس مسئلے سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لیے اوٹ پٹانگ باتیں کرتا رہتا ہے۔ سب سے پہلے راوت صاحب کی اس غلط فہمی کو دور کرنا ضروری ہے کہ بھارت ایک سیکولر ملک ہے۔ بھارت کس قدر ہندو ریاست بن گیا ہے اس کا اندازہ اقلیتوں کے ساتھ اس کے سلوک اور بی جے پی (حکمران جماعت) کی سرگرمیوں سے ہوجاتا ہے۔
بی جے پی جو برسر اقتدار حکومت ہے ملک میں ہندو توا کے نفاذ کی باتیں ہی نہیں کرتی بلکہ اس کے لیے خصوصی اقدامات بھی کرتی ہے ۔ بابری مسجد کے انہدام میں حکمران جماعت بی جے پی نے کتنا خراب رول ادا کیا اسے ساری دنیا جانتی ہے۔ پاکستانی اداکاروں گلوکاروں وغیرہ سے بھارتی انتہا پسند ہندو جو متعصبانہ اور توہین آمیز سلوک کرتے رہے ہیں، اس سے بھی بھارت کے سیکولرازم کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
بھارت بین الاقوامی سفارتی آداب و اخلاقیات کی دھجیاں اڑا کر اپنے سیکولر ازم کا بول بالا کرتا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں پاکستان میں سکھوں کے روحانی مرکز کو جانے کے لیے ایک شارٹ کٹ راہداری کا افتتاح کیا گیا، جس میں سیکڑوں بھارتی سکھوں نے شرکت کی اور جشن منایا۔ پاکستان کی طرف سے اس موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس تقریب کے دوران دونوں ملکوں میں مذاکرات کی پیشکش کی گئی لیکن یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ بھارتی وزارت خارجہ نے پاکستان کی طرف سے کی گئی مذاکرات کی پیشکش کو ٹھکرادیا۔
بھارت 71 سال سے مسئلہ کشمیر کو ایجنڈے پر لینے سے گریزاں ہے مسئلہ کشمیر کا تعلق زمین سے نہیں ہے بلکہ مسئلہ کشمیر کا تعلق کشمیر کے ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ عوام سے ہے کشمیر کے عوام بھارت کے ساتھ رہنا نہیں چاہتے اور بھارت اپنی آٹھ کروڑ فوج کی طاقت سے کشمیری عوام کو دبا کر رکھ رہا ہے اس کوشش کی وجہ اب تک 70 ہزار سے زیادہ کشمیری بھارتی فوجوں کے ہاتھوں جان بحق ہوچکے ہیں۔
دنیا میں بھارت ہی نہیں بلکہ سیکڑوں ملک سیکولر ہیں لیکن اس حوالے سے اصل بات یہ ہے کہ کون سا ملک واقعی عملاً سیکولر ہے اور کون سیکولر کے پردے میں کٹر مذہبی ہے۔ مثلاً پاکستان عوامی حوالے سے ہی نہیں بلکہ سرکاری حوالے سے بھی ایک مذہبی (اسلامی) ملک ہے اور انھی حوالوں سے پاکستان ساری دنیا میں مسلم ملک ہی کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔ بھارت سرکاری حوالے سے یعنی دستورکے حوالے سے سیکولر ملک ہے لیکن حکمرانوں کے محلوں سمیت تقریباً ہر ہندوستانی کے گھر میں مٹی اور پتھر کے بھگوان ہیں۔ ہمارا خیال نہیں بلکہ یقین ہے کہ بھارت کے چیف آف اسٹاف جنرل بپن کے محل میں بھی مٹی اور پتھر کے بھگوان ہوں گے۔ اگر سیکولر ازم سے آپ مراد غیر مذہبی ہی لیتے ہیں تو پھر بھارت بغیر اعلان کے مذہبی ملک ہے۔
ایک حوالہ اور دیتے ہیں پاکستان جیسے ڈکلیئرڈ مذہبی ملک کا یہ ریکارڈ ہے کہ اس کی پوری 71 سالہ تاریخ میں پاکستانی عوام ایک بار بھی ووٹ دے کر کسی مذہبی جماعت کو اقتدار میں نہیں لائے، جب کہ بھارت میں مذہبی جماعتیں عوامی ووٹ یعنی انتخابات کے ذریعے اقتدار میں آئیں ،خود بھارتی چیف جس حکومت کا حصہ ہیں وہ ایک کٹر مذہبی جماعت مانی جاتی ہے۔ دنیا میں امن اور خوش حالی محبت اور بھائی چارے کے لیے دنیا میں سیکولر ازم کی ہی ضرورت ہے لیکن وہ ڈنڈے سے نافذ نہیں کیا جاسکتا اس کے لیے تعلیم کو لازمی کرنے کے ساتھ ساتھ جدید علوم سائنس اور ٹیکنالوجی کو زندگی کا حصہ بنانا پڑے گا۔
آپ ایک فوجی ہیں سیاستدان نہیں ہیں آپ کا کام ٹینک ہوائی جہاز جنگ کے بارے میں معلومات حاصل کرنا ہے آپ ایک باشعور شہری کی حیثیت سے سیکولر ازم کی حمایت بھی کرسکتے ہیں لیکن پاکستان سے تعلقات کے لیے اگر آپ سیکولر ازم کی شرط لگاتے ہیں تو پاکستان کا کوئی جنرل بھارت سے دوستی کے لیے بت پرستی سے دست برداری کی شرط لگا سکتا ہے۔ کیا یہ شرط آپ کو منظور ہوگی؟ جنرل صاحب آپ ایک فوجی کے ساتھ ساتھ ایک انسان ہیں، سیکولر ازم کی تائید سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ میں انسان کی خصوصیات بھی ہیں۔ کیا ایک اچھا انسان بے گناہ عوام کا خون بہانا پسند کرتا ہے؟ یقینا نہیں کرتا تو کیا 70 ہزار کشمیریوں کے قتل پر آپ نے احتجاج کیا؟ کیا 70 لاکھ کشمیریوں کے قتل پر آپ کو دکھ ہوا؟
جنرل صاحب دنیا آہستہ آہستہ اس سیکولر ازم کی طرف بڑھ رہی ہے جو ایک انسان کو دوسرے کا بھائی بنا دے گا لیکن یہ ڈنڈے کے زور پر نہیں ہوگا، پورے شعور کے ساتھ ہوگا اور خود اختیاری ہوگا۔ فی الوقت آپ یہ کیجیے کہ کشمیر میں بے گناہوں کا خون بند کیجیے تاکہ جوابی طور پر بھی بے گناہوں کا خون بند ہو ۔ دہشت گردی ایک نفسیاتی بیماری ہے، اس بیماری کا علاج بڑا طویل اور پرپیچ ہے، اس کا علاج خودبخود ہوجائے گا جب آپ انسان کو ہندو مسلمان سکھ عیسائی وغیرہ میں تقسیم کرکے اس سے نفرت کرنا چھوڑ دیں گے۔